فکشن کے فنکارریم چند شکیل الرحمٰن کی کتاب ہے جو پریم چند کے فن پر حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے۔یہ پریم چند پر شائع ہونے والی دوسری کتابوں کی بھیڑ میں گم ہو کر رہ گئی تھی۔اتنی عمدہ اور منفرد کتاب کو پتہ نہیں کیوں ایسے روے سے گذرنا پڑا۔خیروجہ کوئی بھی رہی ہو پروفیسر شکیل الرحمٰن ایک ایسے ادیب ہیںکہ انہوں نے جس کسی بھی موضوع پر لکھابھرپور لکھا۔اس کتاب میں پریم چند کی فکشن نگاری کی حیثیت سے صحیح قدروقیمت کا تعین کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے ’’پریم چند کی نئی تفہیم اور شکیل الرخمٰن کا تنقیدی رویہ‘‘مضمون لکھتے وقت محسوس کیا کہ شکیل الرحمٰن کی اس کتاب کو دوبارہ منظرعام پرلایا جائے تاکہ نئی نسل نام نہاد ناقدوں کی طلسم سے اازاد ہو سکے۔شیخ عقیل احمد نے اس کتاب کو مرتب کرکے پھرسے شائع کیاہے۔اس کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے۔پہلے حصّے میں شکیل الرحمٰن کی’’ فکشن کے فنکار پریم چند‘‘ کتاب ہے اور دوسرے حصے میں کتاب کے حوالے سے لکھے گئے مختلف نامور شخصیات کے لکھے ہوئے تنقیدی مضامین شامل کئے گئے ہیں۔
ڈاکٹر شیخ عقیل احمد خود کہتے ہیں کہ’’پریم چند پر لکھنا آسان ہے مگر ان کے مجموعی تخلیقی نظام کی تفہیم پر لکھنا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں۔تفہیم کا یہ کام صرف اور صرف شکیل الرحمٰن کا ہی مقدور ہے۔‘‘اور یہ بالکل بجا ہے کہ واقعی میں پریم چند کے مجموعی تخلیقی نظام کی تفہیم ہر ایک کے بس کی بات نہیںہے۔یہ صرف اور صرف شکیل الرحمٰن ہی کر سکتے ہیں۔
اس کتاب میں شکیل الرحمٰن نے پریم چند کو بالکل الگ نظر سے دیکھا ہے۔انہوں نے پریم چند کے فن پر جس انداز سے روشنی ڈالی ہے وہ قابلِ ستائش ہے اور یہ کتاب قاری کو بہت اہم معلومات فراہم کرتی ہے۔اس میں ان کی تنقید ایک تخلیقی جائزہ بن کر ابھرتی ہے۔ناول یا افسانہ کے اہم کرداروں کی نفسیات پلاٹ کو جس حد تک اثرانداز کرتی ہے اور جس جمالیاتی احساس سے روشناس کرتی ہے وہ شکیل الرحمٰن کی تیز نظر اور مضبوط گرفت ان کی تنقید کا طرۂ امتیاز ہے۔وہ فکراور توازن کے ساتھ تمام مسائل کا جائزہ لیتے ہیں۔اس کے بعد اپنے بیانات پر دیانت داری اپناتے ہیں یعنی دلائل کے ساتھ ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں۔
شکیل الرحمٰن نے پریم چند کے مختلف افسانوں میں’’ تیسرے آدمی ‘‘کو دریافت کیا ہے اور اس کی نشاندہی کی ہے۔مثلاّ وہ لکھتے ہیںکہ گھاس والی میں چین سنگھ تیسرا آدمی ہے۔اس کردار کا جائزہ بہت مہارت کے ساتھ پیش کرتے ہوئے تیسرے شخص کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے۔اس کے علاوہ پریم چند کے افسانوں میں نسوانی کردار کی اہمیت ،اس کی نفسیات، عادات واطوار پر بھی بہت تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔یہ بھی دکھایا ہے کہ عورتوں کے مکتلف روپ کس طرح نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں۔اس مضمون میں انہوں نے عورتوں کے مختلف روپ کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔
شکیل الرحمٰن کی نظر صرف پریم چند کے کرداروں پر ہی نہیں ہے بلکہ ان کی افسانوں کی تکنیک پر بھی ہے۔اس کتاب میں انہوں نے پریم چند کے افسانوں کی تکنیک پر بھی سیرحاصل بحث کی ہے۔یہاں دماغ میں موجود تمام سوالات کے جواب مل جاتے ہیں۔تکنیک کے علاوہ اسلوب کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔ شکیل الرحمٰن نے پریم چند کے افسانوں کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا ہے اور اپنے عمیق مطالعے کی روشنی میں کرداروں،تکنیک اور اسلوب کا جائزہ لیا۔کتاب میں موجود حوالے اور جملے ان کے مطالعے اور انتخاب کے مظہر ہیں۔
کتاب کے آخر میں شکیل الرحمٰن نے شخصیت مضمون کے تحت پریم چند کی شخصیت پر روشنی دالی ہے۔اس مضمون میں انہوں نے پریم چند کے نام ان کی جائے پیدائش تاریخِ پیدائش اور وفات کا بہت تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے اور پریم چند کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ شکیل الرحمٰن جمالیاتی تنقید سے تعلق رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اردو تنقید کا جمالیاتی نظام وضع کیا ہے جو ان کا بالکل منفرد کارنامہ ہے۔پریم چند کے فن اور ان کی شخصیت کا مطالعہ بھی کافی حد تک اپنے اسی نقطۂ نظر سے کیا ہے۔
پریم چند کا اردو فکشن میں کیا مقام ہے ، ان کی افسانہ نگاری اور ناول نگاری، ان کے فن کی خصوصیات کیا ہیں؟پریم چند کی شخصیت کی تعمیر کرنے میں کون سے عناصر کارفرماں تھے ایسے اور بہت سے سارے سوالات کا تشفی بخش جواب اس گراں قدر کتاب میں دیکھنے کو ملتا ہے۔پریم چند کو پڑھنے والے طالب علم کے لیے یہ کتاب بہت فائدے مند ثابت ہوگی۔محاکمہ والے حصے میں شیخ عقیل احمد نے جن حضرات کے تنقیدی مضامین شامل کیا ہے ان میں پروفیسر سیدہ جعفر، ڈاکٹرشاہین مفتی، شہنازپروین،خود شیخ عقیل احمد،داکٹر شباب للت،سائرہ غلام نبی، راشد جمال فاروقی، شرون کمار،شفیق احمد شفیق اور حقانی القاسمی وغیرہ خاص ہیں۔
میرے خیال میںداکٹر شیخ عقیل احمد کا اردو ادب پر احسان ہے کہ انہوں نے اتنی عمدہ کتاب جو نظروں سے اوجھل ہوگئی تھیاس کو دوبارہ مرتب کرکے منظرعام پر لائے۔یہ ان کا کافی بڑا کام ہے۔
ڈاکٹرفرح جاوید