May 28, 2023

اقبال اور كالی داس كی شاعری میں مناظرِ فطرت

اقبال اور كالی داس كی شاعری میں مناظرِ فطرت
/Beauty of Nature in the poetry of Iqbal and Kalidas

اقبالی اور كال داس كی شاعری میں مناظرِ فطرت
٫٫كیا تم دیكھتے نهیں هو كه اﷲآسمان سے پانی برساتا ہے اور اس كے ذریعے ہم طرح طرح كے پھل نكال لاتے هیں جن كے رنگ مختلف هوتے هیں ۔پهاڑوں میں بھی سفید ، سرخ اور گهری سیاه دھاریاں پائی جاتی هیں جن كے رنگ مختلف هوتے هیں اور اسی طرح انسانوں ، جانوروں اور مویسیوں كے رنگ بھی مختلف هیں۔حقیقت یه كه اﷲ كے بندوں میں صرف علم ركھنے والے لوگ هی اس سے ڈرتے هیں٬٬۔ ﴿قرآن شریف كے سوره فاطر ِ ٧٢،٥٢،٥٣﴾ قرآن شریف میں مطالعه كائنات سے متعلق ٦٥٧ آیتیں هیں جو اهلِ علم كودعوتِ فكر دیتی هیں۔موجوداتِ كائنات میں پائی جانے والی خوبیوں كاجوهر جو ناظرین میں لذت اور سرور كی خاص كیفیت پیدا كرتا ہے،دراصل حسن كهلاتا ہے اور حسن كے مظاهر كو قبول كرنے كے رجحانات انسانوں میں عموماً اور تخلیق كاروں میں خصوصاً پیدائشی طور پر پائے جاتے هیں۔حسن كے مظاهر كو قبول كرنے كے بعد هی تخلیق كار اشیائ كے مظهری پهلوو ں میں ایك طرح كی حقیقت سمو دینے كا كام كرتا ہے جسے فن كها جاتا ہے۔موسیقی، نغمه وآهنگ، رنگ آمیزی یا تصویر كشی وغیره كچھ ایسے فنون هیں جو ہماری پیشه ورانه اور كاروباری امور اور سیاسی و اقتصادی زندگی كے فرائض كو پورا كرنے میں هونے والی محنت اور تھكن كو دور كرنے میں معاون ثابت هوتے هیں اور ہماری پریشان و مضطرب زندگی كو ایك طرح كاسكون بخشتے هیں۔اسی لئے عظیم شاعر یا فن كار كچھ ایسی تخلیقات كو جنم دیتے هیں جو خود ان كی حیات كی بقا كے لئے اتنی ضروری نهیں هوا كرتیں لیكن پھر بھی ایسا كرتے هوئے انهیں مسرت ضرور هوتی ہے۔اسی لئے ایك تخلیق كار اپنی فطری ذهانت كے سهارے ایك قسم كی شاهانه فیاضیوں كا برملا اظهار كرتا رهتا ہے۔ان تخلیق كاروں میں سنسكرت كے مها كوی كالی داس اور اردو كے عظیم شاعر علّامه اقبال خاص اهمیت كے حامل هیں جنهوں نے فطرت كا مطالعه كیا ہے اور اس كے حسین مناظر كی ایسی تصویر كشی كی ہے جس كی نظیر كهیں نهیں ملتی ہے۔ان شعرا كی شاعری میں مناظر فطرت كی تصویر كشی كا تجزیه كرنے سے پهلے یه جاننا بھی ضروری ہے كه كائنات كیا ہے؟فطرت كسے كهتے هیں؟كیا فطرت ِكائنات واقعی بے حد حسین ہے؟یا صرف ایك بد صورت ماده ہے؟فطرتِ كائنات اگر حسین ہے تو پھر حسن كیا ہے؟ان تمام سوالوں كے جواب فلسفیوں اور صوفیوں نے دیا ہے۔ مطالعه كائنات فلسفیوں اور صوفیوں كا اهم موضوع رها ہے۔اس كے متعلق متعدد فلسفیوں نے اپنے اپنے خیالات كا اظهار كیا ہے۔مثلاًلائیبنیزكے فلسفه مونادیت كے مطابق كائنات موناد وںكا ایك بڑا مجموعه ہے۔جو نهایت هی ساده ، ناقابلِ تقسیم اورغیر فانی ہے۔﴿واضح هو كه موناد ایك طرح كے مراكزقوت هیں جن میں سے هر وقت توانائی پھوٹتی رهتی ہے۔مونادوں كو روحیتی ذرّات(Spiritual Atoms) بھی كها جاتا ہے۔لائبنیزكا یه خیال كه كائنات مونادوں كا مجموعه ہے صحیح معلوم هوتا ہے كیوں كه اس نے مونادوں كو روحیتی ذرّات یعنی Spiritual Atoms كها ہے جو قوت كے مراكز هیں اور جن سے توانائی نكلتی رهتی۔جدید سائنسی تھیوریزTheories) ( نے بھی ثابت كر دیا ہے كه مادے كا سب سے چھوٹا ذرّه جسے تقسیم نهیں كیا جا سكے Atom كهلاتا ہے جس كے اندر بے شمار توانائی هوتی ہےAtom كے اندر پائے جانے والے Electron,Proton and Nitron توانائی كے سرچشمے هیں۔لیكن لائبنیز كا یه كهنا كه كائنات نهایت ساد ه ہے قابلِ قبول نهیں ہے كیوں كه موناد اگر مراكز توانائی ہے توآفتاب كی ست رنگی روشنی، پهاڑ كی اونچی چوٹیوں سے بهتے هوئے خوبصورت جھرنے كیا توانائی كے سرچشمے نهیں هیں ؟ اگر هاں تو پھر كائنات ساده كها ںهے۔ بركلے نے بھی فطرتِ كائنات كے متعلق اپنا جو نظر یه پیش كیا ہے وه درست معلوم هوتا ہے۔وه خارجی عالم كے وجود كو تسلیم كرتا ہے لیكن وه كهتا ہے كه تجربه ہمیں اشیا كی صفات كا علم فراهم كرتا ہے اورصفات صرف ہمارے نفس یا ذهن كے تصورات هیں۔اس لئے فطرت كے متعلق وه كهتا ہے كه فطرت دراصل تصورات اور حسیات كا ایك نظام ہے جسے خدا كچھ خاص اصولوں كے تحت محدود اذهان میں پیدا كر دیتا ہے۔ فطرتِ كائنات كے سلسلے میں وھائیٹ هیڈ نے بھی اظهارِ خیال كرتے هوئے لكھا ہے: ٫٫گلاب كا پھول اپنے عطر كے لیے، بلبل اپنے سرور انگیز گیتوں كے لیے اور سورج اپنی درخشندگی كے لیے شاعرانه تخئیل كے خوبصورت موضوعات بنتے رهے هیں۔ مگرحقیقت تویه ہے كه شعرا ئ غلط فهمی كے شكار هیں اور انھیں اپنی نظموں میں خود اپنی ذات كو موضوع داد و دهش بنانا چاهیے اور تحسین بالذات اوربالذات تشكر كے كلمات اداكرنے چاهئیں كیونكه یه سارا حسن ِفطرت خودفطرت میں موجود نهیں، بلكه یه حسن تو خودانسانی ذهن كے عمل ادراك كا كمال و اعجاز ہے كه وه فطرت كو اس قدرخوبصورت اورخوشنما بناكر ہمارے سامنے پیش كرتا ہے۔ فطرت بالذات توایك بوجھل ومكدر صورت حال ہے، جس میں نه تو كوئی رنگ و آهنگ ہے اورنه هی كوئی عالم بو و سرور ہے۔ نه تو فطرت كوئی شئے چشیدنی ہے اور نه هی یه كوئی عالم دیدنی ہے بلكه فطرت توبالذات ایك سریع التغیر چیز ہے جس كا كوئی سرا نهیں اورنه هی اس میں كوئی معنی و مفهوم هیں۔ نه هی اس میں غایات ومقاصد هیں۔٬٬ ﴿بحواله قاضی قیصر الاسلام ،فلسفے كے بنیادی مسائل،ص:88-89﴾ وھائیٹ هیڈ كے پهلے جملے میں هی تضاد ہے۔ایك طرف وه كهتا ہے كه ٫٫گلاب كا پھول اپنے عطر كے لیے، بلبل اپنے سرور انگیز گیتوں كے لیے اور سورج اپنی درخشندگی كے لیے شاعرانه تخئیل كے خوبصورت موضوعات بنتے رهے هیں۔٬٬ دوسری طرف وه كهتا ہے كه٫٫ فطرت بالذات توایك بوجھل ومكدر صورت حال ہے ، جس میں نه تو كوئی رنگ و آهنگ ہے اورنه هی كوئی عالم بو و سرور ہے۔ ٬٬توپھر گلاب كی خوشبو،بلبل كے سر ور انگیز گیت اور سورج كی درخشندگی كیا فطرت كے حسین مناظر نهیں هیں؟اور اگر یه حسین مناظر نهیں هیں تو پھر شاعرانه تخیل كے خوبصورت موضوعات كیسے بنتے رهے هیں؟البته وھائیٹ هیڈ كا یه كهنا درست ہے كه٫٫ یه حسن تو خودانسانی ذهن كے عمل ادراك كا كمال و اعجاز ہے كه وه فطرت كو اس قدرخوبصورت اورخوشنما بناكر ہمارے سامنے پیش كرتا ہے۔٬٬ وھائیٹ هیڈ كے نظریے سے اتفاق كرتے هوئے كروچے نے حسن كے موضوعی نقطه نظر كی تائید كی ہے۔ وه كهتا ہے كه : ٫٫ حسن كلیتاً یاذهن كا پیدا كرده ہے۔ یعنی یه كه طبیعی اشیائ بجائے خود اپنے اندر ذاتی طور پر كوئی حسن نهیں ركھتیں۔ بلكه ان اشیائ كے اندرحسن كا ادراك خود ہمارے ذهن كا اعجاز هوا كرتاهے۔ اورانھیں ہمارا ذهن هی حسین، قبیح اورجلیل بناتا ہے۔٬٬ ﴿بحواله قاضی قیصر الاسلام ،فلسفے كے بنیادی مسائل،ص:46-47﴾ حسن كے متعلق رسكن كا خیال ہے كه ہم حسن كی حقیقت سے اس وقت واقف هو سكتے هیں جب ہم اپنے اندر خدا كے هر كام میں حسن وجمال كا احساس كرنے لگ جائیں۔لیگس نے حسن كو ایك جال قرار دیا ہے اور اس كا خیال ہے كه اس سے قدرت عقل یا شعور كا شكار كرتی ہے۔ حسن كے متعلق اهلِ علم حضرات كا خیا ل ہے كه كوئی چیز صرف اسی قدرحسین هوتی ہے، جس قدر كه اس چیز كو اپنی نوع كے اعتبار سے ایك خاص تناسب حسن كا دركار هوتاهو۔ چنانچه ہم كو مثالی حسن كا مكمل عرفان صرف اسی وقت هوسكتاهے، جب كه ہم فنا فی التصور هوجائیں۔ یه تصوّر ایك ایسا نقطه عروج ہے كه جهاں تمام خواهشیں یاتمام ارادے ایك ارادئه مطلق یا خواهش كلی میں ضم هوكر ایك بڑے كل میں فنا هوجاتی هیں۔ایك بڑے شاعر كا شدّتِ احساس ایك خاص تناسب حسن والی اشیا كو دیكھنے كے بعد شدید هو جاتا ہے یا وه ان كے تصور میں اپنے آپ كو فنا كر لیتے هیں اس لئے فطرتِ كائنات انهیں بے حد حسین نظر آتی ہے اور مناظر فطرت كی حسین تصویر كشی كرنے لگتے هیں۔ وھائیٹ هیڈ كے برخلاف ایمرسن كا خیال ہے كه یه كائنات بے حد خوبصورت ہے۔همارے چاروں طرف سحر انگیز كیفیت كا جال سا بچھا هوا ہے جو اپنی طرف ناظرین كو متوجه كرتی رهتی ہے لیكن ہم دنیاوی اور كاروباری معاملات میں اس قدر الجھے رهتے هیں كه كائنات كا حسن ہمیں نظر نهیں آتا۔اگر ہم پھر سے اپنے بچپن میں لوٹ جائیں اور ایك بچّے كی نظر سے دیكھیں تو معلوم هوگا كه كائنات بے حد حسین ہے۔وه ایك جگه لكھتا ہے: ٫٫ ہمارے چاروں طرف كائنات كی سحر انگیز كیفیات نے ایك جال سا بنا ركھا ہے۔اور ہم خوبصورتی كے سمندر میں گویا ڈوبے هوئے هیں لیكن بدقسمتی سے دنیاوی مسائل میں گرفتار هونے كے باعث اور اپنے ماحول كا هر روز نظاره كرنے كی وجه سے اس كے اس قدر عادی هو چكے هیں كه ہماری آنكھیں كائنات كی رعنائیوں كے لیے اندھی هو كر ره گئی هیں۔اگر ایك لمحے كے لیے ہمارا بچپن واپس آجائے تو ہمیں اڑتے هوئے طیور ، چمكتے هوئے تارے حیران نظروں والے پھول اور شفق كے لا مثال رنگ ایك مسحور كن ترتیب كی صورت میں نظر آئیں اور ہم فرطِ طرب سے لرز اٹھیں۔ ٬٬ ﴿بحواله وزیر آغا، نظم جدید كی كروٹیں، ص ٧٢﴾ اس سلسلے میں هیگل كا خیال ہے كه كائنات ایك عالمِ متصوره (The world of Ideas) ہے۔اس كو ہم عالمِ فطرت كهتے هیں۔اس كے مطابق عالمِ فطرت دراصل افكار و تصورات كا ایك عالم خارجی ہے اور عقل مطلق﴿یعنی خدا﴾ اپنے آپ كو اشكالِ خارجیه میں تبدیل كركے ہمارے سامنے عالمِ ظاهر كے طور پر هر وقت پیش هوتی رهتی ہے۔ هیگل كے جدلیاتی تصوركے مطابق٫٫ نفس كی دنیا٬٬ یعنی مبدائے اوّل هی اصل ہے اور ماده نفس ﴿یعنی مبدائے اوّل﴾ كامظهر ہے۔هیگل كهتا ہے كه جدلیاتی عمل، نفس سے ماده كی جانب نزول كرتا ہے گویا لطیف ترین تصور جب بلندی سے پستی كی طرف یا عروج سے زوال كی جانب آتا ہے تو لطیف ترین سے كثیف ترین صورت اختیار كر لیتا ہے اور یه كثیف ترین صورت ماده كهلاتی ہے جسے ہم عالمِ ظاهر كهتے هیں اور جسے ہمارے حواس اپنی گرفت میں لے لیتے هیں اور ہم اس كا ادراك كرنے لگتے هیں۔ صوفیائے كرام كے مطابق كائنات فطرت خدا كا عین ہے۔ابنِ عربی نے اس سلسلے میں یه آیت٫٫كنت كنزاً مخفیاً فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق٬٬﴿یعنی میں ایك چھپا هوا خزانه تھا، میں نے چاها كه میں پهچانا جائوں اس لیے میں نے خلقت كو پیدا كیا﴾۔گویا یه تمام كائنات اسی وجود مطلق كی ٫تجلی٬هے ۔اگر فطرتِ كائنات واقعی خدائے مطلق كی تجلّی ہے تو یه یقیناً بے حد حسین ہے۔غالب بھی اس نظریے سے متفق هیں اس لئے اس نظریے كی وضاحت كے لئے ا نهوں نے مختلف قسم كے الگ الگ رنگوں كے پھولوں كو مثال كے طور پر پیش كیا ہے اور كها ہے كه ان مختلف رنگوں میں بهار كا ثبوت ملتا ہے: ہے رنگ لاله و گل و نسریں جدا جدا هر رنگ میں بهار كا اِثبات چاهیے یعنی موجوداتِ كائنات اپنے رنگ و روپ كے اعتبار سے مختلف هیں لیكن ان سب میں خدا كا جلوه مو جود ہے۔ علّامه اقبال بھی اس نظریے كے قائل هیں ۔مثلاً انهوں نے اپنی نظم ٫هماله٬ میں ٫هماله٬ كو خدا كے جلوه سے تعبیر كها ہے : ایك جلوه تھا كلیمِ طور سینا كے لیے تو تجلّی ہے سراپا چشم بینا كے لیے اس لئے فطرت كی منظر كشی كرتے وقت اكثر مقامات پر ان كا وجود فطرت میںفنا هوتا هوا معلوم هوتا ہے لیكن فنا كے مقام سے جب واپس آتے هیں تو ان پر یه رازمنكشف هو جاتا ہے كه كائناتِ فطرت اگر ایك جسم ہے تو انسان اس كی روح ہے اس لئے اقبال انسان كی عظمت كے قائل هوجاتے هیں اور فلسفه خودی جیسے نظریے كو پیش كرتے هیں۔ دوسری طرف كالی داس جب رگھوونشم، كمار سمبھوَ، میگھ دوتم اور ابھگیان شكُنتلم جیسے مها كاویه كی تخلیق كر رهے تھے اس وقت ان كے ذهن میں موجوده دنیا نهیں تھی جسے ٫كل یُگ٬ سے تعبیر كیا جاتا ہے بلكه ان كے ذهن میں وه دنیا تھی جسے٫٫ ست یُگ٬ كها جاتا تھا اور جس دنیا میں تمام دیوی اور دیوتاچلتے پھرتے نظر آتے تھے۔ كالی داس كی نظر میں ٫ ٫هماله٬٬صرف ایك پهاڑ هی نهیں بلكه ایك دیوتا بھی تھا جس كی بیٹی پاروتی تھی۔اس زمانے میں زمین سے سورگ لوك میں جانا اور وهاں سے واپس آجانا ایك عام بات تھی۔پهاڑ كی وادیوں میں رنگ برنگ كے پھول كھلا نے اور تمام گلستاں كو پھولوں كی خوشبو سے معطر كرنے كے لئے ٫٫كام دیو ٬٬بھی مامور كئے جاتے تھے ۔ایسی صورتِ حال میں كالی داس كی تخلیقات میں فطرت كی حسین مناظر كی تصویر كشی نهیں كی گئی هوتی تو یه حیرت كی بات هوتی۔اب غور كرنے كی بات یه ہے كه دونوں شاعروں نے فطرت كی جو منظركشی كی ہے اس كی نوعیت كیا ہے؟فطرت كے مناظر كو دلكش و دلفریب بنانے كے لئے كس طرح كی كی تشبیهات و استعارات كا استعمال كیا ہے۔ایك هی منظر كو دونوں شاعروں نے كس طرح پیش كیا ہے؟ان تمام پهلوو ں كو جاننے كے لئے دونوں شاعروں نے فطرت كی جو تصویر كشی كی ہے اس كا تقابلی مطالعه ضروری ہے۔ علاّمه اقبال كی ابتدائی نظموں میں فطرت كی منظركشی كی بے شمار مثالیں ملتی هیں۔بانگِ درا كی پهلی هی نظم ٫٫هماله٬٬ میں اقبال نے خوبصورت تشبیهات و استعارات كی مدد سے قدرت كا مطالعه اور فطرت كے حسین مناظر كی تصویر كشی كرنے كے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجے كی شاعری بھی كی ہے ۔ ہماله سے خطاب كرتے هوئے اس كی جغرافیائی حالت ، عظمت ، اهمیت اور افادیت كی طرف بھی ا شارے كئے گئے هیں۔اس نظم كا پهلا بند ہے اے ہماله اے فصیل كشورِ هندوستاں چومتا ہے تیری پیشانی كو جھك كر آسماں تجھ میں كچھ پیدا نهیں دیرینه روزی كے نشاں تو جواں ہے گردشِ شام و سحر كے درمیاں اس بند كے پهلے هی مصرعے میں ٫٫ فصیل كشورِ هندوستاں٬٬كهه كراقبال نے ہماله كی وسعت اور پھیلاو كا منظر پیش كرنے كے ساتھ اس بات كی طرف بھی اشاره كردیا ہے كه هندوستان كی وه سرحدیں جو خشكی میں هیں ، ہماله كے لمبے سلسلے سے گھِری هوئی هیں۔ اسی بات كو كالی داس نے اپنی تخلیق ٫٫كمار سمبھَو٬٬میں پهلے سرگ كے پهلے شلوك میں اس طرح كهی ہے كه بھارت كے شمال میں دیوتا كی طرح عبادت كے لائق ہماله نام كا بڑا بھاری پهاڑ ہے جو مشرق اورمغرب كے سمندری ساحل تك پھیلا هوا ایسا لگتا ہے جیسے وه اس سرزمین كو ماپنے اور تولنے كا میزان هو۔ كالی داس نے ہماله كو دیوتا كی طرح لائقِ عبادت كهه كر هندو مائیتھولوجی كی طرف بھی اشاره كیا ہے جس كے مطابق ہماله صرف ایك پهاڑ هی نهیں ہے بلكه بھگوان شیو كی اهلیه پاروتی كے جننی﴿تخلیق كا سرچشمه﴾ بھی هیں۔اقبال نے بھی كها ہے كه اهلِ بینا كے لئے ہماله سراپا تجلّی خدا ہے : تو تجلّی ہے سراپا چشم بینا كے لیے اقبال نے جب یه كها ہے كه آسمان اس كی بلندی كو جھك كر چومتا ہے تو اس سے نه صرف اس كی بلندی ظاهرهوتی ہے بلكه زمین سے آسمان تك كا نظاره آنكھوں میں گھومنے لگتا ہے اور ساتھ هی زمین و آسمان كی دوری بھی مٹتی هوئی معلوم هوتی ہے۔اسی طرح ہماله كو یه كهه كر كه٫٫ تو جواں ہے گردشِ شام و سحر كے درمیاں٬٬ اس كے مناظر كو مزید دلفریب بنا دیا ہے كیوں كه جوانی سے زیاده پُر كشش كوئی اور چیز نهیں هوتی ۔ ایك دوسرے شعر میں علّامه اقبال نے ہماله پهاڑ كے نظارے پیش كرنے كے لیے اس كی چوٹیوں كو ثریّا سے سرگوشی كرتے هوئے دكھایا ہے اور یه كها ہے كه زمین پر هوتے هوئے بھی ہماله كا وطن آسمان ہے۔اس سے نه صرف ہماله كی بلندی كا احساس هوتا ہے بلكه ہماله كی وادیوں سے چوٹیوں تك اور چوٹیوں سے تاروں كی انجمن تك كے مناظر آنكھوں میں پھر نے لگتے هیں۔ چوٹیاں تیری ثریّا سے هیں سرگرم سخن تو زمیں پر اور پنهائے فلك تیرا وطن شاعر نے اس كے علاوه ہماله كے دامن میں پائی جانے و لی كالی گھٹاو ں، چشموں اور هوا كے جھونكوں كی بھی انتهائی خوبصورت منظر كشی كی ہے۔ فطرت كے ان حسین مناظر كی تصویر كشی كرنے كے لیے شاعر نے ہماله كی گود میں پائے جانے و الے چشموںكے پانی كوصاف اور شفاف بتانے كے لیے اس كی سطح كو آئینه سیّال قرار د یا ہے جس میں فطرت اپنی تصویر دیكھا كرتی ہے۔ چشمه دامن ترا آئینه سیّال ہے آئینے میں جب كوئی حسینه اپنے حسن كو دیكھتی ہے تواس كے چهرے پر ایك عجیب و غریب كیفیت طاری هونے لگتی ہے مثلاً نپولین كی بهن پولائن نے مرتے وقت آئینه دیكھنے كی خواهش ظاهر كی تھی اور جب اسے آئینه پیش كیا گیا تو آئینه میں دیكھتے هوئے كها تھا كه خدا كا شكر ہے میں اب بھی خوبصورت هوں۔ اس لئے آئینه دیكھنے كے بعد كی كیفیت كو بیان نهیں كیا جا سكتا صرف محسوس كیا جا سكتا ہے۔لیكن فطرت جو انتهائی حسین ہے اس پر كیا گزرتی هوگی جب وه اپنے حسن كو آئینے میں دیكھتا هوگا۔اقبال كا یه شعر: حسن آئینه حق، دل آئینه حسن دلِ انساں كو ترا حسنِ كلامِ آئینه بھی اس كی تائید كرتا ہے۔كالی داس نے كیلاش پربت كی گود میں بسی هوئی ٫الكا پوری ٬كی تشبیهه عاشق كی گود میں بیٹھی هوئی٫٫كامنی٬٬ سے اور وهاں سے نكلنے والی گنگا كی دھار كی تشبیهه اس كامنی﴿ یعنی الكاپوری﴾كے جسم سے ڈھلكی هوئی ساڑی سے اور پھر الكا پوری پر بارش كے دنوں میں برستے هوئے بادل كے سایے كی تشبیهه كامنیوں كے سر پر موتی گتھے هوئے جُڑے سے دے كر الكاپوری كی نه صرف خوبصورت تصویر كشی كی ہے بلكه گنگا كی دھار، برستے هوئے بادل اور بادلوں كے سایے كے اثرات اور موتی جڑے هوئے كامنیوں كے جُڑے كی ایسی تصویر كشی كی ہے كه تمام مناظر حركت كرتے هوئے آنكھوں میں پھرنے لگتے هیں۔ كالی داس نے الكا پوری كو كامنی سے تعبیر كركے پهلے قاری كی جنسی تلذز كو بیدار كیا اور پھر اس كے بدن سے اس كی ساڑی كو سركا كر قاری كی جنسی خواهش كو بھڑكا دیا اور وهاں كے پوری فضا میں رومان اور سرمستی كی سی كیفیت پیدا كردی ہے۔٧٦ویں شلوك میں كالی داس نے لكھا ہے: ٫٫هے كام چارنی اس كیلاش پروت كی گود میںالكاپوری ویسے هی بسی هوئی ہے جیسے اپنے پیارے كی گود میں كوئی كامنی بیٹھی هو۔وهاں سے نكلی گنگا جی كی دھارا ایسی لگتی ہے، مانو اس كامنی كے شریر پر سے سركی هوئی اس كی ساڑی هو۔یه نهیں هو سكتا كه ایسی الكا كو دیكھ كر تم پهچان نه پاو ۔اُونچے اُونچے بھونوں والی الكا پوری پر ورسا كے دنوں میںبرستے هوئے بادل كامِنیوں كے سر پر موتی گُتھے هوئے جُڑے جیسے چھائے رهتے هیں۔٬٬ ﴿كالی داس گرنتھاولی،ص ٩٠٣﴾ اقبال نے ہماله كی رونق اور چمك كو ظاهر كرنے كے لیے او ر آلودگی سے پاك وهاں كی هواو ں كی اهمیت كو بتانے كے لیے اسے ہماله كا رومال قرار دیا ہے۔ دامن موجِ هوا جس كے لیے رومال ہے اسی نظم كے ایك اور بند میں شاعر نے فطرت كے حسین مناظر كی تصویر اس حسن و خوبی سے كی ہے كه پهاڑ كی وادی میں نه صرف حركت پیدا هو گئی ہے بلكه محاكات كی عمده مثال بھی ہے جس سے وهاں كے تمام مناظر آنكھوں میں رقص كرنے لگتے هیں۔هماله كی وادی میں كالی گھٹاو ں كو گھڑسوار، تیز هوا كے جھونكوں كو گھوڑے اور بجلی كی چمك كو چابك سے تعبیر كركے ہماله كی وادی كو بازی گاه بنا دیا ہے جهاں فطرت كے عناصر ہمه وقت مختلف كھیلوں میں مصروف رهتے هیں۔صرف اتنا هی نهیں شاعر نے هوا میںاڑتی هوئی كالی گھٹاو ں كو اس مست هاتھی سے جس كے پاو ں میں زنجیر نه هو سے تشبیهه د ے كر عجیب و غریب نظاره پیش كیا ہے۔ ابر كے هاتھوں میں رهموارِ هوا كے واسطے تازیانه دے دیا برقِ سرِ كوهسار نے اے ہماله كوئی بازی گاه ہے تو بھی، جسے دستِ قدرت نے بنایا ہے عناصر كے لیے هائے كیا فرطِ طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر فیل بے زنجیر كی صورت اُڑا جاتا ہے ابر ایسے هی نادر تشبیهات كالی داس نے بھی اپنی تخلیق میگھ دوتم میں بڑے آب و تاب سے استعمال كیے هیں۔پُرو َ میگھ ،شلوك۔٢ ،میں كالی داس نے پهاڑ كی چوٹی سے لپٹے هوئے بادل كی تصویر كشی كرتے هوئے اس كی تشبیهه هاتھی سے دی ہے۔یكچھ كے متعلق لكھتے هیں : ٫٫اساڑھ كے پهلے هی دن وه دیكھتا كیا ہے كه سامنے پهاڑی كی چوٹی سے لپٹا هوا بادل ایسا لگ رها ہے جیسے كوئی هاتھی اپنے ماتھے كی ٹكر سے مٹی كے ٹیلے كو هٹانے كا كھیل كھیل رها هو۔٬٬ كالی داس نے هوا كے جھونكوں سے اِدھر ُادھر گھومتے هوئے بادلوں كی تشبیه مٹّی كے ٹیلوں كو اپنے ماتھے سے مار مار كرهٹا نے كا كھیل كھیلتے هوئے هاتھی سے دے كرموثر انداز میں فطری منظركشی كی ہے۔علامه اقبال نے ایسے بادلوں كو فیلِ بے زنجیر كها ہے اور پهاڑی علاقوں كو بازی گاه یعنی كھیل كا میدان قرار دیا ہے جهاں فطرت هاتھی اور گھوڑوں كا كھیل كھیلا كرتی ہے۔ ایك دوسرے بند میں صبح كی ٹھنڈی هواو ں كے جھونكے اور ان جھونكوں كے اثرات سے پھولوں كی كلیوں پر جو كیفیت پیدا هوتی ہے اس كو انتهائی شاعرانه انداز میں بیان كرتے هوئے كهتے هیں كه صبح كی ٹھندی هواو ں نے كلیوں پر ایسا اثر ڈالا كه زندگی كے نشے میں هر پھول كی كلی جھومتی هوئی نظر آ رهی ہے۔زندگی كے نشے میں پھول كی كلیوں كا جھومنا انتهائی لطیف خیال ہے۔ جنبش موجِ نسیمِ صبح گهواره بنی جھومتی ہے نشّه هستی میں هر گل كی كلی مثنوی سحر البیان كے مصنف میر حسن نے بھی ایك باغ كا منظر اس طرح كھینچا ہے : گلوں كا لبِ نهر وه جھومنا اسی اپنے عالم میں منھ چومنا وه جھك جھك كے گرنا خیابان پر نشے كا سا عالم گلستان پر كالی داس نے اپنی تخلیق رگھو ونشم میں موسمِ بهار كا نقشه پیش كرتے هوئے كچھ ایسی هی منظر كشی كی ہے جس میں انهوں نے كها ہے كه اچانك نوخیز منجری﴿flower of mango tree﴾ سے بھرے آم كے پیڑ كی ڈالیاں، ہماله سے آتی هوئی هوا و ں سے ایسی جھوم اٹھتی هیں جیسے انهوں نے اداكاری سیكھنا شروع كر دیا هو اور انهیں دیكھ كر حسد اور كدورت سے دور رهنے والے یوگیوں كا دل بھی جھوم اٹھا۔ ﴿نواں سرگ،٣٣واں اشلوك،ص ١٨﴾ علامه اقبال نے پودوں اور پھولوں كی پتیوں كو زبان سے تشبیهه دے كر ان كی خاموشی میں قوتِ گویائی پیدا كردی ہے اور تمام پھول یه كهنے لگے هیں كه گلچیں كے هاتھوں كی رسائی آج تك ان پھولوںتك نهیں هو سكی۔ یوں زبانِ برگ سے گویا ہے اس كی خامشی دست گلچیں كی جھٹك میں نے نهیں دیكھی كبھی اسی نظم كے ایك اوربند میںشاعر نے پهاڑ كی بلندی سے جو ندیاں راستے میں پڑے چٹّانوں اور پتھروں سے ٹكراتی هوئی نیچے آتی هیں ان كی نه صرف خوبصورت منظر كشی كی ہے بلكه ان ندیوں كو جنّت كی ندیوں كوثر و تسنیم سے بهتر قرار دیاهے جس میں قدرت اپنے آپ كو دیكھتی رهتی ہے كه اس كے مناظر كس قدر حسین هیں ساتھ هی ان ندیوں سے نكلنے والی آواز كو موسیقی سے تعبیر كیا ہے۔ ساتھ هی راستے كے نشیب وفراز سے ٹكراتی هوئی اور مسلسل اپنی منزلیں طے كرتی هوئی ندیوں سے فلسفه زندگی كی طرف بھی اشاره كیاهے : آتی ہے ندّی فرازِ كوه سے گاتی هوئی كوثر و تسنیم كی موجوں كو شرماتی هوئی آئِنه سا شاهد قدرت كو دكھلاتی هوئی سنگِ ره سے گاه بچتی، گاه ٹكراتی هوئی چھیڑتی جا اس عراقِ دل نشیں كے ساز كو اے مسافر دل سمجھتا ہے تری آواز كو وادی كهساركی شام كی منظر كشی كرتے هوئے شام میں پھیلتی هوئی سیاهی كو اندھیری رات كے زلفِ رسا سے تعبیر كیا ہے جس سے معلوم هوتا ہے كه لیلٰی شب كوئی جیتی جاگتی دلهن هو جس نے اپنے بالوں كو كھول كر اپنے حسن میں اضافه كر لیا هواور اس حسین مناظر میں آبشاروں كی آواز دل كو اپنی طرف كھینچ ر هی هو ۔شاعر نے اس پرفریب شام میں چاروں طرف چھائی هوئی خاموشی كویه كهه كر :٫٫وه خموشی شام كی جس پر تكلّم هو فدا٬٬شام كے وقت كی خاموشی كی اهمیت كو بڑھا دی ہے۔عام طور پر رات كی خاموشی كو وحشت كے طور پر پیش كیا جاتا ہے لیكن اقبال نے اس كی اهمت كو justify كرنے كے لیے پیڑ پودوں اور درختوں پر چھائی هوئی شام كی خاموشی كوفكری استغراق سے جوڑ كر دیكھنے كی كوشش كرتے هیں۔بند ملاحظه كیجئے۔ لیلی شب كھولتی ہے آ كے جب زلفِ رسا دامن دل كھینچتی ہے آبشاروں كی صدا وه خموشی شام كی جس پر تكلّم هو فدا وه درختوں پر تفكر كا سماں چھایاهوا برف سے ڈھكی هوئی ہماله كی چوٹیوں پر آفتاب كی پهلی كرن جب پڑتی ہے تو اس كا حسن دید كے قابل هوتا ہے۔اقبال نے اس حسین منظر كی نه صرف تصویر كشی كی ہے بلكه چوٹیوں كو ٫ سر٬ اور برف كو دستارِ فضیلت سے تعبیر كركے ہماله كی اهمیت اور بڑھا دیا ہے۔ برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خنده زن ہے جو كُلاهِ مهرِ عالم تاب پر اسی طرح غروب آفتاب كے وقت پهاڑوں پر پڑنے والے شفق رنگ اور اس سے ابھرنے والے مناظر كی تصویر كشی اقبال نے انتهائی خوبصورت انداز سے كی ہے۔ كانپتا پھرتا ہے كیا رنگِ شفق كهسارپر خوش نما لگتا ہے یه غازه ترے رخسار پر شاعر نے شعر كے پهلے مصرعے میں رنگ شفق كو كانپتے هوئے دكھاكر عجیب و غریب منظر پیش كیا ہے اور دوسرے مصرعے میںشفق رنگ كو غازه سے اور پهاڑ پر جمی هوئی برف كو رخسار سے تعبیركر نا انتهائی لطیف خیال ہے۔ اقبال نے جس طرح ہما له ، گلِ رنگیں،آفتابِ صبح، چاند، جگنو ،شمع اور بزمِ انجم وغیره نظموں میں فطرت كا مطالعه پیش كیا ہے اور قدرت كے حسین مناظر كی تصویر كشی كی ہے اسی طرح نظم٫٫ ابرِ كوهسار٬٬ میں بھی فطرت كا مطالعه كیا ہے اور خوبصورت تشبیهوں اور استعاروں كی مدد سے قدرت كے حسین مناظر كی بے حد خوبصورت تصویر كھینچی ہے۔ اس نظم میںشاعر نے تمثیلی اندازِ بیان اختیار كرتے هوئے ِ كوهسار كے بادل كو جاندار كی صورت میں پیش كیا ہے اور بادل كی زبانی اس كی تمام خو بیوں كو بیان كیا ہے اور بادل كی وجه سے پهاڑ كی وادیوں میں جو حسین مناظرنظر آتے هیں ان كی تصویر كشی كی ہے۔ شاعر نے یه كهه كر كه ابرِ كوهسار كے دامن میں چاروں طرف پھول بكھرے هوئے هوتے هیں اور پهاڑ كی وادیوں كے هرے بھرے گھاس كو مخمل كے بچھونے سے تشبیه دے كر نه صرف پهاڑ كی وادیوں كی حسین منظر نگاری كی ہے بلكه ابرِكوهسار كی اهمیت كی طرف بھی اشاره كر دیا ہے: ہے بلندی سے فلك بوس نشیمن میرا ابر كهسار هوں گل پاش ہے دامن میرا كبھی صحرا، كبھی گلزار ہے مسكن میرا شهر و ویرانه مرا، بحر مرا، بن میرا كسی وادی میں جو منظور هو سونا مجھ كو سبزئه كوه ہے مخمل كا بچھونا مجھ كو دراصل بارش كی وجه سے هی كسانوں كی كھیتی اور میدانوں كے سبزے لهلها تے هیں۔لیكن اس بات كو كهنے كے لیے شاعر نے جو پیرایه بیان اختیار كیا ہے وه قابلِ تعریف ہے۔اس بند كا پهلا مصرع ملاحظه كیجیے۔ مجھ كو قدرت نے سكھایا ہے دُر افشاں هونا ناقه شاهد رحمت كا حُدی خواں هونا غم زدائے دلِ افسردئه دهقاں هونا رونق بزمِ جوانانِ گلستاں هونا دُر افشاں ﴿یعنی موتی ﴾ بلبلے كا استعاره بالكنایه ہے۔ اس استعارے سے مصرعے میںجهاں حسن پیدا هوا ہے وهیں بارش كے وقت كھیتوں اور میدانوں كا منظر آنكھوں كے سامنے آجاتا ہے۔كالی داس نے میگھ دوتم میں ایك جگه بارش كے دنوں میں بادل اور بادل سے لپٹے هوئے قوس وقزح﴿اندر دھنش﴾ كی منظر كشی كی ہے اور اس كے ساتوں رنگوں كو قیمتی جواهرات سے تعبیر كیا ہے۔اس رنگین فضا میں بادلوں كے سانولے رنگ كو كرشن جی كے چهرے كے رنگ سے اور اندر دھنش كے رنگوں كو كرشن جی كے تاج سے مشابه قرار دے كرعجیب و غریب كیفیت پیدا كر دی ہے۔پندرهویں شلوك میں لكھتے هیں: ٫٫دیكھو سامنے سورج كی كانتی سے پربھاوِت میگھ اٹھا هوا اندر دھنش كا وه ٹكرا ایسی خوبصورت دكھائی پڑ رها ہے، جیسے بهت سے جواهرات كی چمك ایك ساتھ یهاں لا كر اكٹھّی كر دی گئی هو ۔اس اندر دھنش سے سجا هوا تمهارا سانولا جسم اتنا خوبصورت لگنے لگا ہے جیسے مور مكٹ پهنے اور گوالے كا بھیس بنائے هوئے خودشری كرشن آ كھڑے هوئے هوں۔٬٬ ﴿كالی داس گرنتھاولی،ص ١٠٣﴾ اس بند كے دوسرے مصرعے میں بادل كو شاهدِ رحمت اور ناقه حُدی خواں سے تعبیر كر كے بادل كی آواز كو نغمه قرار دیا گیا ہے جس كی تاثیر سے ریگستان میں اوُنٹ كی رفتار تیز هو جاتی ہے اور اس طرح بادل كے گرجنے كی تصویر بھی سامنے آجاتی ہے۔كالی داس نے بھی بادلوں كے گرجنے اور اس كی گرجن سے ڈر كر محبوب كے آپس میں لپٹنے گلے سے لپٹنے كا بھی نقشه كھینچا ہے اور بادلوں كی آواز كو دو چاهنے والے جوڑوں كے درمیان كی دوری ختم كرنے والا نغمه قرار دیا ہے۔٣٢ویں شلوك میں كالی داس نے لكھا ہے: ٫٫اور دیكھو برسات كی بوندوں كو اُوپر هی اُوپر سے چونچ میں لے لینے چتُر چاتكوں اور جھنڈ باندھ كر اُڑتی هوئی چاتكیوں كوگناتے هوئے سِدھ جن ،جب تم وهاں پهنچ كر گرجنے لگوگے تو سِدھانڈنائیںگھبرا كراپنے اپنے محبوب سے لپٹ جائیں گی۔اس گھبراهٹ بھرے ہم آغوش كو پا كر وه تمهارا احسان مانیں گے٬٬۔ ﴿كالی داس گرنتھاولی،ص ٢٠٣﴾ اقبال كے اس بند كا یه مصرع استعاره بالكنایه كی بهترین مثال ہے۔اس بند كا یه آخری شعرقابلِ توجه ہے۔ بن كے گیسو رخِ هستی په بكھر جاتا هوں شانه موجه صرصر سے سنور جاتا هوں اس شعر میں شاعر نے بادل كو گیسوسے تشبیهه دے كر اس سر زمین كو خوبصورت حسینه بنا دیا ہے اور پھر گیسو كی رعایت سے یه كهه كر كه بادل٫٫ شانه موجه صرصر سے سنور جاتا ہے٬٬ هوا كو حسینه كے كندھے سے تعبیر كیا ہے جو انتهائی بلیغ ہے۔كیوں كه هوا كے تیز جھونكوں سے آسمان میں بادلوں كے بكھرنے اور پھر بكھر كر سنورنے كے منظر كی تصویر كشی اس سے زیاده خوبصورت انداز میں ممكن نهیں ہے۔ علّامه اقبال نے اس سرزمین كو ایك دلهن قرار دیا اور كالے كالے بادلوں كو دلهن كے زلف سے تعبیر كیا ہے جو هوا كے جھونكوں سے دلهن كے كندھوں پر كبھی بكھر جاتے هیں تو كبھی سنور جاتے هیں۔كالی داس نے بھی میگھ دوت میں ایك جگه كها ہے كه بادل جب هوا كے كندھوں پر سوار هو كر اُوپر اٹھے گا تو الكا پوری كی وه تمام عورتیں جن كے شوهر ان سے دور هیں اپنے لمبے بالوں كو اوپر اٹھا كے بڑے بھروسے سے تمهیں دیكھیں گی۔كھلے هوئے كالے بال گھنے بادلوں كی علامت ہے تو دوسری طرف یه جدائی اور غم كی بھی علامت ہے۔ كالی داس نے ایك جگه اور كالے كالے بادلوں كو كهیں نرم ونازك جُڑوں سے تو كهیں پهاڑوں میں پائے جانے والے جواهرات اور كهیں موتیوں سے بھرے هوئے كامنیوں كے جُڑوں سے تشبیهه دی ہے۔كالی داس نے میگھ دوتم كے پهلے سرگ كے اٹھارهویں شلوك میں كها ہے كه پكے هوئے پھلوں سے لدے آم كے پیڑوں سے گھرا هوا آمر كوٹ پهاڑ پیلا هوگا۔اس كی چوٹی پر جب تم﴿بادل﴾ نازك بالوں كی جڑوں كی طرح سانولا رنگ لے كر چڑھوگے تب وه پهاڑی دیوتاو ںكی بیویوں كو دور سے ایسے دكھائی دے گاجیسے وه زمین سے اٹھا هوا ایسا جوهر هو جس كے بیچ میں سیاه اور چاروں طرف ذرد هو۔اسی طرح ٧٦واں شلوك میں وه كهتے هیں كه اُونچے اُونچے محلوں والی الكا پوری پر برسات كے دنوں میں برستے هوئے بادل٫كامنیوں٬ كے سر پر موتی گتھے هوئے جُڑے كی مانندچھائے رهتے هیں۔ تیسرے بند میں بھی بادل اور بارش كی اهمیت پر روشنی ڈالتے هوئے اس مضمون كو نئے نئے انداز میں باندھنے كی كوشش كی گئی ہے۔بظاهر شاعر صرف یه كهنا چاهتا ہے كه بادل كهیں برستا ہے اور كهیں نهیں برستا ہے۔ لیكن جهاں برستا ہے وهاں كے نهر كو بھنور كی بالیاں پهناتا ہے۔دراصل پانی كی بوندوں سے نهر میں جو بھنور پیدا هوتا ہے اسے شاعر نے بالیوں سے تعبیر كیا ہے ۔نهر كو گرداب كی بالیاں پهنانا صرف Poetic description ہے۔ اس مصرعے سے بھی بارش كی خوبصورت تصویر كھینچی گئی ہے۔شاعر آگے كهتا ہے كه كسی جگه سے بغیر برسے هوئے اگر بادل گزر جاتا ہے تو وهاں كے لوگ مایوس هوجاتے هیں اور بارش كے لیے ترسنے لگتے هیںكیوں كه بادل نوخیز سبزے كی امید ہے یعنی جو سبزه ابھی ابھی زمین سے اگتا ہے وه پانی كی كمی سے سوكھ جاتا ہے۔اس لیے اس كی زندگی كا دارومدار بارش پر ہے۔اس بند كے آخری مصرعے میں شاعر نے بادل كے بننے كی سائنسی وجوهات كی طرف روشنی ڈالی ہے۔بند ملا حظه كیجیے۔ دور سے دیدئه امید كو ترساتا هوں كسی بستی سے جو خاموش گزر جاتا هوں سیر كرتا هوا جس دم لب جو آتا هوں بالیاں نهر كو گرداب كی پهناتا هوں سبزئه مزرعِ نوخیز كی امّید هوں میں زادئه بحر هوں، پروردئه خورشید هوں میں بندھیا پهاڑ كی چوٹی﴿ جسے نیچ بھی كها جاتا ہے﴾پر كھِلے هوئے كدمبھ كے پیڑ اور بادلوں كے دیده امید كے خواهش مند ،ان پیڑوں كی بے قراری اوراس پهاڑ كے غاروں سے خوشبودار اشیا سے نكلتی هوئی خوشبو كو بھی كالی د اس نے محسوس كیا ہے۔وهاں كے بازارِحسن كی عورتوںكے ذریعے جنسی لذت حاصل كرتے وقت ان خوشبوو ں كا صحیح استعمال كئے جانے كا نقشه بھی كھینچا ہے۔٧٢ویں شلوك میں لكھا ہے: ٫٫هے مِتر وهاں پهنچ كر تم تھكاوٹ مٹانے كے لئے٫نیچ٬ نام كی پهاڑی پر اُتر جانا۔وهاں پر پھولے هوئے كدمب كے پیڑوں كو دیكھ كر ایسا لگے گا كه تم سے ملنے كے لئے ان كے روم روم پھڑپھڑا اُٹھے هوں۔اس پهاڑی كی گپھاو ں میںسے ان خوشبودار اشیا كی خوشبو نكل رهی هو گی، جنهیں وهاں كی رسك﴿عاشق مزاج﴾ ویشیاو ںكے ساتھ ہم بستری كرنے كے وقت كام میں لاتے هیں۔اس سے تمهیں یه بھی پته چل جائے گا كه وهاں كے شهری كتنی آزادی سے جوانی كے مزے لیتے هیں٬٬۔ ﴿كالی داس گرنتھاولی،ص ٣٠٣﴾ نِروندھیا ندی كی اُچھلتی هوئی لهروں اور ان لهروں پركردھنی سی دكھائی دینے والی چڑیوں كی چهكتی هوئی قطاروں كی تصویر كشی كے علاوه رُك رُك كر بهنے والی لهروں اور ان میں پڑی هوئی بھنور﴿گرداب﴾كو عورتوں كی ناف سے اور بل كھاتی هوئی ندی كی لهروں كو عورتوں كی اداو ں سے تشبیه دے كر كالی داس نے پورے منظر كو دلفریب بنا دیا ہے۔٠٣ویں شلوك میں لكھتے هیں: ٫٫هے مِتر اُجّینی كی طرف جاتے هوئے تم اُتر كر اس نِر وندھیا ندی كا بھی رس پی لینا، جس كی اُچھلتی هوئی لهروں پر چڑیوں كی چهكتی هوئی پنكتیاںكردھنی سی دكھلائی دیں گی۔جو بهت خوبصورت ڈھنگ سے رُك رُك كر بهه رهی هوں گی اور اور اس میں پڑی هوئی بھنور تمهیں اس كی نابھی جیسی دكھائی دے گی۔كیوں كه عورتیں هاو بھاو كے ذریعے هی اپنے محبوب كو محبت كی بات بتلا تی هیں۔٬٬ ﴿كالی داس گرنتھاولی،ص ٣٠٣﴾ آخری مصرعے میں اقبال نے سائنس كے اس نقطے كو پیش كیا كه سورج كی گرمی سے سمندر كا پانی بھاپ بن كر اُوپر اڑتا ہے یهی بھاپ جب بهت اُوپر چلا جاتا ہے تو ٹھنڈا هو كر بادل بن جاتا ہے اور یهی بادل هوا كا دباو بڑھ جانے سے برسنے لگتا ہے۔اسی لیے شاعر نے بادل كو سمندر كا بیٹا اور سورج كا پرورده كها ہے۔ آخری یعنی چوتھے بند میں بھی شاعر نے بادل كی فضیلت كوخو بصورت انداز میں بیان كی ہے جس سے پهاڑ ی علاقوں ،پهاڑی ندیوں پهاڑ كے آس پاس كے میدانوں ، ان میدانوں میں كھلے هوئے پھولوں اور اس علاقے میں بنے هوئے جھونپڑوں كا منظر آنكھوں كے سامنے پیش كر دیا ہے اور ساتھ ساتھ بادل كی اهمیت كا احساس اپنے قاری كو كرا دیا ہے۔شاعر كهتا ہے كه پهاڑ كے جھرنوں میں سمندر جیسی جو هلچل ہے وه بادل نے عطا كی ہے۔ شاعر نے یه بتا كر كه پرندے بادل كی آواز میں محو هوجاتے هیں،بادل كی آواز كو نغمه قرار دے دیا ہے۔اس بند كے تیسرے مصرعے میں شاعر نے بادل كو حضرتِ عیسیٰ قرار دے دیا ہے یعنی جس طرح عیسیٰ الیه اسلام مردوں كو زنده كر دیتے تھے اسی طرح بادل بھی سبزے كو هرے بھرے هو جانے كے لیے حكم دیتا ہے ۔شاعر آگے كهتا ہے كه بادل صرف غنچوں كو كھلنا هی نهیں سكھاتا بلكه اپنی رحمت سے كسانوں كے جھونپڑوں میں وهی خوشی پیدا كردیتا ہے جو خوشی محلوں میں پائی جاتی ہے۔ چشمه كوه كو دی شورش قلزم میں نے اور پرندوں كو كیا محو ترنّم میں نے سر په سبزه كے كھڑے هو كے كها قم میں نے غنچه گل كو دیا ذوقِ تبسم میں نے فیض سے میرے نمونے هیں شبستانوں كے جھونپڑے دامن كهسار میں دهقانوں كے كالی داس نے آمركوٹ كے جنگل اور جنگل میں كدمب كے پیڑ اور اس كے پھولوں كے علاوه ان پر منڈلاتے هوئے بھنورے، دلدل میں كھلے هوئے كمل كے پھول،پتیوں اور ان پتیوں كو چرتے هوئے هرن، زمین كی سوندھی خوشبو اور ان خوشبوو ں كو سونگھتے هوئے هاتھیوں كی ایسی تصویر كشی كی ہے كه جنگل میں ایك طرح كا هلچل پیدا كردیا ہے۔بائیسویں شلوك میں لكھتے هیں: ٫٫اور پھر جس سمے تم پانی برساتے هوئے چلے جا رهے هوںگے اس وقت ادھ پكے اور هرے پیلے كدمب كے پھولوں پر منڈلاتے هوئے بھنورے،دلدلوں میں نئی پھولی هوئی كمل كی پتیوں كو چرتے هوئے هرن اور جنگلی دھرتی كی سوندھی خوشبو سونگھتے هوئے هاتھی تمهیں راسته بتلائیں گے۔٬٬ ﴿كالی داس گرنتھاولی،ص ٢٠٣﴾ بارش كی بوندوں كا انتظار نه صرف پھولوں اور پودوں كو هوتا ہے بلكه آسمان میں اُڑتے هوئے پرندوں كو بھی هوتا ہے۔بعض پرندے سِواتی نكچھتر پهلے بوند كو پی كر حامله هوتے هیں۔كالی داس نے جھنڈ كے جھنڈ آسمان میں اڑتے هوئے ان پرندوں كی بھی منظر كشی كی ہے جو بارش كی بوندوں كو زمین پر گرنے سے پهلے هی اپنی چونچ میں روك لیتی هیں۔٣٢ویں شلوك میں كالی داس نے لكھا ہے: ٫٫اور دیكھو برسات كی بوندوں كو اُوپر هی اُوپر سے چونچ میں لے لینے چتُر چاتكوں اور جھنڈ باندھ كر اُڑتی هوئی چاتكیوں كوگناتے هوئے سِدھ جن ،جب تم وهاں پهنچ كر گرجنے لگوگے تو سِدھانڈنائیںگھبرا كراپنے اپنے محبوب سے لپٹ جائیں گی۔ ﴿كالی داس گرنتھاولی،ص ٢٠٣﴾ كالی داس نے پھولوں سے لدے هوئے پهاڑ،پهاڑ پر بادلوں كے انتظار میں آنكھوں میں آنسو لئے كوئل اور ان كی كُوك كی بھی منظر كشی كی ہے۔٤٢ویں شلوك میں لكھا ہے: ٫٫هے مِتر میں جانتا هوں كه تم میرے كام كے لئے بغیررُكے جلدجانا چاهو گے پھر بھی میں سمجھتا هوں كه كُوٹج كے پھولوں سے لدے هوئے ان خوشبودار پهاڑوں پر تمهیں ركتے تے هوئے هی جانا هوگاكیوں كه وهاں كے مور آنكھوں میں خوشی كے آنسو بھر كراپنی كوك سے تمهارا خیرمقدم كررهے هوں گے۔ ٬٬ ﴿كالی داس گرنتھاولی،ص ٢٠٣﴾ الكا نگری كے راستے میں پڑنے والے دشارن نام كے ایك دیش كے گلشن اور گلشن میں كھلے هوئے پھول اور خاص كر كیوڑے كے سفید پھولوں سے آراسته سفید گلشن كی تخلیق كی اور پھر ان كی تصویر كشی كی ہے۔وهاں كے گاو ںكے مندروں میں لٹكتی هوئی چڑیوں كے گھونسلوں ، وهاں كے جنگلوں میں پكی هوئی جامنوں كے پیڑ اور باهر سے آئے هوئے هنسوں كی بھی ایسی تصویر كشی كی ہے كه تمام منظر آنكھوں میں پھرنے لگتا ہے۔٥٢ویں شلوك میں لكھا ہے : ٫٫هے مِتر جب تم دشارن دیش كے پاس پهنچو گے تب وهاں كی پھولی هوئی پھلواریاںپھولے هوئے كیوڑے كی وجه سے سفید دكھائی دیں گی۔گاو ں كے مندر كوّا وغیره چڑیوں كے گھونسلوں سے بھرے ملیں گے۔وهاں كے جنگل پكی هوئی كالی جامنوںسے لدے ملیں گے۔اور هنس بھی وهاں پر كچھ دنوں كے لئے آكر بسے هوں گے۔٬٬ ﴿كالی داس گرنتھاولی،ص ٢٠٣،٣٠٣﴾ اقبال كی نظم ہماله اور ابرِ كهساراور كالی داس كی شاهكار ٫٫میگھ دوت٬٬ میں كافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ كالی داس نے اپنی اس بیانیه نظم میں بادل كو اپنا پیغامبر بنا كر جهاں اپنی بیوی كے پاس اپنا پیغام بھیجا وهیں فطرت كاوسیع مطالعه اورحسین منظر بھی پیش كیا۔اقبال نے بھی اپنی ان دونوں نظموں میں كالی داس كی طرح بادل اور قدرت كے مناظر كا بیان جس طرح كیا ہے اس سے اندازه هوتا ہے كه شاعر كے تخیل كی پرواز كس قدر بلند ہے۔ مناظر فطرت كا مطالعه كی اهمیت آج كے دور میں اور بھی بڑھ جاتی ہے كیوںكه ملحق ایٹمی هتھیاروں كے تجربے هو رهے هیںاورانسانیت كو تباه و برباد كیا جا رها ہے۔گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی توازن بگڑ تاجا رها ہے جس سے كائنات كی بقا كو خطره لاحق هو گیا ہے۔اس لئے ایسے منصوبے بھی بنائے جا رهے هیں جس سے كائنات كو محفو ظ ركھا جا سكے اورفطرت كے لطیف و نازك حسن كو برقرار ركھا جا سكے۔ان منصوبوں كے ساتھ یه بھی ضروری ہے كه اهلِ دنیا كو پھر سے فطرت كے حسین مناظر كی طرف متوجهه كیا جائے تاكه ان كے اندر كی درندگی ختم هوجائے اور معصومیت پیدا هو سكے ساتھ هی میر كی طرح یه محسوس كر سكیں كه : لے سانس بھی آهسته كه نازك ہے بهت گام كارگهے آفاق كی اس شیشه گری كا

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.