July 14, 2023

جنوری 2023

اردو دنیا کے قارئین کو نیا سال مبارک!
لمحے تیزی سے گزرتے ہیں، ماہ و سال تبدیل ہو جاتے ہیں اور ہمارے ذہنی اور طبعی وجود میں نئی نئی ساعتیں شامل ہوتی جاتی ہیں مگر پرانے لمحے بھی ہمارے وجود کا حصہ بنے رہتے ہیں کہ دراصل انہی لمحوں کا محاسبہ کرکے ہم نئے لمحوں کا لائحہ عمل طے کرتے ہیں۔ محاسبہ ایک لازمی عمل ہے جس کے ذریعے ہم اپنی ناکامیوں اور کامیابیوں کا ایک گوشوارہ مرتب کرتے ہیں اور اس کی روشنی میں مستقبل کی منصوبہ سازی ہوتی ہے۔ محاسبہ صرف سال کے خاتمے پر نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ ہمیں ہر لمحے اپنی زندگی اور اس سے جڑی ہوئی کارکردگی کا احتساب کرتے رہنا چاہیے، تبھی ہمیں احساس ہوگا کہ ہم نے اپنے وقت اور ذہنی توانائی کا استعمال کیسے کیا اور اس کے کیا کیا ثمرات اور نتائج مرتب ہوئے۔
ماہ و سال تو بدلتے ہی رہتے ہیںکہ یہ ایک فطری عمل ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے ذہنی رویے اور فکری روش میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں آپاتی، جب کہ وقت اور حالات ہمیں تبدیلی کا اشارہ بھی دیتے ہیں۔ اگر ان تبدیلیوں سے ہماری زندگی ہم آہنگ نہیں ہوگی تو ہم پسماندہ ہی رہ جائیں گے، دنیا کی ترقی یافتہ اور زندہ قومیں عصری تغیرات پر نگاہ رکھتی ہیں اور یہی تبدیلیاں ان کی ترجیحات کا تعین بھی کرتی ہیں۔ وہ نئے نئے رویے، رجحانات، نظریات و میلانات کا تنقیدی محاکمہ کرتے ہیں اور ا ن کے مثبت پہلوؤں کو اپنی زندگی اور معاشرے کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ذہنوں پر قدامت پسندی اس قدر حاوی ہے کہ ہم بہت سی مثبت تبدیلیوں کو بھی گوارا نہیں کرتے اور ہماری زندگی پرانی سوئی پر ہی لٹکی رہتی ہے اسی لیے ہم علوم و فنون کے باب میں نئے تغیرات اور تبدیلیوں سے یا تو آشنا نہیں ہوپاتے یا ان تغیرات و تبدیلیوں کو مکمل طور پر نظرانداز کردیتے ہیں۔ زمانہ کتنی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور تہذیب و تمدن کی سطح پر ارتقا کا سفر کس طرح جاری ہے، اس پر ہماری نگاہ کم ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہم عصری تبدیلیوں سے اپنے معاشرے کو ہم آہنگ نہیں کریں گے تو ہمارے لیے آگے کا راستہ یقینی طو رپر بند ہوجائے گا۔ ہمیں نئے راستوں اور نئی منزلوں کی جستجو کے لیے عصری تغیرات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
2022 میں قومی اور عالمی سطح پر بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ معاشرتی، سیاسی، اقتصادی، تمدنی اور تہذیبی سطح پر بہت کچھ نیا ہوا۔ دیکھا جائے تو ہر لمحے یہ دنیا اپنا رنگ و روپ بدلتی رہی۔ سائنسی و تکنیکی سطح پر نئے نئے تجربے ہوتے رہے۔ سوال یہ ہے کہ ان تجربوں میں ہمارا کتنا اشتراک ہے اور ہم ان تجربوں سے کتنا فائدہ اٹھا پارہے ہیں۔ ادب بھی ایک تجربہ ہے اور گذشتہ چند برسوں میں کچھ نئے نئے تجربے بھی کیے گئے۔ اس سے قطع نظر کہ ان تجربوں کو کتنی مقبولیت ملی لیکن یہ بات باعث مسرت ہے کہ کم ازکم تجربے تو کیے جارہے ہیں، ورنہ عام طور پر ادب میں بھی جمود اور اضمحلال کی کیفیت طاری رہی ہے۔ وہ تحرک و طغیانی نہیں جو پہلے کے ادیبوں نے پیدا کرنے کی کوشش کی۔ زبان کی سطح پر بھی کچھ تجربے کیے گئے جن کے مثبت نتائج سامنے آئے،لیکن مجموعی طور پر محاسبہ کیا جائے تو ہمیں بہت سی سطحوں پر ابھی مزید متحرک اور فعال ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ فعالیت ختم ہوگئی تو ادب اور زبان دونوں کا بے حد خسارہ ہوگا۔ اردو زبان کا دائرہ وسیع تو ہورہا ہے مگر بہت سے علاقوں میں یہ زبان سکڑتی بھی جارہی ہے۔ اس لیے ہمیں اب کوشش کرنی ہے کہ جہا ں جہاں ہماری اردو زبان سمٹ رہی ہے وہاں ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ وہاں اردو زبان کو زندگی بھی ملے اور اس کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہو۔ اردو سے جڑی ہوئی بہت سی تنظیمیں او رادارے ہیں جو اس زبان کے تئیں خلوص اور محبت کا جذبہ بھی رکھتے ہیں وہ اگر اپنی کوششوں کا دائرہ اور وسیع کردیں تو یقینی طور پر یہ زبان دور دور تک پھیلے گی اور ان علاقوں میں بھی اپنے مثبت اثرات اور بہتر نقوش قائم کرنے میں کامیاب ہوگی جو ہماری زبان کے لیے ہنوز نامانوس اور اجنبی ہیں۔

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.