’’مغیث الدین فریدی اور قطعاتِ تاریخ‘‘ ڈاکٹرشیخ عقیل احمد کی تیسری کتاب ہے، جو فن تاریخ نگاری پر ایک محققانہ اور تنقیدی محاکمہ ہے۔ یہ مطالعہ انھوں نے مغیث الدین فریدی کی تخلیقات کے حوالہ سے کیاہے۔ اس سلسلہ میں انھوں نے اپنے دلچسپ اور معلومات افزا انٹرویو اور یادوں پر مبنی مضمون کے ذریعہ مغیث الدین فریدی مرحوم کی ادبی اور شاعرانہ شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ درجہ کی انسان دوست شخصیت کے نقوش اور خدوخال کو جس زچے ہوئے تخلیقی انداز میں اُبھارا ہے وہ کچھ اُنہی کا حصہ ہے۔ اُنھوں نے واقعی حق شاگردی ادا کردیاہے۔ یہاں مجھے بھی اپنی طالب علمی کا ایک واقعہ یاد آرہاہے جس کا تعلق مغیث الدین فریدی مرحوم کی ذاتِ گرامی سے ہے۔ ۱۹۴۹ء میں علی گڑھ کا طالب علم تھا۔ ماریسن کورٹ کے دس نمبر والے کمرہ میں رہتا تھا۔ پروفیسرشبیہہ الحسن مرحوم بھی اُن دنوں ایم۔اے کے طالب علم تھے اور میرے ہی کمرہ میں رہتے تھے۔ تیسرے ساتھی تھے شیخ علی اوسط۔ ایک شام جب شبیہہ الحسن اور میں ادھر اُدھر ٹہلنے کے بعد لوٹے تو کمرہ بندپایا۔ چابی اوسط کے پاس تھی۔ اُن کے انتظار میں ہم دونوں کمرہ کے سامنے ٹہلتے رہے۔ چند ہی منٹ گزرے تھے کہ شیروانی میں ملبوس ایک مہذب اور شائستہ جواں سال شخصیت نظر آئی۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ میری تلاش میں آئے ہیں۔ یہ تھے مغیث الدین فریدی جو سینٹ جانس کالج آگرہ میں لکچرار تھے اور مجھے بزم ادب کے سالانہ مشاعرہ میں شرکت کرنے کے لیے مدعو کرنے آئے تھے۔ برابر والے کمرہ میں بیٹھ کر اُن سے گفتگو ہوئی۔ پرانی یادیں جگاتے رہے۔ میرے ساتھ شہاب جعفری اور انجم اعظمی بھی مشاعرہ میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ شبیہہ الحسن مرحوم بھی گئے۔ مغیث صاحب نے خاطرمدارات کی انتہا کردی۔اب ویسی محبت اور دل نوازی کہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اپنے گھر پر انھوں نے جو نشست رکھی تھی اُس میں پروفیسر حامدحسن قادری، میکش اکبرآبادی اور اخضر اکبرآبادی بھی تشریف لائے تھے۔
تین دہائی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو میں اُن سے اچانک ملاقات ہوئی۔ انھوں نے دیکھتے ہی گلے لگالیا۔ اتنے دنوں بعد بھی انھوں نے مجھے فوراً پہچان لیا۔ میں تو واقعی حیران رہ گیا۔ ڈاکٹر عقیل کے مضمون سے جسے میں شخصیت نگاری کی عمدہ مثال مانتاہوں، مغیث الدین فریدی مرحوم کی شخصیت کے ایسے پہلو اور گوشے سامنے آئے جو اُن کی بے لوث محبت، قوتِ برداشت، ایثار اور خودداری کے شاہد ہیں۔ فاضل مصنف میں تحقیق اور تنقید کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ شخصیت نگاری کے جوہر بھی ہیں۔ اگر وہ اس طرح کے اور خاکے لکھیں تو یقین ہے کہ وہ ادبی حلقوں میں دلچسپی کے ساتھ پڑھے جائیں گے۔
اب ذرا فریدی صاحب کے فن تاریخ گوئی پر کچھ گفتگو ہوجائے۔ ڈاکٹرعقیل نے فنِ تاریخ گوئی کے آغاز اور ارتقا کے بارے میں بڑے محققانہ انداز میں مفصل اور مدلل بحث کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’مشرق میں آریائی اور سامی قوموں نے اعداد اور حروف کو خدا تعالیٰ کا عطیہ قراردیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ عربی زبان کے علاوہ سنسکرت زبان میں بھی حروف کی قیمت قدیم زمانے سے معین ومقرر ہے۔حروف کی معینہ ومقررہ قیمت کو عربی میں ابجد کہتے ہیں جو اٹھائیس حروف پر مشتمل ہے اور ہر حرف کی مسلمہ قیمت ہے۔اسلامی عقیدہ کے مطابق تمام علوم وفنون کا سرچشمہ ذات ربّانی ہے۔ حروف، علم الاعداد اور ہندسے وغیرہ اُسی سرچشمہ سے وجود میں آئے ہیں۔ایک روایت کے مطابق حروف کی قیمت سب سے پہلے حضرتِ آدم پر منکشف ہوئی جو ابجدآدم کہلائی بعد میں یہی ابجد ایک نئی صورت میں حضرتِ نوح پر منکشف ہوئی جو ابجد نوحی کے نام سے مشہور ہوئی۔‘‘ فاضل مصنف نے اپنی تحقیقی کاوش اور جستجوکے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ تاریخی اور تحریری شواہد کی روشنی میں اب تک کوئی تحقیق عمل میں نہیں آئی ہے محض قیاس کی روشنی میں اندازہ کا مطابق کہاجاسکتاہے کہ حروف، اعداد اور ابجد کے موجد اہلِ عرب ہی تھے۔ ایران اور ہندوستان میں فن تاریخ گوئی کے ارتقا کا جائزہ انھوں نے دقتِ نظر اور وسعت نگاہ کے ساتھ لیاہے۔ اس سے اُن کے ذوقِ تحقیق کا پتہ چلتاہے اور تجزیاتی صلاحیت کا اندازہ بھی ہوتاہے، صوری اسلوب تاریخ گوئی، معنوی طریقِ تاریخ گوئی اور صوری ومعنوی طرزِ تاریخ گوئی کا تجزیہ اور تاریخ گوئی سے متعلق صنائع وبدائع کا بیان اُن کی غیر معمولی کاوش اور محنت کی دلیل ہے۔
اس تاریخی اور تہذیبی پس منظر میں فن تاریخ گوئی نے اردو شاعروں کے یہاں کیا کیا شکلیں اختیار کیں اور کن کن مراحل سے گزری ان حقائق کی روشنی میں انھوں نے فریدی صاحب کے قطعات تاریخ کا تنقیدی مطالعہ کرکے اُن کی فنی خوبیوں کو اُجاگر کیاہے اور ان کی انفرادیت کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ آخر میں انھوں نے اُن کے قطعاتِ تاریخ کا ایک عمدہ انتخاب بھی پیش کیاہے۔ ڈاکٹر عقیل کی محنت اور کاوش کی داد نہ دینا اُن کے ساتھ بے انصافی ہوگی کیونکہ یہ موضوع بڑا اچھوتا ہے جس کے متعلق مواد فراہم کرنا کارے دارد۔ اُن کا انداز بیان اتنا شگفتہ اور دلکش ہے کہ تاریخ گوئی جیسے خشک موضوع کو بھی وہ دلچسپ اور پرکشش بنادیتے ہیں۔ موضوع کی مناسبت سے کتابت کی طرف بے حد توجہ دی گئی ہے۔ صوری اعتبار سے بھی کتاب جاذبِ نظر ہے۔ کتاب کی قیمت ۲۰۰؍روپے ہے جو ساقی بکڈپو اُردو بازار،دہلی اور ایجوکیشنل بک ہائوس، شمشاد مارکیٹ علی گڑھ سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹرمحمدمثنی رضوی
ڈاکٹر شیخ عقیل احمد ایک اچھے محقق اور تنقید نگار کی حیثیت سے اُردو ادب کے منظرنامے میں اُبھرکر سامنے آئے ہیں۔ ’’غزل کا عبوری دور‘‘ ،’’فن تضمین نگاری—تنقید وتجزیہ‘‘ اور ’’مغیث الدین فریدی اور قطعاتِ تاریخ‘‘ ان کی تین اچھی کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ ان کتابوں کو اردو شعروادب میں سراہا گیا۔
’’اردوغزل کا عبوری دور‘‘ ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کی پہلی تصنیف ہے جو نصابی ضرورتوں نیز اردو غزل پر کام کرنے والے اسکالروں کے لیے مفید ثابت ہوئی جس کا دوسرا ایڈیشن ترمیم واضافے کے بعد منظرعام پر آنے والا ہے۔ اس کتاب میں غزل کے ان فنکاروں کا محاکمہ کیا گیاہے جنھوں نے غزل میں اس وقت نئے اسالیب اور نئے مضامین کے شرارے بھردیے جب غزل کے بجائے نظموں کو خاصے کی چیز سمجھی جانے لگی تھی۔ ان میں شادؔ سے لے کر امیرؔ، حسرتؔ، جگرؔ، فانیؔ، یگانہؔ اور اقبالؔ کا نامِ نامی اہم ہے۔ مصنف نے بڑی عرق ریزی سے ان شعراء کے ان اشعار کو اپنی بحث کے لیے منتخب کیا ہے جس سے اردو غزل کے اس نمایاں تبدیلی کو سمجھایا جاسکے جسے انھوں نے اردو غزل کے عبوری دور سے تعبیر کیاہے۔
اسی طرح ’’فن تضمین نگاری—تنقید وتجزیہ‘‘ کی اشاعت ایسے دورمیں ہوئی ہے جب متن کا فلسفہ اور مابعدجدید ادب کی بحثیں جڑپکڑ چکی ہیں۔ ہندوستانی ادبیات میں تضمین مصنّفین کے تخلیقی عمل کا ایک واضح انداز واسلوب رہاہے جس کی مثالیں قدیم شعرا تاجدید شعرا ملتی ہیں لیکن اس کا باقاعدہ مطالعہ اس کتاب سے پہلے کسی مصنف نے نہیں کیاہے۔ شیخ عقیل احمد نے شعری دنیا کے اس انوکھے بلکہ ہر دلعزیز فن کا خوب صورتی سے تجزیہ کرتے ہوئے شعر میں اس انداز کے استعمال سے کیاکیا معنوی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں کو بڑی خوب صورتی سے اُجاگر کیاہے۔
زیرِ نظر کتاب ’’مغیث الدین فریدی اور قطعاتِ تاریخ‘‘ بھی ڈاکٹر مغیث الدین فریدی مرحوم کی شخصیت اور فنِ تاریخ گوئی پر ایک اہم کام ہے۔حقیقت میں انھوں نے اس کتاب کو شائع کرکے شاگردی کا حق ادا کردیا۔ اس کتاب کو مصنف نے پانچ ابواب میں تقسیم کیاہے۔
پہلے باب’’آئینہ‘‘ میں شیخ عقیل نے فریدی صاحب کی سوانح، ان کی تصانیف نیز ان کی ادبی سرگرمیوں کو ایک کوزے میں سمیٹ دیاہے، جو مختصر ہونے کے ساتھ مکمل اور جامع ہے۔
’’روبرو‘‘ کے عنوان سے انھوں نے فریدی صاحب سے لیا گیاایک تفصیلی انٹرویو شائع کیاہے۔ یہ گفتگو اس لیے بہت اہم ہے کیونکہ اس کے ذریعے بہت سے اہم تحقیقی سوالات اور ان کے جذبات اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ اس بات چیت سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہ فریدی صاحب کتنے اعلیٰ پائے کا ذوق رکھتے تھے اور ان کے تعلقات اپنے زمانے کی کتنی مشہور ومعروف ہستیوں سے رہے تھے۔
تیسرا باب’’یادیں‘‘ کے نام سے منسوب ہے۔ اس میں شیخ عقیل احمد نے فریدی صاحب سے اپنے ذاتی تعلقات اور جذباتی لگائو کو تخلیقی نثر میں ڈھالنے کی بڑی خوب صورت سعی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت فریدی صاحب کی ہمہ جہت شخصیت کے متعلق ایسی معلومات فراہم ہوتی ہیں جو ہم کو کسی اور ذریعے سے ملنی بہت مشکل تھیں۔
’’یادیں‘‘ میں جس نثر کا استعمال کیا گیاہے اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ عقیل احمد فکشن بھی اچھا لکھ سکتے ہیں۔ اس باب میں منفرداور نئی تشبیہوں کے ذریعے مصنف نے فریدی صاحب کی زندگی کی تصویر کھینچنے کی کوشش کی ہے۔
چوتھے باب ’’رخشِ فریدی‘‘ کے عنوان کے تحت انھوں نے تاریخ گوئی کے فن ،روایت اور اہمیت پر سیر حاصل بحث کی ہے جو آج کے دور میں ادب کی ایک اہم ضرورت ہے کیونکہ اس فن سے آج کے طلبا ہی نہیں استاد بھی ناآشنا ہوتے جارہے ہیں۔ انھوں نے تاریخ گوئی کے فن کو بڑے موثر انداز سے پوری تفصیل کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ فریدی صاحب کو فنِ تاریخ گوئی پر پوری مہارت حاصل تھی۔ وہ فی البدیہہ تاریخیں کہنے کااستحقاق رکھتے تھے۔ انھوںنے غالبؔ کی ایک سوبائیسویں برسی کے موقع پر جو قطعہ تاریخ کہا ہے وہ عجیب وغریب ہے۔ اس قطعے میں پانچ اشعار ہیں۔ہرشعر کا دوسرا مصرعہ غالب کا ہے۔
یہ تیری ایک سو بائیسویں برسی کا جلسہ ہے
’’چمن میں خوش نوایانِ چمن کی آزمائش ہے‘‘
تو اپنی زندگی میں زہرِ غم پی کر یہ کہتا تھا
’’ابھی تو تلخیِ کام و دہن کی آزمائش ہے‘‘
تری تہذیب کی قدروں کا مدفن بن گئی دلّی
’’جہاں ہم ہیں وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے‘‘
وطن الجھا ہوا ہے مسجد و مندر کے جھگڑے میں
’’وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے‘‘
پئے تاریخ شاخِ مصرع غالب سے ’’گل‘‘ ٹوٹا
’’نئے فتنوں میں اب چرخ کہن کی آزمائش ہے‘‘
۵۰
۵۰-۲۰۴۱ = ۱۹۹۱
شیخ عقیل احمد نے اس تاریخی قطعہ پر بلیغ رائے دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اب چرخ کہن کی آزمائش ہے‘‘ کے اعداد۲۰۴۱ میں ’’گل‘‘ کے اعداد ۵۰ کا تخرجہ کردینے پر مطلوبہ تاریخ ۱۹۹۱ء برآمد ہوتی ہے۔ اس قطعہ کی خاص بات یہ ہے کہ ہر شعر میں غالب کے مصرعے کی تضمین اس حسن وخوبی سے ہوئی ہے کہ ہر مصرعے سے نیا مفہوم، نئی فضا اور نئی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ نیز غالب کے مصرعوں کی تضمین کے سہارے موجودہ حالات کا نقشہ اس طرح کھینچا گیاہے جیسے فریدی صاحب جنت میں غالب سے ہم کلام اور ان کا حال بیان کررہے ہیں۔ ’’گل‘‘ کا تعمیہ بھی لطف واثر سے خالی نہیں۔‘‘
یعنی شیخ عقیل احمد نے جس باریکی سے تضمین کے حسن سے بھرپور اس تاریخی قطعہ پر رائے قائم کی ہے اس سے یہ پتہ چلتاہے کہ وہ تاریخ گوئی پر تنقید کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ ’’گل‘‘ کا تعمیہ اور اس میں لطف کی بات کی گئی ہے اس جملے سے وہی قاری لطف اندوز ہوگا جو تاریخ گوئی میں استعمال ہونے والی صنعتوں کو سمجھتاہو۔ پوری کتاب میں اس نوع کے مختلف عملی تنقید کے نمونے پیش کیے گئے ہیں۔
آخری باب میں شیخ عقیل احمد نے فریدی صاحب کے تمام قطعاتِ تاریخ کو بڑی محنت وکاوش سے یکجا کرکے خوب صورت نیز پرکشش ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ یہ قطعاتِ تاریخ دلچسپ بھی ہیں اور اپنے موضوع نیز مواد کے اعتبار سے ان میں تنوع بھی ہے۔ اسی لیے یہ آج بھی قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے یہ کتاب’’مغیث الدین فریدی اور قطعاتِ تاریخ‘‘ لکھ کر فنِ تاریخ گوئی پر ایک بہت بڑا کام انجام دیاہے۔ اپنے اس کارنامے کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان کا یہ کارنامہ ہر لحاظ سے قابلِ تحسین اور قابلِ داد ہے۔ کتاب کا سرِورق پرکشش اور جاذبِ نظر ہے۔ اُمید ہے کہ اردو شعروادب میں ان کی اس تصنیف کی خاطرخواہ پذیرائی ہوگی۔
ڈاکٹروسیم بیگم
اُردو کی کلاسیکی شاعری میں تاریخ گوئی کو شعرا کے معیار ومیزان کے تعین میں استناد کا درجہ حاصل تھا، یہی سبب ہے کہ اس کی روایت متمول رہی ہے۔ قدما اور متاخرین کی شعری تخلیقات جو تاریخ گوئی پر مبنی ہیں وافر ہیں اور قیمتی ادبی سرمایہ بھی جو عہد اور نظریات کے حدود وقیود سے بالاتر ہیں۔ قدما کے یہ قیمتی اثاثے عہد جدید کی تحقیق وتدوین کے ان معنوں میں محور ومرکز ہیں کہ ان کے نوشت سے شعری متن اور زمانۂ تخلیق تک ہماری رسائی نسبتاً آسان ہوجاتی ہے۔ ہر چند کہ اس کی معنویت اور مقبولیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے لیکن تاریخ گوئی کی روایت تقریباً ختم سی ہوچکی ہے البتہ گزشتہ صدی سے چھٹی دہائی میں جن استاد شعرا نے اس فن میں کمال درجہ حاصل کیا ان میں مغیث الدین فریدی کا نام ممتاز ہے جنھوں نے وقتاً فوقتاً علمی پایہ کے تاریخی قطعات لکھے اور دوست احباب متعلقین وشاگردوں کی خوشیوں کو تاریخی بانا، ضرورت تھی کہ ان کے تاریخی قطعات کو تحقیق وتدوین کے اصولوں کے تحت ترتیب دیاجائے اور ضروری نکتوں کی وضاحت بھی کردی جائے۔
’’مغیث الدین فریدی اورقطعات تاریخ‘‘ کے مصنف ڈاکٹر عقیل احمد یقینا مبارک باد کے مستحق ہیں جنھوں نے اس کام کو بحسن وخوبی انجام دیاہے۔ پانچ ابواب پر مشتمل اس کتاب کا پہلا باب بہ عنوان’’آئینہ‘‘ مغیث الدین فریدی کی پیدائش، تعلیم وتربیت، ملازمت، مطبوعات ومقالات، سمیناراور ادبی جلسوں میں شرکت، علمی وادبی انجمنوں سے انسلاک اور اعزازوانعامات کی تفصیلات پر مختص ہے۔ جب کہ ’’روبرو‘‘ میں فریدی مرحوم کا طویل انٹرویو ہے جومصنف نے اگست۱۹۹۴ء میں لیاتھا، لیکن جزئیات کی شمولیت اور احساسات کے مطالعے کی فراوانی نے صحیح معنوں میں اسے شخصی خاکہ بنادیاہے جس کے مطالعے سے فریدی صاحب کی شخصیت مختلف فکری جہتیں اور ادبی تصورات کے ساتھ ابھرتی ہے۔ ’’یادیں‘‘ کے عنوان سے جو باب ہے وہ دراصل عقیل احمد کے تاثرات ہیں جس میں عقیدت واحترام، خلوص ومحبت اور احساسات کی گہرائی بدرجۂ اتم موجود ہے، سچی بات تو یہ ہے کہ اس میں ایک لائق شاگرد کے جذبات کا دریا امنڈرہاہے اور یہ جذبات الفاظ کا جامہ پہن کر قاری کو فریدی صاحب کے خصائص سے واقفیت بہم پہنچاتے ہیں۔ جب کہ ’’رخش فریدی‘‘ میں تاریخ گوئی کی مشرقی روایت اور اردو میں عہد بہ عہد اس کے ارتقاء کا عالمانہ جائزہ لیا گیاہے اور فکری وفنی سطح پر فریدی کے تاریخی قطعات کا معروضی تجزیہ کیا گیاہے۔ آخری بات میں تاریخی قطعات کا انتخاب زمانی اور موضوعی اعتبار سے درجہ بندی کے ساتھ پیش کیاگیاہے اور اس ضمن میں ضروری وضاحت بھی شامل ہے۔ اس اعتبار سے یہ کتاب تحقیقی نوعیت کی ہے اور قطعات گوئی کی تاریخ میں اضافے کا حکم رکھتی ہے۔
ڈاکٹرآفتاب احمدآفاقی
]ماہنامہ’’ایوانِ اُردو،ماہ مارچ۲۰۰۳ء[
اُردو ادب میں حالیؔ نے غالبؔ کی شاگردی کا حق ادا کرنے کی حتی الامکان کوشش کی تھی لیکن یہ روایت خال خال ہی برقرار رہی۔ عصرحاضر میں اس روایت کو ازسرنو ڈاکٹرشیخ عقیل احمد نے زندہ کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ ایک مخلص استاد شاعر کی اہم خوبیوں سے متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ اردو کے منظوم ادب میں ایک ایسے باب کا اضافہ کیاہے جو رفتہ رفتہ زمانے کی سہل پسندی کی نذر ہوگیا تھا۔ ڈاکٹرشیخ عقیل احمد نے ’مغیث الدین فریدی اور قطعات تاریخ‘ کو زیورطبع سے آراستہ کرکے جہاں حق شاگردی ادا کیاہے وہیں اپنے فن استادی سے بھی روشناس کرایاہے۔
زیرنظر کتاب ’مغیث الدین فریدی اور قطعات تاریخ‘ ڈاکٹرشیخ عقیل احمد کی تیسری اہم تنقیدی اور تحقیقی کوشش ہے جو ۲۶۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو پانچ ابواب میں منقسم کیا گیاہے۔ ابواب سے پہلے ’پیش نامہ‘ کے عنوان سے مصنف نے کتاب کے بارے میں اپنی رائے پیش کی ہے۔ پہلے باب ’آئینہ‘ میں ڈاکٹر مغیث الدین فریدی کے سوانحی کوائف درج ہیں۔ دوسرا باب’روبرو‘ ڈاکٹرمغیث الدین فریدی کے ساتھ مصنف کا انٹرویو ہے اور غالباً پہلا باب ’آئینہ‘ اسی کی تلخیص ہے۔ تیسرا باب ’یادیں‘ ڈاکٹر مغیث الدین فریدی کی شخصیت اور ان کے خاندان کا محاسبہ کرتاہے۔ ان کے اوصاف وخصائل، آداب واطوار، طرززندگی اور گھریلو زندگی میں فریدی صاحب کے انہماک کا تفصیل سے ذکر ہے۔ مصنف نے اسے ایک سوانحی خاکے کی شکل عطا کردی ہے جس میں ایک شاگرد کی عقیدت مندی کے ساتھ ساتھ حقیقت کو آئینہ دکھانے کی دریچے سے ڈاکٹر فریدی کے تمام اوصاف کو ڈاکٹر عقیل احمد نے جس خوب صورتی سے ایک لڑی میں پروکر قاری کے سامنے پیش کیاہے اس سے ڈاکٹرعقیل احمد کی نثر نگاری کا بخوبی اندازہ ہوتاہے۔ یہ مضمون مکمل طور پر تاثراتی ہے جس میں مصنف نے ڈاکٹر فریدی سے اپنی پہچان، تعارفی ملاقات سے لے کر ان کے انتقال تک کے تقریباً پندرہ سال کی روداد کو چند صفحات میں بڑی خوب صورتی سے تمام تفصیلات کے ساتھ پیش کردیاہے جسے کوزے میں سمندر بند کرنے کی کوشش کہا جائے تو بیجانہ ہوگا۔چوتھے باب رخش فریدی میں فن تاریخ گوئی اور مغیث الدین فریدی کے حوالے سے بھرپور بحث کی گئی ہے۔ مصنف نے تاریخ گوئی کے فن اور اس کی روایت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ حرف، علم الاعداد اور ہندسے کے وجود میں آنے کے تمام ممکنات پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حروف اعداد اور ابجد کے موجد اہل عرب ہی تھے۔ تاریخ گوئی کی ابتدا عربی میں ہوئی لیکن اس کا استعمال فارسی اور اردو شاعری میں کیا گیا۔ عربی میں تاریخ گوئی کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر عقیل احمد نے فن تاریخ گوئی کے ساتھ ساتھ اردو کے تاریخی قطعات پر بھی سرسری طور پرنظر ڈالی اور اس کوبطور مثال پیش بھی کیا ہے۔ عصر حاضر میں تاریخی قطعات کے شاعروں پر سرسری نظر ڈالتے ہوئے ڈاکٹرمغیث الدین فریدی کے تاریخی قطعات کا تجزیاتی مطالعہ کیاہے اور الگ الگ تاریخی قطعات کی وضاحت اور تشریح بھی کی ہے ساتھ ہی ساتھ اسے زمان ومکان کے حوالے سے پیش کرکے اس کے مفہوم میں لطف پیدا کردیاہے۔ فریدی صاحب نے صرف انتقال پرملال پر تاریخی قطعات ہی نہیں لکھے بلکہ ہر ہر موقعے پر انھوں نے تاریخی قطعات لکھے ہیں خواہ وہ خوشی کا موقع ہو، شادی کی رسم ہو یا رسم اجرا اور کسی عہدہ پر تقرری، سبھی موضوعا ت پر برمحل اور برجستہ قطعات کہے ہیں۔ کتاب کے آخری حصے میں ’قطعات تاریخ‘ کے عنوان سے مختلف موضوعات پر تقریباً ۱۷۰ تاریخ کو جمع کیاگیاہے۔ ڈاکٹر
شاعری پر بھی پوری مہارت حاصل تھی۔ انھوںنے زیادہ تر موضوعات پر پوری نظم لکھ ڈالی ہے اور اس میں مادہ اور مصرعے سے تاریخ نکالی ہے لیکن موضوع کے اعتبار سے ان کی شاعرانہ کوشش بھی اعلا درجے کی ہے جس سے علم العروض پر ان کی قادرالکلامی اور زبان وبیان کی شعری سلیقگی کا بخوبی اندازہ ہوتاہے۔ کتاب قطعات تاریخ کے حوالے سے مکمل سیرابی عطا کرتی ہے۔ مواد اور موضوع کے اعتبار سے کتاب جتنی اہم ہے اس کا ظاہری حسن بھی یعنی گٹ اَپ بھی اتنا ہی دیدہ زیب ہے۔ امید کہ یہ کتاب قطعات تاریخ کے شیدائیوں کے لیے مشعل راہ بنے گی اور اردو میں تاریخی قطعات کی سنگ میل بھی قرار دی جائے گی۔
ڈاکٹرسیّدمعصوم رضا
]’’ہماری زبان‘‘یکم تا۷؍جولائی۲۰۰۳ء[