July 14, 2023

جولائی تا ستمبر 2022

تغیراتِ زمانہ کا مسائل اور موضوعات پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ عہد کی تبدیلیو ںکے ساتھ ہی ہمارے مسائل اور موضوعات تبدیل ہوجاتے ہیں اور ترجیحات بھی بہت حد تک بدل جاتی ہیں۔ تحقیق انہی تغیرات اور تبدیلیوں کے پیش نظر اپنے طریق کار اور اندازنظر اختیار کرتی ہے۔ سماجی اور سائنسی تحقیق میں تغیرات زمانہ کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا ہے۔ تبدیلیِ عہد کے اعتبار سے موضوعات کا تعین کیا جاتا ہے اور پرانے تحقیق شدہ مسائل اور موضوعات پر بھی ازسر نو غور و فکرکیا جاتاہے اور اس کے نتیجے میں جو نئی معلومات اور اطلاعات سامنے آتی ہیں وہ تحقیق کا حصہ بن جاتی ہیں اور پرانے نتائج کو سرد خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
تحقیق کے لیے یہی طریق کار مناسب ہے کہ نئے طور پر اشیا یا حقائق کا تجزیہ کیا جائے، چونکہ اشیا کی ماہیتیں اور حقائق عہد کے اعتبار سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سائنس کے میدان میں نئی نئی تحقیقات سامنے آتی ہیں اور ہم نئے حقائق سے روبرو ہوتے ہیں۔ مگر ادبیات کا معاملہ ذرا مختلف ہے کہ یہاں عصری تغیرات یا تبدیلیوں کا خیال ذرا کم رکھا جاتا ہے، اسی لیے ان موضوعات پر بھی تحقیق ہوتی ہے جو پامال و فرسودہ ہیں اور جن کا عصری مطالبات اور تقاضوں سے رشتہ کم ہوتا ہے۔ پرانے مفروضوں پر ہی تحقیق کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے، نہ کوئی نیا زاویہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی نئی نظر ہوتی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ادبی تحقیقات کی معنویت مجروح ہوتی جارہی ہے اور اسے اعادہ یا تکرار سے تعبیر کیا جانے لگا ہے۔ جس طرح سائنسی اور سماجی تحقیق کے طریق کار میں تبدیلیوں کا خاص طو رپر خیال رکھا جاتا ہے اسی طرح اگر ادبی تحقیقات میں بھی ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو اس کے اچھے اور مفید ثمرات سامنے آئیں گے۔ نئی نئی تحقیقات اور نئے نئے نتائج سے ہم آشنا ہوپائیں گے۔
نئے عہد میں کس طرح کے تحقیقی موضوعات کی ضرورت ہے اور کن موضوعات سے اجتناب برتا جانا چاہیے اس پر بھی غور و فکر ضروری ہے کیونکہ موضوعات کی تکرار اور اعادے سے بچنے کا یہی ایک راستہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب کوئی نیا زاویہ نظر سامنے ہی نہیں آتا، تو آخر ایسی تحقیق میں اپنی توانائی، ماہ و سال اور قوت ضائع کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ جب تک تحقیق سے علمی سطح پر کوئی فائدہ نہ ہو وہ تحقیق کارِعبث ہی کہلائے گی۔ اس لیے اب ضرورت ہے کہ تحقیق کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جائے جن پر واقعی تحقیق کی ضرورت ہو۔ عمومی نوعیت کے موضوعات جن کا سماجی اور معاشرتی افادیت یا علمی معنویت سے کوئی رشتہ نہ ہو ان پر اب تحقیق کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی زیادہ تر تحقیقات میں محقق کی اپنی ریاضت شامل نہیں ہوتی اور نہ ہی اس سے معاشرے کو فائدہ پہنچنے کا کوئی امکان رہتا ہے۔ اس لیے ہمیں تحقیق کے حوالے سے ایک نئی حکمت عملی طے کرنی ہوگی اور جس طرح دوسرے میدانوں میں محققین مختلف سطحوں پر اپنی توانائی کا استعمال کرتے ہیں اور نئے زاویے تلاش کرتے ہیں اسی طرح اگر ادبیات سے جڑے ہوئے اسکالرس بھی نئی جہتیں تلاش کریں تو اس سے ادبیات کی تحقیق کا وقار اور اعتبار بھی قائم رہے گا اور نئے حقائق بھی ہمارے سامنے آئیں گے۔
تحقیق کے سلسلے میں سائنسی اور سماجی تحقیق اور طریق کار کو مشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ تحقیق کی معنویت، افادیت اور اہمیت برقرار رہے ورنہ رفتہ رفتہ جس طرح زوالِ تحقیق کے حوالے سے حقائق سامنے آرہے ہیں تحقیق اپنی حیثیت کھو دے گی۔ضرورت ہے کہ اب تحقیقی مسائل و موضوعات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور اس کے لیے نئے ضوابط اور طریق کار اختیار کیے جائیں تاکہ ادبیات کے باب میں تحقیق کا اعلیٰ اور معیاری نمونہ سامنے آسکے۔
اردو میں جو تحقیقی مجلات شائع ہوتے ہیں ان میں کچھ ہی مقالے ایسے ہوتے ہیں جن میں محنت و ریاضت نظر آتی ہے ورنہ عام طور پر چبائے ہوئے نوالوں کوہی چبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تحقیق کا جذبہ اور جنون ختم ہونے لگتا ہے تو ایسی ہی صورت حال پیدا ہوتی ہے اور ایک بحرانی کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر بھی غنیمت ہے کہ ایسے بھی کچھ تحقیقی مضامین نظر میں آجاتے ہیں جن میں محققین محنت اور ژرف نگاہی سے کام لیتے ہیں۔
سہ ماہی ’فکر و تحقیق‘ میں کوشش کی جاتی ہے کہ ایسے مضامین کی ہی شمولیت ہو جن سے ہمارے دائرۂ علم و آگہی میں اضافہ ہو۔ اس شمارے میں بھی کچھ ایسے مضامین ہیں جن سے معلومات کے نئے دریچے کھلیں گے اور ایسے حقائق سے آگہی ہوگی جن سے شاید پہلے واقفیت نہ رہی ہو۔ اسی طرح کے مضامین سے کسی بھی تحقیقی مجلے کا وقار قائم ہوتا ہے۔ مقامِ شکر ہے کہ ’فکر و تحقیق‘ میں کچھ محققین کی ایسی کاوشیں شامل ہیں جن میں بیش قیمت معلومات ہیں۔
تازہ شمارہ کے مشمولات کے حوالے سے آپ کے تاثرات کا انتظار رہے گا!

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.