معاصر دنیا کے بہت سے تہذیبی، لسانی اور نسلی مسائل ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں انتشار اور کشمکش کی کیفیت طاری رہتی ہے۔ زیادہ تر معاشرے اپنے مخصوص نظریاتی وجود اور تشخص پر اصرار کی وجہ سے ایک دوسرے سے متصادم بھی رہتے ہیں اور یہی وہ تصادم ہے جس کی وجہ سے سماج تباہ اور برباد ہوجاتا ہے۔
پوری دنیا میں جس طرح کی نظری اور فکری انتہاپسندی بڑھتی جارہی ہے اس سے سماج پر نہایت منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور اس کا اثر صرف موجودہ نسل پر نہیں بلکہ آنے والی نسلوں پر بھی پڑے گا اور اس کی وجہ سے معاشرے میں انتشار اور انحطاط کا گراف اور بھی بڑھتا جائے گا۔ یہ انتشار اور انحطاط پوری انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اسی انتشار اور انتہاپسندی کو روکنا اس وقت پوری انسانیت کی ذمے داری ہے کیونکہ احترامِ آدمیت سے گریز اور انسانی و اخلاقی اقدار سے اجتناب، نظریاتی بالادستی کی جنگ اور جبر و استحصال کے یہ سلسلے معاشرے کو تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں شدت پسندی کا انسداد اور پرامن متوازن اور متمدن معاشرے کا قیام اہل قلم کا فریضہ بن جاتا ہے۔
ماضی میں اربابِ قلم نے اسی طرح کے فریضے انجام دیے ہیں اور سماج کی مثبت رہنمائی کی ہے۔چاہے کسی بھی ملک کا ادیب اور کسی بھی زبان کا قلم کار ہو ان میں سے بیشتر نے اپنی معاشرتی ذمے داریوں کو محسوس کرتے ہوئے نثری اور شعری تخلیقات کے ذریعے انسانی اقدار اور احترامِ آدمیت کو فروغ دیا ہے۔ طبقاتی کشمکش اورتصادم کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ امن و آشتی کے پیغام کے ذریعے نفرتوں کا خاتمہ کیا ہے۔ انسانیت کی خدمت کے ساتھ معاشرے کی اصلاح کی ہے۔ تاریک راہوں کو روشن کیا ہے اور محبتوں کی شمعیں جلائی ہیں۔
ادبا اور شعرا بنیادی طور پر معاشرے کے نہایت حساس اور ذمے دار افراد ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ معاشرے میں پنپنے والی برائیوں پر نظر رکھتے ہیں اور ان کے خاتمے کے لیے وہ اپنی سطح پر کوششوں کو جاری رکھتے ہیں۔ اخوت کا بیاں اور محبت کی زباں بن کر معاشرے کو صحیح راہ دکھاتے ہیں۔ قلمکاروںکا اپنے عہد کے تمام مسائل اور سماج سے گہرا سروکار ہوتا ہے اس لیے سماج کی صحت اور سالمیت ان کی ذمے داریوں میں شامل ہوتی ہے۔ یہ اور بات کہ قلم کار حضرات کے پاس قوتِ نافذہ نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ سیاسی مقتدرہ کا حصہ ہوتے ہیں پھر بھی خود کو معاشرے کا باشعور اور حساس فرد ہونے کے ناطے وہ اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں کہ معاشرے کو بہتر سے بہتر بنایا جائے۔ اسی لیے وہ تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر اپنے ضمیر کی آواز بلند کرتے ہیں۔
دنیا کے کسی بھی ملک کے ادب کی تاریخ اٹھا کر دیکھیے وہاں کے ادب نے معاشرے کو خوب سے خوب تر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور انسانوں کو ایک رشتۂ محبت و وحدت میں جوڑنے کا کام کیا ہے، خاص طور پر وہ حضرات جو سلوک و تصوف سے جڑے رہے ہیں انھوں نے اپنے کلام اور نغموں کے ذریعے تفریق کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔ اس سے بیشتر افراد واقف ہیں کہ معاشرے میں قیام امن کے لیے قلم کاروں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہر طرح کی نظریاتی شدت پسندی اور انتہاپسندی کو مسترد کرتے ہوئے امن و سکون اور اعتدال کا پیغام دیا ہے۔ اربابِ قلم نے اپنے قلم کی روشنائی سے معاشرے کے ذہن اور ضمیر کو روشنی عطا کی ہے اور اسی روشنی کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں اب تک کچھ انسانی اور اخلاقی قدریں زندہ ہیں۔
آج جب کہ پوری دنیا میں انتشار کی ایک عجب سی کیفیت ہے تو ایسے میں اہل قلم کی ذمے داریا ںاور بڑھ جاتی ہیں کہ وہ کبیر، بلھے شاہ، امیر خسرو اور دیگر صوفیوں، سنتوں کی طرح محبت کا ساز چھیڑیں اور اپنے نغمے اور کلام کے ذریعے معاشرے سے اندھیروں کو مٹائیں ، یہ مقتدر ہستیاں ہمارے لیے روشنی کے مینار اور مشعل راہ ہیں ۔ یہی چراغ جلیں گے تو ہر طرف روشنی ہوگی اور ہمیں اس وقت روشنی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے!
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.