فراغ روہوی:بحیثیت دوہانگار
دوہا ہندوستان کی تہذہتی و ثقافتی اقدارکی شاندارروایات کی امین ہے۔دوہے کے ابتدائی نقوش کاسراغ پانچویں اورچھٹی صدی عیسوی کی پراکرت اورمقامی بولیوں میں موجود ہے۔ اسی دور میںمقامی شعرانے تزکیۂ نفس کے لیے دوہے کواظہاروابلاغ کاذریعہ بنایاتھا کیوں کہ دوہا مؤثر اور مقبول ترین لوک صنف شعرکے طورپررائج تھا۔نویں صدی عیسوی میں اپ بھرنش کے متعدد اہم تخلیق کاروں نے دوہے کوباضابطہ ایک صنف شاعری کی حیثیت سے متعارف کرایااوراس کے تخلیق فن کے اصول و قواعدکو وضع کیا۔اسی زمانے میں دوہے کے فن اور اسلوب کی عوامی سطح پرپذیرائی ہوئی ۔اس کے بعد پنجابی ، سندھی،برج بھاشا،مگدھی اوراودھی جیسی عوامی زبانوں میں بھی دوہے لکھے جانے لگے۔
رفتہ رفتہ دوہانگاروں نے اس فن میں ایسا جادوجگایااورایسے ایسے دوہوں کی تخلیق کی جن کی بدولت واقعیت، حقیقت،مقصدیت اورسبق آموزنصیحت سے دوہا آراستہ ہوگیا۔دوہے کی صنف کو جن تخلیق کاروںنے اپنے خون جگر سے سینچا اور پروان چڑھایا ان میں ہندو اور مسلم شعرا شامل ہیں۔ ہندو شعرا میں کبیرداس،سورداس،تلسی داس اوربہاری لال وغیرہ اورمسلم شعرامیں حضرت امیرخسروؒ، بابافریدالدین مسعود گنج شکرؒ،سیدعبداﷲبلّے شاہ، عبدالرحیم خان خاناںاورملک محمدجائسی وغیرہ خاص اہمیت کے حامل ہیں ۔ ان شعرانے اپنی تہذیب،مذاہب، فلسفے اورعقیدے کواپنے دوہوں کاموضوع بنایا۔
1857 عیسوی کے بعدیوروپی تہذیب وثقافت کے غلبے کے زیراثر ہندوستان کی مقامی تہذیب کے ارتقاکی رفتارسست ہوگئی جس کی وجہ سے تمام شعری اصناف کی رفتار بھی مدھم ہو گئی اور دوہے کی طرف سے بھی شعراکی توجہ ختم ہوگئی لیکن آزادی کے بعددوسرے اصناف کے ساتھ ساتھ دوہے میں بھی نئی جان ڈالنے کی کوشش کی گئی اوردوہانگاروں نے اپنے دلکش اسلوب واندازبیان کے ذریعہ زندگی کے تمام رنگوں کو اس طرح پیش کیاکہ دوہے کے صرف دومصرعوں میں تخیل کی ندرت اور جذبات وخیالات کی پاکیزگی کے سمندرکوکوزے میں بندکردیا۔ واضح رہے کہ دوہانگاروں نے حسن کی تجریدی کیفیت کی لفظی مرقع نگاری پرتوجہ دی اس لئے ان کے اسلوب میں دوپہلونمایاں ہیں جن میں پہلاروحانیت کاعکس اور دوسرامادیت کاپرتو۔مادہ پرستی کاراستہ رومانیت کی طرف جاتاہے جب کہ روحانیت دوہانگاروں کو فنٹاسی کی دنیاکی طرف لے جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ دوہے میں ان دونوں رنگوں کی کیفیات کاامتزاج پایاجاتا ہے۔
واضح رہے کہ جس قدرقدیم ہندوستان کی تہذیب ہے اسی قدر قدیم یہاں کے ادب کی روایات ہیں۔ہندوستانی لسانیات اورادبیات کے ارتقا پرنظرڈالی جائے تومعلوم ہوتاہے کہ دنیاکے تمام اقوام کے تخت وتاج وقت اورحالات کے بھنورمیںغرق آب ہو جاتے ہیں لیکن تہذیب وادبیات ہمیشہ محفوظ رہتی ہیں اور نئی نسل انہیں اپنی بیش بہا میراث کے طورعزیز رکھتی ہے اور اپنالیتی ہے۔اپنی مٹی سے محبت اوراپنی تہذیب کی حفاظت ہرقوم کاوصف ہے اور باعث فخربھی ہے۔موجودہ دورمیں نئی نسل تک تہذیبی میراث کی منتقلی کووقت کااہم ترین تقاضا اورفریضہ سمجھاجارہاہے۔وہ قومیں جو اپنی تہذیب و تمدن اور ثقافت و معاشرت کی اہمیت و عظمت سے متاثرہونے کے بجائے دوسرے قوم وملک کی تہذیب و ثقافت سے متاثر ہوکراس کی نقالی کرتی ہیں ان کی اپنی پہچان ختم ہو جاتی ہے اورایسی قومیں صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہردورمیں ہرزبان کے حساس تخلیق کاراپنی تہذیبی وثقافتی میراث کو نہ محفوظ رکھتے ہیں بلکہ نئی نسل کومنتقل بھی کرتے رہتے ہیں۔انہیں تخلیق کاروں میں فراغ روہوی بھی ہیں جنہوں نے ہندوستان کی قدیم ترین صنف شاعری دوہا (جوہماری قدیم ترین تہذیبی و ثقافتی اقدار اور ادبی روایات کی امین ہے )سے اپنی محبت وعقیدت کاثبوت پیش کرتے ہوئے اس فن میں طبع آزمائی کی اوراس کی تہذیبی قدروں اور مزاج کوملحوظ خاطررکھا۔
ہم بھی دوہا کار ہیں‘ یہ مت جانا بھول
خسروؔ اور کبیرؔ کے باغوں کے ہیں پھول
جب سے آیا دیکھئے دوہا درپن ہاتھ
خسروؔ اور کبیرؔ ہیں دونوں میرے ساتھ
فراغ روہوی کلکتہ کے مشہورومعروف شاعروںاورادیبوں میں سے ایک ہیں جو ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیازاپنی دھن میں مگن ادب کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ان کی انفرادی خصوصیات،جذباتی میلانات اوراحساساتی کیفیات ان کے اسلوب میں نمایاں ہیں۔ان کا تخلیقی سفرکئی برسوں پرمحیط ہے۔اس عرصے میں انہوں نے خلوص اور درد مندی کے ساتھ اپنے جذبات و احساسات کواشعارکے قالب میں ڈھال کر جو شاعری کی اسے علمی و ادبی حلقوں میں کافی سراہا گیا ہے۔ ان کی شاعری میں مؤثر ابلاغ کی مسحورکن کیفیات ان کے منفرداسلوب کی مظہرہیں ۔ موقع پرست اور استحصالی طبقے نے معاشرے اورسماج میں حقائق سے چشم پوشی کا جووتیرہ اپنا رکھاہے اس کے خلاف فراغ روہوی نے اپنے دوہوںمیں آوازبلندکی ہے۔ان کی تحریر کاایک ایک لفظ زندگی کی صداقتوں اور تخلیقی تجربات کی افادیت کامظہرہے۔عجز و انکسار کے پیکر فراغ روہوی نے جب دوہے کوتزکیۂ نفس کاوسیلہ بنایاتوان کی تخلیقی فعالیت کے نئے در واہوتے چلے گئے۔انہوں نے اپنے منفرداسلوب کووسیع مطالعہ و مشاہدۂ کائنات اورزندگی کی حقیقی معنویت سے لبریزتصورات، خلوص و محبت اور دردمند جذبات، تخلیقی اور ذہنی تجربات کی اساس پر استوار کیا ہے۔ زبان وبیان ، اردو اور ہندی الفاظ کاموقع ومحل کے مطابق برمحل استعمال اورہیئت کے نادرتجربات نے دوہوں کوزندگی کی حقیقی معنویت کاترجمان بنادیا۔
فراغ روہوی نے دوہانگاری کے فن کے تمام اسرارورموزکوپیش نظررکھاہے۔غزل کے ماننددوہے کاہرشعربھی ایک اکائی اورواضح مفہوم رکھتاہے لیکن دوہے کے مصرعوں میں دوحصے ہوتے ہیں۔ پہلے حصے میں 13 ماترائیںاوردوسرے حصے میں 11 ماترائیں ہوتی ہیں۔فرازحامدی نے اس کی وضاحت ایک دوہے میں یوں کی ہے
تیرہ گیارہ ماترا بیچ بیچ وشرام
دو مصرعوں کی شاعری دوہا جس کا نام
فراغ راہوی نے دوہے کی قدیم ترین روایت کوجس خوش اسلوبی سے اپنے فکروفن کی اساس بنایاہے وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے۔وہ ادب اورفنون لطیفہ کے نباض ہیں اس لئے ان کی شاعری اور خاص کر دوہوں میں عصری آگہی کی تھرتھراہٹیں موجودہیں۔دوہے کی فنی اورجمالیاتی قدر و قیمت سے وہ بخوبی واقف ہیں اس لئے اپنے دوہوں میں انہوں نے اظہاروابلاغ کی بلندیوں کو چھولیاہے۔معرفت الٰہی کابیان ہو یاعلم وفضل کااحوال،معاشی یامعاشرتی بدحالی ہویاپھرعدم رواداری کا شکوہ غرض زندگی کے ہر پہلو کو اپنے دوہوں کا موضوع بنایاہے۔انہوں نے پوری دیانتداری کے ساتھ زندگی کی تعمیری اور اصلاحی اقدارکواپنے دوہوں کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ان کے دوہوں میں حق گوئی و بے باکی، انسانیت کا وقار اور سربلندی، بے لوث محبت، خلوص، ایثار اور درد مندی کے مضامین بھی شامل ہیں۔
اردومیں دوہے کے ارتقاکے میں اسلام کے ابدآشنا پیغام کو سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے اورجہاں تک شاعری میں تزکیۂ نفس کی شعوری یاغیرشعوری کوششوں کاتعلق ہے تو اس کی اولین صورت بھی دوہے میں موجودہے۔ اس روایت کوبرقراررکھتے ہوئے فراغ روہوی نے بھی اپنے دوہوںمیں تزکیۂ نفس کے موضوعات کوپیش کیاہے۔عام طورپرحمد، نعت اورمنقبت دوہے میں نہیں ہوتی ہیں لیکن انہوں نے قدیم روایت سے انحراف کرتے ہوئے حمدیہ، نعتیہ اورمنقبتی دوہے بھی کہے ہیں جن میں خدا، خدا کے رسولؐ ،صوفیوں اورولی اﷲکی تعریف کے ساتھ ساتھ معرفت کے نکات بھی پیش کئے ہیں جس سے ان کے دوہوں میں تصوف کارنگ پیداہوگیاہے۔ صوفیوں کاخیال ہے کہ خدا بحربیکراں ہے توانسان اسی بحرکی ایک بوندہے۔ دراصل خدانے چاہاکہ اس کوپہچاناجائے تواس نے دنیا بنائی، چرند، پرند اورانسان بنائے یعنی دنیاکے ذرّے ذرّے میں خداکاپرتوموجودہے۔
دنیا میں تیرے سوا کوئی نہیں معبود
تیری ہستی بے کراں‘ ہم ٹھہرے محدود
جگنو ہو یا چاندنی‘ اِندر دھنش یا دھوپ
سب میں میرے سائیاں‘ جھلکے تیرا روپ
قرآن میں بھی کہاگیاہے کہ خدانے جب انسان کا جسدخاکی بنایاتوصرف اس میں روح پھونک کر ہی زمین پر نہیں بھیجا بلکہ اس میں اپنا پرتو بھی ڈالا اور اس کو اپنا نائب بناکر دنیا میں بھیجا اور تسخیرکائنات کاحکم دیا۔انسانوں نے عشق خدااورسولؐ کی بدولت نائب خداکادرجہ حاصل کیااورعشق اور مسلسل جدوجہد(عشق جوعقل کی انتہائی ترقی یافتہ صورت ہے)کی بدولت دنیاومافیہاکواپنے قبضے میں کرنے کی اہلیت رکھتاہے۔اقبال نے ایسے انسانوں کو مردمومن یامردکامل سے تعبیرکیاہے اوراپنی شاعری میں ایک مستقل فلسفہ کی صورت میں پیش کیاہے۔فراغ روہوی انسان کی عظمت سے بخوبی واقف ہیں اور عظمت انسان کے موضوع سے اپنے دوہوں کوآراستہ کیاہے
عقل خدا نے سونپ کر کیسا کیا مہان
آسانی سے حل کرے ہر گتھی انسان
انسانوں نے دیکھئے کیسا کیا کمال
اک دن پہنچا چاند پر‘ چھو آیا پاتال
ناممکن کچھ بھی نہیں‘ جگ ظاہر یہ بات
چاند ستارے چھو چکے انسانوں کے ہاتھ
فراغ روہوی ہندوستان کے موجودہ حالات سے باخبربھی ہیں اوربیزربھی۔بیزاراس لئے کہ آج کے دورمیں جوراہبرہے وہی راہ زن بن گیاہے۔حکومت کا باغ ڈورشرپسندوں کے ہاتوں میں ہے۔ایک عام انسان سمجھ نہیں پارہاہے کہ وہ ان سے مددمانگے یاان کی سرکشی سے پناہ مانگے۔فراغ روہوی نے اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے خیالات کااظہار جابجا اپنے دوہوں میں بے باکی سے کیاہے۔
ایک طرف نیتاکھڑے‘ ایک طرف ہیں چور
دوراہے پر آدمی‘ جائے تو کس اور
باقی تھا جو دیکھنا‘ دیکھ رہے ہیں آج
چور اُچکے دیش پر اب کرتے ہیں راج
سماج میں عدم رواداری کی شدت میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے اس لیے فراغ روہوی نے بھی اظہارِ افسوس کیاہے اور جس طرح مذہب کے ٹھیکے داروں نے خدائے واحد کومختلف خداؤں میںتقسیم کردیاہے اورمذہبی منافرت پھیلا رہے ہیں وہ افسوس کا مقام ہے۔مذہب کے نام پرہندو،مسلم،سکھ اورعیسائی آپس میں لڑرہے ہیں اوردنیابھرمیں نفرت کی سیاست ہورہی ہے۔جب کہ سبھی مذاہب کی منزل ایک ہی ہے راستے الگ الگ ہوسکتے ہیں۔
مسجد‘ مندر‘ چرچ کی ہم نے کی تعمیر
بانٹ دیا بھگوان کو جیسے ہو جاگیر
سب کی منزل ایک ہے ‘ الگ الگ ہے چھور
مسجد جائے مولوی‘ پنڈت مندر اور
یہی وجہ ہے کہ دنیا بھرمیں آج مذہبی رواداری کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ مضامین لکھے جارہے ہیں ۔امن پسند سیاست دان،ادیب وشاعراوردانشور حضرات سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔فراغ روہوی نے بھی مذہبی رواداری کی ضرورت محسوس کی ہے اوراپنے دوہوں میں نفرت چھوڑکرمحبت اوربھائی چارے کی اہمیت پرزوردیاہے
نفرت کے ماحول میں چھیڑیں وہ سنگیت
جو رس گھولے کان میں ‘ ہردے کو لے جیت
جھگڑے سے جھگڑا مٹے ناممکن یہ بات
سمجھوتہ کر دیکھئے بدلیں گے حالات
سب کو خوشیاں بانٹئے‘ سب سے کیجے پیار
دنیا ہوگی جیب میں‘ مٹھی میں سنسار
ساتھ ہی فراغ روہوی نے ان لوگوں کوجودولت،طاقت اوراعلیٰ منصب کے نشے میں چوررہتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ ان کادوراقتدارکبھی ختم نہیں ہوگا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان بلوان نہیں ہوتاہے،سمَے بلوان ہوتاہے۔فراغ روہوی نے صحیح کہاہے کہ’’سمے بڑا بلوان ہے‘ چلے اسی کا زور‘‘ارجن جو فاتح ِ عالم تھا اسی کے زیرحفاظت آرہی سری کرشن کے اہلِ خانہ کوجنگل میں ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اورارجن کچھ نہیں کرپایا۔بڑے بڑے ظالم شہنشاہوں کاغرورکووقت نے چورچورکردیا۔لہٰذا طاقت کے نشے میں چورظالموں کوبے خوف وخطرنصیحت بھی کی ہے
سورج‘ اتنا مت اکڑ‘ بہت بری ہے بات
تیور دیکھ چراغ کا جب ہو کالی رات
کمزورسے کمزورشے کوبھی ادنااورنادارسمجھنا بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ وقت اورحالات کے بدلنے کے ساتھ ہی ایک معمولی شخص غیرمعمولی ہوسکتاہے اورغیرمعمولی کارنامے انجام دے سکتاہے۔اس لئے انسان کوکبھی رعونت اختیانہیںکرناچاہئے۔فراغ روہوی نے سماج کے ایسے افرادکوصحیح آئینہ دیکھایاہے
آپ اسے سچ مانئے یا کہیے افواہ
جگنو دکھلانے چلا سورج کو بھی راہ
ننھے سے اک دیپ نے شور مچایا خوب
راج چلے گا اب مرا‘ سورج ہوا غروب
آج کے دور میں انسانوں کی پہچان مشکل ہوگئی ہے۔دوست اور دشمن کافرق مٹ گیا ہے۔انسانوں کے قول اورفعل میں کافی تضادپایاجانے لگاہے۔اس لیے سمجھ میں نہیں آتا ہے کس کی باتوں کا یقین کیاجائے اور کس پر نہیں ۔فراغ روہوی آج کے دور کے انسانوں کی دوہری شخصیت سے نالاں ہیں اور نقابوں میں چھپے انسانوں کے اصل چہروں کو ڈھونڈنے کوشش کررہے ہیں
کس کو میں اپنا کہوں‘ کس کو سمجھوں غیر
اوپر اوپر دوستی‘ اندر اندر بیر
دراصل ہمارے معاشرے میں ہرشخص اپنے ذاتی مفاد کے لئے اپنارنگ بدلتا رہتاہے اور لوگ اپنے مقصد کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں۔اس لئے فراغ روہوی نے ایک قدم آگے بڑھ کرانسانوں سے لڑنے کے بجائے نفس امّارہ سے لڑنے کی نصیحت کی ہے کیوں کہ اپنے نفس کو انسان جب اپنے بس میں کرلیتاہے تب ’’نفسِ مطمئنہ‘‘ یا تکمیلِ انسانیت کی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔یہ مقام وہی حاصل کر پاتا ہے جو ما سوااﷲ ہر شے سے بے نیاز اور آزاد ہوجاتا ہے۔اس مقام پرپہنچ کرکسی کوکسی سے بھی لڑنے اورجھگڑنے کی ضرورت نہیں پڑے گی
ہر پل اپنے نفس سے جاری رکھئے جنگ
جب لڑنا مقصود ہے لڑئیے اپنے سنگ
موجودہ دورمیں نئی نسل جس طرح مغربی تہذیب سے متاثرہوکر ہندوستان کی قدیم تہذیب و اقدار کو بھولتی جارہی ہے اورطرح طرح کی خرافات میں مبتلاہو گئی ہے،فراغ روہوی نے ہندوستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی برائیوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے
بے شرمی کو کس قدر آج رہے ہیں بھوگ
نئی نئی تہذیب کے مارے ہیں ہم لوگ
مسجد بھی خالی ملی ‘ مندر بھی سنسان
ناچ گھروں میں بھیڑ تھی ‘ دیکھ ہوئے حیران
ہندوستان کی قدیم تہذیب واقدارکی پامالی گاؤں کے مقابلوں میں شہروں میں زیادہ ہوئی ہے کیوں کہ برقی ذرائع ابلاغ نے شہروں کوسب سے زیادہ متاثرکیاہے۔مغربی تہذیب کے اثرات گاؤں سے زیادہ شہروں میں مرتب ہوئے ہیں۔گاؤں میں آج بھی شہروںسے زیادہ سکون اور اطمینان ہے۔ فراغ روہوی نے شہروں کی بھاگ دوڑکی زندگی کی طرف اشارہ کیاہے اورگاؤن کوشہرپرترجیح دی ہے۔
کیوں آئے ہم چھوڑ کے اپنا پیارا گاؤں
شہر میں روٹی ڈھونڈتے تھک جاتے ہیں پاؤں
فراغ روہوی کواپنے جڑوں سے بے پناہ محبت ہے۔کلتہ جیسے کاروباری شہرمیں رہنے کے باوجود بھی اپنے جڑوں کی تلاش میں مصروف ہیں۔انہوں نے ایسے لوگوں کونصیحت بھی دی ہے جواعلیٰ مقام حاصل کرلینے کے بعداپنے جڑوں کوبھولادیتے ہیں
چھو کر تم آکاش کو مت بھولو یہ بات
رشتہ رہے زمین سے مضبوطی کے ساتھ
حالانکہ میڈیاکے بڑھتے ہوئے اثرات سے اب گاؤں بھی خالی نہیں ہے۔گاؤں میں بھی اب کافی تبدیلیاں آنے لگی ہیں جوحیرت کامقام ہے۔اب وہاں بھی زندگی مصروف رہنے لگی ہے اوروہاں بھی کسی کو نہ دھوپ سیکنے کی فرصت ہے اورنہ کوئی چاندنی راتوں میں قدرت کے حسین مناظرسے محظوظ ہوتا ہے۔گاؤں میں اب نہ کوئی چندا مامااورسورج دیوتاکی کہانی سنانے والاہے،نہ کھیل کودکاوہ میدان ہے جہاں بچے طرح طرح کے کھیل کھیلاکرتے تھے،نہ وہ پنگھٹ ہے،نہ پیپل کے پیڑجس کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ کر ٹھنڈی ہوا کے مزے لیتے تھے اورنہ رات میں پیپل کے درختوں پر جلتے بجھتے جگنوؤں کے ہجوم نظر آتے ہیں ۔
دیکھ رہے ہیں گاؤں کا بدلا بدلا روپ
کہاں گئی وہ چاندنی‘ کہاں گئی وہ دھوپ
بچپن میں بھگوان سے کہتے تھے یہ بات
سورج نکلے رات کو چندا جی کے ساتھ
اُس کا چلنا رات بھر دیکھ ہوئے ہم دنگ
بھور تلک چلتا رہا چاند ہمارے سنگ
پرکھوں کے اُس گاؤں میں ملا نہیں وہ گاؤں
کھیل جہاں پر کھیلتے‘ پنگھٹ‘ پیپل‘ چھاؤں
الغرض فراغ روہوی نے ہندوستان کی صدیوں پرانی اقداروروایات کواپنے دوہوں کے قالب میں ڈھال کرجوتخلیقی تجربہ کیاہے قابل تعریف ہے۔ہماری قومی معاشرتی،سماجی اورملی بقا کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی مٹی کی خوشبوکی اہمیت کوپہچانیںاوراپنی صدیوں پرانی تہذیب پرفخرمحسوس کریں۔
خوبی اپنے دیش کی کیا گنوائیں یار
دھرتی ممتا سے بھری‘ ماٹی خوشبو دار
ہندوستان کا ارضی و ثقافتی حوالہ ہی یہاں کا امتیازی وصف ہے۔ہماری قومی تہذیب و ثقافت،ادب و فنون لطیفہ، طرزمعاشرت اور سماجی زندگی کے تمام معمولات میں ہندوستان کی صدیوں پرانی تہذیب کاپرتو نظرآناباعث فخرہے۔اس لحاظ سے فراغ روہوی کے دوہے وقت کی ضرورت اورہندوستانی میراث کوسنجوکررکھنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔