July 14, 2023

جون 2022

ادبی رسائل کی حیثیت ایک روزن کی سی ہوتی ہے۔ نئی معلومات، اکتشافات، ایجادات، تحقیقات، علوم و ادبیات وغیرہ کے سارے سلسلے اسی کھڑکی سے قاری کے ذہن کا حصہ بنتے ہیں اور ان کے شعور و آگہی کو متحرک اور مہمیز کرتے ہیں۔یہ رسائل دراصل ایک سمت نما کی حیثیت رکھتے ہیں جو قاری کو مختلف ادبی جزیروں اور زاویوں سے روبرو کراتے ہیں، اس لیے ہر دور میں ادبی رسائل کی اہمیت اور معنویت مسلم رہی ہے اور اس کے افادی کردار کے حوالے سے گفتگو بھی ہوتی رہی ہے۔ یہ رسائل نہ ہوتے تو ہماری ذہنی اور فکری کائنات بہت محدود ہوجاتی اور ہمیں تازہ موضوعات و معلومات کے لیے بہت تگ و دو کرنی پڑتی، لیکن رسائل کی وجہ سے ایسے وسائل میسر آگئے ہیں کہ ایک ہی جگہ ہمیں متنوع موضوعات پر اہم معلومات فراہم ہوجاتی ہیں۔ رسائل نے صرف ذہنوں کے زاویے نہیں بدلے ہیں بلکہ اظہار کے نئے اسالیب سے بھی آشنا کیا ہے۔ عالمی، ادبی، ثقافتی تحریکات اور رجحانات سے بھی روشنا س کرانے میں رسائل کا اہم کردار رہا ہے۔ نئے علمی، نظریاتی، فکریاتی مباحث سے روبرو بھی یہی رسائل کراتے رہے ہیں او راس سے ہمارا ذہنی افق وسیع سے وسیع ترہوا ہے۔ اگر یہ رسائل صرف ایک ہی ادب پر مرکوز ہوتے تو شاید ہمارے لیے عالمی ادبیات کے دروازے بند ہی رہتے، ان ادبی رسائل کی خاص بات یہ رہی کہ مختلف زبانوں اور ادبیات کے حوالے سے ان میں مباحث اور مکالمے شامل کیے جاتے ہیں، جن سے ہمیں فرانسیسی، روسی، انگریزی، عربی، فارسی، سنسکرت ،ہندی اور دیگر زبانوں کے ادب سے آگہی ہوئی اور انہی رسائل کے توسط سے ہمیںبہت سی علاقائی زبانوں کے شاہکاروں اور فن پاروں کا بھی پتہ چلا۔ اس کے علاوہ بہت سے گمنام فنکاروں تک رسائی ہمیں انہی رسائل کے ذریعے ہوتی ہے، اس لیے ادبی رسائل کی حیثیت دستاویزی او رحوالہ جاتی ہوجاتی ہے۔ قدیم ادبی رسائل معلومات کا بیش بہا خزینہ ہیں۔ ان رسائل کے اشاریوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے مدیران کتنے باخبر اور باشعور تھے کہ ان مباحث اور موضوعات کو اپنا محور و مرکز بناتے تھے جن سے ادبی معاشرے کو رہنمائی اور روشنی ملے۔
آج کے زمانے میں گو کہ ہمارے موضوعات بدل چکے ہیں، ہماری ترجیحات بھی تبدیل ہوچکی ہیں، اب نئے نئے موضوعات ہمارے فکر و شعور کا حصہ بن رہے ہیں پھر بھی ان موضوعات اور مباحث کی قدر و قیمت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ پرانے زمانے میں وسائل کم تھے لیکن وژن کی وجہ سے ان کا موضوعاتی اور فکری دائرہ بہت وسیع ہوتا تھا اور اس زمانے میں قاری بھی ایسے ہوتے تھے جو قلمکاروں کے مضامین پر اپنے ردِّعمل کا اظہار کرکے مضامین کے حسن و قبح کو واضح کردیتے تھے۔ بعض قارئین کی معلومات کا دائرہ اتنا وسیع ہوتا تھا کہ ان کے خطوط سے لکھنے والو ںکو بھی رہنمائی ملتی تھی اور ان کی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا تھامگر اب صورت حال بدلتی جارہی ہے۔ اب ایسے قاری کا بحران ہے جن کا مطالعاتی دائرہ بہت وسیع ہو اور وہ تمام ادبی مباحث پر اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں۔ اسی وجہ سے قلمکار حضرات خطوط کے صفحے پر سب سے پہلے نظرڈالتے تھے اور مکتوبات کا گوشہ کسی بھی رسالے کا اہم ترین حصہ سمجھا جاتا تھا کیونکہ رسائل کو معنی خیز اور فکرانگیز بنانے میں جہاں قلمکاروں کا کردار بہت اہم ہوا کرتا تھا وہیں اس میں قارئین کی بھی مکمل شرکت ہوا کرتی تھی اور مدیر بھی قارئین کے خطوط بہت اہتمام کے ساتھ شائع کرتے تھے کیونکہ ان کے مکتوبات سے رسائل کو نئی جہت ملتی تھی اور نئے نئے زاویے سامنے آتے تھے۔ خطوط کی شکل میں بحثیں چلتی تھیں، معرکہ آرائیاں ہوتی تھیں، بہت سے رسائل تو انہی خطوط کی وجہ سے ادبی حلقوں میں بہت مقبول تھے اور قارئین ایسے رسائل کا بے چینی سے انتظار کیا کرتے تھے۔ اب نہ وہ معرکہ آرائیاں ہیں نہ وہ قارئین ہیں، اس لیے ادبی رسائل سے لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مضامین کے ساتھ ساتھ مکتوبات کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ کچھ قلمکاروں نے رسائل میں چھپے ہوئے اپنے خطوط کو بھی کتابی صورت میں بھی شائع کیا ہے جن کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس نوع کے موضوعات و مباحث ان خطوط کا حصہ بنتے تھے۔ یقینی طور پر وہ خطوط بڑی اہمیت کے حامل ہوا کرتے تھے جن میں مضامین کے حوالے سے مکالمے کیے جاتے تھے اور ان سے ادب کو بہت فائدہ ہوتا تھا۔ اب بیشتر رسائل میں خطوط کے کالم میں صرف ستائشی نوعیت کی سطریں ہوتی ہیں جن سے مضمون کی وقعت اور اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے اب ہمیں اپنا انداز بدلنا چاہیے اور رسائل کے مشمولات پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ رایوں سے رسائل کو وقیع، معنی خیز اور خوب سے خوب تر بنانے میں مدد ملتی ہے۔

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.