تہذیبوں کے درمیان تصادم کی ایک وجہ جہاں تفوق اور بالادستی کا جذبہ ہوتا ہے وہیں ناواقفیت اور جہالت بھی تصادم کا ایک سبب ہے۔ زیادہ تر اقوام و ملل میں تصادم اس وجہ سے بھی ہے کہ وہ ایک دوسرے کی تہذیب، مذہب اور معاشرت سے ناواقف ہوتے ہیں۔
ہر قوم کا اپنا ثقافتی بیانیہ ہوتا ہے ۔جب ان بیانیوں سے ہمارا رشتہ براہِ راست قائم ہوتا ہے تو بہت سے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے افکار واقدار سے آگہی اس لیے بھی ضروری ہے کہ دنیا میں بہت سی قدریں مشترک ہیں، خاص طور پر انسانی جذبات اور احساسات میں بڑی یکسانیت ہوتی ہے۔ ساری دنیا کے دکھ درد ایک جیسے ہیں، مسائل بھی ایک جیسے ہیں، منزل بھی ایک ہی ہے بس راستے الگ الگ ہیں۔ ایسی صورت میں ہمیں ذہنی تعصبات کو ہٹا کر ہر قوم کی معاشرت اور تہذیب کو اس کے صحیح سیاق و سباق میں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
جن ملکوں کے دانشوروں اور مفکروں نے دوسروں کے افکار و اقدار کو سمجھنے کی کوشش کی ان کے یہاں تعصب سے زیادہ تفہیم کا جذبہ ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے وسیع ا لنظر اور روشن خیال افراد امتزاجیت کی بات کرتے ہیں اور وہ مختلف تہذیبوں کے درمیان تفاہم کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔
ہمارا ملک ہندوستان کثیر تہذیبی اور لسانی ملک ہے اور اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کے تنوع میں وحدت ہے۔ یہاں گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن، یہاں مختلف طرح کے افکار و تصورات ہیں اور ان میں امتزاجات کی تلاش بھی ماضی میں ہوتی رہی ہے، ایسے دانشور اور صوفیاء کرام یہاں رہے ہیں جنھوں نے مشترکہ علمی اور روحانی وراثت کی جستجو کی اور معاشرے کو یہ بتایا کہ الگ الگ افکار و نظریات کے باوجود مختلف تہذیبوں اور مذاہب کے مابین ایک رشتہ وحدت ہے۔ متناقض اور متضاد چیزوں میں بھی انھو ںنے تطابق کی ایک صورت تلاش کی، خاص طور پر مذہبی بنیاد پر جو تفریق وتقسیم ہے اسے بھی ختم کرنے کی کوشش کی اور یہ واضح کیا کہ تمام ادیان کا احترام ضروری ہے، چونکہ مذاہب میں زیادہ تر وہ باتیں ہیں جو انسانوں کے درمیان اجنبیت اور غیریت نہیں بلکہ اتحاد اور رشتہ محبت کو مضبوط کرنے والی ہوتی ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی کہا تھا کہ ’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘ یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ تمام مذاہب مثبت اور صالح قدروں کی تلقین کرتے ہیں اور کردار سازی ہی ان مذاہب کا منشور ہے۔ ہر مذہب میں ایک روشنی ہے جو انسانوں کی رہنمائی کرتی ہے، خاص طورپر صوفیاء کرام نے مشترکہ تصورات کے حوالے سے بہت مبسوط گفتگو کی ہے اور بین مذاہب مکالمے پر زور دیتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ مذاہب کے درمیان اصولی نہیں فروعی اختلافات ہیں اور ہم سب ایک مشترکہ روحانی وراثت کے امین ہیں۔ ان صوفیاء کرام کے یہاں انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب تھا، جن کا خاص تصور یہ تھا کہ ایک ہی چراغ سے کعبہ و بت خانہ روشن ہیں،ان کے لیے ہر وہ فکر قابل قبول تھی جس میں انسانیت کی صلاح اور فلاح ہو اور اسی جذبے کی وجہ سے ان صوفیاء کرام نے اپنے دروازے تمام مذاہب اور طبقات کے لیے کھول رکھے تھے۔ ان صوفیاء کے پیغامات اور تعلیمات کا ہمارے معاشرے پر خاصا اثر ہوا کہ آج بھی ہندوستانی معاشرے میں سماجی ہم آہنگی، اتحادپسندی اور مذہبی رواداری کا جذبہ موجود ہے، الگ الگ مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی ایک دوسرے کے افکار اور اقدار کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان غلط فہمیوں کے ازالے کی بھی جو ناواقفیت اور جہالت کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہیں۔ صوفیاء کرام اور روشن خیال دانشوروں نے مذہبی بنیاد پر ہر تقسیم کو رد کیا اور مشترکہ بنیادوں کی جستجو کی اور یہ بھی بتایا کہ مذاہب کے درمیان صرف الفاظ کافرق ہے، تماممذاہب کی ماہیت اور روح ایک ہے۔ اس سلسلے میں داراشکوہ کا کارنامہ قابل ذکر ہے کہ انھوں نے ’مجمع البحرین‘ اور ’سرِّ اکبر‘ کے ذریعے بین مذاہب مکالمے کی راہ ہموار کی اور مذہبی رواداری پر زور دیا۔ ہمیں آج کے عہد میں اسی طرح کے تصورات کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اربابِ علم و دانش کو آگے آنا ہوگا اور انھیں پورے معاشرے کو یہ بتانا ہوگا کہ تمام افکار اور اقدار کا احترام کیا جانا چاہیے، اسی سے انسانیت کا تحفظ ہوسکتا ہے۔ مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ اس وقت بہت ضروری ہے کیونکہ یہی معاشرے کے ڈھانچے کو تباہ اور برباد کرتی ہے، ہمیں ایک صالح اور صحت مند مثالی معاشرے کے لیے ایک دوسرے کے خیالات، جذبات اور احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہوگی۔ ماضی میں ہمارے بزرگوں نے اس طرح کی کوششیں کی ہیں ، ہمیں ان کوششوں کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.