عالمی بحران اور فیض احمد فیض کی معنویت
اکیسویں صدی کے دس سال گذرجانے کے باوجود ذہن اور فکر پر گذشتہ صدی کے اثرات ہنوز باقی ہیں کیوں کہ اس صدی کو ــ”The most ـ voilent century” سے منسوب کیا گیاہے۔ماضی کی طرف مڑکردیکھتے ہیں تو خدشات اور خوف وہراس کی ایک عجیب سی ہولناک دنیا کا منظرنامہ کڑی در کڑی ہم تک پہنچتا ہوا نظر آتا ہے۔بظاہر دنیا کے مختلف ممالک پر چھائے ہوئے جنگ کے بادل سمٹ چکے ہیں۔ایٹمی خطرات کاخوف بھی مدھم پڑ گیا ہے۔لیکن ایٹم اور ہائڈروجن بم کے ذخیرے نہ صرف باقی ہیں بلکہ ان میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے۔دنیا کے اس تمام منظرنامے پر غوروفکرکرنے والے اور مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے ماہرین جس طرح اپنے موضوع اور معروض پر نظر ڈالتے رہتے ہیں اور گذشتہ پچاس برسوں میں جس طرح کی کتابیں لکھی جا رہی ہیں ،اگر ان پر نظر ڈالی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ کچھ بدلا نہیں ہے۔وہی اضطراب ہے جو پچاس سال پہلے تھا ، وہی خوف ہے جس کے تصور سے آج بھی دم گھٹتا ہے۔یاد آرہا ہے کہ ہربرٹ مارکوز نے One Dimensional Man جیسی کتاب لکھ کر بیک وقت دنیا بھر کے سوچنے والے ذہنوں کو اور زیادہ مضطرب کردیا تھا۔پھرایلون ٹافلرکی Future Shock جیسی کتاب سامنے آئی اور دنیا ایک بار پھر لرز اٹھی۔یہ صحیح ہے کہ صارفیت نے عام آدمی کے مسائل کو بہت سی آسائشیں اور آسانیاں فراہم کردی ہیں لیکن آسمان پر خوف کی لکیریں آج بھی نمایاں ہیں اور مختلف رنگوں میں نظر آتی ہیں۔1950 ء کے بعد سوچنے والے بیدار ذہنوں میں ایک شاعرناصر کاظمی تھا جس نے ایک دن بے محابا ایک شعر کہا تھا
طناب خیمہ گل تھام ناصر
کوئی آندھی افق سے آرہی ہے
یہ آندھی آخر کون سی تباہیوں کی پیامبر تھی، یا کس طوفان کا پیش خیمہ تھی کہ ناصر کاظمی کو اپنا خیمہ گل غیرمحفوظ نظر آرہا تھا اور وہ شاداب پھولوں کے بکھرنے کے عمل سے پہلے ان کے تحفظ کا اہتمام کرنا چاہتا تھا۔غزل میں اگر چہ بنیادی طور پر عشقیہ موضوعات کے اسالیب اور مفاہیم کارفرما رہتے ہیں لیکن ناصر کاظمی نے اس شعر میں خوف کے ماحول میں ڈوبی ہوئی دنیا کا ایک بڑا نازک استعارہ پیش کیا تھا۔ایک ایسا استعارہ جس کے مفاہیم کی ایک وسیع کائنات تمام سوچنے والے ذہنوں پر محیط ہو گئی تھی۔ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے قیامت کی آندھیاں ہمارے عہد سے قریب ہورہی ہیں اور زندگی کا شیرازہ بکھرنے کی منزل سے قریب ہے۔دراصل کسی شاعر کی بقا کا دارومدار آنے والے زمانوں کے تصورکائنات پر ہوتا ہے ۔بڑے شاعر کسی پراسرار وجہ سے آنے والے زمانوں کے تصور ہائے کائنات کو اپنے گرفت میں لے لیتے ہیں اور جیسے جیسے زمانہ بدلتا رہتا ہے ویسے ویسے ان کی شاعری کی نئی جہتیں کھلتی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ صدیاں گزرجانے کے بعد بھی میر،غالب اور اقبال کی شاعری کی معنویت آج بھی برقرار ہے۔ زندگی کا شیرازہ بکھرجانے کا جو احساس ناصر کاظمی کو تھا وہی احساس ان کے ہم عصروںاور بعد کے تمام بیدارذہن تخلیق کاروںکو بھی تھا۔اسی لئے اس عہد کے کم وبیش تمام بیدار ذہن تخلیق کاروں کی تخلیقات میں افق سے اٹھنے والی اس آندھی کی بشارت موجود ہے۔
فیض بھی انہیں تخلیق کاروں میں سے ایک تھے جواعلیٰ انسانی اقداراورانسان دشمن طاقتوں کوپہچانتے تھے۔برصغیرکے سماجی حالات اوردنیاکے منظرنامے پر ابھرتی ہوئی فاشزم سے واقف تھے۔ان کادل’’ ہیومنزم‘‘ اور قوموں کی آزادی کے جذبے سے سرشار تھا۔شاید اسی لیے’’ فیض صدی‘‘ ہندوو پاک کے علاوہ دیگرمماملک کے مختلف شہروں میں بھی دھوم دھام سے منائی جارہی ہے۔فیض صدی کے موقع پرجگہ جگہ سمینار،جلسے،ڈرامے،مشاعرے اور موسیقی کی محفلیں سجائی جا رہی ہیں۔ان کی شاعری اور شخصیت پربے شمارمضامین اور انٹرویوز،اردواورانگریزی کے اخبارات و رسائل اور انٹرنیٹ پر شائع ہوچکے ہیں۔کئی رسالوں کے خصوصی نمبر بھی شائع ہوئے ہیں۔ان رسالوں کے اداریوں اور ان میں شائع ہونے والے مضامین میں زیادہ تر ناقدین نے فیض کو میر،غالب اور اقبال کے بعد سب سے بڑا شاعر قرار دیا ہے ۔فیض احمد فیض کی بیٹی منیزہ ہاشمی نے فیض صدی کے موقع پر انگریزی کے ایک اخبار کو دیئے ایک انٹرویو میں کہا ہے :
“His poetry has layers and not very easy to understand.All of them are written with a certain perspective, all of them are written for that time but are relevant even today because we are still facing huge challenges (political, social and human rights challenges.)” (Downloaded from internet)
منیزہ ہاشمی کی یہ رائے کہ فیض کی شاعری تہدار ہے اور انہیںسمجھنا آسان نہیں ہے اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ فیض نے کلاسیکی الفاظ،استعارے اور پیکروں کوسیاسی پس منظرمیں استعمال کیا اورانہیں نئی معنویت عطا کی جنہیں سمجھے بغیر ان کو شاعری کو سمجھنا دشوار ہے۔ منیزہ ہاشمی کی یہ رائے درست ہے کہ فیض کی شاعری کی معنویت ہنوز باقی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فیض کی شاعری جس سماجی اور سیاسی پس منظر کی پیداوار ہے وہ پس منظرابھی تبدیل نہیں ہوا ہے اوروہ جس تصور ِکائنات کی عکاسی کرتے ہیں وہ آج بھی موجود ہے۔بقول فیض
شاخ پر خونِ گل رواں ہے وہی
شوخیِ رنگِ گلستاں ہے وہی
لو سنی گئی ہماری، یوں پھرے ہیں دن کہ پھر سے
وہی گوشۂ قفس ہے، وہی فصلِ گل کا ماتم
دوسری بات یہ ہے کہ فیض کے نزدیک ان کا فن دل لگی یا بے کاری کے لیے نہیں ہے۔بلکہ وہ کہتے ہیں ’’فن سخن(یا کوئی اور فن) بچوں کا کھیل نہیں ہے۔اس کے لیے تو غالب کا دیدہ بینا بھی کافی نہیں۔اس لیے شاعریاادیب کوقطرے میں دجلہ دیکھنا ہی نہیں دکھانا بھی ہوتا ہے‘‘۔فیض نے فن سخن کے متعلق صرف اظہار خیال ہی نہیں کیا ہے بلکہ اسے برتا بھی ہے اور قطرے میں دجلہ دکھایا بھی ہے۔اس لیے فیض کی شاعری میں اس آندھی کی بشارت موجود ہے جس کا اظہار ناصرکاظمی کے شعرمیںہواہے۔ مندرجہ ذیل اشعارفیض صدی کے موقع پر ہندوپاک اور دیگرممالک کے مختلف شہروں میں منعقد ہونے والے سیمیناروںاورجلسوں میں کافی کوٹ کیے گئے جنہیں موجودہ عرب انقلاب کے تناظر میںدیکھا جائے توفیض کی شاعری کی عصری معنویت مزید روشن ہوگی اور یہ احساس ہوگاکہ ایک بڑا فن کار ماورائے زمان ومکاں ہوتاہے اور اس کاوجدان مستقبل کومحسوس کرلیتاہے ۔
اے خاک نشینو اُٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریںاب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں، سر بھی بہت
چلتے بھی چلو، کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
اے ظلم کے ما تو لب کھولو، چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھّے گا، کچھ دور تو نالے جائیں گے
تازہ عرب انقلاب سرمایہ داری کے عالمی بحران کا اظہار ہے جس نے مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور اس کی گونج ساری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔شمالی افریقہ اور مصر میں ہونے والے ڈرامائی واقعات انسانی تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ ہیں۔مصراور تیونس کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہیگل کا یہ قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ’’ضرورت اپنا اظہار حادثات کی شکل میں کرتی ہے۔‘‘مصرکا انقلاب تیونس سے متاثر ہوا ہے لیکن اس کی بنیاد میں دیگر عوامل بھی کارفرما ہیں ۔مثلاً بڑے پیمانے کی بے روزگاری، گرتا ہوا معیارِزندگی اور جابر حکومت کے خلاف نفرت ۔اس کے علاوہ مصری قوم پر طاقتور ملکوں اورسامراجی غلبے کی وجہ سے ان کے ذہنوں اور دلوں میں سلگنے والا ذلت کا احساس بھی کارفرما تھا۔
اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آغازہی میں اسے ’’دہشت کی صدی‘‘سے موسوم کیاجانے لگا ہے لیکن امریکہ اور یوروپ جسے دہشت گردی سمجھتے ہیں وہ دراصل طاقتور ملکوں کے خلاف احتجاج ہے۔اصل دہشت گرد تو وہ طاقتورممالک ہیں جنہوں نے کیمیکل بم اور مفروضہ دہشت گردی کی آڑ میں کئی کمزورملکوں کو برباد کردیا اور لاکھوں معصوم انسانوں کو دہشت گردی کے نام پر مار ڈالا۔دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی ناانصافیوں کے خلاف جہادچھیڑنادہشت گردی نہیں ہے، انقلاب ہے۔اسی لیے انقلاب پسندوہ راہ اپناتا ہے جس کی طرف فیض نے اپنے اشعار میں یوںاشارہ کیا ہے
نہیں رہی اب جنوں کی زنجیرپروہ پہلی اجارہ داری
گرفت کرتے ہیں کرنے والے خرد پہ دیوانہ پن سے پہلے
جو چل سکو تو چلوکہ راہِ وفا بہت مختصر ہوئی ہے
مقام اب کوئی نہ منزل، فرازِدارورسن سے پہلے
غرورِ سروسمن سے کہہ دوکہ پھر وہی تاجدار ہوں گے
جوخارو خس والیٔ چمن تھے عروجِ سرووسمن سے پہلے
دراصل بڑی طاقتیں دنیا کو ایک بازار کی طرح دیکھتی ہیں اور اس بازار میں اپنی برتری حاصل کرنا چاہتی ہیں اس لیے کمزور ملکوں کے قدرتی ذرائع پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں لیکن احتجاج کرنے کی صورت میں دہشت گردی کے نام پر ان ملکوں کوتباہ وبرباد کردیتی ہیں ۔میڈیا بھی ان کی مددکرتی ہے اور پوری دنیا میں ایسی سائیکی پیداکردیتی ہے کہ ہرشخص اصلی دہشت گرد کو مسیحا اور امن کا پیامبر سمجھتاہے جبکہ حق کی لڑائی لڑنے والے مظلوموں کو دہشت گرد۔ لیکن بیدارذہن تخلیق کاروں نے ان بڑی طاقتوں کی سازش کو سمجھا اور عوام کو بھی آگاہ کیا۔امریکہ اور یوروپ کی ایٹمی اورجدیدترین فوجی طاقت پر غروراور دنیا کے تازہ احوال کے تناظرمیں فیض کے ان اشعارکی معنویت آج بھی ہے اورآئندہ بھی رہے گی
قفس ہے بس میں تمہارے،تمہارے بس میں نہیں
چمن میں آتشِ گل کے نکھار کا موسم
صبا کی مست خرامی تہِ کمند نہیں
اسیرِ دام نہیں ہے بہار کا موسم
فیض جب قیدوبندکی صعوبتوں میں مبتلا تھے اور ان پر مقدمہ چلانے کی تیاری ہورہی تھی اس وقت انہوں نے اپنے چند اشعار میںعدالتی ڈھونگ کی طرف جو طنزیہ اشارے کئے تھے اب انہیں صدام حسین کے خلاف چلائے گئے مقدمے اور اس طرح کے نام نہاد مقدموں کے انجام کے تناظر میں دیکھے جا سکتے ہیں
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
پھر حشر کے ساماں ہوئے ایوانِ ہوس میں
بیٹھے ہیں ذوی العدل، گنہگار کھڑے ہیں
ہاں جرمِ وفا دیکھئے کس کس پہ ہے ثابت
وہ سارے خطاکار سرِدار کھڑے ہیں
1977میںپاکستان کی فوجی بغاوت کے بعد فیض ’’لوٹس‘‘کے ایڈیٹرکی حیثیت سے بیروت چلے گئے تھے۔انہوں نے اس رسالہ کے ذریعہ نہ صرف افرو ایشیائی مصنفین ایسوسی ایشن کی تحریک چلائی بلکہ لاطینی امریکہ کے مصنفین کی بھی تحریک چلائی اورساتھ ہی اسے تیسری دنیا کی آزادی اور ترقی کا فورم بھی بنا دیا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب تمام عرب ممالک انتشار اور شکست وریخت سے دوچار تھے۔فیض نے لوٹس کے اداریوں اور اپنی نظموں کے زریعہ طاقتور ملکوں کو للکارا اور عرب ،لاطینی امریکی اور افریقی تخلیق کاروں اور دانشوروں کو سامراج دشمن تحریک سے جوڑ کر اس کو نئی معنویت عطا کی۔اسی دوران فیض نے ’’دعا‘‘کے عنوان سے ایک نظم لکھی جس کی معنویت موجودہ عالمی بحران میں بھی اتنی ہی ہے جتنی کہ اس وقت تھی
جن کادین پیرویٔ کذب وریا ہے ان کو
ہمتِ کفر ملے، جرٔاتِ تحقیق ملے
جن کے سرمنتظرِ تیغِ جفا ہیں،ان کو
دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
یہی وہ زمانہ تھا جب اسرائیل کا ظلم وستم اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔اسرائیل کی فوجیں مہاجر کیمپوں پر بھی بمباری کرکے ان کی نسل کشی کر رہی تھیں۔فیض وہاں کے حالات دیکھ کر لرز گئے تھے۔اس وقت انہوں نے فلسطین اور وہاں کی مظلوم عوام کے لیے چند اشعار کہے تھے جو وہاں کی عوام کے دل کی ترجمان ہیں
مقتل میں نہ مسجد نہ خرابات میں کوئی
ہم کس کی امانت میں غمِ کارِ جہاں دیں
شاہد کوئی ان میں سے کفن پھاڑکے نکلے
اب جائیں شہیدوں کے مزاروں پہ اذاں دیں
مندرجہ بالا اشعارمیں فلسطینیوں کا المیہ فیض کی ذات کا المیہ بن گیا ہے۔اس لیے یہ اشعار نہ صرف فلسطینیوں کے دلوں کی آواز ہیں بلکہ یہ دنیا کے تمامظلوموں کے دل کی دھڑکن ہیں۔اس لیے ان اشعار کو موجودہ دور میں تمام مسلم ممالک میں ہو رہی غارت گری اور نسل کشی سے جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے۔اسرائیل اور فلسطین کے درمیان برسوں سے چلی آرہی خوں ریز تنازعہ کا حل نکل چکا ہوتا اور ان ملکوں کے درمیان امن قائم ہو چکا ہوتا اگر امریکی حکومت کی پالیسیاں غیرجانبدارانہ ہوتیں۔اسرائیلا،فلسطین کے درمیان مفاہمت اور عرب ممالک میں آئے تازہ انقلاب کے متعلق امریکی صدرکی حالیہ تقریر کے تناظر میںفیض کے مندرجہ ذیل اشعارکی معنویت آج بھی قائم ہے
کسی پہ کرتے ہیں ابرِ بہار کو قرباں
کسی پہ قتل مہ تابناک کرتے ہیں
کسی پہ ہوتی ہے سرمست شاخسار دونیم
کسی پہ بادِ صبا کو ہلاک کرتے ہیں
ہر آئے دن یہ خداوندگانِ مہروجمال
لہو میں غرق مرے غم کدے میں آتے ہیں
دراصل اس خطّہ میں امن وامان بحال کرنے کی بات ہمیشہ کی جاتی ہے لیکن طاقتورملکوں کی دوہری پالیسیاں بدستورجاری رہتی ہیں جوامن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
بیروت میں دوران قیام فیض نے دو اور اہم نظمیں لکھی تھیں جن میں ایک کاعنوان ہے ’’فلسطینی شہدا جو پردیس میں کام آئے‘‘اور دوسری نظم کا عنوان ہے’’فلسطینی بچے کے لیے لوری‘‘۔یہ دونوںنظمیں’’ ہیومنزم‘‘کے جذبے سے سرشار ہیں۔ان نظموں کو دنیا کے ان تمام ملکوں کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں کی عوام حق کی لڑائی میں شہید ہو رہے ہیں اور ان کے بچے یتیم ہو رہے ہیں۔ فیض نے 1982 میں ایک نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا ’’ایک ترانہ مجاہدین فلسطین کے لیے‘‘جس میں انہوں نے ہمت اورحوصلے سے جینے کی ترغیب دی ہے۔ ہم جیتیں گے/ حقّا ہم اک دن جیتیں گے/ بالآخراک دن جیتیں گے/ کیا خوف زیلغارِاعدا/ ہے سینہ سپر ہر غازی کا/ کیا خوف زیورشِ جیشِ قضا/ صف بستہ ہیں ارواح الشہدا/ ڈرکاہے کا/ ہم جیتیں گے/ حقّا ہم جیتیں گے/ قَد جاء الحقُّ وَزَھق البَاطِل/ فرمودۂ ربِ اکبر…بالآخراک دن جیتیں گے۔ اس نظم کا اطلاق بھی موجودہ صورتِ حال میں ان ملکوں کی عوام کے لیے کیا جاسکتا ہے جوطاقتور ملکوں کی بربریت سے ہمت ہار چکے ہیں۔یہ نظم ہارے ہوئے ملکوں کی عوام کو حوصلہ دیتی ہے۔
فیض احمد فیض دنیا کو سمجھنے سے زیادہ دنیا کو برتنے کا اصول فراہم کرتے ہیں اور اس پیچیدہ دنیا میں عزت سے جینے کی ترغیب دیتے ہیں۔وہ ہمیں کسی بھی مقام پر جھکنے اور شکست قبول کرنے کی راہ نہیں دکھاتے ۔وہ ہمیں ترغیب دیتے ہیں کہ آج بازار میں پابجولاں چلو/ دست افشاں چلو،مست ورقصاں چلو/ خاک برسر چلو،خوں بداماں چلو/ راہ تکتا ہے سب شہرِجاناں چلو…رختِ دل باندھ لودل فگاروچلو/ پھر ہمیں قتل ہوآئیں یاروچلو۔
فیض کی شاعری اور کئی تحریریں معنویت اور عالمگیریت کے حوالے سے آج بھی اتنی ہی زندہ ہیں جتنی کل تھیں۔ماسکو میں جب انہیں’’لینن امن انعام‘‘ دیا گیا تو انہوں نے اس موقع پر ایک تقریر کی تھی جس کی معنویت 21 ویں صدی کی دوسری دہائی کے آغاز میں بھی موجود ہے۔امن کے بارے میں فیض کاخیال ہے
’’یوں تو ذہنی طور سے مجنوں اور جرائم پیشہ لوگوں کے علاوہ سبھی مانتے ہیں کہ امن اور آزادی بہت حسین اورتابناک چیزیں ہیں اور سبھی تصورکرسکتے ہیں کہ امن گندم کے کھیت ہیں اور سفیدے کے درخت، دلہن کا آنچل ہے اوربچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ،شاعر کا قلم ہے اور مصور کاموئے قلم اور آزادی ان سب صفات کی ضامن اور غلامی ان سب خوبیوں کی قاتل ہے جو انسان اورحیوان میں تمیز کرتی ہے۔یعنی شعور اور ذہانت،انصاف اورصداقت،وقار اور شجاعت،نیکی اوررواداری۔اس لیے بظاہرامن اورآزادی کے حصول اورتکمیل کے متعلق ہوش مندانسانوں میں اختلاف کی گنجائش نہ ہونا چاہئے۔ لیکن بدقسمتی سے یوں نہیںہے کہ انسانیت کی ابتداء سے اب تک ہر عہد اور ہر دور میں متضاد عوامل اور قوتیں برسرِعمل اور برسرِپیکار رہی ہیں۔یہ قوتیں ہیں تخریب وتعمیر،ترقی اور زوال، روشنی اورتیرگی،انصاف دوستی اور انصاف دشمنی کی قوتیں۔یہی صورت آج بھی ہے اوراسی نوعیت کی کشمکش آج بھی جاری ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ آج کل انسانی مسائل اور گزشتہ دور کی انسانی الجھنوں میں کئی نوعیتوں سے بھی فرق ہے۔دورِحاضر میں جنگ سے دو قبیلوں کا باہمی خون خرابہ مراد نہیں ہے ۔نہ آج کل امن سے خون خرابے کا خاتمہ مراد ہے۔آج کل جنگ اورامن کے معنی ہیںامنِ آدم کی بقا اورفنا،بقا اور فنا۔ ان دو الفاظ پر انسانی تاریخ کے خاتمے یا تسلسل کا دارومدار ہے۔انہیں پر انسانوں کی سرزمین کی آبادی اوربربادی کا انحصار ہے۔یہ پہلافرق ہے۔دوسرافرق یہ ہے کہ اب سے پہلے انسانوں کوفطرت کے ذخائرپراتنی ہی دسترس اور پیداوار کے ذرائع پراتنی قدرت نہ تھی کہ ہرگروہ اور برادری کی ضرورتیں پوری طرح سے تسکین پاسکتیں۔اس لیے آپس میںچھین جھپٹ اورلوٹ مارکا کچھ نہ کچھ جواز بھی موجود ہے، لیکن اب یہ صورت نہیں ہے۔اب انسانی عقل ،سائنس اورصنعت کی بدولت اس منزل پر پہنچ چکی ہے کہ جس میںسب تن بخوبی پل سکتے ہیں اور سبھی جھولیاں بھرسکتی ہیں۔بشرطیکہ قدرت کے یہ بے بہا ذخائر، پیداوار کے یہ بے اندازہ خرمن ، بعض اجارہ داروں اور مخصوص طبقوں کی تسکینِ ہوس کے لیے نہیں، بلکہ جملہ انسانوں کی بہبود کے لیے کام میں لائے جائیں اور عقل اور سائنس اور صنعت کی کل ایجادیں اور صلاحتیں تخریب کے بجائے تعمیری منصوبوں میں صرف ہوں،لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ انسانی معاشرے میں ان مقاصد سے مطابقت پیدا ہو اورانسانی معاشرے کی ڈھانچے بنائیں،ہوسِ استحصال اور اجارہ داری کے بجائے انصاف، برابری،آزادی اور اجتماعی خوش حالی میں اٹھائی جائیں‘‘ (دستِ تہِ سنگ،ص- 11 ،نسخہ ہائے وفا،ص – 304-305)
فیض کی شاعری کا جوہر یہی ہے کہ وہ امن وانقلاب کی مشعل روشن کرتی ہے۔ وہ جبروستم، ناانصافی کے خلاف حوصلہ عطا کرتی ہے لیکن فیض نے ان مقاصد کے حصول میں شاعری کی اصل روح کو کبھی مجروح نہیں ہونے دیا ۔ فیض کے جو شعری تصورات ہیںان کی تعبیریں موجودہ انقلابات میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس لیے فیض آج بھی اتنے ہی Releventہیں، جتنے کل تھے۔ موجودہ عالمی بحران کے تناظر میںفیض کی شاعری کی معنویت اوربڑھ گئی ہے اور جب تک دنیا میں سامراج واد زندہ رہے گا،ریاستی دہشت گردی جاری رہے گی اور کمزور طبقوں پرظلم وستم ہوتا رہے گا۔ فیض کاآہنگِ انقلاب عوامی شعور کاحصہ بنتاجائے گا۔اس لیے کہاجاسکتاہے کہ فیض ایک ایسے شاعرہیں جن کی آواز میں مستقبل کے امکانات اور ادراکات پنہاں ہیں۔
٭٭٭