May 28, 2023

شموئل احمد کاافسانہ ’نملوس کا گناہ‘(ایک تجزیہ)

ارسطو نے صحیح کہاتھا کہ د نیا ایک اسٹیج ہے جہاں شب وروز نت نئے ڈرامے ہوتے رہتے ہیں اور ہم سب ان ڈراموں کے کردار ہیں لیکن ان ڈراموں کے ہدایت کار کوئی انسان نہیں بلکہ خدا ہے۔دنیا کے اسٹیج پر ہم وہی کردار نبھاتے ہیں جو ہمارے ہدایت کار یعنی خدا ہمیںحکم دیتاہے۔علم نجوم کے مطابق دنیا کے اسٹیج کے تمام کردارستاروں اور سیاروں کی گردش اور اس کی حالت کے مطابق اپنااپنا کردار نبھاتے ہیں۔کیونکہ ہماری زندگی پرسیارو ںکی گردش کا بہت گہرا اثر ہے۔اسی لیے زمانۂ قدیم سے علم نجوم کی ہماری زندگی میں بہت اہمیت رہی ہے۔ ہرشخص مستقبل کے متعلق جاننا چاہتا ہے اس لیے علم نجوم میں دلچسپی رکھتاہے۔پیشن گوئی کرتے وقت اگرنجومی زائچہ بناکر ستاروں کی چال اور ان کے مقامات کی روشنی میں مستقبل کے متعلق بتاتاہے تودلچسپی اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
شموئل احمد اپنے ہمعصر افسانہ نگاروں میں منفردمقام اس لیے رکھتے ہیں کہ ان کے افسانوں کا کینوس بہت بڑا ہے۔وہ اپنے افسانوں کے کرداروں کی تخلیق حقیقی دنیا میں بھی کرتے ہیں اور کبھی کبھی فنٹاسی کی دنیا میں بھی کرتے ہیں۔بعض دفعہ وہ حقیقی دنیا کے کرداروں کو فنٹاسی کی دنیاسے ایسے منسلک کردیتے ہیں کہ قاری ان کے افسانوں کی قرأت کرتے وقت حقیقی دنیا سے فنٹاسی کی دنیا تک کا سفر کرنے لگتا ہے۔دراصل اردوکے وہ پہلے افسانہ نگار ہیں جو اپنے بیشترافسانوں کے کرداروں کے رول کودلچسپ بنانے کے لیے پہلے ان کی جنم کنڈلی تیار کرتے ہیں اور جنم کنڈلی کے مطابق کرداروں کی زندگی پر سیاروں کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں پھر ان کے حرکات وسکنات کو آہستہ آہستہ اشاروں اور کنایوں میں ایسے پیش کرتے ہیں کہ قاری کو سمجھ میں آنے لگتا ہے کہ افسانے کا انجام کیا ہونے والا ہے۔انجام تک جلد سے جلد پہنچنے کے لیے قاری کا تجسس شدید سے شدید ترہونے لگتا ہے اور افسانے میں مزیددلچسپی بڑھنے لگتی ہے۔ ایک افسانہ نگار کی سب سے بڑی کامیابی کی دلیل یہی ہے کہ وہ اپنے قاری کواپنے افسانوں میں پوری طرح مسحور کرلے۔
شموئل احمد کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے افسانوں کے کرداروں کا تعارف پیش کرتے وقت پہلے یہ بتاتے ہیں کہ ان کے کس کردار پر کس سیارے کا اثر ہے۔سیارے کا نام سنتے ہی اس کردار کی صفات آہستہ آہستہ ذہن میں آنے لگتی ہیں۔ قاری قیاس آرائیاں کرنے لگتا ہے کہ اس کے اعمال کیا ہوں گے اور افسانے کا انجام کیا ہوگا۔قاری کے دل ودماغ میں کسی خاص کردارکے حرکات وسکنات کی جو تصویر بنی ہے وہ صحیح ہے یا نہیں یہ جاننے کے لیے افسانے میں اس کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے اور اسے خوشی ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کا انجام وہی ہوا جو اس کے دل میں تھا۔یعنی قاری بھی خود کو شموئل احمدکاہم زادسمجھنے لگتاہے۔اسے محسوس ہونے لگتاہے کہ وہ ماہرعلم نجوم بھی ہے اورفکشن کافنکاربھی۔اس طرح شموئل احمد اپنی فنکارانہ صلاحیت کی بدولت قاری کو اپنے افسانوں میں مسحور کرلیتے ہیں۔
شموئل احمد کا زیرتبصرہ افسانہ ’نملوس کا گناہ‘کا مرکزی کردار’نملوس‘ کا نام سنتے ہی قاری چونک جاتا ہے کہ یہ اس دنیا کاکردار ہے یا کسی متبادل دنیا کا۔تجسس کی شروعات پہلے ہی لفظ سے ہونے لگتی ہے۔دوسرے جملے میں جب قاری پڑھتا ہے کہ ’’اس پر ستارہ زحل کا اثر تھا‘‘ تو لفظ زحل کا نام سنتے ہی قاری ستاروں کی دنیامیں پہنچ جاتاہے اور علم نجوم کے اوراق اس کی نظروں کے سامنے پلٹنے لگتے ہیں اور زحل یعنی شنی کی خصویت کی مناسبت سے نملوس کے متعلق پیشن گوئی کرنے لگتا ہے کہ اس کی شکل وصورت کیسی ہوگی اوراس کاکردار کیسا ہوگالیکن جب وہ افسانہ نگار سے یہ سنتا ہے کہ نملوس آبنوس کا کندا تھا،اس کے دانت بے ہنگم تھے،بال چھوٹے تھے، آنکھیں چھوٹی اورپلکیں بھاری تھیں تواسے خوشی ہوتی ہے کہ یہی تصویر اس کے تصوّر کے کینوس پربھی بنی تھی۔شموئل احمد نملوس کی شخصیت پرروشنی ڈالنے کے لیے اس کی جنم کنڈلی دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ’’ نملوس جب پیدا ہوا تھا تو برج کواکب میں زحل اور قمر کا اتصال تھا اور ان پر مشتری کی سیدھی نظر تھی‘‘۔قاری کے دل میں پھرسے تجسس پیدا ہونے لگتا ہے کہ نملوس کی پیدائش کے وقت اگر زحل اور قمرکا اتصال تھااوران پرمشتری کی سیدھی نظر تھی تو نملوس کی شخصیت پر کیا اثر ہوگا؟علم نجوم کے اوراق پھر اس کے سامنے آتے ہیں اوروہ غور کرتاہے کہ زحل چونکہ ’’صابر بھی ہے اور شاکربھی اور انسان کو درویش صفت بناتا ہے ساتھ ہی مصنف کا بیان بھی اس کے سامنے آتا ہے کہ مشتری کا تعلق مذہب سے ہے اور قمردل و دماغ ہے۔لہٰذا بات صاف ہوجاتی ہے کہ نملوس کادل خدا اور خدا کے رسول کی محبت سے لبریز ہوگا۔اس لیے بقول مصنف’’ نملوس کے دل میں قرب الٰہی کی تڑپ تھی۔اس کادل شاکرتھا اورزبان ذاکر تھی‘‘۔ نملوس کادل شاکر اورزبان ذاکر تھی،اس کا ثبوت پیش کرنے کے لیے شموئل احمدنے اسے ایک مدرس، مقرراورمصلح کے کردارمیں پیش کیاہے جوخودقرآن اور حدیث کی روشنی میں زندگی بسرکرتاہے اوردوسروں کو بھی قرآن اور حدیث کے بتائے ہوئے راستے پرچلنے کی تلقین کرتاہے۔ہر موقع پر بزرگان دین اور نبیوں کے اقوال سناتارہتاہے۔ہر شخص اس کی تعریف کرتا ہے اور اسے انتہائی عزت کی نظر سے دیکھتا ہے لیکن نملوس کا باپ حکم اﷲ بالکل اس کے برعکس ہے۔شیطان صفت انسان ہے۔مصنف نے اسے ’راہو‘سے تعبیرکیاہے۔لکھتے ہیں کہ ’’حکم اﷲراہوکا روپ تھا‘‘۔صرف راہوکا روپ کہہ دینے سے قاری کے ذہن میں اس کی شخصیت اورخصلت کی مکمل تصویرابھرنے لگتی ہے لیکن مصنف نے یہ کہہ کرکہ’’رنگت سانولی تھی،چہرالمبوتراتھا اور دانت نوکیلے تھے‘‘… اسے کسی ڈراونے اورخطرناک مافوق الفطرت سے مشابہ قرار دے دیا ہے۔ واضح ہو کہ ہندو مائتھولوجی کے مطابق راہو پہلے راکشش تھا جو امرت منتھن کے بعد دیوتاؤں کی قطار میںکھڑا ہوگیاتاکہ امرت دیوتاؤں کو جب تقسیم کیاجائے توغلطی سے اسے بھی مل جائے لیکن چندرما نے دیکھ لیااور وشنو سے شکایت کردی۔ وشنو نے اپنے چکرسے اس کے دوٹکڑے کردیے۔اس کا ایک حصہ راہو بنا اور دوسرا کیتو۔راہو سر ہے اور کیتو دُم۔امرت منتھن کے بعد سے راہو چندرما کا دشمن ہے۔شموئل احمد نے نملوس کے باپ کو راہو اور اس کی بیوی حلیمہ کوچاند کا ٹکڑا اور زہرہ کی زائدہ قرار دے کراشارہ کردیا کہ حکم اﷲاپنی بہو، حلیمہ کا دشمن ہوگا۔کیونکہ راہو چاند کا دشمن ہے اورچھایاگرہ سمجھا جاتا ہے جس کی کوئی روشنی نہیں ہوتی۔(مکمل چاند)Full Moonکے دن راہو اور چاند ایک ہی ڈگری پرایک ہی راشی میں ہوں تو چندرگرہن لگتا ہے یعنی راہوچندرما کو کھانے لگتا ہے چانداور راہو کے درمیان جو رشتہ ہے اس کی روشنی میں قاری یہ پیشن گوئی کرنے لگتاہے کہ نملوس کاباپ حکم اﷲبھی اپنی بہو حلیمہ کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جوراہو چاند کے ساتھ کرتا ہے۔نملوس نکاح کے بعد حلیمہ کو جب گھرلاتا ہے اور اپنے والد سے اس کاتعارف کراتا ہے تو حکم اﷲبہوکو کس نظرسے دیکھتا ہے اور اپنے خسر کودیکھ کر بہو پر کیا اثر ہوتا ہے ملاحظہ کیجیے
’’…اور حکم اﷲجیسے سکتے میں تھا۔اس کی نگاہ حلیمہ پر جم سی گئی۔وہ یہ بھی نہیں پوچھ سکا کہ نکاح کب کیا؟مجھے خبرکیوں نہیں کی؟وہ بس حیران تھا کہ اس کا کالا بھجنگ بیٹا کس کوہ قاف سے…۔حلیمہ ڈرگئی…اس پر لرزہ سا طاری ہوگیا۔ اسے محسوس ہوا کہ حکم اﷲکی زبان لپلپا رہی ہے اور آنکھیں سانپ کی طرح ہیرے اگل رہی ہیں…حلیمہ بے ہوش ہوگئی۔‘‘
واضح ہو کہ راہو کو سانپ بھی کہتے ہیں۔اسی مناسبت سے مصنف نے حکم اﷲکی زبان کو سانپ کی طرح لپلپاتے ہوئے اور آنکھوں سے ہیرے اگلتے ہوئے دکھایاہے۔اس سے یہ اشارہ ملتاہے کہ انجام کیا ہونے والا ہے۔حلیمہ کے حسن کودیکھ کر صرف حکم اﷲہی نہیں بلکہ محلے کی عورتیں اوردوسرے مرد بھی حیران تھے کہ نملوس جیسے کالا بھجنگ اور بدصورت لڑکے کو چاند جیسی خوبصورت بیوی کیسے ملی؟ لوگ طرح طرح کی باتیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ کوئی اس کے کردار کو شک کی نظرسے دیکھتا ہے تو کوئی نملوس کے اندر کیڑے نکالتا ہے تو کوئی یہ کہتا ہے کہ حسن غریبوں کو نہیں سجتا ہے بلکہ یہ تو راجہ اور مہاراجاؤں کی چیز ہے یا ایسا حسن کوٹھے کی زینت بنتا ہے۔ گویا حسن غریبوں کے لیے وبالِ جان ہے۔مصنف نے یہاں سماج کی سوچ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
بہرحال نملوس حلیمہ کا پورا خیال رکھتا ہے گزرتے دنوں کے ساتھ دونوں کے درمیان فاصلے ختم ہوجاتے ہیں خوشگوار ماحول میں رومانس شروع ہوجاتا ہے۔ کیونکہ’’زحل کازہر ہ سے اتصال تھا۔ لیکن چونکہ راہوکی نظر چاند پر تھی اس لیے رنگ میں بھنگ تو لازمی تھا اس لیے مصنف نے حلیمہ اور نملوس کے دل بہلانے کے لیے لوڈو کا استعمال کیا ہے کیونکہ اس کھیل میں بلندی تک پہنچنے کے لیے اگر سیڑھی ہوتی ہے تو اُونچائی سے گرانے کے لیے سانپ بھی ہوتا ہے جو ڈس لیتا ہے۔ لوڈو کے علاوہ کوئی اور کھیل مثلاً تاش، شطرنج وغیرہ کا بھی استعمال کیا جاسکتا تھا لیکن مصنف نے صرف لوڈو کا استعمال کیا کیونکہ سانپ راہو کا ہی روپ ہے جس کے ڈس لینے سے لال گوٹی بلندی سے بار بار پستی میں چلی آتی ہے۔سیڑھی اور سانپ کے اس کھیل سے شموئل احمد نے یہ اشارہ کیا ہے کہ حلیمہ اور نملوس کی خوشی زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رہے گی۔
چونکہ راہو کی نظر چاند پر ہے اس لیے حکم اﷲنظر بچاکر حلیمہ کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے، اس کی باتیں سننے اور اس کے تمام حرکات کا جائزہ لینے کا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ حکم اﷲ کے اس عمل کی وضاحت اور آخری انجام کی طرف قاری کے ذہن کو منتقل کرنے کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قول کو دہراتے ہیں کہ ’’تاکنے سے بچتے رہو کہ اس سے شہوت کا بیج پیدا ہوتا ہے۔‘‘ اسی طرح شموئل احمد نے حضرتِ یحییٰ علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ زنا کی ابتدا کہاں سے ہوتی ہے تو آپ نے فرمایا دیکھنے اور للچانے سے۔شموئل احمد نے حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام اور حضرتِ یحییٰ علیہ السلام کے بیانات سے اشارہ کردیا ہے کہ حکم اﷲکا اگلا قدم کیا ہوگا۔ حکم اﷲ انجام کی تکمیل کے لیے کون سا راستہ اختیار کرے گا اس کی طرف شموئل احمد نے گوتم رشی کی اہلیہ اور اندر کے مابین ایک واقعہ پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں
’’گوتم رشی کی اہلیہ کو اندر دور سے دیکھتا تھا۔آخر گوتم کا بھیس بدل کر ان کی کٹیا میں آیا۔اہلیہ اندر کو رشی سمجھ کر ہم بستر ہوئی۔رشی کو معلوم ہوا تو اہلیہ ان کے غیض و غضب کا شکار ہوئی۔رشی نے اہلیہ کوپتھربنادیاہے۔‘‘
شموئل احمد نے رشی گوتم، اہلیہ اور اندر کی کہانی کے ذریعہ اشارہ کردیا کہ حکم اﷲاگر تاک جھانک کرتا ہے تو یہ بھی اندر کی طرح بھیس بدلے گااور نیک وپارسا بن کر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا۔ شموئل احمد نے قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ رشی نے تو اہلیہ کے ناکردہ گناہ کی سزاکے طورپر اسے پتھر بنایا دیا تھادیکھنااب یہ ہے کہ شہرقاضی حلیمہ کے ناکردہ گناہوں کے لیے کون سی سزا سناتاہے؟
حکم اﷲجب متقی اور پرہیز گار ہونے کا ڈھونگ رچالیتا ہے تو حلیمہ اس کو پارسا سمجھ بیٹھتی ہے اور اس کے سامنے جانے لگتی ہے اور نملوس کی غیرحاضری میںبہوکا فرض بھی نبھانے لگتی ہے لیکن سیارے گردش میں تھے۔بقول مصنف
’’راہو پیچھے کی طرف کھسکتا ہے…بہت آہستہ…چپکے چپکے…چاندسے اس کو دشمنی ہے۔چاندنی اس سے دیکھی نہیں جاتی۔جب شمس قمر کے عین مقابل ہوتا ہے توچاندنی شباب پرہوتی ہے۔راہو ایسے میں اگرچاند کے قریب پہنچ گیا تواس کوجبڑے میں کس لے گا اور چاندکو گہن لگا دے گا۔وہ گھڑی آگئی تھی…قمرمنزلِ شرطین سے گذررہا تھا‘‘
شموئل احمد نے بے حدخوبصورتی سے علم نجوم کی روشنی میں ہونے والے واقعہ کے پس منظرکوپیش کیاہے۔چاندنی خوشی اور حلیمہ دونوں کی علامت ہے۔ شمس قمر کے عین مقابل ہے اور راہو شمس اور قمر دونوں کا دشمن ہے۔ منزل شرطین برج حمل یعنی میش راشی میں ہوتی ہے۔ میش کے بعد والی راشی برج ثوریعنی برش راشی ہے۔راہو ہمیشہ پیچھے کی طرف کھسکتا ہے اس لیے ثور سے کھسک کرحمل برج میں آئے گااور چاند کے ساتھ ایک ڈگری پہ ہوگا اور اس کو کھائے گا یعنی حلیمہ کا ریپ ہوگا۔ چونکہ ’’راہو اپنی چال چلتے ہوئے برج ثور سے نکلنا چاہتا تھا‘‘یعنی نملوس کی غیرحاضری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکم اﷲجو راہو ہے لڈو میں نشہ آور اشیاملاکر کھلا دیتا ہے اور اپنے کمرے سے حلیمہ کو جھانک کردیکھتا رہتاہے۔حلیمہ بے ہوش ہوجاتی ہے توحکم اﷲاسے گود میں اٹھاکر بستر پر لاتا ہے۔اس وقت ’’راہو شرطین کی منزل میں تھا…‘‘چاند کی 28 منزل ہوتی ہے جس میں ایک منزل شرطین ہے۔یہ منزل برج حمل میں پڑتی ہے راہو اور چاند برج حمل کے منزل شرطین میں آگئے تو دونوں ایک ڈگری پر تھے یعنی راہو چاند کو نگلنے لگا اور ریپ شروع ہوا۔ اس لمحہ کو مصنف نے اشارے اور کنایے میں یوں بیان کیا ہے’’…راہو کے سائے گہرے… روئے زمین پرسب سے بھدّا منظرچھا گیا…‘‘۔
نملوس جب گھرواپس آیاتواس کی ہنستی کھیلتی دنیابرباد ہوچکی تھی۔وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ شہرقاضی نے نملوس کے لیے حلیمہ کوحرام قرار دے دیا اور حکم اﷲکے گناہوں کی سزا کی تجویزعدالت پرچھوڑ دیا۔بقول مصنف نملوس نے اپنے اﷲسے اپنی زندگی کا پہلا اورآخری شکوہ یہی کیا کہ’’یااﷲ…میں نے ایسا کون سا گناہ کیا تھا کہ تونے میری حلیمہ کومجھ سے چھین لیا…‘‘
افسانہ ’نملوس کا گناہ‘ عمرانہ کے اس مشہور واقعہ سے ماخوذ ہے جس میں عمرانہ کے اپنے ہی خسر نے اس کی عصمت لوٹ لی تھی اور شہرقاضی نے فتوا جاری کرکے عمرانہ کو اس کے شوہر کے لیے حرام قرار دے دیا تھا اور اس کے سسر کے جرم کے متعلق یہ کہا تھا کہ اس کو سزاہندوستان کی عدلیہ دے گی۔ قاضی شہر کے اس فیصلے سے ساراہندوستان ششدررہ گیا تھا۔سماج کے مختلف تنظیموں اور ادیبوں نے اس فیصلے پر احتجاج بھی کیا تھا۔ شموئل احمد ایک حساس اور سچے تخلیق کار ہیںہندوستان کے اتنے بڑے واقعہ سے اثرقبول کیے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں۔لہٰذا انھوں نے احتجاج درج کرنے کے لیے افسانہ ’نملوس کا گناہ‘کی تخلیق کی۔افسانہ بھی اپنے قاری سے سوال کرتا ہے کہ نملوس نے آخر کیا گناہ کیاتھا کہ معاشرے نے اسے حلیمہ سے دست بردار کر دیا۔
شموئل احمد نے اس افسانے کے ذریعہ ایسے فیصلوں کونہیں ماننے کی تحریک دی ہے جو اسلام کی اصل روح کے برخلاف ہوں۔انھوںنے ان عورتوں کوبھی جینے کاحوصلہ دیاہے جنھیں ان کے ناکردہ گناہوں کے لیے سماج کا سفید پوش طبقہ اوراسلام کے ٹھیکیدار مرمرکرجینے کے لیے مجبورکردیتے ہیں۔
m

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.