خواتین و حضرات! میرے لیے یہ خوشی اور فخر کی بات ہے کہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی پہلی بار ایک ایسی غیرمعمولی شخصیت کے حوالے سے دو روزہ قومی سمینار کا انعقاد کررہی ہے جسے تاریخ میں ’بھولا بسرا مغل شہزادہ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اُسی بھولی ہوئی شخصیت کو یاد کرنے اور ان کے افکار و تصوُرات کو ذہنوں میں زندہ کرنے کے لیے آج ہم سب یہاں جمع ہوئے ہیں جس میں ہر طبقے اور ہر مکتبِ فکر کے افراد ہیں اور ان میں سے بیشتر کے لیے اس شخصیت کے خیالات مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
وہ ایک ایسی شخصیت تھی جسے بدقسمتی سے ہندوستان کی حکمرانی تو نصیب نہیں ہوئی مگر آج بھی وہ شخص اپنے وژن کی وجہ سے کروڑوں دلو ںاور ذہنوں پر راج کررہا ہے۔ اگر وہ خوش قسمتی سے ہندوستان کا حکمراں ہوتا تو ہمارے ملک کی تاریخ، تصویر اور تقدیر بالکل بدلی ہوئی ہوتی۔ ہمارا ملک پوری دنیا میں ایک مثالی معاشرہ اور آئیڈیل سوسائٹی کی حیثیت سے جانا جاتا کیونکہ وہ ایسا فرد تھا جو صحیح معنوں میں مذہبی رواداری، سماجی ہم آہنگی، اتحاد پسندی، باہمی محبت،تنوع میں وحدت، (Unity in diversity) اور مخلوط معاشرت اور ثقافت کا قائل تھا، جو یہ جانتا تھا کہ ’گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن‘ اور جسے یہ پتہ تھا کہ اس ملک کی خوبصورتی، اس کے تنوع (Diversity)میں ہے۔ اگر صرف اس ملک میں مندر ہوتے تو اتنی سُندرتا نہ آتی، صرف مسجدیں ہوتیں تو یہ ملک اتنا خوبصورت نہ ہوتا، صرف چَرچ ہوتے تو اتنی بیوٹی نہ ہوتی۔ اس ملک کا سارا حسن و جمال مندر ، مسجد، گردوارے، چرچ اور مختلف مذاہب کے امتزاج سے ہے۔
یہ وہ شخص تھا جو ہندوستان کے امتزاجی معاشرے کا علمبردار تھا اور سچ پوچھیے تو ہندوستانیت کی ایک روشن علامت تھاجسے آج ہندوستانیت کا مظہرEpitome of Indianness کہا جاسکتا ہے۔ گنگا جمنی تہذیب کی ایک سچی مثال جس نے طبقات اور مختلف خانوں میں بٹے ہوئے پورے ہندوستانی معاشرے کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کی۔ جو نہ صرف تمام ادیان کا احترام اور تمام دھرموں کا سمّان کرتا تھا بلکہ اس کا تصور یہ تھا کہ دنیا کے تمام مذاہب ایک ہیں، راستے الگ الگ سہی مگر منزل ایک ہے۔ ہر مذہب میں سچائی اور صداقت موجود ہے۔ ہر مذہب ایک روشنی کی مانند ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس نے ہندومت اور اسلام کے درمیان نقطۂ اشتراک کو تلاش کیا اور یہ ثابت کیا کہ ہندومت اور اسلام میں بہت سی چیزیں ایک جیسی ہیں۔ دونوں کے عقائد اور اخلاقیات میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں، خاص طور پر دونوں کا نظریہ توحید ایک ہے، سزا اور جزا کا تصور ایک ہے اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جو دونوں میں مشترک ہیں۔
ایسی بات کہنے والا یا ایسا تصور رکھنے والا کوئی معمولی شخص نہیں تھا، وہ مغل شہنشاہ شاہجہاں کا سب سے بڑا بیٹا داراشکوہ تھا جسے شہنشاہی سے زیادہ فقیری اور درویشی، تصوف اور بھکتی سے دلچسپی تھی۔ جو سلسلہ قادریہ سے جڑا ہوا تھا اور ان صوفیاء کرام سے اس کا گہرا رشتہ تھا جن کی زندگی کا شِعار محبت ِانسانی، احترامِ انسانیت اور خدمت خلق ہے۔ جہاں یہ تصور عام ہے کہ تمام مخلوق اللہ کا کُنبۡہ ہے، بَنِیۡ نَوعِ انسانی ایک ہی امت اور ایک ہی جماعت ہے جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے۔ اللہ کے بندوں میں کسی طرح کی تفریق جائز نہیں ہے۔
دارا شکوہ کا ذہنی سلسلہ ان صوفیاء کرام سے جڑا ہوا تھا جن کے دروازے بلا تفریقِ مذہب و ملت ہر عام و خاص کے لیے کھلے رہتے تھے، جہاں عقیدے اور مذہب کی کوئی قید نہیں تھی، جن کے نزدیک انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب تھا۔ ان کے پاس حسن سلوک، عدل و انصاف کا ایک جامع تصور تھا۔ ان کے نزدیک آدمی کا اتنا احترام تھا کہ وہ قرآن کی اس آیت کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ جس نے کسی ایک شخص کا قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔ اسی لیے انھوں نے تشدد اور تعصب کی بات کبھی نہیں کی بلکہ ہمیشہ انسانیت کی بات کی۔
ان صوفی سنتوں کا خیال یہ بھی تھا کہ جب ایک ہی چراغ سے کعبہ و بت خانہ روشن ہیں تو پھر کفر اور دین کی تفریق کیوں؟ اور یہی خیال داراشکوہ کے ذہن میں نقش تھا، اسی لیے انھوں نے ایک بار شاہ مُحبُّ اللہ الہ آبادی جیسے صوفی سے یہ پوچھا تھا کہ کیا ہندو اور مسلمان میں فرق کیا جاسکتا ہے؟ توشاہ محب اللہ الٰہ آبادی نے جواب دیا یہ بالکل جائز نہیں ہے۔صوفی سنتوں کا وطیرہ ہمیشہ اتحاد و یگانگت کا رہا ہے۔ انھوں نے ہر اس فکر اور فلسفے کو قبول کیا جس میں انسانیت کی فلاح اور صلاح تھی، چنانچہ ایک بڑے صوفی حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری نے ’بَحۡرُالۡحَیَات‘ کے نام سے سنسکرت کے ’اَمۡرِتۡ کُنۡڈ‘ کا ترجمہ کیا اور یوگا کے فوائد بتائے۔ یہ وہ لوگ تھے جو ویدانت، یوگ سے واقف تھے۔
صوفیوں میں ایسے افراد کی بھی تعداد زیادہ ہے جو ہندو فلسفے سے بھی اچھی طرح آگاہ تھے۔ خود محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء کی خانقاہ میں جوگی اور برہمن آتے جاتے رہتے تھے اور ان سے فیض حاصل کرتے تھے۔ حضرت نے بھی اسی لیے کہا تھا کہ ہر قوم کا الگ قبلہ اور دین ہوتا ہے اور وہ کسی کو بھی غیریت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ صوفیوں میں ایسے لوگ بھی رہے ہیں جنھوں نے ہندو یوگیوں سے اچھی باتیں سیکھیں اور یہ بتایا کہ تصوف اور ویدانت دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ رام رحیم دونوں ایک ہیں۔ ان لوگوں نے عشق کی تعلیم دی اور یہی عشق ان کی زندگی کا منشور تھا۔
داراشکوہ پر انہی صوفیوں او رسنتوں کا بہت گہرا اثر رہا، اس لیے داراشکوہ نے مشترکہ عقائد پر گفتگو کی۔ ہندو مت اور اسلام کے مشترک تصورات پر بات کی اور بینَ الۡمَذاہِبۡ مُکالمے (Interfaith dialogue)کی ایک بہتر صورت نکالی۔ اس کی وجہ سے داراشکوہ معتوب بھی ہوئے۔ ان کو دائرۂ اسلام سے خارج بھی کیا گیا اور مرتد ہونے کے الزام میں ان کا قتل بھی ہوا مگر بنیادی طور پر داراشکوہ صلح کل کے آدمی تھے۔ وہ سنت کبیر اور مولانا رومی کے افکار سے بہت متاثر تھے۔ اسی لیے انھوں نے مذاہب کے تقابلی مطالعے پر مَبۡنی ایک کتاب ’مَجۡمَعُ الۡبَحۡرَین‘ (دو سمندروں کا سنگم)تصنیف کی اور ایک مشترکہ علمی اور روحانی وراثت کو تلاش کرکے اس نتیجے پر پہنچے کہ تمام مذاہب میں حق کا راستہ ایک ہی ہے اور اسی کتاب میں انھوں نے ویدانت اور تصوف کے مشترکہ عناصر پر بھی جامع اور مبسوط گفتگو کی۔
تصوف سے ان کے گہرے رشتے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ داراشکوہ کی پیدائش خواجہ معین الدین چشتی کے شہر اجمیر میں ہوئی تھی اور یہ خواجہ صاحب کی دعا کی برکت اور قبولیت تھی کہ داراشکوہ کا جنم ہوا۔ مغل شہنشاہ شاہجہاں نے خواجہ صاحب کے دربار میں بیٹے کے تولُّدۡ کی دعا مانگی تھی۔ شاہجہاں اس وقت تین بیٹیو ںکا باپ تھا۔ بادشاہ کو ایک بیٹے کی چاہت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی اور داراشکوہ پیدا ہوئے۔ ظاہر ہے کہ اس سرزمین کی روشنی اور خوشبو کا اثر بھی ان کی سَرِشۡت پر پڑا اور اسی وجہ سے داراشکوہ کا فطری اور طبعی رجحان تصوف کی طرف رہا اور تصوف کی بنیادی تعلیمات اور افکار نے ان کے ذہن و فکر کو متاثر کیا۔ صوفیا کے طرزِ فکر اور طرزِ عمل کو انھو ںنے اختیار کیا۔
داراشکوہ نے جہاں تصوف کے حوالے سے بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا وہیں شاہ محب اللہ الہ آبادی ، ملا شاہ بدخشی، میاں جیو اور مجذوب سرمد سے بھی ان کا بہت گہرا تعلق رہا۔ اس کے علاوہ داراشکوہ نے یوگیوں میں بابا لال یوگی، پنڈت جگن ناتھ اور ویدانت کے دیگر ماہرین سے اپنا تعلق رکھا اور ان سے مسلسل رشتے کے نتیجے میں ان کے ذہن و فکر کے دروازے کھلتے گئے۔ہندو یوگیوں سے ان کا گہرا رشتہ تھا۔ انھوں نے شنکر آچاریہ، رامانُج اور کبیر کی بھکتی سے بہت اثر قبول کیا تھا۔ اسی وجہ سے انھوں نے نہ صرف سنسکرت زبان سیکھی بلکہ باضابطہ سنسکرت ادب کا مطالعہ کیا اور ہندومت کی کتابوں کے ترجمے فارسی میں کیے تاکہ ہندو فلسفے کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور دونوں مذاہب کے مابین جو غلط فہمیاں اور شکو ک و شبہات ہیں ان کا اِزالہ ہوسکے۔
مسلمان صوفیاء اور یوگیوں سے تصوف اور ویدانت کے مسائل پر داراشکوہ کی بڑی اہم گفتگو ہوا کرتی تھی۔ ان سوالات اور جوابات نے ان کو اسلام، ویدانت اور بھکتی کے بارے میں پوری معلومات مہیا کردی اور ان کے ذہن کو بھی صاف کیا اور انھیں اس بات کا احساس دلایا کہ فقیر بن کر انسان کی خدمت کرنا حکومت کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ داراشکوہ نے سلطنت کے بجائے درویشی کو ترجیح دی۔
ہندوستانی فکر و فلسفہ تہذیب و ثقافت پر داراشکوہ کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ان اُپنشدوں کو باہری دنیا میں مُتعارَف کرایا جس میں حکمت و دانش کا بیش بہا خزانہ تھا۔ وہی پہلا شخص تھا جس نے 52 اپنشدوں کا فارسی میں ترجمہ کیا اور ہندو مت اور اسلامی تصوف کے درمیان ایک مشترکہ بنیاد کی تلاش کی، انہی کے ترجموں کے بعد اُپنشد کا ترجمہ فرانس، جرمنی اور دوسرے مغربی ممالک میں ہوا۔مشہور فرانسیسی سیّاح برنیئر اس ترجمے کو فرانس لے کر گئے۔ فرانس کے حلقے میں اس کی بڑی پذیرائی ہوئی اور ہندوستانی فلسفے کے تئیں ایک عقیدت اور محبت کا سیلاب امنڈ پڑا۔ ایک مشہور فرانسیسی فلسفی Victor Cousin نے ویدانت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ انسانی کائنات کا ایک عظیم فلسفہ ہے۔ Friedrich Von Schelling، Arthur Schopenhauer، Paul Deussen، بھی اُپنشد سے بہت متاثر ہوئے اور میکس مولر کو مجبور کیا کہ وہ اس کا نہ صرف ترجمہ کریں بلکہ جرمن میں اس کی تشہیر و تبلیغ کریں۔
شوپنہاور جیسا دانشور ’اپنشد‘ کا بہت بڑا مداح تھا۔ کلکتہ میں ایشیاٹک سوسائٹی کے بانی سر ولیم جونس نے بھی اُپنشد کی بہت تعریف کی اور کہا کہ یہ ایک عظیم صحیفہ ہے۔ مغربی دنیا میں اپنشدوں کو متعارف کرانے کا سہرا داراشکوہ کے سر جاتا ہے۔ اگر داراشکوہ نے اس میں دلچسپی نہ لی ہوتی تو شاید اپنشد کا حلقۂ اثر اتنا وسیع نہ ہوتا۔ اس لیے ہمیں داراشکوہ کا ممنون ہونا چاہیے کہ اس نے اپنشد کے فلسفے کی تبلیغ و تشہیر کی اور ویدانت اور اسلامی تصوف کے درمیان ایک نقطۂ اتحاد تلاش کیا اور صرف یہی نہیں کہ انھوں نے اسلام اور ہندو مت کی مشترکہ روایت اور وراثت پر زور دیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ قرآن کریم میں جس کِتاب المَکنُون کا ذکر ہے وہ دراصل ’اپنشد‘ ہی ہیں۔ چنانچہ انھوں نے سِرِّ اکبر کے عنوان سے اُپنشد کا فارسی میں ترجمہ کیا۔
صوفی سنتوں اور سنیاسیوں، یوگیوں، پنڈتوں اور عالموں سے سوال و جواب کرکے بہت ساری معلومات حاصل کیں اور تحقیق و جستجو کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ اسلام اور ہندو مت میں صرف الفاظ اور مَفَاہیم کا فرق ہے باقی دونوں مذاہب کی ماہیت اور روح ایک ہے اور یہ بھی بتایا کہ دونوں مذاہب میں صلح و آشتی اور امن کی تعلیم دی گئی ہے اور یہ بھی کہ دو متضاد چیزیں روحانی سطح پر ایک ہوسکتی ہیں۔ ’مَجمعُ البحرین‘ میں انھوں نے پانچ بھوت، پنج اِندری، دُھن، آتما پرماتما، تِرگُن، تری مورتی، اُوم، نرنجن، برہمانند جیسے ہندو فلسفوں اور نظریوں کو بیان کیا اور اسلامی تصوف کے ذریعے ان کے اشتراک کی جستجو کی۔ ا س طرح انھوں نے دونوں مذاہب کے بنیادی تصورات میں مماثلت کو بیان کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ مسلمان جس طرح ذاتِ مطلق، علیم، قادر، بصیر وغیرہ کہتے ہیں اسی طرح ہندو، تِرگُن، نرنکار، نرنجن، ستیہ وغیرہ کہتے ہیں۔ مسلمان جنھیں ’مظہر‘ کہتے ہیں ہندو انھیں ’اوتار‘ کہتے ہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک جو ’وحی‘ ہے ہندوؤں کے یہاں وہ ’آکاش وانی‘ ہے۔ مسلمان جنھیں ’کتب آسمانی‘ کہتے ہیں ہندو انھیں ’وید‘ کہتے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کے یہاں ’قیامت‘ کا تصور ہے تو ہندوؤں کے یہاں ’پَرلِے‘ کا۔
داراشکوہ بنیادی طور پر اپنشد کے فلسفے سے بہت متاثر تھے اسی لیے انھوں نے اپنشد کا ترجمہ ہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنشد کے افکار کی تشریح بھی کی اور اس سلسلے میں بہت سے اہم مفسرین اور مفکرین سے مدد بھی لی ہے۔
داراشکوہ ایک ایسا شخص تھا جس نے تصوف اور ویدانت کا بہت ہی گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مطالعہ کیا تھا اور اس سلسلے میں انھوں نے اتنی فراخ دلی اور وُسعت نظری کا مظاہرہ کیا کہ تمام مذاہب کے بڑے علما سے نہ صرف تعلقات قائم کیے بلکہ ان کی صحبتوں سے فیضیاب بھی ہوئے۔ تصوف اور بھکتی کا عرفان حاصل کیا ۔ انھوں نے جہاں مسلمان صوفیوں سے اپنے تعلقات اور رشتے قائم کیے وہیں ہندو جوگیوں سے بھی ان کے بڑے گہرے مراسم تھے۔ انھوں نے اسلامی تصوف کی تعلیم حضرت میاں میر سے حاصل کی جنھوں نے اپنے دست مبارک سے سکھوں کے مقدس دربار کا سنگ بنیاد رکھا تھا جسے آج ’گولڈن ٹیمپل‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ وہ ملا شاہ بدخشی کے مرید تھے۔ اسی طرح ہندو جوگیوں میں انھو ںنے سنت کبیر کے پیروکار لائی داس سے ویدانت کا فلسفہ سیکھا۔ ان کا ایک مکالمہ بابا لال بیراگی سے بہت مشہور ہے۔ بیراگی سے ان کی بہت طویل ملاقاتیں رہی ہیں اور ان دونوں کے درمیان جو سوال و جواب ہوئے ہیں، اس میں اسلامی تصوف اور ویدانت کے حوالے سے بڑی قیمتی گفتگو ہے۔ اس طرح داراشکوہ نے ہندو مت اور اسلام کے درمیان ایک مضبوط رشتے اور قُربَتۡ کو تلاش کیا اور اس تنگ نظری کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی جو مذہبی بنیاد پر روا رکھی گئی تھی۔
صوفیا سے انھیں اتنی عقیدت تھی کہ انھوں نے ’سَفِیۡنَۃُ الۡاَوۡلِیَا‘ کے نام سے25 سال کی عمر میں کتاب لکھی جس میں 411 صوفیائے کرام کا تذکرہ ہے۔ انھوں نے صوفی سلسلے سے متعلق بہت سی معلومات اس میں پیش کی ہیں۔ اسی طرح انھوں نے 28 سال کی عمر میں ’سَکِیۡنَۃُ الۡاَولِیاء‘ کے عنوان سے بہت ہی اہم کتاب تصنیف کی جس میں صوفی شیخ میاں میر، ملا شاہ اور ان کے روحانی شاگردوں کے احوال تحریر کیے ہیں۔ اس کتاب میں انھوں نے پیر ملا شاہ بدخشی کا ذکر بھی کیا ہے اور میاںمیر جیو کا بھی جو ان کے پیر تھے جن کے تئیں ان کے دل میں بڑی عقیدت و محبت تھی۔ ’سکینۃ الاولیاء‘ میں قادریہ، نقشبندیہ، چشتیہ اور سُہروردیہ سلسلوں کے بارے میں بہت تفصیل سے معلومات ہیں۔ اسی کتاب میں انھوں نے سانس روکنے کے تعلق سے بھی لکھا ہے جو ہندو یوگیوں کی عبادت کا ایک حصہ ہے۔ اسی طرح رسالہ ’حق نما‘ ان کی ایک اہم تصنیف ہے جس میں تصوف اور معرفت کے حوالے سے بڑی عمدہ گفتگو ہے۔ اس میں حکمت عرفانی کے بڑے اہم راز کا انکشاف ہے۔ رسالہ ’حق نما‘ میں عالم ناسوت، جبروت،لاہوت اور ملکوت کا ذکر ہے۔ اسی کتاب میں انھوں نے ’وحدۃ الوجود‘ پر بھی گفتگو کی ہے جس میں بتایا ہے کہ سالک کا دل غیرُاللہ سے خالی ہونا چاہیے۔ اس میں انھوں نے اسی فلسفے پر زیادہ زور دیا ہے جو ابن عربی کا ہے۔ اسلامی عرفان اور ہندو ویدانت کے درمیان اس میں اشتراک پر گفتگو ملتی ہے۔’حَسَناتُ الۡعارفِیۡن‘ میں بھی انھوں نے مختلف صوفیاء کے اقوال کو جمع کیا ہے اور اس کتاب میں یہ وضاحت کی ہے کہ میں نے یہ اقوال اس لیے جمع کیے تاکہ میرے اوپر کفر کا الزام لگانے والے عبرت حاصل کریں۔ اس کتاب میں انھوں نے بایزید، ذُوالنون مصری، عبدالقادر جیلانی کے علاوہ بابا لال یوگی کے زریں اقوال بھی تحریر کیے ہیں اور یہ واضح کیا ہے کہ روحانیت کی حقیقت کیا ہے اور روحانیت کے مدارج کیسے طے کیے جاسکتے ہیں؟
داراشکوہ کا وژن بہت وسیع تھا۔ انھوں نے ہندوستانی معاشرے کو ایک نئی سوچ ایک نئی روشنی دی اور یکجہتی کی اس روایت کو قائم کرنے کی کوشش کی جس کا سلسلہ اکبر کے زمانے سے شروع ہوگیا تھا کہ انھیں کے عہد میں ابوالفضل نے ’مہابھارت اور ’رامائن‘ کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا۔ اس کے بعد ہی اس کے ترجمے انگریزی میں کیے گئے تھے۔ تو اس طرح اکبر کی رواداری کی اُس روایت کو داراشکوہ نے آگے بڑھانے کا کام کیا۔
داراشکوہ ایک باعمل صوفی شاعر تھا جس کے سینے میں ایک گداز دل تھا۔ وہ نفرت اور تشدد کا قائل نہیں تھا بلکہ خدمت خلق پر اس کا یقین تھا جو اہل تصوف کا بنیادی مقصد اور منشور ہے۔ دراصل اسی خدمت خلق اور انسانیت کے جذبے نے انھیں تصوف کی طرف مائل کیا تھا۔ وہ تصوف جو دلوں کو توڑتا نہیں بلکہ جوڑتا ہے اور داراشکوہ نے اپنی پوری زندگی جوڑنے کے اسی عمل سے اپنے آپ کو جوڑے رکھا۔ آج جو loZ /keZ lEHkko کی باتیں ہوتی ہیں دراصل سب سے پہلے یہ تصور داراشکوہ نے ہی دیا تھا۔ آج ضرورت ہے کہ اس تصور کو عام کیا جائے اور اس طرح داراشکوہ کے خواب کو حقیقت میں بدلا جائے۔یہی وہ خواب ہے جس کے ذریعے ہمارے ملک کا مستقبل روشن اور تابناک ہوسکتا ہے۔ ہمیں داراشکوہ کے تصوُرات کو عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہندوستان کے تمام لوگ ایک ساتھ مل کر اپنے ملک کی تعمیر و تشکیل میں بہتر طور پر حصہ لے سکیں۔ جب سب کا ساتھ ہوگا تبھی ملک کا وکاس ہوگا۔ تمام لوگ ایک رشتۂ محبت اور الفت میں جڑ جائیں گے تو پھر ہمارے ملک کی مخالف طاقتیں خود ہی پست اور نابود ہوجائیں گی اور آج ہمیں اسی رشتہ الفت کو اور مضبوط کرنا ہے۔ تبھی ہم اپنے ملک کو اونچائیوں اور بلندیوں تک لے جاسکتے ہیں۔ مذہبی بنیاد پر تنگ نظری اور تفریق کو ختم کیے بغیر ایک مثالی معاشرہ قائم کرنا مشکل ہے۔ اگرہم چاہتے ہیں کہ ایک مثالی معاشرہ قائم کریں تو ہمیں ہمہ جہتی اور ہم آہنگی کے اِس تصور کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔
قومی اردو کونسل داراشکوہ کے پیغامِ امن و محبت کو عام کرنے کے لیے نہ صرف ان کی کتابوں کو ازسر نو شائع کررہی ہے بلکہ ان کی کتابوں کے ترجمے بھی اردو کے علاوہ دوسری زبانوں میں شائع کرنا چاہتی ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ داراشکوہ کی بہت سی کتابوں کے ترجمے ہوچکے ہیں اور کچھ کے ترجمے باقی ہیں۔ یہ ہمارے لیے باعث مسرت ہے کہ داراشکوہ کے حوالے سے ماضی میں کتابیں بھی لکھی جاتی رہی ہیں۔ ہمارے ہندوستان ہی نہیں بلکہ پڑوسی پاکستان میں بھی داراشکوہ کے حوالے سے بہت عمدہ کام ہوئے ہیں اور وہاں سے بھی ان کی کتابوں کے ترجمے شائع ہوئے ہیں۔ وہیں کے ایک ڈرامانگار شاہد ندیم نے داراشکوہ پر ایک بہت ہی عمدہ ڈراما تحریر کیا جسے بہت مقبولیت ملی۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ داراشکوہ کی فکر اور فلسفے سے صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے روشن خیال ذہن بھی متاثر ہیں اور ان سے گہری عقیدت اور محبت رکھتے ہیں۔ اور حقیقت یہی ہے کہ داراشکوہ کی روشن خیالی سے پوری دنیا میں ہر وہ طبقہ متاثر ہے جو مذہبی تفریق اور تعصب پر نہیں بلکہ انسانیت ،محبت اور اُس روحانیت پر یقین رکھتا ہے جو انسانوں سے نفرت نہیں، محبت سکھاتی ہے!
٭٭٭
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.