گذشتہ ایک سال کے دوران درجنوں سے زائد اردو زبان و ادب کی عظیم شخصیات ہمارے درمیان سے رخصت ہوگئیں اور اپنے پیچھے ایسا خلا چھوڑگئیں جس کا پُر ہونا مشکل ہی نہیں، ناممکن نظرآتا ہے۔ دنیائے اردوزبان وادب کو الوداع کہنے والے ان اشخاص میں اہم دانشور بھی تھے، شعرا اور ناقد ومحقق بھی اور فکشن نگار بھی۔ان شخصیات کے انتقال سے قحط الرجال کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ یہ وہ شخصیتیں تھیں جن سے جہان شعر و ادب میں روشنی تھی اور جن پر ہماری زبان کو ناز بھی تھا۔ انھوں نے اردو زبان کو فکری، فنی اور لسانی اعتبار سے ثروت مند بنایا تھا اور اس زبان کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کرنے میں ان کا کردار بڑا اہم تھا۔
ادب کے ایسے آفتاب و ماہتاب کی وفات کے بعدیہ سوال فطری ہے کہ ان اسلاف و اکابر کی وراثت کا تحفظ کیسے کیا جائے؟ ان کے علمی اور ادبی اثاثے کو کیسے محفوظ رکھا جائے اور جس زبان سے ان کی وابستگی تھی اس زبان کے فروغ و تحفظ کے لیے کس طرح کے اقدامات کیے جائیں تاکہ وہ زبان زندہ رہے اور اس کا مستقبل بھی تابناک ہو۔ اس حوالے سے جہاں اردو کی تعلیم کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے وہیں اپنے بچوں کو اردوزبان سکھانا بھی بہت ضروری ہے۔ اس کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔اگر والدین اس کے لیے پرعزم اور مخلص ہوں تو دوسری زبانیںاور مضامین پڑھانے کے ساتھ وہ اپنے بچوں کو اردو سکھاسکتے ہیں۔یہ ناتوکوئی ناممکن بات ہے اور نہ ہی کوئی پیچیدہ عمل۔ جن لوگوںکی زبان اردویا ہندی ہے ، وہ آسانی سے اردو پڑھ اور سیکھ سکتے ہیں۔آگے چل کر انھیں میں سے کچھ بچے دوسرے شعبوں سے وابستہ رہتے ہوئے اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کا وسیلہ اردو زبان کو بنائیں گے ، کیونکہ اپنے جذبات واحساسات کا اظہار اپنی مادری زبان میں آسان اور مؤثر ہوتا ہے۔ پھر انھیں میں سے بعض شاعر بنیں گے ، بعض فکشن نگار، بعض تنقید اور تحقیق کے میدان کو سر کریں گے ، اس طرح جہاں اردوزبان کے افراد کی تعدادگھٹنے سے رک جائے گی، وہیں اردو کے ادیبوں اور شاعروںکی تعداد میں بھی کمی واقع نہ ہوگی۔
اردو والوں کو یہ بات ذہن نشیں رکھنی ہوگی کہ جب تک وہ اپنے درمیان افراد سازی کے عمل کو تیز نہیں کریں گے ، اس وقت تک وہ اردوکے مرحوم بزرگ ادیبوں کے خلا کو پرنہیں کرسکتے بلکہ اپنی زبان کا تحفظ بھی ان کے لیے دشوار ہوجائے گا۔اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے بزرگ ادیبوں کی تصانیف کے ساتھ رشتہ جوڑیں اور ان کے افکار و خیالات کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی کوشش کریں۔ اس سے اردو کو زندگی اور تابندگی ملے گی۔ ساتھ ہی ہمیں ان زندہ ادبی شخصیات کے بارے میں بھی اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا جو اردو مشن سے جڑے ہوئے ہیں اور اس کے فروغ کے لیے نفع و نقصان کی پروا کیے بغیر کوشاں ہیں۔ ان کے ساتھ جو مسائل و مشکلات ہیں انھیں حل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ اس کے علاوہ ہمیں ان کی خدمات کا وقتاً فوقتاً اعتراف بھی کرنا چاہیے تاکہ انھیں کام کرنے کے لیے مزید حوصلہ اور تقویت مل سکے۔ خاص طور پر مراکز سے دور حاشیائی بستیوں میں جو محبان اردو نہایت خلوص کے ساتھ اردو زبان کی بے لوث خدمت کررہے ہیں ان کی تحسین و ستائش بھی کرنی چاہیے اور ان کے جذبۂ خدمت کو سلام بھی کرنا چاہیے۔
اس شمارے میں کچھ اہم ادبی شخصیات پر تعزیتی تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ کوشش تو یہ تھی کہ تمام مرحوم شخصیات پر مضامین کی شمولیت ہوتی مگر یہ ممکن نہ ہوسکا۔ آئندہ ان شاء اللہ بچھڑنے والی شخصیات کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا رہے گا۔ شمس الرحمن فاروقی کے تعلق سے فوری طور پر جو مضامین موصول ہوئے انھیں اس شمارے میں شامل کیا گیا ہے۔ان کے شایانِ شان ایک شمارہ آئندہ شائع کیا جائے گا۔فاروقی صاحب نے اردو زبان کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ ان کے علمی و ادبی کارناموں پر تحقیقی اور تنقیدی کام پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد یہ سلسلہ اور آگے بڑھے گا۔ حقیقت یہی ہے کہ شمس الرحمن فاروقی جیسی دیدہ ور شخصیت صدیو ںمیں پیدا ہوتی ہے۔ ان کا انتقال اردو زبان و ادب کا بہت بڑا نقصان ہے۔ ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پر کرنا ممکن نہیں ہے۔ مختلف جامعات، اکیڈمیوں اور اداروں نے ان کی وفات پر خراج عقیدت پیش کیا۔ ان کے معاصرپروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنے تعزیتی بیان میں صحیح کہا ہے کہ ’فاروقی کے بغیر اردو ادب ادھورا ہے۔‘
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.