July 14, 2023

اردو ادب میں خواتین کا حصہ

دنیا کے کسی بھی ادب کی تاریخ نہ تو خواتین کے بغیر مکمل ہوسکتی ہے اور نہ ہی کوئی معاشرہ خواتین کے بغیر مہذب کہلا سکتا ہے۔ تخلیق اور تہذیب دونوں ہی محاذ پر خواتین کا کردار ناقابل فراموش رہا ہے۔ خاص طور پر زبان کی تشکیل میں خواتین کا رول بہت اہم ہے اور خواتین کی زبان کو معیار کا درجہ بھی حاصل ہے۔ ہمارے یہاں بیگماتی زبان کی اصطلاح اسی لیے رائج بھی ہے۔ زبان و ادب کی تشکیل میں عورتوں کا بہت ہی نمایاں کردار رہا ہے اور اس کا مکمل اعتراف کیا جانا چاہیے۔
عالمی ادبیات کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو طبقۂ نسواں میں ایسی شخصیتیں نظر آئیں گی جنھوں نے ادب کی ثروت مندی میں گراں قدر اضافہ کیا ہے اور مختلف اصنافِ ادب کو تابندگی اور توانائی عطا کی ہے۔ ماضی قدیم میں بھی خواتین کی ایک معتد بہ تعداد رہی ہے جن کا ذکر ادبیات اور علوم و فنون کے ضمن میں نہایت اہتمام کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے۔حتیٰ کہ ویدک عہد میں بھی بہت سی ایسی خواتین کے نام ملتے ہیں جنھوں نے مذہبی صحیفوں کے اشلوک اور نغمے تحریر کیے۔
خواتین کی ادبی تخلیق کا سلسلہ ماضی سے جڑا ہوا ہے اور ہر عہد میں علوم و ادبیات کے میدان میں خواتین کی قابل ذکر نمائندگی رہی ہے اور اس سلسلے میں بہت سی تحقیقات بھی سامنے آچکی ہیں۔ پھر بھی المیہ یہ ہے کہ ادب کے باب میں خواتین کو نظرانداز کیے جانے کا ایک تصور عام ہے، جبکہ یہ غلط ہے۔ ماضی کی تاریخ کا صحیح تناظر میں مطالعہ کیا جائے تو بہت سی دانشور خواتین ماضی میں بھی نظر آتی ہیں بلکہ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں خواتین کو ہر سطح پر آزادی حاصل تھی بلکہ کہیں کہیں تو خواتین حاکم تھیں اور مرد محکوم تھے۔ عورت کی حاکمیت اُمہاتی نظام کے زمانے تک رہی ہے اس کے بعد پدر سری نظام رائج ہوا تو عورتیں یقینی طور پر حاشیے پر چلی گئیں اور ان کی وہ مرکزیت معدوم ہوتی گئی۔ کچھ ادوار ایسے بھی آئے جب عورتوں پر بہت ساری معاشرتی سماجی اور سیاسی پابندیاں عائد کی گئی اور انھیں ثانوی حیثیت دے کر حاشیے پر لاکھڑا کیا گیا، لیکن یہ عرصہ بھی بہت مختصر تھا اس لیے مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ عہد قدیم سے ہی خواتین کی ایسی تعداد رہی ہے جس نے تخلیق کے محاذ پر اپنی موجودگی کا اندراج کرایا اور یہ معاملہ دنیا کی تمام ادبیات کے ساتھ ہے۔
اردو ادب کی روایت میں بھی عہد قدیم سے شاعرات اور نثر نگار خواتین کی ایک بڑی تعداد رہی ہے۔ زیب النساء، مہ لقا بائی چندا، لطف النساء امتیاز یہ ایسے نام ہیں جنھیں ادبی تاریخ کبھی نظرانداز نہیں کرسکتی۔ شرفا کے علاوہ طبقہ نشاط سے تعلق رکھنے والی خواتین نے بھی شعر و شاعری کے میدان میں اپنے فنی کمالات کا مظاہرہ کیا ہے۔ ننھی، بیگم حجاب، حور، حشمت، زہرا وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں اور اس تعلق سے کئی تذکرے بھی لکھے گئے ہیں جن میں صرف اربابِ نشاط کا ذکر ہے۔ فصیح الدین رنج، میرٹھی او رعبدالحی صفا بدایونی نے خواتین شاعرات کے تذکرے لکھے ہیں اور جمیل احمد کی کتاب ’تذکرہ شاعراتِ اردو‘ بھی ایک اہم کتاب ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شعر و ادب سے خواتین کا تعلق بہت پرانا ہے۔
ہر عہد میں عورتوں نے تخلیق سے اپنا نہ صرف رشتہ جوڑا ہے بلکہ اپنے داخلی جذبات و احساسات کی بہت ہی خوبصورت ترجمانی بھی کی ہے۔ اس کے بعد تخلیقی سطح پر کچھ تعطل رہا اور کچھ معاشرتی پابندیاں بھی، مگر تخلیق کار خواتین کا قافلہ رواں دواں رہا اور وہ مردوں کے فرضی نام سے ناول، افسانے لکھتی رہیں اور شاعری بھی کرتی رہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عورتوں کو پابندیوں، محرومیوں اور جبر و استحصال کا احساس ہوا اور جب پتہ چلا کہ مرد حاوی معاشرہ ان کو قفس میں قید کرنا چاہتا ہے تو خواتین نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور مرد اساس معاشرے کے خلاف ایک محاذ قائم ہوگیا۔ اسی دور میں تحریک نسواں کا آغاز ہوا اور فیمنزم کی ایک اصطلاح سامنے آئی اور یہ اصطلاح بھی ایک مرد فلسفی چارلس فوریئر (Charles Fourier)نے وضع کی جو کہ ایک فرانسیسی فلاسفر اور سوشلسٹ مفکر تھا۔ فیمنزم کی تحریک چلتے ہی عورتوں نے مساوات اور مساوی حقوق کے لیے آواز بلند کرنا شروع کی اور عورتوں کی غلامی اور مردانہ تسلط کے خلاف یہ تحریک وسعت اختیار کرگئی۔ اس تحریک نے یکساں سیاسی معاشرتی حقو ق کے لیے جو آواز بلند کی تھی اسے بہت سے ملکوں میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ فرانس، برطانیہ، امریکہ، چین، کیوبا، روس ، افریقہ، عرب اوردیگر ممالک میں تحریک نسواں کا علم بلند ہوا اور عورتوں کے اندر بیداری کے ساتھ ساتھ مردو ںکو بھی یہ احساس ہوا کہ عورتوں کے ساتھ ناانصافی و جبر ہورہا ہے۔ ان تحریکات سے بھی عورتوں کو بہت سے فائدے ہوئے۔ فیمنزم کی تحریک نے مختلف شکلیں اختیار کیں اور مختلف نظریے سامنے آئے۔ لبرل تانیثیت، شدت پسند تانیثیت، مارکسی تانیثیت، اشتراکی تانیثیت، ثقافتی تانیثیت، مابعد جدید تانیثیت، ماحولیاتی تانیثیت، سیاہ فام تانیثیت، مابعد نوآبادیاتی تانیثیت اور اس طرح کی بہت ساری نئی لہریں پیدا ہوئیں اور تانیثیت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا اور تانیثیت میں شدت پسندی کی وجہ سے یہ تحریک غلط سمت میں مڑ بھی گئی۔ تانیثی تحریکوں کا ہندوستان پر بھی اثر پڑا مگر یہاں ایک خاص بات یہ رہی کہ ہندوستان میں تحریک نسواں کا آغاز ہوا مگر یہ خواتین کے ذریعے نہیں بلکہ ان اصلاحی مفکرین کے ذریعے وجود میں آئی جن میں راجہ رام موہن رائے، ایشور چند ودیا ساگر، سوامی وویکانند وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ان قائدین نے عورتوں کی سماجی حالت بدلنے کی کوشش کی اور ستَی کی رسم ، بچہ شادی، اور دیگر خراب رسموں کو ختم کرنے کے لیے تحریک چلائی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا، یہ تحریکیں پھیلتی گئیں اور اس میں دانشور ذہین خواتین بھی شامل ہوتی گئیں۔ اس طرح تحریک نسواں کو ایک نئی طاقت ملی اور آج صورتِ حال یہ ہے کہ خواتین کی سماجی، سیاسی، ثقافتی اور معاشی حالت پہلے سے بہتر ہے اور یقینی طور پر اس میں خواتین کے ساتھ مردو ںکا بھی بہت اہم کردار رہا ہے۔
ہندوستان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد نے مغربی فیمنزم کو من و عن قبول نہیں کیا مگر بغاوت اور احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔ عورتوں پر جو جبر و استحصال ہوتا رہا اس کے خلاف آواز بھی بلند ہوتی رہی اور اس میں دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو زبان سے تعلق رکھنے والی خواتین نے بھی حصہ لیا۔ اس طرح عورتو ںکے مسائل شاعری اور فکشن کا حصہ بنے اور آج اردو میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے جو اپنے مسائل کے تئیں بیدار بھی ہے اور حقوقِ نسواں کے لیے کوشاں بھی۔ اس طرح دیکھا جائے تو فیمنزم سے براہِ راست متاثر ہوئے بغیر خواتین اپنے حقوق و مسائل کے لیے آواز بھی بلند کررہی ہیں۔ اور ہر محاذ پر خواتین فتوحات اور حاصلات کا پرچم بلند کررہی ہیں، حتیٰ کہ وہ شعبے جو مردوں کے لیے مخصوص تھے وہاں بھی عورتوں کی شراکت ہے۔ صدر، وزارتِ عظمیٰ اور دیگر بڑے عہدو ںپر بھی عورتیں فائز ہیں۔ اب تیزی کے ساتھ عورتوں کی تصویر اور تقدیر بدل رہی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تخلیق کا انداز اور اسلوب بھی تبدیل ہو رہا ہے۔
بیسویں صدی میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے جو تمام ادبی اصناف میں اپنی موجودگی کا ہی نہیں بلکہ اپنے امتیازات کا بھی اندراج کرا رہی ہیں۔ افسانوی نثرہو یا غیرافسانوی نثر ہر ایک میں خواتین اپنی ذہانت، لیاقت اور صلاحیت کا مکمل ثبوت دے رہی ہیں۔ شاعری کے باب میں تو اتنے نام ہیں کہ ان کا شمار ہی مشکل ہے۔ ادا جعفری، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، پروین شاکر، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، رفیعہ شبنم عابدی، شہناز نبی، عذرا پروین اور اس طرح بہت سی شاعرات ہیں جن کو معاصر شعری منظرنامے سے منہا نہیں کیا جاسکتا۔ ان شاعرات نے مختلف شعری اصناف میں اپنی ذہنی زرخیزی اور لسانی لطافت و نزاکت کا ثبوت بھی دیا ہے۔ اسی طرح ناول کے باب میں دیکھا جائے تو رشیدۃ النساء ایک بڑا نام ہے جنھوں نے ’اصلاح النساء‘ لکھ کر طبقہ نسواں کو بیدار کیا۔ اس کے بعد بہت سارے نام آتے ہیں جن میں قرۃ العین حیدر اور عصمت چغتائی کو کوئی فراموش ہی نہیں کرسکتا۔یہ دونوں دبستان کی حیثیت رکھتی ہیں اور کسی بھی مرد ناول نگار سے کمترنہیں ہیں بلکہ بعض معاملات میں مردو ںپر بھی انھیں تفوق و برتری حاصل ہے۔ اپنے موضوعات اور اسالیب کے لحاظ سے بھی یہ دونوں بہت سے امتیازات کی حامل ہیں۔ افسانے میں بھی بہت ساری خواتین کے نام ہیں ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، ممتاز شیریں، جیلانی بانو، خالدہ حسین، ذکیہ مشہدی، واجدہ تبسم، ایک سلسلہ ہے خواتین افسانہ نگاروں کا جنھوں نے خواتین کے مسائل، سماج میں ان کے مقام اور محرومیو ںکے حوالے سے لکھا ہے اور یہ صرف نسائی مسائل تک محصور نہیں ہیں بلکہ قومی اور عالمی مسائل پر بھی ان کی گہری نگاہ رہی ہے۔ کتنے نام لیے جائیں، اکیسویں صدی میں بہت سارے نئے نام بھی جڑ رہے ہیں اور خوشی ہوتی ہے کہ یہ نام نہ صرف اپنی موجودگی کا ثبوت دے رہے ہیں بلکہ اپنی تخلیقات کے ذریعے معاشرے کو بھی ایک نئی جہت اور ایک نیا زاویہ عطا کررہے ہیں۔ ڈرامے کا ذکر کیجیے تو اس میں قدسیہ زیدی، صالحہ عابد حسین، بانو قدسیہ، حجاب امتیاز علی، عصمت چغتائی، آمنہ نازلی، جیلانی بانو اور ڈھیر ساری خواتین کے نام آتے ہیں۔ تنقید میں بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے جن میں ایک اہم نام ممتاز شیریں کا ہے جنھوں نے منٹو کے حوالے سے بہت شاہکار مضامین لکھے ہیں۔ معیار ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کے علاوہ ’منٹو نہ نوری نا ناری‘ منٹو شناسی کے باب میں ایک اہم کتاب ہے۔ ان کے بعدکی نسل میں بھی خواتین تنقید نگاروں کی ایک بڑی تعداد ہے جو ممتاز شیریں کی تنقیدی روایت کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ اسی طرح تحقیق کے میدان میں بھی کم نام نہیں ہیں، خاص طور پر ایسی خواتین ہیں جنھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور جامعات کے لیے تحقیقی مقالات لکھے۔ صالحہ عابد حسین، سیدہ جعفر، میمونہ دلوی، رفیعہ سلطانہ، صغریٰ مہدی، شمیم نکہت، صابرہ سعید، قیصر جہاں، کشور سلطان، انجمن آرا اور ان کے علاوہ بہت سے نام ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ تحقیق کے میدان میں بھی خواتین نے بہت ہی اعلیٰ درّاکی اور ذہانت کا ثبوت دیا ہے۔
سفرنامے میں بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے نازلی رفیعہ سلطانہ، عطیہ فیضی، شاہ بانو، صغریٰ بیگم حیا، بیگم حسرت موہانی، ڈاکٹر ثریا حسین، قرۃ العین حیدر، بشریٰ رحمن، صالحہ عابد حسین اور بہت سارے نام ہیں جنھوں نے سفرنامے لکھے اور اس صنف کو نئی توانائی عطا کی۔ یہ سفرنامے اس بات کا ثبو ت ہیں کہ خواتین گھرکی چہاردیواری میں قید نہیں رہیں بلکہ انھوں نے دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے تجربات، مشاہدات کا اشتراک قارئین سے کیا۔
عورتوں نے اپنی خودنوشتوں کے ذریعے بھی اپنے وجود کا احساس دلایا اور اپنے داخلی مسائل کی خوبصورت عکاسی کی۔ اس ذیل میں سب سے پہلی خودنوشت شہر بانو بیگم کی ہے جو نواب اکبر علی خاں کی بیٹی تھیں۔ ان کی خودنوشت کواوّلین نسوانی خودنوشت کہا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سلطان بیگم کی ’نیرنگیِ بخت‘، بیگم پاشا صوفی کی ’ہماری زندگی‘ سعیدہ بانو کی ’ڈگر سے ہٹ کر‘، عصمت چغتائی کی ’کاغذی پیرہن‘، کشور ناہید کی ’ایک بری عورت کی کتھا‘، قرۃ العین کی ’کارِ جہاں دراز ہے‘ ، حمیدہ سالم کی ’شورشِ دوراں‘، ’نفیس بانو کی شمع کی ’جنت سے نکالی ہوئی حوا‘، صغریٰ مہدی کی ’حکایتِ ہستی‘، عذرا عباس کی ’میرا بچپن‘ ، ادا جعفری کی ’جو رہی سو بے خبری رہی‘ یہ ایسی آپ بیتیاں ہیں جن میں صرف ہمارے عہد کی تصویر نہیں بلکہ نسائی جذبات و احساسات کا ایک نگارخانہ آباد ہے۔ ان میں عورتو ںکے مسائل بھی ہیں، ان کی محرومیاں بھی، ان کی جدوجہد بھی اور ان کی کامیابیاں بھی۔ ان آپ بیتیوں سے عورت کی ذات ہی نہیں بلکہ ہمارے عہد اور معاشرے کی پوری تصویر بھی سامنے آتی ہے۔
طنز و مزاح کے میدان میں بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد رہی ہے۔ڈاکٹر لئیق صلاح، ڈاکٹر حبیب ضیاء، ڈاکٹر رشید موسوی، شفیقہ فرحت، رفیعہ منظورالامین، شمیم علیم، فرزانہ فرح اس کے علاوہ اور بہت ساری خواتین ہیں جنھوں نے طنز و مزاح کے میدان میں اپنی شگفتہ نگاری کے جوہر دکھائے ہیں اور صرف یہی نہیں کہ تخلیق اور تنقید سے خواتین کا حصہ رہا ہے بلکہ ترجمے کے میدان میں بھی خواتین نے بہت اہم کارنامے انجام دیے ہیں۔ ممتاز شیریں، قرۃ العین حیدر، رضیہ سجاد ظہیر وغیرہ اہم نام ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو مختلف اصنافِ ادب میں خواتین کی بڑی اہم خدمات ر ہی ہیں اور انھوں نے ادب کو مالامال کیا ہے۔ اسی لیے خواتین کو کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ آج زیادہ تر خواتین کو شکایت ہے کہ ادب پر مردوں کی بالادستی ہے اسی لیے عورتوں کو ادب میں وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کی وہ مستحق ہیں۔ یہ خیال بنیادی طو رپر غلط ہے کیونکہ آج خواتین قلم کاروں کی پذیرائی مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہورہی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ یہ الزام بنیادی طو رپر غلط ہے کہ مرد معاشرہ انھیں نظرانداز کرتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ خواتین اپنی تخلیقیت کی بنیاد پر ادب کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں اور ان کا اعتراف مرد معاشرے کی طرف سے بھی کیا جارہا ہے اور میرا خیال ہے کہ عورت کی شمولیت کے بغیر ہمارے ادب کا منظرنامہ مکمل نہیںہوسکتا کہ وجودِ زن سے صرف کائنات میں رنگ نہیں ہے بلکہ ادب میں بھی انہی کی وجہ سے رنگارنگی ہے۔
تخلیق کے باب میں عورتیں بہت اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ جبر و استحصال کے خلاف آواز بھی بلند کررہی ہیں اور یہ اس وجہ سے ممکن ہوا کہ عورتوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، اپنے حقوق کو سمجھا، اپنی حیثیت کو جانا، اسی لیے اب ضرورت ہے کہ عورتوں میں تعلیم کی شرح خواندگی کم ہے اسے بھی دور کیا جائے کیونکہ تعلیم ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے عورتیں اپنے حقوق سے آگاہ ہوسکتی ہیں۔ ان میں خوداعتمادی پیدا ہوسکتی ہیں۔ تعلیم کے ہی ذریعے وہ خواندگی تشدد، جہیز، قتل جنین اور دیگر سماج جرائم کو روک سکتی ہیں، وہ اپنے حق اور انصاف کے لیے لڑسکتی ہیں اور ملک کی سماجی و معاشی ترقی میں اہم رول ادا کرسکتی ہیں۔ کسی بھی ملک کا Sustainable development عورتوں کے امپاورمنٹ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ عورتیں اسی وقت امپاور ہوں گی جب ان کے اندر تعلیمی شعور ہوگا۔ جب انھیں تعلیم کے یکساں مواقع حاصل ہوں گے۔اسی کے ذریعے وہ معاشی اور سماجی طور پر خودمختار بن سکتی ہیں اور معاشرے میں بھی مثبت تبدیلیاں لاسکتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کسی بھی ملک کی سماجی و معاشی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہاں کی عورتوں کے ساتھ معاشرہ کس طرح کا سلوک کرتا ہے اور انھیں کس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے۔ عورتوں کے تعلیم یافتہ ہونے سے ہی معاشرے میں شرح خواندگی بھی بڑھے گی۔ عورتوں کا امپاورمنٹ صنفی مساوات سے بھی تعلق رکھتا ہے اور تعلیم کے ذریعے ہیوہ اپنے مساوی حقوق حاصل کرسکتی ہیں۔
آج کے عہد میں عورتوں کو تعلیم یافتہ بنانا ضروری ہے کیونکہ ایک عورت کی تعلیم سے صرف ایک گھر نہیں بلکہ پورا معاشرہ تعلیم یافتہ بنتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ If you educate a girl you educate a whole nation.۔تو اس وقت ہمیں پورے ملک اور معاشرے کو تعلیم یافتہ بنانا ہے اور اس کے لیے عورتوں کا امپاورمنٹ بہت ضروری ہے اور ادبی تخلیق میں بھی اسی وقت قوت آئے گی اور تنوع پیدا ہوگا جب عورتیں تعلیم یافتہ ہوں گی اور معاشرے اور ثقافت کو صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش کریں گی۔ تعلیم اور تخلیق کا بہت ہی گہرا رشتہ ہے، تعلیم جتنی اعلیٰ ہوگی تخلیق بھی اتنی ہی بلند ہوگی۔ آج کے عہد میں جتنی بھی بلند پایہ تخلیقات ہیں وہ بہت اعلیٰ درجے کی تعلیم یافتہ بھی ہیں اور معاشرتی مسائل کو صحیح سیاق و سباق میں سمجھنے کی قوت بھی رکھتی ہیں، اسی لیے ہمیں تخلیق کے ساتھ ساتھ تعلیم نسواں پر بھی زور دینے کی ضرورت ہے۔

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.