تحریک آزادی ہند کی تاریخ میں موہن داس کرم چند گاندھی کا نام امر رہے گا کہ انھوں نے برطانوی استعمار سے ملک کو آزاد کرانے کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ انھوں نے بہت ساری اذیتیں، صعوبتیں، مشقتیں برداشت کیں۔ پھر بھی ان کے دل میں آزادی کا جذبہ موجزن رہا۔ انھوں نے آزادی کے لیے تلوار یا تشدد کا سہارانہیں لیا بلکہ عدم تشدد کا راستہ اختیار کرکے انگریزوں کو اس ملک سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔ یہی وہ فلسفہ تھا جس کی وجہ سے گاندھی جی کو پوری دنیا میں مقبولیت ملی۔ انھوں نے ستیہ اور اَہنسا کا جو تصور دیا تھا وہ آج بھی ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔
گاندھی جی کا وژن بہت وسیع تھا۔ چاہے اس کا تعلق سماج سے ہو، سیاست سے ہو، ثقافت سے ہو یا زبان سے ہو۔ ان کے نظریے میں کسی طرح کی محدودیت نہیں تھی بلکہ ان کا تصور آفاقیت پر مبنی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے برسوں کے باوجود گاندھی جی کے افکار و تصورات زندہ ہیں۔ کیونکہ ان کے افکار کی بنیادیں نہ صرف منطقی اصولوں پر مبنی ہیں بلکہ نہایت مضبوط اور مستحکم بھی ہیں۔ انھیں ہندوستان کی عظیم ترین تہذیبی، ثقافتی، سیاسی، سماجی روایت کا گہرا ادراک تھا۔ اس لیے وہ ہندوستانی وراثت کے تحفظ کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ گاندھی جی ہر طرح کے مذہبی، طبقاتی، تعصبات اور تحفظات کے سخت خلاف تھے۔ وہ ہمیشہ ہندوستان کے تمام طبقات کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کی تبلیغ کرتے رہے اور اس کا اثر ہندوستانی عوام پر بھی پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر مذہب سچائی کا راستہ دکھاتا ہے۔ اسی لیے مذہبی بنیاد پر اختلاف یا تنازعے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ وہ قطعاً نہیں چاہتے تھے کہ زبان، مذہب یا ثقافت کی بنیاد پر ہندوستانی قوموں کے درمیان نااتفاقی ہو۔ اس لیے وہ مذہبی ، لسانی، تہذیبی اتحاد کی باتیں کرتے رہے۔ انھیں یہ پتہ تھا کہ ہندوستان ایک کثیر لسانی وثقافتی ملک ہے۔ یہاں بہت ساری بھاشائیں ہیں اور ان میں ہمارے عظیم ملک ہندوستان کا علمی و ادبی سرمایہ محفوظ ہے۔ انھوں نے زبان کی بنیاد پر کسی بھی تفریق کو پسند نہیں کیا۔ بلکہ انھوں نے سنسکرت، تمل، عربی، فارسی، ہندی اور دیگر تمام زبانیں سیکھنے کی اس لیے ترغیب دی تاکہ ہندوستان کے تمام طبقات ایک دوسرے سے قربت محسوس کریں۔ وہ ہندوستان کو لسانی اور تہذیبی سطح پر ثروت مند بنانے کے خواہاں تھے اسی لیے انھوں نے زبان اور تہذیب کی سطح پر اتحاد کی وکالت کی۔ انھوں نے اپنے اخبار میں یہ لکھا تھا کہ ’’ہر پڑھے لکھے ہندوستانی کو اپنی بھاشا ہندو کو سنسکرت، مسلمان کو عربی، پارسی کو فارسی اور سب کو ہندی جاننی چاہیے۔ کچھ ہندوؤں کو عربی اور کچھ مسلمانوں اور پارسیوں کو سنسکرت سیکھنی چاہیے۔ اُتّر اور پچھم میں رہنے والے ہندوستانی کو تمل سیکھنی چاہیے مگر سارے ہندوستان کے لیے ہندوستانی ہونی چاہیے۔‘‘ ایک جگہ اور بھی انھوں نے لکھا تھا کہ ’’اگر ہندو اپنے بھائیوں کے نزدیک آنا چاہتا ہے تو انھیں اردو پڑھنی چاہیے اور ہندو بھائیوں کے نزدیک آنے کی خواہش رکھنے والے مسلمانوں کو بھی ہندی ضرور سیکھ لینی چاہیے۔‘‘
گاندھی جی نے اردو اور ہندی کی خلیج کو ختم کرنے کے لیے ہریجن سیوک کا اردو ایڈیشن جاری کیا تھا اور جب اردو ایڈیشن بند کرنے کی بات چلی تو انھوں نے ہندی ایڈیشن بھی بند کردیا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی بھی زبان کے ساتھ تفریق یا تعصب روا رکھا جائے۔ خود گاندھی جی کا رویہ اس باب میں بہت وسیع تھا کہ وہ ہندی اور اردو دونوں رسم الخط میں دستخط کیا کرتے تھے اور اکثر اردو والوں کے خطوط کا جواب اردو ہی میں لکھا کرتے تھے۔ گاندھی جی ہندی اور اردو دونوں زبانوں کی ترقی کے خواہاں تھے۔ ان کے نزدیک راشٹریہ بھاشا کا مطلب ہندی+اردو=ہندوستانی تھا۔ اسی وجہ سے انھوں نے ہندوستانی پرچار سبھا بھی قائم کیا تھا جس کے تحت وہ اپنے نظریۂ ہندوستانی کو رائج کرنا چاہتے تھے۔ زبان کے تعلق سے گاندھی جی کا نظریہ واقعی بہت اہم تھا کیونکہ زبان صرف اور صرف تبادلۂ خیالات اور ترسیل معلومات کا ایک ذریعہ ہے تاکہ مختلف مذہبوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ جذبات و احساسات کا اظہار اپنے طور پر کرسکیں۔
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.