July 14, 2023

جنوری تا مارچ 2021

اردو زبان نہایت کشادہ اور وسیع ترین تناظرات کی حامل ہے اور اس زبان میں بیشتر علوم و فنون کے ذخائر موجود ہیں۔ حتیٰ کہ سائنسی، سماجی، معاشی اور عمرانی علوم سے متعلق کتابیں بھی اردو میں دستیاب ہیں۔ ’قاموس الکتب‘ او ر’معجم المطبوعات‘ جیسی کتابیں اردو میں دیکھی جائیں تو اندازہ ہوگا کہ اردو میں کن کن علوم و فنون پر کتابیں لکھی گئی ہیں۔طب اور میڈیکل سے متعلق اردو میں بہت سی ایسی اہم کتابیں ہیں جن کی طرف اب ہماری توجہ بھی نہیں جاتی اور نہ ہی ان کتابوں سے لوگ اب استفادہ کررہے ہیں۔ صنعت و حرفت اور زراعت کے حوالے سے بھی اردو میں کتابیں ہیں۔ دوسری زبانوں سے تراجم کے ذریعے بھی اس زبان نے اپنے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کیا ہے۔ بہت سے ایسے ادارے ماضی میں رہے ہیں جہاں سائنسی اور تکنیکی علوم کے ترجمے کیے گئے۔ اس طرح اس زبان کو عصری مطالبات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی۔
ماضی میں جب وسائل کم تھے تو اس زبان کا ارتقائی سفر بہت کامیاب رہا اور اس زبان سے جڑے ہوئے افراد نے محنت و ریاضت سے اس زبان کے اندر تکمیل کے سارے لوازمات تلاش کیے جس کے باعث یہ زبان اتنی وسیع ہوگئی کہ شاید ہی کوئی ایسا علم ہو جس پر اس زبان میں طبع زاد یا ترجمہ شدہ کتابیں نہ ہوں، لیکن اب حالات قدرے بدل گئے ہیں۔ اس کشادہ زبان کی موضوعاتی زمین بتدریج تنگ ہوتی جارہی ہے، موضوعات کی سطح پر دیکھا جائے تو ایک تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ پرانے لوگوں نے جن موضوعات پر کتابیں، مضامین یا مقالے تحریر کیے انہی کی تکرار اور اعادے کی صورت اب نظر آنے لگی ہے۔ آج جب کہ تحقیق کے لیے جدید ترین ذرائع اور وسائل موجود ہیں، تو ایسے میں تکرار یا اعادے سے تکدر کا احساس ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جدید ترین تکنیک کے ذریعے نئے نئے انکشافات کیے جاتے اور آج کی صورت حال سے موضوعات کو مربوط کیا جاتا مگر ایسا نہیں ہوپارہا ہے۔ بس چند ہی موضوعات میں ہمارے مقالے اور مضامین محصور ہوکر رہ گئے ہیں، یہ نہایت افسوس ناک صورت حال ہے۔ پہلے بھی اس کے حوالے سے گفتگو ہوتی رہی ہے، مجلات و رسائل میں بھی اس تعلق سے ذی شعور افراد لکھتے رہے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ اس طرح کے مفید اور مثبت خیالات کے حوالے سے گفتگو آگے نہیں بڑھ پاتی، اس لیے موضوعات کی تنگی کی شکایت برقرار رہتی ہے۔
اردو میں معدودے چند تحقیقی مجلات نکل رہے ہیں ان کے مشمولات پر نظر ڈالی جائے تو ان میں بھی پرانے موضوعات کی تجدید ہی نظر آتی ہے ۔ اس لیے اب ہمیں سنجیدگی کے ساتھ ان موضوعات کی جستجو کرنی چاہیے جو معاشرے کے لیے مفید ہوں اور جن میں کچھ نئی جہتیں اور نئے زاویے ہوں۔ بہت سے تذکروں میں ایسی باکمال شخصیات ملتی ہیں جنھوں نے علوم و فنون، زبان و ادب کے ذیل میں بہت اہم خدمات انجام دی ہیں مگر ان کے تعلق سے تحقیقی اور تنقیدی مقالے کم لکھے جاتے ہیں۔ قصبات اور قریات میں بہت سے مخطوطات اور نایاب کتابیں موجود ہیں جن پر تحقیق و تعلیق کی ضرورت ہے اور جن کی اشاعت سے یقینا ادبی اور علمی تاریخ کو ایک نئی جہت مل سکتی ہے مگر اس طرف بھی توجہ ذرا کم دی جاتی ہے۔ خاص طور پر مشکل موضوعات پر تحقیق کم ہورہی ہے۔ علم لسانیات نے بہت ترقی کی ہے ۔ انگریزی اور دیگر زبانوں میں لسانیات کے حوالے سے نئے ڈسکورس سامنے آرہے ہیں، اردو میں بھی لسانیات کے حوالے سے اسی نوعیت کا کام ہونا چاہیے۔ لسانیات کے علاوہ اور بھی موضوعات ہوسکتے ہیں جن پر عمدہ تحقیق کی جاسکتی ہے۔ لیکن ایسے موضوعات کی جستجو نہیں کی جاتی، یہ افسوس ناک ہے۔
سہ ماہی ’فکر و تحقیق‘ بھی تحقیقی نوعیت کا مجلہ ہے جس میں کوشش کی جاتی ہے کہ کچھ نئے موضوعات پر مضامین کی شمولیت ہو۔مگر اس قحط الرجال کے دور میں یہ کوشش کم ہی پوری ہوتی نظر آتی ہے۔ پھر بھی ہر شمارے میں ایک دو نئے عنوانات اور نئے موضوعات کی وجہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کچھ افراد کی وجہ سے تحقیق کا اعتبار اب بھی قائم ہے اور یقینا یہ ہماری اردو تحقیق کے لیے خوش آئند بات ہے، خاص طور پر ان علاقوں کی علمی اور ادبی بازیافت ہورہی ہے جن پر بہت کم مواد دستیاب ہے یا جن کے حوالے سے ہمارے پاس زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ہمیں ان علاقوں کو ترجیحی طور پر اپنی تحقیق اور تنقید میں شامل کرنا چاہیے جنھیں مدتوں سے نظرانداز کیا گیا ہے، وہاں کے علمی اور ادبی ذخائر کی تلاش بھی اب ہمارے لیے ضروری ہوگئی ہے، تبھی کچھ نئے تحقیقی موضوعات سامنے آئیں گے اور ہمیں ان موضوعات پر کام کرنے کی تحریک ملے گی۔
سہ ماہی ’فکر و تحقیق‘ کے اس شمارے میں اس نوع کے کچھ مضامین شامل ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ بھی ’فکر و تحقیق‘ کو اسی طرح کے مضامین اشاعت کے لیے موصول ہوتے رہیں گے۔

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.