سرزمین کشمیرتخلیقی اظہاراور عبادت وریاضت کے لیے ہمیشہ سے زرخیز رہی ہے ۔شاید یہاںکے حسین مناظر،برف سے ڈھکی پہاڑوں کی چوٹیاں ا ورسنسان گپھائیں تخلیقی عمل اورتپسیا کے لیے بہت محرک) (Inspirational ہیں۔ سنسکرت کے عظیم شاعروں اورادیبوں میںمہاکوی کالی داس، اچاریہ ممٹ، ابھینو گُپت اورفارسی کے شعرا میںغنی کشمیری،شیخ یعقوب صرفی کشمیری، شیخ علی پمپوری،پنڈت نندرام (جنہوں نے اپنیشد کوفارسی میں ترجمہ کیا تھا)اوربابا نصیب الدین غازی وغیرہ جیسی شخصیتیں یہیں پیداہوئیں۔علامہ اقبال اورچکبست جیسے عظیم شاعروں کاتعلق بھی اسی سرزمین سے تھا۔مابعدجدید عصرمیںفرید پربتی بھی کشمیر کے عظیم شعراکے کہکشاں میں سے ایک تھے جنھوں نے آٹھ شعری مجموعے اورپانچ تنقیدی وتحقیقی تصانیف سے اپنی شناخت عالمی سطح پر مستحکم کرلی تھی۔
نقاد،محقق کی حیثیت سے بھی ان کی ایک الگ پہچان تھی مگر شاعری سے بھی ان کا رشتہ بہت مضبوط تھا۔ خاص طور پر رباعیات میں فریدپربتی نے ایسے تجربے کیے جس کی داد اہل نظر نے دل کھول کر دی۔فرید پربتی نے اپنے کلیات کانام’’ ہجوم آئینہ‘‘ شاید اس رعایت سے رکھا کہ یہ کائنات بھی’ ہجوم آئینہ ‘ہے جس میں خدا کی تمام صفات منعکس ہوتی رہتی ہیں۔اسی طرح فریدپربتی کی شاعری کے تمام رنگ ’’ہجوم آئینہ‘‘کے اشعار میںمنعکس ہوتے رہتے ہیں۔ ان رنگوں میں جورنگ سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ ’’روشنی‘‘ہے۔روشنی میں سات رنگ ہوتے ہیں جوThunder Storm کے بعد قوس وقزح میں نظرآتے ہیں یاپھر’پرزم‘ میں۔یعنی روشنی سات رنگوں کامرکب ہے۔ روشنی کی رفتارانتہائی تیز ہونے کی بدولت چندلمحوں میں چاروں طرف پھیل جاتی ہے اور پوری دنیاکوروشن کردیتی ہے۔ یعنی جہاں روشنی ہے وہاں اس کے سات رنگ بھی ہیں اور رفتاربھی۔سورج،چاند اورستارے روشنی کی علامات ہیںجودل کی تاریکیوں کے ساتھ ساتھ کائنات کی تمام اشیاکو منورکردیتے ہیں۔
فرید پربتی کوچاند،ستاروں اوران کی روشنیوں سے نہ صرف بے حد محبت تھی بلکہ ایک عجب سا روحانی رشتہ بھی تھا۔شاید اسی لیے انہوں نے چانداورستاروں کا استعمال اپنے اشعارمیں کثرت سے کیا ہے اور اپنے ایک مجموعۂ کلام کا نام بھی’’گفتگو چاند سے‘‘رکھاہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرید پربتی ’’روشنی ،رنگ اوررفتار‘‘ کے شاعرہیں۔ان کے اشعار کی روشنی میں چاند اورستاروں سے ان کی ذہنی یاروحانی وابستگی کی وجوہات پرغوروفکرکیاجائے تومعلوم ہوگا کہ وہ تو دراصل زندگی کے بلندترین مراتب اورزیادہ سے زیادہ تجلی حاصل کرناچاہتے تھے کیوں کہ یہی انسان کا نصب العین ہے۔ فرید پربتی کوچاند،ستارے اوران کی روشنی سے کتنی محبت تھی،اس کا ادراک ان اشعار سے ہوتاہے
بھاتا ہے مجھ کو چاند نظارا سرِ فلک
ہر پھر کے آرہا ہوں دوبارا سرِ فلک
نکلا تھا گھر سے ڈھونڈنے میں اپنے آپ کو
آیا نظر نہ کوئی ستارا سرِ فلک
اک جلوئہ مہتاب ہے تشہیر میں شاید
گم ہوگیا ہوں اپنی ہی تعبیر میں شاید
ایک رباعی بھی ملاحظہ کیجئے
پُرہول مناظرسے، گزرنا بھی پڑا
نادیدہ مقاموں پہ، ٹھہرنا بھی پڑا
اے روشنیٔ جاں، تجھے پانے کے لیے
جینا بھی پڑا ہے، مجھے مرنابھی پڑا
فلسفیوں کے مطابق چاند اور ستاروں میں جو روشنی پائی جاتی ہے اسے نورِ عارضی یانورِحادث سے تعبیر کیا جاتا ہے۔نورکی دوقسمیں ہوتی ہیں نورمجرد (یعنی روح)اور نورعارضی یانورحادث۔نورِمجردکی کوئی صورت نہیں ہوتی۔نورِ مجردسے نورکی مختلف نیم شعوری،شعوری اوربالذات صورتیں ابھرتی ہیں۔شعوریاعلمِ ذات ،نورِمجردکا جوہرہے۔جبکہ نورِ عارضی کی کوئی نہ کوئی صورت ہوتی ہے جواپنے علاوہ بھی کسی چیز کی صفت بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے جیسے چانداورستاروں کا نور۔اس نور کونور محسوس بھی کہاجاتاہے جودراصل نورِمجردہی کا عکسِ بعید ہے۔ کائنات دراصل بے پناہ تجلّیوں کی شعاعوں کا ایک سایہ ہے ۔ان تجلّیوں کی وجہ سے کائنات کی اشیامستقل حرکت میں رہتی ہیںاوران میں ایک عشق کاجذبہ نموپاتارہتاہے تاکہ وہ حقیقی سرچشمۂ نور سے مستفیض ہوتی رہیں۔ عشق، نورمجرد(روح) اورجسم کے درمیان ذریعۂ اتحاد کے طورپر کام کرتا رہتا ہے۔جوجسم تجلی کاخواہش مند ہوتا ہے وہ روح کے وسیلے سے اسے حاصل کرتا ہے کیوں کہ روح ،جسم اورسرچشمۂ نورکے درمیان براہ راست تعلق قائم کردیتی ہے لیکن روح اس نورکوجویہ براہ راست حاصل کرتی ہے تاریک اور ٹھوس جسم میں منتقل نہیں کرسکتی کیوں جسم اپنی صفت کے اعتبار سے ہستی کی ایک مخالف سمت میں واقع ہے۔ان دونوں میں تعلق پیدا کرنے کے لیے ایک واسطہ کی ضرورت ہے۔یہ واسطہ ایک ایسی چیز ہے جونوراورظلمت (یاجسم )کے درمیان واقع ہے۔یہ واسطہ روح حیوانی ہے۔یہ ایک گرم،لطیف اورشفاف بخار ہے جس کامخصوص مقام قلب کی بائیں جانب ہے۔لیکن یہ پورے جسم میں گردش بھی کرتا ہے۔چونکہ روح حیوانی اور نورمیں ایک جزوی مماثلت بھی ہے اس لیے تاریک راتوں میں بحری جانور آگ کی روشنی کی طرف لپکتے ہیں اورسمندری جانور پانی سے نکل کرچاندنی رات کے دلنشیں مناظرسے لطف اندوزہونے کے لیے باہرخشکی پر نکل آتے ہیں۔مختصر یہ کہ زندگی کے بلندترین مراتب طے کرنا اورزیادہ سے زیادہ تجلی حاصل کرنا انسان کا نصب العین ہے اوراس طرح سے وہ بتدریج ظاہری دنیا سے مکمل نجات پالیتا ہے۔فریدپربتی کی چاند،ستاروں اوران کی روشنی سے غیرمعمولی محبت اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے قلب کی بائیں جانب جوروح حیوانی موجود تھی وہ بے حد بیدار تھی شاید اسی لیے وہ زیادہ سے زیادہ تجلی حاصل کرنے کے متمنی تھے۔چند اشعارملاحظہ کیجئے
آتے ہیں نظر خواب میں چاند اور ستارے
ہے گھر سے نکلنا مری تقدیر میں شاید
تاروں کی جھرمٹ میں لگی لو چاندنی پھر جھومنے
سونا بکھرتی دم بدم، اﷲ بس، باقی ہوس
جانے کس سوچ میں بیٹھی ہے ستاروں کی قطار
چاندنی دیر سے کہتی ہے سراپا ہو جائوں
دل و جگر میں اُترتی ہے کہکشاں کی قطار
یہ چاند رات کہاں اب گزارنے جائوں
دراصل اشراقی فلسفہ کے مطابق نور اعلیٰ تمام حرکات کا مبدا ہے اور حرکت کا سبب منور کرنے کی خواہش ہے اوریہی وہ خواہش ہے جو نور کو مضطرب کردیتی ہے تاکہ یہ اپنی شعاعوں کوتمام چیزوں پر منعکس کرکے ان کی زندگی میں ایک روح پھونک دے۔اس سے جو تجلیات نمو کرتی ہیں ان کی تعداد لا محدود ہوتی ہے اور ایسی تجلیات جن کی روشنی شدید ہوتی ہے وہ دوسری تجلیات کاسرچشمہ بن جاتی ہیں۔گویا یہ کائنات ایک سایہ ہے ان بے پناہ تجلیوں کی شعاعوں کاجو نوراعلیٰ سے آتی ہیں۔کائنات کی اشیامیں ان تجلیوں کے سبب جن کی جانب یہ مستقل حرکت میں رہتی ہیں ایک عشق کا جذبہ نمو پاتا رہتا ہے تاکہ وہ حقیقی نور کے سرچشمہ سے مستفیض ہوتی رہیں۔یعنی یہ کارخانۂ عالم محبت وعشق کا ابدی ڈرامہ ہے۔اسی لئے فریدکی شاعری میں عشق ایک ہمہ گیر تخلیقی جذبہ ہے اور عشق کی گرمی سے ہی معرکۂ کائنات ہے۔علامہ اقبال نے بھی کہاہے :
عشق کی اک جست نے طے کردیا قصّہ تمام
اس زمیں وآسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
مختصر یہ کہ عشق سے روشنی کا شعور حاصل ہوا اور تنویر نگاہ سے کائناتی جلوؤں کی پہچان ہوئی اور لامکاں کی روشنیوں کا ادراک حاصل ہوا۔فرید کی شاعری میں چاند،کہکشاں اورستاروں کی قطار،بطور استعارہ استعمال ہونے کے پیچھے ’’روشنی‘‘کا ’آرچ ٹائپ ‘حددرجہ متحرک ہے۔چاند اورستاروں سے متعلق چنداوراشعارملاحظہ کیجئے
ہوئے ہیں چاند ستاروں کے ساتھ خواب ہوا
میں ہوگیا ہوں بہت ہی غریب آخرِ شب
چاند کی پہلی کرن پوچھنے آتی ہے حال
جب یہاں کوئی نہیں ہوتا ہے تب پوچھتی ہے
دل کی وسعت کے لیے چاند ستارے کم ہیں
اکتفا کس پہ کروں میری طلب پوچھتی ہے
چہرہ پردے سے جو اُس رشکِ قمر کا نکلا
ہر کوئی کہنے لگا چاند کدھر کا نکلا
میری راتوں کو ستاروں سے سجانے والا
ڈھونڈے آج پتہ وقتِ سحر کا نکلا
چاندنی رات تھی تارے تھے کوئی کہتا تھا
اس طرح مجھ کو مجھی سے نہ چُرا یاد آیا
اک ستارے کو ضیا بار دکھانے کے لیے
وہ بجھائیں گے سبھی شمس و قمر جانتے ہیں
کسی جھولی میں یہ تارے ہی نہیں گرنے کے
یہ طلب گار کا اندازِ نظر جانتے ہیں
دیا ہے جاگتے تاروں نے بے مہار سا کرب
بنا گئے ہیں مجھے خود کفیل راتوں رات
رونق دنیا ہے باقی میں ہی لیکن بجھ گیا
چاند ہے بھرپور تارے میں چمک باقی نہیں
خواب میں دیکھی تھی اک ایسی جگہ یاد آگیا
رکھ گیا چاند ستارے وہ سبھی اپنے پاس
جڑ پکڑ کر رہ گیا آنکھوں میں کربِ انتظار
بے کراں تاریکیوں میں تارے گنتے رہ گیا
فریدپربتی نے چانداورستاروں کے ساتھ ساتھ حیات وکائنات سے بھی محبت کی،ان کا مشاہدہ کیا اورپھرکائنات کے رمزکو آشکارکرنے کی کوشش کی۔انہوں نے صوفیوں سے بھی محبت کی اور صوفیانہ افکارسے اپنی زندگی کوآراستہ کیا جس کاعکس ان کی شاعری میں بھی موجود ہے۔چونکہ فرید پربتی کی پرورش صوفیانہ ماحول میں ہوئی تھی۔ان کے والدبھی صوفیوں اورصوفیانہ اقدار سے محبت کرتے تھے۔ فریدپربتی نے ہجوم آئینہ کے دیباچہ میں خودہی لکھا ہے
’’میری تربیت صوفیانہ ماحول میں ہوئی۔جس شخص نے میرے کان میں اذان دی وہ صوفی تھا۔میرے منہ میں پہلا چمچہ ڈالنے والابھی صوفی تھا۔میرے والد صوفیت کے زبردست دلدادہ تھے مگرمیں نے اپنے اوپر صوفیت کوحاوی ہونے نہیں دیا،تصوف کے سات دروازے ہیں،میں چھ سے گذرچکا ہوں۔اگرساتواں عبور کیا ہوتا تومیں اپنے مریدوں کے درمیان ہوتا یا کسی گوشۂ عزلت میں۔‘‘
فریدپربتی نے جن تصوف کے جن سات دروازوں کاذکرکیاہے ان میں بقول خواجہ فریدالدین عطارؒ پہلا ردوازہ وادیٔ طلب،دوسراوادیٔ عشق، تیسراوادیٔ معرفت،چوتھا وادیٔ استغنا،پانچواں وادیٔ توحید، چھٹا وادیٔ حیرت اورساتواں وادی فناہے۔
فریدپربتی کے آبائی مکان جو سنگین دروازہ کے پاس واقع تھا۔اس کے بالکل نزدیک ہاری پربت ہے جس کی مناسبت سے وہ اپنے نام کے ساتھ پربتی لکھتے تھے۔ اسی پہاڑی پر فرید پربتی کے پیر حضرت سلطان شیخ حمزہ کا درگاہ ہے جو ان کے گھرسے نظرآتا تھا۔فرید پربتی کوحضرت سلطان شیخ حمزہ سے بے حد عقیدت ومحبت تھی ۔اگرانہوں نے پیری اورمریدی کا سلسلہ جاری رکھاہوتاتویقیناً وہ اپنے مریدوں کے درمیان گھرے ہوتے۔فرید پربتی ان سے اپنی عقیدت ومحبت کااظہار اکثراپنے اشعار میں کیاہے
اک چشم کیمیاء کا طلب گار ہے فریدؔ
محروم فیض حضرتِ سلطاںؒ نہ رکھ مجھے
جاتا ہوں شیخ حمزہؒ کے در پر فریدؔ پھر
بابِ قبول رہتا نہیں ہے وہاں بند
اُس کے کاندھے پہ پرانی سی پھٹی چادر تھی
دے گیا تھا وہی جینے کی دعا یاد آیا
نہ جانے صوفیوں سے عقیدت ومحبت کااثرہے یاحضرتِ علی ؑکے اس قول کااثر ہے کہ ’خودشناسی ہی خداشناسی ہے‘یاپھر تصوف کے سات دروازوں میں سے چھٹے دروازے سے گذرنے کااثرہے کہ فریدپربتی صوفیوں کی طرح حقیقت حق اورحقیقت کائنات کا رازفاش کرنے کی جستجوکرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ وحدت الوجودکے سب سے بڑے پیروکار اور صوفی ابن عربی نے لکھا ہے کہ انسان خدا کا آئینہ ہے اور خدا انسان کا۔اسی لئے فریدپربتی خداسے ملنے کے لیے پہلے اپنے آپ سے ملنے کے خواہاں ہیں
یہ طلسم ذات میں چھوڑ کر مرا میں کدھر کو چلا گیا
کہ مَیں اپنے آپ سے مل سکوں ہے تلاش آج تلک مجھے
میں خواہاں خود سے ملنے کا بہت ہوں
مگر یہ مرحلہ دشوار نکلا
ڈھونڈنے نکلا ہوں اپنے آپ کو
کوئی کہتا تھا مجھے اپنا تو بَن
خودکوپہچاننے کاعمل اتناآسان بھی نہیں ہے۔اس کے لیے عشق کی ضرورت ہے اورعشق تو ایک آگ کادریاہے جس میں ڈوب کرجاناہوتا ہے۔فریدپربتی نے مرحلۂ عشق کو سر کیااور عشق سے انہیں روشنی کا شعور حاصل ہوا اور تنویر نگاہ سے کائناتی جلوؤں کی پہچان ہوئی اور لامکاں کی روشنیوں کا ادراک حاصل ہوا اس کے بعدآگ،پانی اور ہوا سب پر غالب ہوگئے ۔اس لیے انہوں اپنی ایک رباعی میں کہاہے
کندن سا دمکتا ہے مرا روحِ وجود
مٹّی ہے خمیر، آگ پہ میں غالب ہوں
میں عشق ہوں اور عشق کا قالب ہوں
پروانہ صفت، نورکا میں طالب ہوں
اس مقام پر پہنچ جانے کے بعدانسان اپنی ذات سے مل سکتاہے اور اپنی ذات سے ملنا خدا سے ملنے کے مترادف ہے۔خداسے ملنے کے بعد توانسان دنیاومافیہاسے خود کوالگ محسوس کرتا ہے
سکوتِ مرگ نہ شورِ ثبات سے مجھ کو
ملا رہا ہے کوئی میری ذات سے مجھ کو
فسونِ ذات، شعورِ حیات سے مجھ کو
جدا وہ کرتا ہے ہر کائنات سے مجھ کو
حقانی القاسمی نے بھی فریدپربتی کی شاعری میں صوفیانہ عناصر کی موجودگی اورفنافی العشق کے جذبے کی طرف اشارے کیے ہیں۔ انہوںنے ’’فریدنامہ ‘‘کے پیش لفظ میں لکھا ہے
’’فریدپربتی کے اشعارصوفیانہ سوچ کے مظہرہیں۔فنافی الشعرفریدفنافی العشق کے مقامات کی سیرکراتے ہیں۔ان کاذہن غیرمشروط ہے۔اس لیے ان کافکری تناظربھی وسیع ہے۔انہوں نے اثبات کے ذریعے عشق وعرفاں کی بہت سی منزلوں اورمقامات کوطے کیا ہے۔‘‘
حقانی القاسمی کے ان خیالات کی تائید فرید پربتی کی ایک رباعی سے بھی ہوتی ہے
اے شاہ جنوں، تیرے عرفان کوسلام
اے چاکِ جگر، اس تن عریاں کو سلام
حشمت کا طلب نہ تھا جاہ پسند
غارت گریٗ عیش و ساماں کو سلام
جس میں انہوں نے صوفی سرمد کو عقیدت ومحبت سے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔اس رباعی کوپڑھ کرمعلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی چمک دمک ان کے نزدیک کچھ بھی نہیں تھی ۔وہ توصرف عشق وجنوںکی دولت حاصل کرنا چاہتے تھے کیوں کہ یہ وہ جذبہ ہے جس کی بدولت خدا اور خدا کی کائنات کومسخرکیاجاسکتا ہے ۔
علامہ اقبال نے کہاتھا کہ دماغ کی انتہائی ترقی یافتہ صورت عقل ہے اور عقل کی انتہائی ترقی یافتہ صورت عشق ہے۔عشق کی بدولت انسان دنیاومافیہا کواپنے بس میں کرلیتا ہے۔اسی لیے فرید پربتی نے اقبال کی طرح خرد پرعشق کوترجیح دی ہے
جنوں کا جس کو سہارا بفیض عشق ملا
کلائیاں وہ خرد کی مروڑنے نکلا
وہ اس کی خواہش تسخیر اﷲ!
کمدیں ڈالتا ہے کہکشاں پر
فریدپربتی عشق کی عظمت بخوبی واقف ہیں اورعشق میں پروانے کی مانندخودکوفناکرلینے کے قائل ہیں۔اپنی رباعی میں کہتے ہیں
پروانہ صفت اب آتشِ طورمیں جل
خاکِ رہ جاناں کو منہ پر مل
گرعشق عناں گیر نہ ہو کیفِ حیات
کچھ بھی نہیں دیتا، بجز اندازِ خلل
الغرض فریدپربتی کی شاعری کی کئی خصوصیات ہیں جن کے متعلق لکھنے کی کافی گنجائش ہے لیکن جوپہلوسب سے زیادہ نمایاں ہے وہ ان کا صوفیانہ رنگ۔ان کی غزلیں اوررباعیوں کوپڑھ کرمعلوم ہوتا ہے کہ ان کا دل عشقِ حقیقی کے جذبے سے سرشارہے اورسینہ نورِمجردسے روشن ہے۔
