زبان یعنی قوت گویائی انسان اور حیوان کے درمیان ایک خط امتیاز ہے۔ انسان کو حیوانِ ناطق اس لیے کہا جاتا ہے کہ انسانوں کو اپنے جذبات، احساسات، مشاہدات اور تجربات کے اظہار کے لیے ایک زبان ودیعت کی گئی ہے اور یہ زبان بھی مختلف صورتوں اور شکلوں میں ہے۔ دنیا کے تمام ممالک کی زبان ایک جیسی نہیں ہے۔ زبانوں کا اختلاف دراصل الگ الگ اقوام کی شناخت کا ایک اہم جز ہے اور زبانوں کے تنوع کا اشاریہ بھی۔اگر ایک جیسی زبان پوری دنیا میں بولی جاتی تو شاید لوگوں کو بھی زبان کی یک رنگی سے وحشت ہونے لگتی۔
دنیا کی پہلی زبان کون سی تھی اور زبان اب تک زندہ ہے یا نہیں۔ اس تعلق سے ماہرین لسانیات ہی کچھ کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ پہلی زبان ہی سے ساری زبانیں وجود میں آئیں۔ زبانوں نے تشکیلی اور ارتقائی مرحلے طے کیے اور مختلف صورتوں میں اب یہ زبانیں پوری دنیا میں موجود ہیں۔
قدیم زمانے میں جو زبانیں تھیں موجودہ عہد میں وہ زبانیں شاید کم استعمال میں آتی ہیں یا اب صرف تحقیق کا موضوع بن کر رہ گئی ہیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ اگر یہ زبانیں نہ ہوتیں تو شاید ہمارے لیے تہذیب کا اتنا طویل سفر طے کرنا ممکن نہ ہوتا۔ زبانوں ہی کے ذریعے مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں سے آشنائی کی صورت نکلی۔ یہی وجہ ہے کہ پرانے زمانے میں الگ الگ زبانوں کے علمی اور ادبی سرمایے کو اپنی اپنی زبانوں میں منتقل کرنے کی کوششیں کی گئیں اوراس طرح الگ الگ ممالک کے درمیان تہذیبی اور ثقافتی اشتراک، ترابط اور تفاہم کی ایک شکل سامنے آئی۔
مختلف قوموں کی الگ الگ زبانیں اور اظہار کے اسالیب ہیں اور ان زبانوں میں علوم و فنون کا قیمتی سرمایہ ہے۔ ہم ترجمے کے ذریعے ہی ان زبانوں کے ثقافتی و علمی سرمایے سے فیض حاصل کرپاتے ہیں۔ اگر صرف ایک ہی زبان ہوتی تو شاید ترجمے کا وجود نہ ہوتا اور مختلف اسالیب اور اظہارات وجود میں نہ آتے۔ زبانوں کی کثرت ہمارے لیے ایک نعمت ہے اور ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے اور دنیا کی تمام زبانوں کا احترام بھی کہ زبانیں مکالمے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ زبانوں کی بنیاد پر جنگیں بے معنی ہیں کیونکہ زبان صرف اظہار کا ایک ذریعہ ہے اور کوئی ضروری نہیں کہ ہر قوم اور ملک کا ذریعہ اظہار ایک ہی ہو۔ بہرحال زبان کوئی بھی ہو اس سے ہماری تہذیب و ثقافت میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر ترقی یافتہ عالمی زبانوں میں بیش بہا علمی اور ادبی سرمایہ ہے۔ اس لیے کسی بھی زبان کی اہمیت و معنویت سے انکار نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم ہماری تاریخ، تہذیب و ثقافت جس زبان میں محفوظ ہے اس کی بقا اور تحفظ کے لیے بھی کوشاں رہنا چاہیے، چونکہ اپنی ثقافت، تاریخ اور تہذیب سے آشنائی کا ایک ذریعہ وہی زبان ہے جس میں ہم لکھتے، بولتے اور پڑھتے ہیں۔
آج کے عہد میں مادری زبان کی اہمیت یوں بھی بڑھ گئی ہے کہ ہم مادری زبان کے ذریعے ہی اپنے روشن ثقافتی ، تہذیبی، تمدنی اور تاریخی آثار و نشانات اور علامات سے روشناس ہوپاتے ہیں۔ اگر ہم مادری زبان سے رشتہ نہیں رکھیں گے تو ہمارے لیے تفہیم و اظہار کی بہت سی راہیں مسدود ہوجائیں گی، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ مادری زبان میں سائنسی، طبی اور دیگر علوم کے تراجم کیے جائیں تاکہ ہماری راہ میں زبان کی دیوار حائل نہ ہو۔ حکومت بھی مادری زبان پر زیادہ توجہ اس لیے مرکوزکررہی ہے کہ علوم و فنون کی تحصیل میں جو رکاوٹیں ہیں وہ دور ہوجائیں۔ ہمیں اپنی مادری زبان کے تحفظ اور بقا کے لیے کوشاں رہنا چاہیے کیونکہ یہی زبان ہمیں زمین سے آسماں تک کی بلندی کا سفر طے کرانے میں مددگار ثابت ہوگی۔
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.