عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سائنسی علوم کے حوالے سے اردو زبان بے مایہ ہے،اس کے اندر جدید تکنیکی علوم اور موضوعات کو انگیز کرنے کی صلاحیت نہیں ہے،اردو محض شعر و غزل اور داستان و افسانے کی زبان ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اردو زبان سائنسی اور علمی مضامین ادا کرنے کی قدرت سے محروم ہے۔ آج بھی عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اردو زبان میں سائنسی و تکنیکی علوم کے بیان و اظہار کی قدرت نہیں ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سائنسی مضامین اردو زبان میں بہت پہلے سے لکھے بھی جارہے تھے اور دیگر زبانوں سے اردو میں ان کے ترجمے بھی ہورہے تھے۔ اس سلسلے میں شہرہ آفاق دہلی کالج کا ذکر ضروری ہے کہ اس میں تمام جدید علوم مثلاً جغرافیہ، ریاضی اور کیمیا وغیرہ کی تعلیم دی جاتی تھی اور ذریعۂ تعلیم اردو تھا ، دلی ٹرانسلیشن سوسائٹی سے تقریباً بہت سے سائنسی کتابوں کے ترجمے کیے جا چکے تھے۔
اس کے علاوہ جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد دکن میں تمام علوم (بشمول سائنس) کی تدریس اردو زبان میں کی جاتی تھی جبکہ اس جامعہ کا ایک وسیع شعبہ تصنیف و تالیف کا بھی تھا جہاں ہمہ وقت سائنسی و علمی تراجم کا کام جاری رہتا تھا۔ جامعہ عثمانیہ ہی کے تحت سائنسی اصطلاحات کاترجمہ بھی باقاعدگی کے ساتھ کیا گیا، تاکہ انھیں درس و تدریس میں استعمال کیا جاسکے۔ یہ ایک دلچسپ اور حیرت انگیز حقیقت ہے کہ1947 تک تقریباً پانچ لاکھ سائنسی و علمی اصطلاحات کا اُردو ترجمہ کیا جاچکا تھا۔
اسی طرح اردو زبان میں سائنسی ترجمے کی خدمت 1862میں سرسید احمد خان کے ذریعے قائم کردہ ’سائنٹفک سوسائٹی‘ نے بھی انجام دی۔ اس سوسائٹی کے تحت اردو زبان میں سائنسی مضامین کا نہ صرف ترجمہ کیا جاتا تھا بلکہ باقاعدہ اجتماعات اور جلسوں میں انھیں حاضرین کو پڑھ کر سنایا جاتا تھا۔ بعد کے ادوار میں اردو میں کئی سائنسی رسائل بھی نکالے گئے۔جن میں انجمن ترقی اردو ہند کا رسالہ’سائنس‘ خصوصاً قابل ذکر ہے۔سہ ماہی سائنس کی دنیا اور ڈاکٹر اسلم پرویز کی ادارت میں ماہنامہ سائنس شائع ہورہے ہیں۔اس کے علاوہ بہت سے اردو رسائل اور اخبارات میں سائنسی مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اردو زبان میں سائنسی موضوعات پر کتابیں بھی شائع ہورہی ہیں۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے جدید سائنسی موضوعات پر اب تک بہت سی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
الغرض اردو اور سائنس کے باہمی روابط یا اردو زبان میں سائنسی موضوعات کے اظہار و پیشکش میں کمزوری کا مفروضہ تاریخی اعتبار سے غلط ہے،گرچہ اس غلطی کا سلسلہ آج تک چلا آرہا ہے اور عام طورپر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ اردو زبان یا اردو والوں کا مزاج سائنسی نہیں ہے۔ہمیں سب سے پہلے تو مضبوطی کے ساتھ اس مفروضے کو رد کرنے کی ضرورت ہے،جب تک یہ واہمہ ہمارے ذہن و دماغ سے دور نہیں ہوتا،اس وقت تک اردو میں سائنسی و تکنیکی تعلیم کے مسائل و مشکلات حل نہیں ہوں گے۔
اس مفروضے سے نمٹنے اور اردو میں سائنسی و تکنیکی تعلیم سے ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنے کے بعد ہمیں اردو نصاب کو اس طرح ترتیب دینا ہوگا کہ اس میں موجودہ دور کے عالمی مسائل اور سائنس و ٹیکنالوجی کی معلومات بھی موجود ہوں۔
ہمیں اپنے ذہن میں یہ بات بٹھانی ہوگی کہ جس طرح مذہب اور سائنس میں کوئی ٹکراؤ نہیں اسی طرح کسی زبان اور سائنس میں بھی کوئی تصادم نہیں ہے۔ زبان اور سائنس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے۔ سائنسی تعلیم و ترقی کسی مخصوص زبان کے ساتھ مربوط نہیں ہے، بلکہ سائنس انسان کی تحقیق، محنت اور جستجو سے ترقی حاصل کرتی ہے۔
اردو میں تدریس کے لیے سائنسی علوم کو اردو میں منتقل کرنا اس دور کی اہم ضرورت ہے۔ تاکہ نئی نسل کو اردو زبان کے ذریعے سائنسی موضوعات سے متعارف ہونے اور سائنس کا ذوق وشوق پیدا کرنے کا موقع ملے۔ہمیں ترجمہ نگاری کے ذریعے مغربی ممالک کے ترقی یافتہ سائنسی اور ٹیکنالوجی کے علوم کو اپنی زبان میں منتقل کرنا ہوگا اور اس کے بعد انھیں درس وتدریس کے سہارے لوگوں میں عام کرناہوگا۔ اس کے لیے ادارہ جاتی سطح پر منصوبہ بندی بہت ضروری ہے۔
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.