July 14, 2023

فروری 2022

قارئین کرام!
ڈیجیٹل ایج میں زیادہ تر لوگوں کی نگاہیں موبائل اور کمپیوٹر کی اسکرین پر مرکوز ہوکر رہ گئی ہیں کیونکہ موبائل اور کمپیوٹر کی اسکرین پر وہ سب کچھ مل جاتا ہے جس کی آج کے عہد میں ضرورت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹرنیٹ نے انسانی زندگی میں انقلاب برپاکردیا ہے اور ترقی کی رفتار میں بھی تیزی پیدا کردی ہے، مگر یہ بھی اپنی جگہ تلخ حقیقت ہے کہ بعض چیزیں موبائل اور انٹرنیٹ کی وجہ سے متاثر بھی ہورہی ہیں۔ باشعور افراد کا خیال ہے کہ اس ڈیجیٹل عہد میں کتاب کلچر کو نقصان پہنچا ہے۔ جب کہ ایک زمانہ تھا، جب پڑھے لکھے لوگ کتابیں پڑھتے اور خریدتے تھے، لیکن آج صورت حال تھوڑی تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جس میں کتابیں پڑھنے اور خریدنے کا شوق تقریباً معدوم سا ہوگیا ہے۔ کتابوں سے بے رغبتی اور مطالعے سے عدم دلچسپی عام ہوتی جارہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جن سے ہمیں تھوڑی سی امید بندھتی ہے کہ حالات تبدیل ہوں گے اور کتاب کلچر سے لوگوں کا رشتہ پھر سے جڑے گا، مگر پھر بھی اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ موبائل اور انٹرنیٹ کے بڑھتے اثرات کی وجہ سے کتابوںکی مارکیٹ محدود ہوتی جارہی ہے اور شخصی کتب خانے ختم ہورہے ہیں۔ کتنی پرانی لائبریریاں بند ہوچکی ہیں۔المیہ یہ ہے کہ لائبریریوںمیں بھی نئی کتابو ںکی خریداری کا تصور ختم ہورہا ہے۔ صورتِ حال کبھی کبھی اتنی بدتر ہوجاتی ہے کہ بعض لائبریریاں مفت کتابیں لینے سے بھی معذرت کرلیتی ہیں۔
دراصل اب لائبریریوں میں قارئین کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ جب کہ ایک دور تھا جب پبلک لائبریریوں میں بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں ملتی تھی اور اب یہ حال ہے کہ کتابیں قارئین کے دیدار کو ترستی ہیں۔ لیکن اس دوران ایک تبدیلی یہ بھی آئی ہے کہ بہت سے علاقوں میں لائبریریوں کی تشکیل اور قیام کے تعلق سے لوگ مستعد ہیں اور انھیں اپنے ماضی کے ثقافتی اور ادبی ورثے کے تحفظ کا خیال بھی ستا رہا ہے۔ یہ ایک مثبت اشاریہ ہے۔ پھر بھی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بہت سی پرانی لائبریریاں دم توڑ چکی ہیں، خاص طور پر جن لائبریریوں میں نوادرات کا خزانہ محفوظ ہے، ان لائبریریو ںکی حالت نہایت خستہ ہے ان پر توجہ دینے والوں کی کمی محسوس کی جارہی ہے۔
کتابوں اور لائبریریوں کی زندگی قارئین سے ہوتی ہے۔ پڑھنے والے ہوتے ہیں تو کتابوں اور لائبریریوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب پڑھنے والے ہی نہیں رہیں گے تو کتابوںیا لائبریریوں کی کیا ضرورت؟ پرنٹ کتابوںمیں قارئین کی دلچسپی کی کمی کے باعث بعض حضرات نے کتابوںکو انٹرنیٹ پر جمع کرنا شروع کردیا ہے، اس طرح گزشتہ چند سال کے عرصے میں کئی ایک ڈیجیٹل لائبریاں وجود میں آگئی ہیں۔ چنانچہ جن لوگوںکو کتاب کی ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ ان ویب سائٹوںپر جاکر کتاب تلاش کرلیتے ہیں۔ اس طرح عارضی طورپر ان کا کا م چل جاتا ہے ،مگر کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ وہ بھی نہیں کرپاتے، کیونکہ اسکرین پر کتاب پڑھنا اپنے آپ میں ایک دشوارگزار عمل ہے۔ ڈیجیٹل لائبریریاں پرنٹ لائبریریوں کاپورے طورپر متبادل نہیں بن پارہی ہیں۔ ایسے ہی اسکرین پر موجود کتابیں بھی مطبوعہ کتابوں کی جگہ نہیں لے پارہی ہیں، اس لیے مطبوعہ کتابوںکا پڑھنا اور خریدنا بہت ضروری ہے۔
مقامِ شکر ہے کہ قومی اردو کونسل کے زیراہتمام مالیگاؤں کتاب میلے سے یہ اندازہ ہوا کہ اگرکوشش کی جائے تو کتاب کلچر کو زندہ کیا جاسکتا ہے اور کتابوں سے قارئین کا رشتہ جوڑا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میلے میں کتابوں کی اچھی خاصی فروخت ایک صحت مند علامت ہے۔ اگر اس تعلق سے تمام ادارے، تنظیمیں سنجیدہ ہوجائیں تو یقینی طور پر اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ قومی اردو کونسل اس سمت میں برسوں سے کوشاں ہے۔ ہندوستان کے طول و عرض خاص طور پر دیہی علاقوں میں اس طرح کے کتاب میلوں کے انعقاد سے معاشرے کی ذہنیت اور ان کی ترجیحات کو بدلنے میں کامیابی مل سکتی ہے۔

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.