May 28, 2023

سید عاشور کاظمی:اجالے یادوں کے

سید عاشور کاظمیاجالے یادوں کے

دن کون سا تھا؟تاریخ کیا تھی؟کچھ یاد نہیں لیکن1993 میں نومبر کی ایک شام تھی ۔میں ایک تقریب میں گیا ہوا تھا۔میں کنارے کھڑا تھا اور میری آنکھیں کسی جاننے والے کو ڈھونڈ رہی تھیں۔اچانک میری نظر ایک دوست پر پڑی اورمیں اس کی طرف بڑھا۔سلام وکلام کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ خوبصورت سوٹ میں ملبوس ، چہرہ گورا اور چوڑا ،سر کے زیادہ تربال سفید ،آنکھوں میں موٹے گلاس والا چشمہ پہنے ایک صاحب میری طرف غور سے دیکھ رہے تھے۔شاید وہ مجھے پہچاننے کی کوشش کررہے تھے۔میںبھی ان کی طرف دیکھنے لگا کہ اس دوست نے ان سے مخاطب ہو کر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’بھائی جان یہی عقیل ہے۔‘‘بھائی جان کا لفظ سنتے ہی میں پہچان گیا کہ یہ برطانیہ کے معروف ادیب سید عاشور کاظمی ہیں۔ خوشی سے ان کا چہرہ کھلنے لگا۔ میرے چہرے پربھی ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔تیزی سے وہ میری طرف اور میں ان کی طرف بڑھا ۔پھرہم دونوںایک دوسرے سے لپٹ گئے۔میرے کان میںکہنے لگے لندن میں تمہاری باتیں اکثرہواکرتی تھیں۔تھوڑی ہی دیر میں ان سے اتنی باتیں ہوئیں کہ مجھے لگنے لگا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہوں اور مدّتوں بعدملے ہوں۔حالانکہ چند مہینے پہلے ہی ہم دونوں ایک دوسرے سے غائبانہ طور پرمتعارف ہوئے تھے۔
تقریب اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی سردی بھی تیز ہو گئی تھی اس لئے میں نے ان سے رخصت ہونے کی اجازت مانگی ۔کہنے لگے کل پھر آنا ،اور بھی باتیں کرنی ہیں۔میں دوسرے دن پھر ان سے ملا ۔اس ان سے دیر تک باتیں ہوئیں۔عاشور کاظمی کے متعلق پہلے سے جتنامیںجانتایا سنا کرتا تھااسے مدنظر رکھتے ہوئے میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مجھ جیسے معمولی طالب علم سے وہ اس قدر خلوص ومحبت سے ملیں گے اوراتنی باتیں کریں گے۔ عاشور کاظمی سے ملاقاتوں اورباتوںکا سلسلہ یوں ہی جاری رہا۔وہ تقریباً ہر سال ہندوستان آتے تھے۔یہاں جیسے ہی وہ آتے تھے تو راشٹریہ سہارا میں خبر شائع ہوتی کہ لندن کے معروف ادیب سید عاشور کاظمی دہلی میں موجودہیں۔بس اس کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ۔ان کی شان میں جلسے منعقد ہونے لگتے۔ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان کے انٹرویو زبھی لیے جاتے۔یہاں آتے ہی خاص طور سے مجھے فون کرتے اور اپنے آنے کی خبر دیتے اور پوچھتے کہ کب مل رہے ہو۔ میں بھی ان سے ملنے کے لیے فوراً چلا جاتا۔ان سے مل کر دہلی میں ان کے قیام و پروگرام کے متعلق باتیں ہوتیں۔ دہلی میں اپنے قیام کے دوران اکثر مقامات پر وہ میرے ساتھ جانا پسند کرتے تھے۔مجھے بھی ان کے ساتھ کہیں جانے میں خوشی محسوس ہوتی۔اس طرح مجھے ان کے قریب آنے اور ان کے متعلق جاننے کا موقع ملا۔ان کی شخصیت کے کئی پہلوؤں کو میں نے قریب سے دیکھا،پہچانا،مشاہدہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ وہ جتنے بڑے دولت مند تاجرتھے اس سے کہیں زیادہ بڑے انسان تھے۔اپنے نجی ہوائی جہاز سے سفر کرنے والاشخص زمین سے جڑا ہوا انسان تھا۔اس بات کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب ایک روز تقریباً دو بجے وہ میرے ساتھ دہلی یونیورسٹی میں تھے اور مجھے بھوک لگی ہوئی تھی،میں چھولے اور کُلچے کھانا چاہتا تھا۔میں نے اخلاقاً ان سے چھولے اور کُلچے کھانے کے لیے کہا اور وہ تیار ہو گئے۔ہم دونوں نے وہیں فُٹ پاتھ پر بیٹھ کر چھولے کُلچے کھائے۔بعد میں سوچتا رہا کہ انہیں چھولے اور کُلچے کھلا کرکہیں میں نے ان کی شان میں کوئی گستاخی تو نہیں کی۔اس لئے دوسرے دن میں نے اس گستاخی کے لیے ان سے معذرت پیش کی تو کہنے لگے’’میاں اتنی خلوص، محبت اور معصومیت کے ساتھ کوئی زہر بھی کھلائے تو میں کہیں بھی بیٹھ کرکھالونگا۔ان کی خاکساری کی مثالیں اور بھی ہیں۔مثلاً وہ ہندوستان اکثر جولائی کے مہینہ میں آتے تھے ۔اس مہینہ میں اُمس بھری گرمی اپنے شباب پر رہتی ہے۔وہ دہلی کے جس علاقہ میں رہتے تھے اس علاقہ میں اگر بارش ہو تی ہے تو ویاں کی پتلی پتلی گلیاں پانی اور کیچڑسے بھر جاتی ہیں۔اُوپر سے ٹھیلے والے، رکشا والے،اور کبھی کبھی گدھے اور دوسرے جانور بھی انہیں گلیوں سے گزرتے رہتے ہیں جس سے آنے جانے والے سفیدپوش انسانوں کا حلیا بدل جا تاہے اور کئی بار انہیں پہچاننا بھی مشکل ہوجاتاہے۔مجھے بھی کئی بار اس صورت حال سے دوچار ہونا پڑا تھا لیکن عاشور کاظمی کو ان گلیوں سے گزرنے میں ذرا بھی چہرے پر شکن نہیںآتی تھی۔میںاکثر یہ سوچتا کہ کس مٹی سے بنے ہوئے ہیں عاشور کاظمی صاحب کہ لندن کی صاف شفاف اورحسین وادیوں میں رہنے کے عادی ہونے کے باوجود کس طرح ان گندی گلیوں سے گزرتے ہیں۔انہیں تو دہلی کے کسی پانچ ستارہ ہوٹل میں ٹھہرنا چاہئے جہاں کار پارکنگ ہوتی ہے،خوشگوار موڈ میںبیٹھ کر باتیں کرنے کے لیے ائیرکنڈیشن لانج ہوتی ہے۔وہاں رہنے میں نہ انہیں کوئی پریشانی ہوتی نہ ان سے ملنے والوں کو آنے جانے میںپرانی دہلی کی گلیوں کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا۔اس لئے مجھ سے رہا نہیں گیا اور ایک دن میں نے اپنے دل کی بات ان سے کہہ دی۔وہ کہنے لگے کہ عقیل میاں پرانی دہلی اور یہاں کی گلیوں میں رہنے والوں میںجو اپناپن ، خلوص اور محبت ہے وہ پانچ ستارہ ہوٹل میںکہاں ملے گا۔دوسری بات یہ کہ پانچ ستارہ ہوٹل میں مجھ سے ملنے کے لیے تم تو آسکتے ہو لیکن پرانی دہلی یا جمنا پار کے علاقے کی گلیوں میں رہنے والے عام انسان جو کسی نہ کسی روپ میںاردوسے جڑے ہوئے ہیں یہاں نہیں آ پائیں گے۔میں تو دراصل ان سے ملنے آتا ہوںجواردو کے سچے سپاہی ہیں اور سپاہی توعام انسان ہی ہوتے ہیں۔الغرض وہ ایک ایسے انسان تھے جنہیں فرانس اور پیرس کی بنی پرفیوم سے زیادہ ہندوپاک کی مٹّی کی خوشبو ، بڑے بڑے محلوںاورپانچ ستارہ ہوٹلوں سے زیادہ اپنوں کے گھرپسند تھے۔ تبھی تو ساری دنیا جرمن،فرنچ اور انگلش کی دیوانی ہے لیکن وہ اردو اور اردو والوں کے دیوانے تھے۔الغرض وہ ایک ایسے انسان تھے جنہیں فرانس اور پیرس کی بنی پرفیوم سے زیادہ ہندوپاک کی مٹّی کی خوشبو ، بڑے بڑے محلوںاورپانچ ستارہ ہوٹلوں سے زیادہ اپنوں کے گھرپسند تھے۔ تبھی تو ساری دنیا جرمن،فرنچ اور انگلش کی دیوانی ہے لیکن وہ اردو اور اردو والوں کے دیوانے تھے۔
سید عاشور کاظمی مجھے اپنا چھوٹا بھائی مانتے تھے اور بچہ سمجھتے تھے۔لہٰذا ان کے دماغ میں کبھی یہ بات نہیں آئی کہ میں ان کی تخلیقی،تحقیقی اور تنقیدی تصنیفات پراظہار خیال بھی کرسکتا ہوں۔اس لئے انہوں نے کبھی مجھ سے کچھ لکھنے کی فرمائش نہیں کی ورنہ زیادہ تر دوسرے ملکوں کے شاعر وادیب یونیورسٹی اور کالج کے اساتذہ سے مضمون لکھنے کی فرمائش ضرور کرتے ہیں۔ایک دفعہ وہ دہلی آئے ہوئے تھے اوران ایک کتاب ’اردو مرثیے کا سفر(سولہویں صدی سے بیسویں صدی تک) اور بیسویں صدی کے اردو مرثیہ نگار‘‘ شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کی رسم اجرا ایک ہفتہ بعد ہونے والی تھی۔انہوں نے ہمیشہ کی طرح مجھے فون کیا کہ میں آچکا ہوں،تم کب آؤگے؟میں نے کہا کہ ایک گھنٹہ میں۔تھوڑی دیربعدجب میںان کے پاس پہنچا تو انہوں نے اپنی نئی کتاب دی اور کہا کہ اس کی رسم اجرا ایک ہفتہ بعد اردو گھر میں ہوگی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم اس پر کچھ لکھ کر رسم اجرا کی تقریب میں پڑھ سکتے ہو؟ میں نے کہا کہ میں کوشش کروں گا لیکن اس موضوع پر میں نے نہ کبھی کچھ پڑھا ہے اور نہ کبھی کچھ لکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں تم کوشش کرو اور ایک دو دن پہلے لکھ کر لانا میں دیکھ لونگا۔پانچویں دن ایک مضمون ’’سید عاشور کاظمی اور مرثیہ کا تجدیدی سفر ‘‘ کے عنوان سے لکھ کر ان کی خدمت میں حاضرہوایہ سوچتے ہوئے کہ اتنی جلدی میں لکھا ہے نہ جانے انہیں پسند آئیگا یا نہیں۔وہ مضمون پڑھنے لگے اورمیںان کا چہرا ۔تھوڑی دیر میں ان کے چہرے پر مرتب ہوتے ہوئے تاثرات، آنکھوں میں پیدا ہوتی ہوئی چمک اوران کے بدن کے لسان کودیکھ کر میں مطمئن ہوا کہ یہ مضمون نہ صرف انہیں پسند آرہا ہے بلکہ وہ کچھ خود پراور کچھ مجھ پر فخر محسوس کر رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ جسے میں صرف چھوٹا بھائی اور بچہ سمجھتا تھا وہ ایک مقالہ نگار نکلا۔اس دن عاشور کاظمی صاحب نے مجھے دل سے دعائیں دیں اور کئی بار کہا کہ ’’بھائی مان گیا تم ایک اچھے مقالہ نگار ہو۔‘‘ کسی وجہ سے انہیں فوراً لندن واپس جانا پڑا اور اجرا کی تقریب ملتوی ہو گئی ۔اس کتاب کے سلسلے میں میں نے پاکستان کے ایک ادیب سلطان جمیل نسیم (جو صبا اکبرآبادی کے بیٹے بھی ہیں) سے ذکر کیا اور کہا کہ اس میں آپ کے والد کی مرثیہ نگاری پر عاشور کاظمی نے اچھا تبصرہ کیا ہے جسے میں نے اپنے مضمون میں بھی کوٹ کیا ہے تو انہوںنے مضمون پڑھنے کی خواہش ظاہر کی اس لیے میں نے اسے ای میل کے ذریعہ پاکستان ان کے پاس بھیج دیا۔اسے پڑھنے کے بعد انہوں نے اسے شائع کرانے کی اجازت مانگی ۔اس طرح یہ مضمون پاکستان کے ایک رسالہ میں شائع ہوا۔پاکستان کے ادیبوں نے اس مضمون کو پڑھنے کے بعد عاشور کاظمی کو فون کیا اس مضمون کی تعریف کی۔اس کے بعد انہوں نے فوراً مجھے فون کیا اور ڈھیرساری دعائیں دیں۔ اس کتاب کی رونمائی دوسرے سال اردو گھر میں ہوئی ۔کئی لوگوں نے اس کتاب پر اظہار خیال کیا اور مقالے بھی پڑھے۔ میرے مقالہ کے متعلق منتظمین کو کوئی جانکاری نہیں تھی اس لیے مجھے نہ مقالہ پڑھنے کے لئے کہا گیا اور نہ میں خود پڑھنے کی پیش کش کی۔مقالہ نہیں پڑھنے کا مجھے بھی افسوس تھا اور انہیں بھی۔میں نے سوچا تھا کہ آئندہ جب آئیں گے تو ان کی شان میں ایک چھوٹا سا جلسہ اپنے کالج میں کروں گا اور یہ مقالہ وہیں پڑھونگا لیکن ہندوستان کا وہ سفر ان کا آخری سفر تھا۔مجھے خوشی ہے کہ ہندوستان کے اس آخری سفر سے پہلے ان کی شان میںایک پروگرام اپنے کالج میں کر چکا تھا۔
دراصل عاشور کاظمی کو اسکول اور کالج کے اردو پڑھنے والے طالب علموں سے اردو کے سنہرے مستقبل کی بہت امیدیں وابستہ تھیں۔اس لیے اسکول اور کالج کے طلبہ سے ملنے کا انہیں بڑا شوق تھاتاکہ انہیں اردو پڑھنے اورسیکھنے کے لئے مائل کیا جا سکے۔ اسی لئے ایک دفعہ جب وہ دہلی تشریف لائے ہوئے تھے تواپنے کالج کے طلبہ سے ملوانے کے بہانے میں نے اپنے کالج میں ایک جلسہ منعقد کیا تھا جس کی صدارت ہندی زبان کے بڑے اسکالر ڈاکٹر کرن سنگھ چوہان نے کی تھی۔اس جلسہ میں جا معہ ملیہ اسلامیہ سے ڈاکٹرکوثر مظہری،دیال سنگھ کالج سے ڈاکٹر مولا بخش، اردو آفیسر ڈاکٹر اشفاق عارفی اورراشٹریہ سہارا کی طرف سے ڈاکٹر مشتاق صدف نے ان کی تخلیقات پر اظہار خیال کیا تھا۔ آخر میں سید عاشور کاظمی نے برطانیہ میں اردو کی صورت حال پر تقریر کی اور یہ بھی بتا یاکہ وہ خود اردو کی ترقی کے لئے برطانیہ میں کیا کیا کر رہے ہیں۔ آخرمیں طلبہ ان سے سوالات پوچھنے لگے اوروہ ان کے سوالوں کے جواب گھنٹوں دیتے رہے۔چند گھنٹوں کی ملاقات میںطلبہ ان سے اتنے گھل مل گئے کہ کئی سالوں تک انہیں یاد کرتے رہے ۔اس جلسہ میں نجی ٹی وی چینل کے لیے فلمیںاور پروگرام بنانے والی ایجنسی کے ایک سربراہ بھی موجود تھے۔عاشور کاظمی کی تقریر سے متاثر ہوکرمجھ سے ان کا انٹرویو لینے کے لیے کہاگیا۔انٹرویولینے کے لیے ایک ہفتہ تک میں نے ان کی بیشتر کتابوں کا مطالعہ کیا اورایک سوال نامہ تیارکیا۔اس کے بعد انہیں اپنے گھر لے کر آیا۔یہیں کیمرا مین اور لائٹ مین بھی آگئے تھے۔کوئی تین گھنٹے تک میں نے ان کا انٹرویو لیا۔اس انٹرویو میں انہوں نے حالات زندگی، ادب اور زندگی کے متعلق نظریات کے سلسلے میں کافی روشنی ڈالی تھی ۔اس انٹرویو کے بعد میں ان کی شخصیت اور ان کی تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوںکا مزید قائل ہوا۔اس انٹرویو سے ملی جانکاری کے مطابق ان کی پیدائش پانی پت کے ایک بستی فرید پور میں 10 فروری1933 ء میں ہوئی تھی ۔اسی دن یومِ عاشورہ بھی تھا اس لئے ان کا نام عاشور علی کاظمی رکھا گیا۔ ان کے والد محترم سید زوارحسین کاظمی اور والدہ محترمہ سیّدہ فاطمہ کا تعلق سادات گھرانے سے تھا۔1947ء میں تقسیم ہند کے دوران وہ اپنے اہلِ خاندان کے ہمراہ جہلم، پاکستان ہجرت کرگئے لیکن جلد ہی وہاں سے لاہور چلے گئے۔ جنرل ایوب خان نے جب مارشل لا نافذ کیا تو وہ لاہور سے کراچی منتقل ہو گئے اور بُٹیک کاکاروبارشروع کیا۔دیکھتے ہی دیکھتے ٹکسٹائل انڈسٹری میں انہوں نے بڑامقام حاصل کر لیا۔لیکن 1976ء میں پاکستان سے برطانیہ چلے گئے جہاں انہوں نے تجارت کا آغاز تو ایک ٹریول ایجنسی سے کیا لیکن جلد ہی ایک کارگوجہاز خرید لیا اور کارگو کے کاروبار کوفروغ دینے میں مصروف ہوگئے اور جلد ہی ان کا شمار بڑے سرمایہ داروں میں ہونے لگا لیکن حیرت کی بات ہے کہ وہ خود سرمایہ دار ہونے کے باوجود سرمایہ داری کے خلاف تھے۔دراصل ان کا تعلق ایک ایسے خاندان اور ماحول سے تھا جہاں انہوں نے بچپن سے حضرت امام حسینؑ اور ان کے اہلِ خاندان کی قربانیوں کی داستان سنی تھی جس کا اثران کے دل ودماغ پر گہرا تھا۔اس لیے ظلم وستم اور آمریت کے خلاف آواز بلند کرنا، احتجاج کرنا اور حق کی بات کرنا ،مظلوموں کی حمایت کرنا ان کی فطرت میں شامل تھی۔اسی جذبے کے تحت حقوق انسانی کی تحریکوں سے وابستہ ہو گئے اور لندن میں رہ کر ایشیا، افریقہ اور یوروپ جیسے ملکوں میں مظلوموں کی حمایت کرتے رہے۔
اپنی عمر کے کل34 سال یوروپ میں گزارنے کے بعد بھی ہندوستانی تہذیب اور یہاں کی محبوب ترین زبان اردوسے محبت کرتے رہے اور یوروپ میں اردو کے علم بلند رکھنے کے لئے اپنا تن من اور دھن لٹاتے رہے۔ 1985ء میں انہوں نے لندن میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کانفرنس منعقد کیا جس میںمختلف زبانوں کے ادیبوں اور دانشوروں نے حصہ لیا اور سبھی ان کی علمی لیاقت اور تنظیمی صلاحیت سے متاثر ہوئے۔اس کے بعد دنیا بھر میں اردو کے کانفرنسوں اور سیمینارو ں میں وہ بلائے جانے لگے جس سے ہر خاص وعام ان کی ادبی صلاحیتوں سے متعارف ہونے لگا۔زبان وادب اورادیبوں سے ان کی بے پناہ محبت کے چرچے چاروں طرف ہونے لگے۔رفتہ رفتہ کارگو کے کاروبار کو ترک کرکے خود کو ادب کی خدمت کے لئے وقف کردیا۔ برطانیہ میں انسٹی ٹیوٹ آف تھرڈورلڈآرٹ اینڈلٹریچرقائم کیا اور اس ادارہ کے ذریعہ ادیبوں، اردو اداروں اور مختلف ادبی پروجکٹوں کو مالی تعاون دیتے رہے۔اس کے علاوہ اس ادارے نے پچاس سے زیادہ کتابوں کی نشرو اشاعت کی۔ انہوں نے بھی برطانیہ میں اردو یونیورسٹی کھولنے کی کوشش شروع کردی تھی لیکن وقت اور حالات نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ان کی پوری کی پوری توجہ برطانیہ کے اسکولوں میں اردو کی تعلیم کی طرف تھی ۔یہ برطانیہ میں اردو کے فروغ کابنیادی کام تھا۔اردو کے بنیادی کاموں اور اردو والوں پر انہوں نے جتنے پیسے وقت صرف کئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اردو کے ایک سچے سپاہی تھے۔اگر وہ چاہتے تو ان پیسوں سے ہندوستان اور پاکستان میں مختلف موضوعات پر سیکڑوں سمینار کرا سکتے تھے اور ان سمیناروں میں پرھے گئے مضامین کو ایڈیٹ کرکے شائع کرا سکتے تھے اور سیکڑوں کتابوں کے مصنف بن سکتے تھے لیکن انہوں نے نام نہاد صف اوّل کے دانشوروںکی فہرست میں اپنا نام درج کرانے کے بجائے اردو کا ایک سپاہی بننا بہتر سمجھا ۔
سید عاشور کاظمی جب ہندوستان آتے تھے تواردو کے نام پر پیسے ایسے لٹاتے ہوئے چلتے تھے جیسے اردو والوں کے لئے کوئی چلتے پھرتے بینک ہوں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ایک دن میں ان کے ساتھ اُوکھلاکے Objective Centreکے آفس سے واپس اردو گھر آ رہا تھا لیکن راستے میں انہوں نے ایرانی سفارت خانہ کی طرف گاڑی لے چلنے کے لیے کہا۔میں نے سوچا ایران کے سفارت خانہ میں انہیں سفیر سے ملنا ہوگا۔مجھے خوشی ہوئی کہ اسی بہانے ایرانی سفارت خانہ دیکھنے کا موقع ملے گا۔سفارت خانہ کے دروازہ پر پہنچ کر انہوں نے فون کیااور ایک نوجوان جو شکل اور لباس سے سیکوریٹی کا آدمی لگ رہا تھا، سکنڈوں میںباہر نکلا۔گیٹ کے باہر کھڑے کھڑے پانچ منٹ تک باتیں کیں، اس کے بعد عاشور کاظمی صاحب نے دس ہزار ر وپیے کا ایک چیک کاٹ کر انہیں دے دیا اور وہاں سے روانہ ہو گئے۔راستہ میں ان سے میں نے پوچھا کہ وہ کون تھا تو کہنے لگے کہ میں بھی اسے نہیں جانتا ہوں لیکن اس نے مجھے فون کیا تھااور بتایا تھاکہ سیلم پور کے علاقہ میں کوئی ادارہ چلاتے ہیں جس میں مسلم بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔اسی لئے میں ان سے یہاں ملنے آیاگیا۔ایسے نہ جانے کتنے ضرورت مندوں کی مدد انہوں نے کی ہوگی۔ہندوستان کے بڑے اداروں اور معزز شخصیتوں کو بھی انہوں نے ہر طرح سے نوازا تھا۔ان پرلاکھوں روپیے خرچ کیے تھے لیکن ان میں بعض حضرات نے انہیں نقصان پہنچایا تھا لیکن جب بھی ان لوگوں سے ملتے تو ایسے ملتے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں ہو۔ وہ عاشقانِ اہلِ بیعت میں سے تھے اور وہ حضرت علیؑ کے اس قول سے بخوبی واقف تھے کہ جس کی مددکرو اس کے شر سے بچو،لیکن وہ ایک شریف النفس انسان تھے اورامام غزالی ؒ کے اس قول پر عمل کرتے تھے کہ’’ دشمنوں کو معاف کردینا انتقام لینے کا سب سے بہتر طریقہ ہے‘‘۔دہلی میں ان کے سچے دوستوں کی بھی کمی نہیں تھی لیکن میری معلومات کے مطابق ڈاکٹر خلیق انجم ان کے بے حد عزیز دوست اورمربی تھے۔ان کا زیادہ تر وقت انہیں کے ساتھ اردو گھر میں گزرتا تھا۔زندگی کے آخری ایّام میں دونوں نے ایک دوسرے کو بہت یاد کیااورملنے کی خواہش ظاہر کی۔پچھلے دنوںخلیق انجم صاحب سے جب بھی میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے عاشور کاظمی صاحب کی خیریت دریافت کی اور ان کے متعلق باتیں کی۔ ہندوستان میں اپنے قیام کے دوران سید عاشور کاظمی پٹنہ ضرور جاتے تھے۔وہاں کے ادیبوں سے بھی انہیں محبت تھی۔
سید عاشور کاظمی کی فراخ دلی نے ان کی ادبی شبیہ کو دبا دیا تھا۔ کیوں کہ ہندوپاک کے بیشتراردو والے انہیں یا توATM مشین سمجھتے تھے یایوروپ کی سیر کرانے والا کسی اساطیری داستان کا اُڑن کھٹولہ ۔اس لیے ان کی تخلیقی وتحقیقی اہمیت کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی۔ ویسے بھی بیشتر اردو والوں کی عجیب وغریب سائیکی ہوتی ہے۔اردو والے انہیں شاعروں اورادیبوں کو پڑھتے ہیں ، واہ واہ کرتے ہیںاور سر دھنتے ہیں جنہوں نے نکمّوں کی طرح کسی دیوار کے سائے تلے پڑے پڑے زندگی گزار دی ہو یا عشق کے جنون میں محبوب روشنی کی صورت میں آسمان سے زمین کی طرف آتی ہوئی دکھائی دیتی ہو پھر مالی تنگی سے تنگ آکر روٹی کے بجائے کپڑے چبائے ہوں یا اپنے گھر میں جوئے کھلائے ہوں۔لیکن آج بھوکے ننگے ادیبوں اور شاعروں کاوجود ختم ہوگیا ہے۔یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ پہلے زیادہ تر پھٹے حال اور پھٹیچرقسم کے لوگ شاعر وادیب ہواکرتے تھے لیکن اب Multimillionaire تاجر اوراعلیٰ عہدوں پر فائز حضرات بھی اچھے شاعروادیب ہیں۔ان کی تخلیقات میں بھی دم ہے جنہیں پڑھنے اوران پرتحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔سید عاشور کاظمی بھی انہیں ادیبوں اور شاعروں میں سے تھے جنہیں خدانے دولت اور علم سے نوازا تھا۔ انہوں نے اردوادیبوں کے بھوکے ننگے شبیہ بدل دیا تھا اور یہ ثابت کردیا تھا کہ دولت مند اورElite Class کے لوگ بھی بڑے شاعروادیب ہو سکتے ہیں۔
سید عاشور کاظمی کے تعلیمی سفر پرنظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ انہوںنے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی لیکن اسکول کی تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول روہتک (ہندوستان)اور اسلامیہ ہائی اسکول جہلم سے جبکہ بی۔ اے کی تعلیم زمیندار کالج گجرات اور ایم اے کی تعلیم اورینٹل کالج لاہور سے حاصل کی۔بچپن سے انہیں پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔گھر کا ماحول بھی مطالعہ کے لئے سازگار تھا۔اسی لئے انہوںنے بچپن ہی سے تخلیق وتحقیق کا کام شروع کردیا تھا۔ان کا مطالعہ بھی وسیع تھا انہوں نے صرف ا ردو ادب کی کتابیں نہیں پڑھی تھیں بلکہ مختلف علوم وفنون سے متعلق بے شمار کتابیں انہیں پڑھنے کا موقع ملاتھا۔اس کے علاوہ ہندوستان سے پاکستان اور پاکستان سے لندن تک زندگی کے سفر میں نہ جانے انہیں کتنے نشیب وفراز سے گزنا پڑا۔ زندگی کے ان پُرپیچ راہوں نے بھی انہیں بہت کچھ سکھایا۔ان سب کا انعکاس ان کی تخلیقات میں موجود ہے۔
ان کی شعری تخلیقات میں تین کتابیں ہیں جن میں پہلی ’’حرف حرف جنوں‘‘ ان کا حالیہ شائع شدہ مجموعۂ کلام ہے جس میںبہترین غزلیںشامل ہیں ۔دوسری اور تیسری کتاب ’’چراغ منزل‘‘ اور’’صراطِ منزل‘‘ ہیں۔ان میں عقیدت اور محبت کے جذبے سے سرشار ،حمد، نعت، منقبت اور سلام کے اشعار ہیں۔ان کی نثری تخلیقات میں ’’راہوںکے خُم‘‘ افسانوں کا مجموعہ ہے جبکہ ’’سخن گسترانہ‘‘ اور’’چھیڑخوباں سے‘‘ طنز و مزاح، انشائیے، خاکے اور مضامین کے مجموعے ہیں۔ ’’فسانہ کہیں جسے‘‘ افسانے پر تحقیقی نوعیت کی کتاب ہے جس میں دو ہزار قبل مسیح سے حال تک یوروپ ، جنوبی امریکہ اور روس کے عہد ساز افسانہ نگاروں کی تخلیقات کے حوالے سے افسانے کے عروج و زوال پر بحث اردو افسانے کی دونوں روایتوں کے تناظر میں مغرب میں مقیم انتالیس افسانہ نگاروں کا تنقیدی تعارف ایک ایک افسانے کی روشنی میں کرایاگیا ہے۔ ’’ مرثیہ نظم کی اصناف میں‘‘ جدید مرثیے کی تاریخ پر تحقیقی کتاب ہے جس کامطالعہ مرثیہ پر کام کرنے والوں کے لیے ناگزیر ہے۔ہندستان میں میر انیس ودبیر اور مرثیہ پر لکھے جانے والے اکثر مضامین میںانہیں کوٹ کیا جاتا ہے۔ ’’ترقی پسند ادب کا پچاس سالہ سفر‘‘مختلف مضامین کا مجموعہ ہے جس میں پچھلے پچاس سالوں میں تخلیق ہونے والے ترقی پسند ادب کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔’’ بیسویں صدی کے اردو نثر نگار مغربی دنیا میں ‘‘۔اس کتاب میںمغربی دنیا کے تمام فکشن نگار،مزاح نگار،محقق، ناقد، تاریخ گو،رپور تاز نگار،صحافت نگاروغیرہ کا تنقیدی تعارف پیش کیا گیا ہے۔ ’’ بیسویں صدی کے اردو اخبارات و رسائل مغربی دنیا میں‘ ‘اس کتاب میںمغربی دنیا کے تمام رسائل،جرائد اور اخبارات کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ’’اس گھر کو آگ لگ گئی ‘‘ دراصل جدوجہد آزادی کے تناظر میں غداروں کے خطوط پر مشتمل دستاویز ہے۔ ’’ راگ رنگ ‘‘میں انہوں نے موسیقی کی تاریخ اور فنی تجزیات، لغتِ موسیقی اور اوزان موسیقی پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ ان کتابوں کے علاوہ ’’نکاتِ فن‘‘ اور انگریزی تالیف committment” ‘‘ اس میں لندن میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پیش کیے گئے انگریزی زبان میں مقالے اور کچھ اہم اردو مقالوں کا انگریزی میں ترجمے شامل ہیں۔عاشور کاظمی کی تازہ ترین کتاب پہلی نظر میں مرثیے کی مکمل تاریخ معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اس کتاب کے مندرجات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ مرثیے کی مکمل تاریخ سے آگے کی چیزہے اور اس کا نام ’’اردو مرثیے کا سفر(سولہویں صدی سے بیسویں صدی تک) اور بیسویں صدی کے اردو مرثیہ نگار‘‘ کے بجائے Encyclopedia of Marsiaہونا چاہئے۔اس کتاب کو مرثیے کی مکمل تاریخ بھی مان لیا جائے تب بھی اس کی اہمیت کم نہیں ہو سکتی کیو ں کہ مرثیے کی تاریخ پر اب تک کوئی دوسری ایسی وقیع اور مستند کتاب نہیں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کی دوسری اہم خصوصیت مرثیہ گو شاعرات، غیر مسلم مرثیہ نگار اور مغرب میں آباد اردو مرثیہ گو شعراء کی شمولیت ہے۔ آج سے پہلے مرثیہ گو شاعرات اور مغرب میں موجود مرثیہ گو شاعروں پر اس قدرجامعیت اور منطقی ترتیب کے ساتھ نہیں لکھا گیا۔ گنے چنے غیر مسلم مرثیہ نگاروں کا ذکرتو کہیں کہیں مل جا تا ہے لیکن غیر مسلم مرثیہ گو شاعروں کا مکمل تجزیہ و تعارف پہلی بار اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ ایک اعلیٰ درجے کی تاریخِ مراثیٔ اردو ہونے کے ساتھ ساتھ یہ کتاب تحقیق و تنقید کے عروج کی مثال بھی ہے۔
ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ہندستان اور پاکستان کے یونیورسٹیوں میں ان پر تحقیقی مقالے لکھے جا رہے ہیں۔ان کی شخصیت اور ادبی خدمات پر دو کتابیں ’’سید عاشور کاظمیفنکار اورفن‘‘ اورعاشور کاظمی دانشور اور محرک ‘‘بہار سے شائع ہو چکی ہیں۔عاشور کاظمی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، ایک فرد نہیں ایک ادارہ تھے۔ آج کے بحرانی حالات میں عاشور کاظمی جیسے صاحب جنوں تحقیق کار اور مجذوب نا قد کی وجہ سے برطانیہ میں اردو کی شمع نہ صرف روشن تھی بلکہ اس شمع سے پوری ادبی کائنات بھی ضیا بار ہورہی تھی اور آج کے اس اردو کُش ماحول میں یہ ضیاباری بھی بہت بڑی بات تھی۔ سیدعاشور کاظمی اردوکے سچّے عاشق اور جاں نثارتھے۔ دنیا کے شاید وہ ایسے مجا ہد اردوتھے جنہوں نے اردو کی خدمت کے لیے کارگوکا کاروبار ترک کر دیا تھا اور فروغ اردو کے لیے اپنی زندگی اور دولت وقف کر دی تھی لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظورتھا۔وہ پروسٹریٹ کے کینسر میں مبتلا ہو گئے تھے۔ایک ہفتہ گھر میں رہتے تھے دوسرے ہفتے ہوسپیٹل میں گزارتے تھے۔پچھلے دو تین سالوں سے ان کی زندگی کا یہی معمول بن گیا تھا۔
6؍جون 2010کو11 بجے دن میں جب مجھے یہ منحوس خبرملی کہ سید عاشور کاظمی آج صبح چار بج کر ایک منٹ(ہندوستان کے وقت کے مطابق) پر دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے تو میرے پاؤں تلے زمین کھسک گئی۔چاروں طرف صفِ ماتم بچھ گئی اورمیں نے محسوس کیا کہ برطانیہ میں اردو کا سورج غروب ہو گیا۔اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کی یادیں، باتیں اورملاقاتیں ہمیشہ تازہ رہیں گی۔خدا ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔آمین!

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.