قدیم ہندوستانی فلسفہ اور کالی داس کی تخلیقات میں ماحولیاتی اشارے
Ancient Indian philosophy and environmental indicators in the works of Kalidas
ہندوستانی فلسفہ کے مطابق موجوداتِ کائنات عناصرِ خمسہ سے تشکیل پائی ہے۔یہ عناصر آگ، پانی، زمین، ہوا اور آسمان ہیں۔ یہی پانچوں عناصر کسی نہ کسی طور پر حیات کی تشکیل وتعمیر کرتے ہیں اورساتھ ہی اس کی پرورش بھی کرتے ہیں۔ان تمام عناصر کی انضمامی شکل ہی ماحولیات ہے۔یہ حیات بخش عناصر اگرتمام طرح کی ا لودگی سے محفوظ رہیں تو زندگی بھی خالص اور محفوظ رہتی ہے۔اکثرکہا جاتا ہے کہ، ماحولیات محفوظ ہو تو زندگی محفوظ، یہ گفتگو محض ایک کہاوت ہی نہیں بلکہ لازمی اور حقیقت بھی ہے۔ماحولیات کے توازن ہی دورانیہ حیات(لائف سائیکل) کوکنٹرول کرتا ہے اوراس میں تعطل آتے ہی زندگی مصیبت میں مبتلا ہوجاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کی حفاظت کی فکرزمانہ قدیم سے ہوتی آ رہی ہے۔ویدک دور کے مہرشیوں نے اس کی ضرورت اور اہمیت کو ذہن میں رکھ کراس کو محفوظ اور خالص رکھنے کے لئے اصول وضوابت بنا ئے تھے اورکہا تھا کہ مذہب انہی قوانین کی عملی شکل ہے۔
ویدوں کو حیاتیاتی سائنس کا بنیادی گرنتھ مانا گیا ہے۔ویدوں میں تخلیق کے حیات بخش عناصر کی خصوصیات کی کافی لطیف اور تفصیلی وضاحت کی گئی ہے۔رِگ وید میں آگ کی شکل،اس کے تغیرات اور اس کی خصوصیات کی تشریح کی گئی ہے۔یجروید میں ہوا کی خصوصیات،اس کا کام اوراس کے مختلف حالتوں کی روایات ملتی ہے۔اتھروید کے علاوہ عناصرِ زمین کا بیان تمام ویدوں میں ملتا ہے۔ویدک مہرشیو نے ان قدرتی طاقتوں کو پروردگارکے مترادف مانا ہے، اسی لئے اُن دنوں غیرجاندار اور جاندار، تمام مخلوقات کی عبادت واستیناف کی جاتی تھی اسی لیے تمام مخلوق میں امن وسکون، خوشی اور خوشحالی کا ماحول یقینی طور پر تھا۔قرآن شریف کے متعددآیات میں اورسیرتِ رسولﷺکے مطالعہ سے بھی معلوم ہوتاہے کہ اسلام ،ماحولیات سے متعلق مسائل پرایک واضح اورہمہ جہت نقطٔ نظررکھتاہے۔قرآن شریف میں ایسی آیات کی تعدادنسبتاًزیادہ ہیں جن میں مناظرفطرت کے بیان ہیں۔قرآن حکیم میں قدرتی وسائل کامناسب استعمال اوران کے تحفظ کی بھی تعلیمات دی گئی ہیں۔اسلام میں اس بات کی تاکیدکی گئی ہے کہ درختوں کے پھل ضرورکھائیں لیکن ان کی شاخوں کوکسی طرح کانقصان نہ پہنچائیں۔اسلام پیڑپودوں کوکثیرتعدادمیںلگانے کی حدایت دی گئی ہے۔یہاں تک کہا گیاہے کہ اگرتم قیامت کو واقع ہوتادیکھو اورتمہارے ہاتھ میں پوداہوتو وہ اسے ضرورزمین میں لگادو۔قرآن شریف میں آبی چکّر، فضا، نباتات،سمندراورپہاڑوغیرہ کو انسان کی بہتری کے لئے پیداکئے گئے ہیں توانسانوں کو ان تمام چیزوں سے ضرور محبت کرناچاہئے۔
یجروید کا مطالعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کے صلحِ متن میں ماحولیات کے تمام عناصر کو پرسکون اور متوازن رکھنے کا پرُتجسس اظہار ہے، وہیں اس کا مطلب ہے کہ پوری دنیا کا ماحول متوازن اور بہتر ہو۔اس میں ذکر ہے کہ ٓا سمان سے لے کر زمین کے تمام نامیاتی،غیر نامیاتی اجزا توازن کی حالت میں رہیں۔پوشیدہ آسمان وزمین اوراس کے تمام اجزاء، پانی دوائیں و نباتات، وسائل اورعلوم پُرسکون رہیں۔ماحولیات کے تئیں اتنا شدید اورلطیف علم جس کا حوالہ ویدوں میں ہے دوسری جگہوں پرکمیاب ہے۔قرآن شریف کے آیات بنی اسرائیل (17:44)،الحج (22:18) ،النحل (50-4916) میں بھی اللہ رب العزت نے فرمایاہے کہ ہم نے کائنات اورموجوداتِ کائنات کو منظم طریقہ سے خلق کیاہے اور تمام موجودات میں ہم آہنگی پیدا کی ہے۔آیت الدخان(54.44 ) اللہ تعالی نے فرمایاہے کہ ہم نے ہرچیز کوایک تقدیرکے ساتھ پیداکی یعنی دنیاکی ہرشے کو منصوبہ بندطریقہ سے پیداکی گئی ہے اورمنصوبہ بندطریقہ سے ہرشے کی نشونمااورخاتمہ ہوگی۔ انسان چونکہ نائبِ خداہے اس لئے اس کا یہ فرض ہے کہ وہ موجوداتِ کائنات کی تحفظ کرے۔
رگ وید میں ہوا کی اہمیت کو ادویات سازی کی خصوصیات پر مشتمل قبول کیا گیا ہے۔رگ وید کی ریچا کہتی ہے، اے ہوا!اپنی دوائیاں لے آواوریہاں سے تمام نجاست دورکرو، کیونکہ تم ہی تمام ادویات سے بھرپور ہو۔یہی وجہ ہے کہ رِگ وید (رِگ وید X.186.1-3)میں ’اُل واتایَن ‘رشی نے گائتری چھندکے ذریعہ ہواکی خصوصیات اوراثرات کی وضاحت کرتے ہوئے’ ہوا‘کو’دیوتا‘بنادیاتھا۔گائتری چھندوں کے مطابق ہوا زندگی عطاکرتی ہے،بیماریوں کودورکرتی ہے۔دل،گلے اورآوازکے لئے تازہ ہواانتہائی کارآمد ادویہ میں شمارکیاجاتا ہے۔رِگ وید کایہ شلوک دیکھیں
وات آواتو۔۔۔۔
قرآن کی آیات الحجر(15:19 23-)،البقرہ (2:164 )، الا عراف(7:57 ) میں ہوا کی افادیت و اہمیت پرتفصیلی ذکرکیاگیاہے۔ان آیات کے مطابق تمام جاندار اپنی بقاکے لئے پوری طرح ہواپر انحصارکرتے ہیں۔پیڑپودے، ناباتات وحیوانات ہواکے بغیرسانس نہیں لے سکتے ہیں اورنہ سانس لئے بغیرزندہ رہ سکتے ہیں لہٰذا ہوا کو تمام طرح کی آلودگی سے پاک وصاف رکھناہمارااولین فرض ہے۔
اسی طرح قرآن شریف کی آیات الحجر (15:18) ، النور(24:41 )، طلحہٰ(20:53) میںللہ تعالیٰ نے پانی کی اہمیت وافادیت پرواضح طورپراظہارخیال کرتے ہوئے فرمایاہے کہ زندگی کی بنیادپانی پرہے اورتمام جاندار کاوجودپانی پرمنحصرہے، خواہ وہ نباتات ہوں یاحیوانات ۔اس کے علاوہ جسم اور لباس کی پاکیزگی اورطہارت پانی کے بغیرممکن نہیں ہے۔
رِگ وید کا ایک اور منترپانی کی شفافیت کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے، اوہ! الحمد کے گیت گائیں آ بِ رواں کے، جوہزاروں دھاروں سے کرسٹل کی طرح بہہ کر آنکھوں کو لطف دیتا ہے۔ویدک ادب میں آب کو حیات بخش ماناگیاہے۔ویدک دورمیں شام کے وقت پانی سے گرارااورجسم کے کئی حصوں کوصاف کرناضروری سمجھاجاتاتھا۔اس لئے رِگ ویدکے تیتریہ آرن یک 1.26.7 میں کہاگیاہے کہ
ناپسو۔۔۔
یعنی پانی کے اندرپاخانہ پیشاب نہیں کرناچاہئے۔حضرت محمدﷺنے بھی ایساکرنے کے لئے سختی سے منع کیاہے۔اَتھرووید(1.4.4 )میں بتایاگیاہے کہ پانی ،آبِ حیات ہے اور ادویہ خصوصیات سے پُرہے۔اپسو ۔۔۔۔
رِگ وید (5.83.9 )کے مطابق ماحولیاتی تحفظ کے لئے بارش کے پانی کی بہت زیادہ اہمت ہے۔رِگ وید کے پرجَنیہ سُکت میں بتایا گیاہے کہ بادل پوری دنیاکو خوشی عطاکرتاہے۔یتپ۔۔۔۔
علامہ اقبال نے بھی اپنی نظمیں ہمالہ اورابرکہسارمیں بادل اوربارش کے پانی کی اہمیت کی طرف اشارے کئے ہیں۔کہتے ہیں کہ بادل نوخیز سبزے کی امید ہے یعنی جو سبزہ ابھی ابھی زمین سے اگتا ہے وہ پانی کی کمی سے سوکھ جاتا ہے۔اس لیے اس کی زندگی کا دارومدار بارش پر ہے۔
سبزئہ مزرعِ نوخیز کی امّید ہوں میں
زادئہ بحر ہوں، پروردئہ خورشید ہوں میں
اقبال نے بادل کو حضرتِ عیسیٰؑ قرار دے دیا ہے یعنی جس طرح عیسیٰؑ الیہ اسلام مردوں کو زندہ کر دیتے تھے اسی طرح بادل بھی سبزے کو ہرے بھرے ہو جانے کے لیے حکم دیتا ہے ۔
چشمۂ کوہ کو دی شورش قلزم میں نے
اور پرندوں کو کیا محو ترنّم میں نے
سر پہ سبزہ کے کھڑے ہو کے کہا قم میں نے
غنچۂ گل کو دیا ذوقِ تبسم میں نے
مختصریہ کہ بادل ، پانی اورہواکی افادیت و اہمیت ویدوں ،قرآن اوردنیاکی تمام تخلیقی ادب میں تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔لہٰذا اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی ان حیات بخش اشیا کو تمام طرح کے کی آلودگی سے پاک رکھناانسانوں کی اولین فرض ہے۔
توانائی کے لامحدود ذریعہ آ فتاب کو کائنات کی روح کہہ کر اس سے درخواست کی گئی ہے۔اپنشد کاروں نے سورج کو زندگی سے تعبیرکیا ہے۔فداکاری(ہون) کے ذریعہ ماحول کو پاک کرنا بھی ویدوں کا موضوع رہا ہے۔رِگ وید(III.61.4 )میں کہاگیاہے کہ صبح کے وقت طلوع آفتاب سے پہلے مشرق کی طرف سے جب سنہری شعائیں آتی ہیں تومعلوم ہوتاہے کہ تاریکی کے لباس کوچیرتی ہوئی آرہی ہو۔ویدک رشیوں نے بتایاکہ سورج کی کرنوں میں ماحولیات کومحفوظ رکھنے کی طاقت بے انتہاہے۔آفتاب زمین اورپانی کوصاف کرتاہے اورنقصان دہ کیڑے مکوڑوں کومارتاہے۔آسمان وزمین کے درمیان موجودہرشے کونامیاتی طاقت عطاکرتاہے۔رِگ وید(1.191.8 ) میں کہاگیاہے
پُرستات۔۔۔۔۔
اسی لئے ویدک زمانے میں ماحولیاتی نفاست کے لئے ہَوَن کیا جاتا تھا۔
سام وید میں زندگی کی دعائے خیراور فطرت کی لامتناہی اظہارِعبادت کا بیان کیا گیا ہے۔اس میں نباتات وحوانات اورعلومِ ادویہ کے خوبصورت منتروں کی اقتباسات ہیں۔سام وید کہتا ہے اے اندر!سورج کی شعاو ں اورہوا سے ہمارے لئے ادویہ پیداکرو۔اے الخلیۃ الأم! آپ نے ہی منشیات،آب اور حوانات کو پیدا کیا ہے۔اتھروید میں بھی ماحولیاتی تحفظ اور فروغ سے متعلق افکار کے فخریہ ترانے گائے گئے ہیں۔اَتَھروَن رِشی اتھروید کے پریتھوی(زمیں) سوکت میں زمین کی عظمت سخاوت، کلیۃ الوجود وغیرہ لامحدود خصوصیات پر متعجب اور فریفتہ ہو ،کہہ اٹھے، اے ماں! آپ کے لئے خدا نے سرد بارش اور موسم بہار بنایا۔ دن رات کے دائرے قائم کئے ہیں۔ا پ کے فضل و کرم کے لئے ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔میں زمین کے جس مقام پر کان کنی کروں، وہاں جلد ہی ہریالی چھا جائے۔آپ سے دعا ہے کہ مجھے ایسی عقل وحکمت (Wisdom) عطا کریں جس سے میں ا پ کے دل کو نہ تو مجروح کروں اور نہ ہی آپ کو صدمہ پہنچاؤں۔اس طرح اتھروید انسانی دنیا کے مزید قریب ہے۔انسان صحت مند، خوش اورعمردراز رہے، فطرت کے بنائے اصولوں پر چلے اور حوانات ، نباتات اور کائنات کے ساتھ ارتباط رکھے، یہی اتھروید کی خاصیت ہے۔
ویدک رسومات کی کئی طریقہ کار نے بھی ماحولیات کے تحفظ اور سلامتی کی ذمہ داری ادا کی ہے۔جنگلوں میں رہ کر ماحولیات کے تئیں خاص طورسے بیدار رہنے والے رشیو نے قدرت کے اسرارورموزکے متعلق ادب کی تخلیق کر، دنیا میں ماحولیات کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔جنگلوں میں قدرت کے اسرارورموزکوسمجھنے والے برہمن النصوص (گرنتھ)اوراپنشدوں کے درمیان کی کڑی ہیں۔(ارنیہ بھَومیتی ارنیہ کم) کہہ کر،ا رنیَک کا مطلب واضح کیا گیا ہے۔برہداریک بھی ،اریینوتیمانتوات اریکم’ کے طورپراس کی حمایت کرتا ہے۔اس کا موضوع علم الحیات ہے۔خلااورہواسے زندگی کا تعلق باہم منحصرہے۔ماحولیات کے نامیاتی اورغیرنامیاتی عناصرمیں بھی ہوا اورخلاکاخصوصی شراکت رہتاہے۔تخلیق کے تمام عناصر میں ان دونوں کی شمولیت ہے۔انہی خصوصیات کی وجہ سے مخلوق کے تمام عناصر کو حیاتیاتی قوت ملتی ہے۔جس سے ترقی کی رفتار گامزن ہوتی ہے۔
اپنشدوں میں بھی آ ب، ہوا، زمین اور خلا کا بڑے پیمانے پر بیان ہوا ہے۔اس میں فطرت کی اہمیت کومسلم طورپرتسلیم کی گئی ہے۔ان کے مطابق مادہ کی پیدائش اورحیات وکائنات کی تخلیق،آ گ،پانی اورزمین کے تخصیص لغرض یعنی حسن تصرف سے ہوا ہے۔ ’شویتاشویتر‘اُپنشد نے فطرت کی اس سہ رخی خصوصیات کی تشریح پیش کی ہے۔’چھادوگیہ‘ اپنشد واضح کرتا ہے کہ قدوسیت کا نفاست سے براہِ راست تعلق ہے۔اس میں آگے مزیدواضح کرتے ہوئے ذکرکیاگیا ہے کہ زمین، پانی اوربشر فطرت کے اجزاء ہیں۔ زمین کا رس پانی ہے اور پانی کا رس منشیات ہے۔منشیات کا رس بشر اور بشر کا رس ا ٓواز، ا ٓواز کا رس مناجاتا، مناجات کا رس، سام وید اور سام وید کا رس، اونکارہے۔(اونکار دنیا کی حتمی امن میں گونجنے والے موسیقی کا نام ہے۔(، یعنی زمین عنصر میں ہی سب عناصر کوحیاتیاتی بنانے کی اہم وجہ ہے۔
رامائن کے زمانے میں بھی ماحولیاتی شعورکافی سرگرم تھی۔والمیکی رامائن میں رام کے جلاوطنی کے دنوں میں فطرت کے دلفریب مناظرکا ذکر کیا گیا ہے-اس وقت پہاڑ، پردیش، گھنے جگل اور دلکش دریاؤں کے کنارے سارس اورچکرواک پرندے خوشی سے چہچہا رہے تھے۔خوبصورت تالابوں میں کمل کے پھول کھلے ہوئے تھے۔جنگلوں میں جھنڈ کے جھنڈ ہرن،ہاتھیوں کے جھنڈاوردوسرے جنگلی جانور،بے خوف گھوم رہے تھے یعنی اُن دنوں ماحول انتہائی فروزاں تھا۔اس دور کی عکاسی کرنے والے عظیم شاعربھَوبھوتی نے بھی فطرت کی انتہائی احساساتی مثال پیش کرتے ہوئے کہا ہے،کسس سیتا کی رہائش گاہ سبزاروں سے بھری ہوئی تھی۔یہاں وہ ہرنوں کو ہری سبز گھاس دیتی تھی۔رامائن کے دورکے تمام گرنتھوں میں ریشہ و تشجیع(ذی حرکت) تمام عناصر کوبا شعور بتایا گیا ہے۔’رام چرترمانس‘ کے’ ا تُرکانڈ‘ میں بیان کیاگیا ہے کہ چراگاہ، تالاب، سبز زمین، جنگل، باغ کے تمام مخلوق مزے سے رہتے تھے۔اس طرح رامائن کے زمانے میں ماحولیات اور فطرت کو انسانوں سے قریب مانتے ہوئے اسے خصوصی تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔
مہابھارت کے دور میں مہاریشیوں(عارفوں) نے ماحولیات کی عظمت وامتیاز کوسہل طریقہ سے قبول کیا تھا۔اس دور میں بھگوان کرشن کی طرف سے گیتا میں فطرت کو کائنات کے عوامل کی وجہ بتایا گیا ہے۔ فطرت کے ذرّہ ذرّہ میں خالق کائنات سمایا ہوا ہے۔فطرت کے تمام معجزات کو خدا کی شکل بتاتے ہوئے شری کرشن کہتے ہیں کہ میں ہی زمین میں داخل ہوکر تمام تجسم روح المخلوقات کی شکل اختیارکرتا ہوں۔چاند بن کر منشیات کی پرورش کرتا ہوں۔اللہ تعالیٰ اوراس کی ذات وصفات کے متعلق ابن عربی کاخیال ہے
’’وجودایک یاواحداللہ ہے،ذاتِ حق ہے،حقیقتِ مطلق ہے جو اپنے مختلف ناموں سے معروف ہے۔ہروہ شے جواس کے علاوہ یا اس کے ماسوا ہے، محض اسی وجودِ واحد کا ایک مظہرہے۔اللہ اورماسوا میں باہم کوئی تفریق نہیں ۔گویایہ کائنات، یہ سارے کاسارا عالمِ فطرت، اسی خداکاعین ہے۔کائنات سے اللہ کی عینیت کو ہم اس کی ذات وصفات میں ہی مدرک کرتے ہیں۔یعنی ’جوہر‘کی عینیت کی بنا پر۔گویایہ تمام کائنات اسی وجودِ مطلق کی ’’تجلی‘‘ہے یا پھریوں کہیے کہ یہ تمام عالم ظواہراسی ’’وجودِتامہ‘‘کے صدورکی ایک صورت ہے‘‘۔ (فلسفے کے بنیادی مسائل، از قاضی قیصرالاسلام، پاکستان، ص۔438-439 )
یہی وجہ ہے کہ مہابھارت دور میں ہر عنصر کو دیوتا سے مشابہت قرار دے کر ان سے التماس کی جاتی تھی۔ان دنوں درختوں کی عبادت کا رواج تھا اورانہیں کاٹنا گناہ عظیم سمجھا جاتا تھا۔مہابھارت کے’ ادپرو‘ میں وضاحت ہے کہ گاؤں میں جو جگہ درخت پھول اور پھلوں سے بھرپور ہو وہ مقام ہر طرح سے لائق کریمہ ہے۔اس میں فطرت کے متعدداستعارات کے ساتھ تزئین کیا گیا ہے۔دریاؤں کے پانی کوکرسٹل کی مانند صاف اورخوبصورت بتایاگیاہے۔مہابھارت کے دور میں مقدس اور ٹھنڈے تالاب،جنگل اور پہاڑوں وغیرہ کو فطرت اورماحولیات کے حیرت انگیز موضوعات سے مہابھارت کے اکثرتمام تقریب بھرے پڑے ہے۔کائنات اورفطرت کے حسن کوتحفظ بخشنے والی ویدک تہذیب انسانوں کو اپنے گھرکے گردونواح کوخوبصورت بنائے رکھنے کے لئے تحریک دیتی ہے۔اَتھَروید (IV.106.1 )میں کہا گیاہے
آئنے۔۔۔۔
( تیرے گھرکے آگے اورپیچھے پھولوںکا چمن خیزسبزااُگے اور وہاں ایک حوض کملوں والا تالاب ہو)
شاعری کی ہی مانند فلسفہ، فلسفیانہ اور حکمت بھی ماحولیاتی فکروا گہی سے لبریز رہے ہیں۔فلسفہ تصور میں فطرت اوربشر کی شمولیت کو تخلیق کا سبب ماناجاتا ہے۔فطرت ریشہ و فاحش ہوتے ہوئے بھی انتہائی لطیف ہے۔لہذا فطرت تمام مخلوق کی ابتدا کی اہم وجہ ہے۔چونکہ فطرت کو یہاں انتہائی لطیف دکھایاگیا ہے ، اس لئے اس میں ماحولیات بغیر کوشش ہی متحرک ہو اٹھا ہے۔فلسفہ عدل میں خدااورمخلوق کے ساتھ فطرت بھی اہم جزو ہے۔ویشیشک فلسفہ میں عناصرِخمسہ کی وضاحت یہی ہے۔ یہی عنصر تخلیق کے اہم عوامل عنصر ہیں۔یوگ فلسفہ بھی فلسفہ تصور کی طرح فطرت کا تفسیروتجزیہ پیش کرتاہے۔لہذا تمام فلسفے، فطرت کی شکل میں ماحولیات کی اہمیت کو مستحکم کرتے ہیں۔
ویدک اورفلسفیانہ ادب کی ہی مانند پُرانوں میں بھی ماحول کے اجزاء کولائقِ پرستش ماناجاتا ہے، فطرت کے ان اجزاء میں الوہیت کے تاثرات بھی دکھائے گئے ہیں۔یہاں مٹی پتھر کے پہاڑ کو فرشتہ، ہمالیہ بتایا ہے تو دریاؤں کو دیوی کا مترادف مانا ہے، جس میں مقدس گنگا کی شکل تو بیان سے باہرہے۔پُرانوں کے مطابق خدا دنیا کی فلاح کے لئے کبھی ماہی کی شکل اختیار کرتے ہیں تو کبھی کچھواکی، ہنس بن کر ان کی اہمیت پیش کرتے ہیں۔شیر اور خنزیر کے طور پرآکر تمام حیاتیات کی برتری کااعلان کرتے ہیں۔اسی لئے بھارت کی ثقافت میں تمام جانداروغیرجاندااشیا کوسماوی مانا ہے۔پُرانوں کی تخلیق کی بنیاد بھی قدرت کے عناصرکولے کر بنا ہے۔متعدد پُرانوں کے نام بھی ان عناصر کے ناموں پررکھاگیاہے۔ اگنی پُران ، وایوپُران وغیرہ میں یہی احساس منعکس ہوتا ہے۔ان تمام پرانوں میں سماوی فطرت قطعی طورپر رہائش پزیرہے۔
’ برہمانندپُران‘ اپنے ایک آیت(شلوک) میں پانی کی اہمیت کوپیش کیا ہے جس میں ا بِ گنگا کی خاصیت خاص طورپرمنعکس ہے۔درخت تمام بشر کے لئے مسلسل حیات بخش ہوا کی روانی استوارکرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی رشیو مہرشیوں میں درختوں کے تئیں محبت کا ایک گہرااحساس ہے۔اسی لئے یہاں درخت کی عبادت کارواج انتہائی قدیم ہے۔دیودارکے پیڑ کو دیوتاوں کا عزیزترین درخت کہا جاتا ہے۔تلسی کو ہواکی طہارت اورپاکیزگی کے لئے ہرگھرکے آنگن میں لگانے کی روایت ہے۔واضح رہے کہ تلسی کوعربی میں ریحان کہاجاتاہے ۔ریحان جنت کا خوشبودارپودا بھی ہے۔ اساطیری عقیدے کے مطابق ہندوستان میں پیپل، پلاش، نیم، اشوک، برگد، کدَمب،ا و لاوغیرہ متعد درختوں کو دیوتا کی مانند پوجا جاتا ہے۔تحفظ ماحولیات کے تعلق سے ویدوں میںپیپل کے درخت کی اہمیت ہے۔پیپل کو سنسکرت میں ’اَشوَتھ‘کہاجاتاہے،جوادویہ خصوصیات سے پُرہے۔اسی لئے ویدک رشیوں کے لئے یہ درخت لائق پرستش تھا۔رگِ وید میں پیپل کے متعلق کہاگیاہے
اَشوتَتھے۔۔۔۔۔
قدیم زمانہ میں تو درختوں کے ساتھ جنگلات کی بھی عبادت کی جاتی تھی۔اسی لئے مدھووَن، بِرہَدوَن، بَہُل وَن، کُمُد وَن، شری وَن، نندَن وَن وغیرہ جنگلات کا ذکرملتا ہے۔ان تمام فرائض اورکوششوں کے پیچھے ماحول کو محفوظ کرنے کی خاصیت ہی جھلکتی ہے۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج کل انسان اپنی مادی خودغرضی کی خاطردرختوں کوتیزی کاٹ رہے ہیں اورجنگلات کوتباہ کررہے ہیں۔
پرانوں کا عروج کا زمانہ ویدک عہد سے شروع ہو کر سولہویں صدی کے آخری عرصے تک ماناگیا ہے۔لہذا اس طویل مدت میں ماحولیات کے تئیں شعوراوربیداری کارجحان ملتا ہے۔اس کے علاوہ تاریخ کے صفحات میں دبے تمام حقائق کو ابھارنے پر پتہ چلتا ہے کہ اُن دنوں بھی ماحول کے تئیں رویہ مثبت تھا۔سندھو تہذیب کے دورمیں دراوڑوں کی طرزِزندگی نے ماحولیات کے تئیں محبت کو ظاہرکرتا ہے۔دراوڑ خاص طورپردرخت کی عبادت کرتے تھے۔دروڑو کی طرف سے ابتدا کی گئی یہ عمل اورروایت بعد میں بھی زندہ رہی۔چندر گُپت موریہ کے وقت جنگلوں کی حفاظت پرخصوصی توجہ دی جاتی تھی۔کوٹلَّیہ کے معاشیات میں پناہ گاہوں کی پانچ زمرے ہوتے تھے۔شہنشاہ اشوک کے دورِحکومت میں سب سے پہلے جنگلی زندگیوں کے تحفظ کے لئے قوانین بنائے گئے تھے۔اس کے بعد بھی یہ سلسلہ چلتا رہا۔
کالی داس نے بھی فطرت کا مشادہ باریک بینی سے کیاہے اوراپنی تمام تخلیقات شاعری اور ڈراموں میں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار فطرت کے پس منظر میں ہی کیا ہے۔فطرت کے تئیں ان کی بے پناہ محبت ایک فلسفیانہ اظہار لئے ہوئے ہیں۔ ماحولیات کے تئیں ایک حساس نظریہ، جو اس کے تحفظ کے لئے بے حد ضروری ہے، کالی داس کے تمام تخلیقات میں موجود ہے لیکن ’ابھِگیان شکنتلم‘ ، میگھ دوتم اور ’رِتُوسنہار ‘ میں بہ درجہ اتم موجودہے۔
کالی داس کے ان تینوں تخلیقات میں فطرت زندگی کے ارتعاشات کے ساتھ چلتی پھرتی ذی حیات معلوم ہوتی ہے اور ہمیشہ انسان کو نئی توانائی بخشتی ہے۔ فطرت کے بنیادی عناصرکی تمثیل نگاری، فطرت کا ا زادانہ اور والہانہ تشریح وتعبیراورفطرت اورانسانوں کے درمیان فطری اور قریبی رشتوں کا دلکش منظرکشی کالی داس کی امتیازی خصوصیت ہے۔
شکُنتلم میں سوائے پانچوے حصہ کے تمام حصوں میں فطرت کی منظرکشی نمایاں طورپرکی گئی ہے۔سب سے پہلے ناندنی شلوک (ا یت) شنکر کے ہشت مجسموں کی شکل میں فطرت کے پانچوں عناصر آگ، پانی، زمین، ہوا اور آسمان کو ا فتاب ومہتاب کے ساتھ ساتھ انسان کے رشتہ کوبھی منعکس کرتا ہے۔ اس کائنات میں انسان اور فطرت، انسان اورفرشتے (دیوتا) کے مابین مضبوط اورپائدارتعلقِ خاص کا بہترین راستہ یگیہ (قربانی) تھا۔ قربانی(یگیہ) سے خودسپردگی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہی یگیہ قربانی انسان اورفطرت کے سہل رشتہ کی تفسیر ہے۔سنکتلم میں کالی داس نے موسم گرما کے مناظرکا بیان کہا ہے اور نغمہ گنگناتے ہوئے رقاصہ کی بیتابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دُشینت کی شہوانی فطرت کی جھلک پیش کیاہے۔ پھر دُشیَنت کے تیر سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے تیزرو غزال کی فطری کوششوں کا بڑا ہی لطیف منظر پیش کیا ہے۔ فطرت کے اس بے گناہ اور معصوم مخلوق کا قتل نہ کیاجائے، کالی داس نے اس کا واضح اشارہ ہے۔
تیراندازی بادشاہوں کا محبوب شوق رہا ہے پھر بھی اہلِ آ شرم تمام جانداروں کی حفاظت بے خوف وخطرکرتے رہتے تھے۔ ا ج دنیا سے متعدد مخلوق اورجانداراکثرمعدوم ہوتے جارہے ہیں۔ انسانوں نے اپنی لالچ کی وجہ سے انہیں مار کران کی نسل کو عدم کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ کالی داس کی تخلیق شکنتلم کا مرکزی کردار دُشیَنت بادشاہ ہونے کے باوجود بھی شکار کے لئے لاحاصل قتل نہیں کرتاہے اور جنگل کے راہبوں کے ذریعہ جانوروں کا شکار نہ کرنے کیحکم کی قدرر کرتاہے۔ ا شرم کی زندگی ہندوستانی تہذیب ناقابلِ تقسیم حصہ رہی ہیں۔ روندرناتھ ٹیگورنے بھی ہندوستانی تہذیب کو جنگلات ا زمایشی تہذیب سے تعبیرکیاہے۔ حقیقت میں ا شرموں کا جغرافیائی اورطبعی ماحول جتنا مقدس اورخوبصور ہوتاہے اس کی روحانی شکل بھی اتناہی مقدس اورلطیف ہوتی ہے۔ جنگلات کے ا شرموں میں ہرن کے بچے اپنی ماں کی گود کے بجائے رشیوں کے گود میں بیٹھ کرزندگی گذارتے ہیں۔ اورکُش (سنزہ) کی نوک ان کے منھ میں چبھ جاتی ہیں تو ان کی تکلیف کواِنگودی کے تیل سے رِشی مُنی دورکیا کرتے ہیں۔ شکنتلم کے حصہ اول میں پرندوں کے ا شیانوں سے ان کے منھ سے گرے ہوئے دانوں کے چھلکے وبھونسیاں نظرا تے ہیں تو کہیں اِنگُدی نام کے درخت کے پھلوں سے تیل نکالنے کے لئے توڑنے والے انتہائی چکنے پتھرہیں۔بے خوف غزال بادبانی کرہے ہیں۔ ا شرم کے کُٹیوں کے ا نگن میں نومالیکا کی بیلیں اور زعفران کے درخت ہیں جن پربھنورے منڈلا رہے ہیں۔ راجہ دُشینت سب سے پہلے جب شکُنتلا کو دیکھتاہے تب وہ برادرانہ محبت سے لبریزہوکرچھوٹے چھوٹے پودوں کوخود ہی چینچ رہی ہوتی ہے۔شکنتلا کے حسن کے بیان میں بھی فطرت کے تن بدن معاون ہوتے ہیں۔شکُنتلا اوراس کی سہیلیوں کو دُشینت نے جنگل کے بیل بوٹوں سے تعبیرکرتاہے۔ شہرکی لڑکیوں کو باغ کے بیلیں ہیں۔شکُکتلا توحقیقت میں قدرت کی دوشیزہ، فطرت کی بیٹی ہے۔ جنگلی بیل بوٹے بغیرپروش کے بڑھتی ہے اور اس کی خوبصورتی بھی حیرت انگیزہوتی ہے۔انسوئیا کی نظرمیں شکُنتلا نومالیکا کُسُم پیلوا ہے۔اس کے ہونٹ نوخیزیت سے سرخ ہیں۔ باہیں درخت کی شاخائیں اورشباب پھول کی طرح پُرکشش ہے۔خش خاش میں اس کا حسن مزید حسین لگ رہاہے جیسے کیچڑ اورسِوارِا ب سے کمل اور تاریکی میں چاند حسین لگتاہے۔وہ گلِ باکرہ ہے۔
حصہ چہارم میں کالی داس نے فطرت کی دنیا کی منظرکشی انتہائی خوبصورتی سے کی ہے۔اس حصہ کوتو ماحولیاتی فلسفہ کااہم اسنادکہا جاسکتا ہے۔عاشقِ فطرت شکنتلا شوہرکے گھرجانے کے لئے سجتی ہے توکسی درخت نے چاند کی طرح سفید خوش بخت ریشمی کپڑے بناکردیئے، کسی نے پاو ں رنگنے کے لئے انتہائی خوبصورت سرخاب نکال کردیا۔ اسی طرح تمام دتختوں نے منی بندھ دیش تک نکلے ہوئے پللو کی طرح خوبصورت جنگل دیوتاو ں کے ہاتھوں نے طرح طرح کے زیورات دیئے۔ شکنتلا کی خوشی خوش قسمتی کودیکھ کرفطرت بھی بے حد خوش تھی اور اس کی خوشی میں شریک تھی لیکن اس کی رخصتی کودیکھ کرکاشیپ ہی نہیں بلکہ جنگل دیو،تاپیڑ، چرندے وپرندے سبھی لرزہ وپریشان ہوجاتے ہیں۔ شکنتلا خود زندہ بیدار فطرت ہی تھی۔ اسے اپنے ا پ کوپھولوں سے سنوارنے کا بہت شوق تھا پھر بھی کلیوں کو، بتّوں کوکبھی توڑتی نہیں تھی۔ درختوں کے پھولوں کے کھلنے کے وقت اس کے لئے جشن ہوتاتھا۔تعجب نہیں کہ اس کی رخصتی پر درخت بھی روپڑے ہوں۔کوئل کی میٹی کوک سے اس کی رخصتی کرتے ہیں۔ جنگل کے دیوتاو ں نے بھی اسے دعائیں دے کے رخصتی کی۔ حقیقت میں تمام جنگل ا نسو ں کے قطروں میں تبدیل ہوگیا تھا۔ہرنوں نے گھاس کھاناترک کردیا تھا، موروں رقص کرنا بند کردیاتھا اورنباتات اس کی جدائی میں گریہ وزاری کررہی تھیں۔ بہن سَریکھی ون جیوتسنا لتا(بیل) کو شکنتلا کی سہیلیوں کے ہاتھ میں ورثہ کی شکل میں رکھ دیتی ہیں۔حاملہ غزال دلہنیں کی فکر سے پریشان ہے دخترفطرت شکنتلا تو دوسری طرف اس کا ثقافتی بیٹا ہرن اس کے ا نچل کو نہیں چھوڑ رہاہے۔ جنگل کی بیٹی حقیقت میں جنگل کی روح تھی۔ اس کے بغیر جنگل کے ماحول کا تصوّر بھی نہیں کیاجاسکتا تھا۔فطرت اور انسان کی باہمی قریبی دوستی، سہل ہمدردی اور پُرکشش دلپزیرنغمہ سرائی کاتعلق اتنے نزاکت کے ساتھ بیان کرنا کالی داس جیسے ماحولیاتی مفکروفلسفی کے لئے ہی ممکن تھا۔
پانچویں حصے میں سری متی ہنس پادیکا (دشینت کی رانی)کے نغموں میں ا م کے منجر(بور، پھول)بھنوروں اور کمل کے پھولوں کا بیان ہے۔ فطرت کی خوبصورتی اور دلکش نغموں کے اثرات انسان کے سرشت پرپڑتاہے۔کالی داس کا خیال ہے کہ فطرت کے دلکش مناظریا یاقابلِ شنید ا وازیانغموں کا انسانی دلوں کے ساتھ ناقابلِ تشخیر رشتہ ہے۔یہاں پیڑوں کی چھال لباس کے طور پر پہننے والے برہمچاری شارنگ رو اور شاردُوّتوَ ہیں اور ا شرم کی گوتمی بھی۔ بڑی بڑی ا نکھوں والے غزال اورپرندوں کا بیان انسان اورفطرت کے رشتوں کویاد دلاتے ہیں۔ مہتاب سوسن(لیلی) کوکھلاتاہے تو ا فتاب کمل کو۔
شکنتم کے چھٹا حصہ شاہی باغ کے ایک منظرکاہے (جہاں بادشاہ اپنی رانیوں کے ساتھ تفریح کیاکرتے ہیں) جو موسم بہار سے ا راستہ ہے۔ اس باغ میں راجہ اور ویدوشک مادھوی لتا باغ میں بات چیت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔دھیورکے ذریعہ شکنتلا کی انگوٹھی ملنے کے واقعہ سے راجہ پریشان ہے اس لئے جشنِ بہاراں پرپابندی لگادی گئی ہے۔راجہ کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے عوان نے جشن بہاراں مننانے ارادہ توترک کرہی دیاتھالیکن حیرت اورخوشی کی باتیہ ہے کہ موسمِ بہار کے تمام درختوں اورپرندوں نے بھی راجہ کے حکم کی تعمیل کی ہے۔ اسی لئے ا م کے منجروں نے زرِگل حاصل نہیں کررہے ہیں۔ سدابہار(پھول) کلی شکل میں ٹھہرگیا ہے کھل نہیں رہا ہے۔کوئل کی کوک اسکے گلے میں رُک گئی ہے۔ یہاں تک کہ کام دیواپنے تیروں کو ترکش میں روک رکھاہے (وہ دیوتا جواپنی تیرسے باغ کوپھولوں سے ا راستہ کردیتے ہیں اورایسا ماحول پیداکردیتے ہیں کہ سہوانی جذبات میں اضافہ ہونے لگتاہے۔) یہ سب صرف راجہ سشینت کے بلداقبال کی وجہ سے نہیں ہوابلکہ انسان اور فطرت کے سکھ دکھ میں شراکت کا مظاہرہ ہے۔یہاں فطرت انسان کی خوشی اور غم میں عملی شکل میں ا گے بڑھ کر حصہ لیتی ہے۔
شکنتم کا ساتویں حصہ میں راجہ دشینت کو ہوائی اوربادلوں کے راستے جنت سے زمین پر ا تے ہوئے دکھایاگیاہے۔ بھگوان ماریچی کی کٹییا کے چاروں طرف ہیم کوٹ پہاڑپر مندار (بھگوان اندرکے نندن ون، باغ میں موجود پانچ درختوں میں سے ایک)، کلپ درخت ،اشوک کاپیڑ بیشمارہیں اور سنہرے کمل کے پھول سے بھرے تالاب ہیں۔یہ جگہ جنت سے بھی زیادہ پُرسکون ہے۔فطرت کی بیٹی شکنتلا کا بیٹا بھرت شیرکے بچہ کے ساتھ کھیلنے کی ضد کرتاہے۔ شیرکا بچہ جب زاہد(یوگن) لڑکیوں کے بھائی بہن جیسا ہے توبھرت کوان کے ساتھ کھیلنے میں کیا ڈرہے؟فطرت کے تئیں اظہارمحبت کے بدلے محبت ہی ملتی ہے۔فطرت کیتئیں نفرت کے جذبے سے فطرت کو انسانوں کے لئے منفی بنادیتی ہے۔فطرت کے چھوٹے چھوٹے اصول ہی انسان کی زندگی کے اصول بن جاتے ہیں۔
ابھیگیان شکنتلم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت کہیں بھی انسانوں کی زندگی کے تئیں منفی کام نہیں کرتی ہے۔انسان اورفطرت کی مکمل ہم ا ہنگی ہی یہاں نمایاں ہوتا ہے۔ایک کے بغیردوسرے کا تصور کرنا بھی محال ہے۔فطرت یہاں انسان کی خوشی اورغم میں اس کے ساتھ ہنستی اور روتی ہے۔
طویل عرصے سے چلی ا رہی ماحولیاتی تحفظ کی اس قدیم روایت کا جدیدیت کی آگ نے بھاری نقصان پہنچایا ہے۔استغلال اور استحصال، شان و شوکت اور عیش و عشرت کے رسوم اور پالیسی سے ماحول کو خطرے میں ڈال دیا ہے ، بالآخر زندگی بھی شورش زدہ ہوچکی ہے،چاروں طرف مصائب ہے، قدرتی آفات کے سفاکانہ ننگا ناچ ہو رہاہے۔سائنسدان ہو یا سیاستدان، تمام نوعیت کے غضبناک طرز عمل سے ڈرے سہمے ہوئے ہیں۔حل کی تلاش کے ان لمحات میں بامعنی تشخیص کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی وراثت کو سنبھالے۔فطرت اورانسان کے اس قریبی رشتہ کو ا ج کے دور میں جبکہ انسان فطرت سے دور جارہاہے ، پھرسے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
عالمگیریت کی ہوڑنے ماحولیاتی معیار کو بلندی سے پستی کی طرف دھکیل دیاہے۔ وسائل جن پر انسانوں کی بقا کے کا انحصار ہے، اب سنگین خطرے میں ہیں جو تمام دانشوروں سے اپنے تعمیراتی اساس نظریے اور شعور میں بھاری پیمانے پرتبدیل کرنے کی اپیل کرتا ہے تاکہ معنی خیز ماحولیاتی عدم توازن جن کا ہم سامنا کررہے ہیں، کو بہتر بنانے کے لئے ہم بھی کچھ تعاون کر سکیں اور اس طرح حال اور مستقبل کے لئے ایک بہتراورمحفوظ دنیاکی تعمیرہوسکے۔ ماحولیاتی تحفظ کی جب ہم اپنے طرز عمل اور رویے سے فطرت کے قہر کو ٹھنڈا کریں گے، تبھی ہماری اپنی زندگی بھی پُرسکون اور خوشحال ہوگی.
رِتُو سنھار میں فطرت کا شاعر، کالی داس نے چھ ہندوستانی موسموں کو انتہائی دلفریب اندازمیں پیش کیا ہے۔ یہاں شاعر، پودوں اور حیاتیات پر مختلف موسموں کے اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔ رِتُوسمہارمیں کالی داس نے دکھایا ہے کہ فطرت کی اپنی خوبصورتی ہوتی ہے جوبے مثال ہے۔
ہرموسم، اپنی خصوصیات کے ساتھ زمین کوفیض پہنچا سکتے ہیں۔ ہر موسم بنی نوع انسان کے لئے بے شمار اجناس فراہم کرتا ہے جسے شاعرنے اپنے شلوکوں میں پیش کیا ہے۔مثال کے طور پر، گرمی کے موسم کے دوران،عورتیں اپنی پیشانی پرسینڈل کی لیپ چسپاں کرتی ہیں اورکچھ دیگر کاسمیٹکس، درختوں اور پودوں سے تیار کئے ہیں جسیعورتیں غسل کے دوران استعمال کرتی ہیں، یہ تمام کالی داس کے فطری ماحول کے تئیں بے انتہا محبت کے جذبے کوظاہر کرتے ہیں۔
میگھ دوتم میں بھی فطرت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔یہاں، ہمارے پاس مختلف قسم کے پودوں، جانوروں، پہاڑیوں، دریاؤں، جھیلوں، پھولوں کے ساتھ ساتھ فطرت کے کچھ زندہ اور غیر زندہ عناصر کا نہ صرف زندہ وضاحت ہے، بلکہ عظیم شاعر کے شاعرانہ تخلیق کو بھی قابلِ توجہ بنا دیتا ہے ساتھ ہی یہ بھی عکاسی کرتا ہے کہ فطرت یا قدرتی ماحول کے تئیں کالی داس کی محبت یا شعورکس قدرشدید ہے۔ مثال کے طورپر، میگھ دوت میں، کالی داس نے بادلوں کے ٹکڑوں کو پیش کیا ہے جس کے ذریعے ایک ذی شعور شے کی طرح سے یکش،اپنی محبوبہ کو اپنی خیریت کا پیغام بھیجنا چاہتا ہے۔اس طرح کالی داس نے فطرت اور انسان کویکساں تصورکرتے ہیں اور دونوں کوایک دائرے میں رکھتے ہیں۔ کالی داس بادل کو راماگیری سے الکا پوری کا راستہ بتاتے ہیں تو رستے میں پائی جانے والی ان ندیو اورپہاڑوں مثلاً امرکوٹ ، نرمدا ، ویتراوتی ، گندھَروَ اور جُمبیرا وغیرہ کی تفصیل بھی بیان کرتے ہیں۔
اسی طرح، ان ا یات (شلوکوں)کے دوسرے حصے میں، کالی داس الکا شہر کی تفصیل جب بیان کرتے ہیں، جو جلاوطن یکش اور بادل کا منزل ہے.یہاں بھی کالی داس نے اس شہر کی خوبصورتی کو بیان کیا ہے جس میں فطرت کے خوشگوار مناظر ہیں۔یہاں بھی، کالیداس فطرت کے اس خوشگوار اطراف سے اپنے شہر کی خوبصورتی کو بیان کرتے ہیں۔اس طرح، ان دونوں شلوکوں میں جہاں کالیداس نے انسانی شکل میں قدرتی اشیاء پیش کیا ہے وہیں انہوں نے فطرت اور انسان کے درمیان ایک جذباتی تعلق بھی قائم کیا ہے۔اگرچہ،ان دونوں شلوکوں میں کالیداس، انسانی شکل میں قدرتی اشیاء چھوتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔مثال کے طورپرمیگھ دوت میں بہت سی ندیاں ایک اداکارہ کی طرح ہماری توجہ اپنی طرف کھینچتی ہیں،یہ ندیاں بادل کے دل کوبھی اپنے میں اسیرکرلیتی ہیں۔ دریائے وتراوتی ایک خوبصورت ہیروئن کی طرح بلکتی ہوئی لہروں کے ساتھ بہتی ہے اوربادل جذبہ شوق میں بلکھاتی ہوئی خاتون کو بوس و کنار کرتاہوا ا گے کی طرف گامزن ہے۔ یہ سب اپنے گرد و نواح کی جانب کالیداس کی کشش اور آگاہ ذہن کوظاہر کرتاہے۔
رزمیہ کمارسمبھوَ میں کالیداس نے فطرت کی ایک بہت ہی دل کش اوردلچسپ تصویر پیش کی ہے۔تیسرے سرگ میں پائے جانے والے موسم بہار کی تفصیلات بہت منفرد ہے،جہاں کالی داس نے فطرت کے تمام حیاتیاتی اورغیرحیاتیاتی اشیاء کوایک ساتھ پیش کیا ہے۔اس رزمیہ کے مختلف اہم کرداروں میں قدرتی اشیاء کو جمع کرکے، شاعر نے انسان اور فطرت کے درمیان یکساں مساوات قائم کی ہے۔تیسرے سرگ میں پائی جانے والی قدرتی ماحولیات کی واضح طورپر زندہ تصویرپیش کیاہے جس کی مثال کہیں اورملنامحال ہے۔اس کے علاوہ، کالی داس نے یہ بتانے کی بھی کوشش کی ہے کہ فطرت کے کے اپنے احساس و جذبات ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کاداس کا ذہن فطرت یا ماحولیات کی طرف کتنا بیدارتھا اور وہ ماحولیات کی اہمیت کے تئیں کتنا حساس تھے۔
رگھوونشم میں بھی فطرت اورماحولیات کے تئیں کالی داس کا ذہنی لگاو اور کشش رزمیہ رگھوونشم کے آغاز سے پتہ چلتا ہے.پہلے سرگ کے دوسرے شلوک میں کالی داس شمسی خاندان سے تعلق رکھنے والے وسیع سمندر اور ایک چھوٹی سی کشتی میں سواراپنی شاعرانہ صلاحیتوں کی وضاحت کی ہے.اسی طرح تیسویں شلوک میں کالی داس نے بحر اوقیانوس کوزمین کے محافظ کے طورپربلایاہے۔
زمین ایک اداکارہ ہے،اوقیانوس اس کی کمربند اور کنگن کے طور پر کام کرتا ہے.یہ تمام نوعیت یا ماحول کے تئیں کالی داس کی محبت دکھاتے ہیں۔اس کے علاوہ، رگھونشم میں، ہمارے پاس رسی وششٹھ کے مشورہ کے مطابق، جنّتی گائے نندنی کو بیان کرتا ہے،راجہ دلیپ نے ہمالہ میں سائے کے طور پر نندنی کی حفاظت کرنے کے لئے اس کی پیچھا کرتے ہیں۔نندنی گائے کے واقعہ کے ذریعے، کالی داس یہ مشورہ دیتے ہیں کہ گائے قیمتی اثاثہ ہے جسے محفوظ اورہر قیمت پر محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔پھر اس رزمیہ میں، کالی داس ہوا کی افادیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک وفادار خادم کی طرح ہوا اپنے مالک انتہائی ایمانداری اور لگن کے ساتھ خدمت کرتا ہے۔یہ پھولوں کی مہک کے اندر بھی رہتا ہے اس طرح، ہمارے پاس بہت سارے مثال یہاں اور وہاں پورے رزمیہ میں قدرتی طورپر موجود ہیں جو کہ کالی داس فطرت یا انسان ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔اسی طرح، وہ ظاہر کرتا ہے کہ ہوا ، ا ب، سمندر وغیرہ کی قدرتی فوائد کس طرح انسانی زندگی میں ان قدرتی عناصر کو پرکشش طریقے سے پیش کرتی ہیں۔
مالوِک اگنی مترم کالی داس کی ڈرامائی تخلیق کی پہلی کوشش ہے جس میں بادشاہ اجنیمترا اور مالویکا کے درمیان محبت کی کہانی پیش کی گئی ہے۔اس ڈرامے میں آغاز سے لے کر آخر تک، اہم موضوع کی مثال میں شاعر نے مختلف قسم کی تصویرکشی کی ہے جن میں مختلف قسم کی تصاویرکی مددسے مختلف موسموں اور سورج، چاند، بادل، آسمان وغیرہ قدرتی چیزوں کا بیان کیاہے۔ بہت ہی شاندار، مصنوعی اور دلچسپ طریقے سے پودوں اور حیاتیات کے علاوہ غیرجاندار چیزیں ہیں جس کی جانب کالی داس کے بیدار ذہن عکاسی کرتی ہے۔ مالویک اگنیمترم میں، کالی داس نے ماحولیات کی بہت ہی اچھا اور دلچسپ تصویر پیش کی ہے۔ڈرامہ کی اداکاروں میں مالویکا، پربھراجِکا، بادشاہ اگنیمترا، وِدسکا وغیرہ، اس طرح کے ماحول سے خوش ہورہے ہیں۔کالی داس انسان اور فطرت کے درمیان ایک وقفہ تعلقات بناتا ہے مثال کے طور پر مالویکا اگنیمترم کے تیسرے ایکٹ میں، مالویکا اشوک کے باغ میں اشوک کی ڈالی کوتوڑنے کے لئے جاتی ہے۔ اشوک پیڑ پہلے سے ایک ایسی پری کابے تابی سے انتظار کررہاہے جس کے چھونے سے درخت پوری طرح کھل اٹھے۔انسان اور فطرت کے درمیان قریبی تعلقات بنانے کے لئے کالیداس اس تصور کو قائم کرتا ہے کہ قدرتی اشیاء میں انسانی جذبات کے ساتھ اشتراک کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔مثال کے طور پر، تیسرے ایکٹ میں نشیلی کوئل کے خوشگوار لحن میں بادشاہ سے پوچھا کہ کیا محبت برداشت کرنے کے قابل ہوتی ہے۔پھر، یہ ڈرامہ پودے کی سلطنت کی حفاظت کے لئے کالی داس کے پختہ ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔اداکار اور اداکارہ کے قدرتی عناصر کا موازنہ کر کے، شاعر نے انسان اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی قائم کیا ہے، جہاں قدرتی اشیاء انسان کے طور پر کھڑی ہیں۔کبھی کبھی، کالی داس انسانوں کے مقابلے میں جانوروں کو اعلی پوزیشن میں رکھتے ہیں۔ یہ سب، ماحولیات کے تئیں کالی داس کی بیدارذہن اورفکرو آگہی کاپتہ دیتے ہیں۔
مختصریہ کہ سنسکرت ادب میں فطرت اورماحولیات کی ایک خاص جگہ ہے۔کالی داس نے بھی کلاسیکی سنسکرت ادب کی اس روایت کواپنی تخلیقات میں برقراررکھاہے۔کالی داس نے اپنی تمام تخلیقات میں فطرت اورماحولیات کے تئیں پُراثرفضاقائم کیاہے۔کالی داس نے اپنی تخلیقات میں فطرت کے مناظرکی تصویرکشی انتہائی خوبصورتی سے پیش کیاہے جن میں پہاڑوں، جنگلات، آشرموں، جھیلوں،سمندر،دریاؤں کی پرسکون اورپُرفریب قدرتی سرگرمیاں موجودہیں۔اپنے تمام تخلیقات میں کالی داس نے فطرت اور انسان کے درمیان کے قریبی تعلقات کوموثرطریقے سے پیش کیاہے۔کالی داس کی تخلیقات کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ کالی داس نے اس حقیقت کوسمجھاہے کہ منصفانہ ماحول قائم کرنے کے لیے متحرک اورغیرجانداراشیاکومساوی اہمیت دی جانی چاہئے۔لہٰذا وہ مختلف موسموں، سردہوا اورندیاں وغیرہ کی عکاسی شاعرانہ طریقہ سے کی ہے۔کالی داس ایک عظیم شاعرتھے اس لئے ان پریہ حقیقت منکشف ہوچکی تھی کہ درخت اورپودے ماحولیات کے اہم اجزا ہیں لہٰذا ماحولیاتی توازن کوبرقراررکھنے میں اہم کرداراداکرسکتے ہیں ،اس لئے انہوں نے اپنی تخلیقات میں ان تمام اشیاکی تحفظ اوردیکھ بھال پربہت زوردیاہے اورپیڑپودوں کی اہمیت اورافادیت کوظاہرکیاہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دورمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ذریعہ انسان روزانہ کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ خوشی حاصل کرتاہے تودوسری طرف فطرت اورماحولیات کو آلودہ بنارہاہے، جو انتہائی خطرناک ہے۔عظیم شاعرکالی داس نے اپنی تخلیقات میں بے موثرطریقہ سے انسان اورفطرت کے درمیان ایک خوشگواررشتہ قائم کیاہے جوموجودہ دورمیں بھی بہت Relevant ہے۔الغرض کالی داس کی تخلیقات میں فطرت کی عکاسی اور ان کے خیالات وافکارنے نہ صرف انہیں ایک مصورِ فطرت بلکہ ایک ماہرماحولیات کے طورپربھی Established کیاہے۔اور اگرموجودہ دورکی نام نہادد ترقی یافتہ انسانی تمدن اگرچاہے توعظیم شاعرکالی داس نے انسان اورفطرت کے مابین جوخوشگوارتعلقات قائم کیا اس کواختیاکرسکتاہے جس یقیناً ماحولیاتی خطرات کم ہوسکتی ہیں اورانسان پھرسے ایک سازگار، دوستانہ ماحول اورآلودگی سے پاک دنیامیں پرسکون زندگی گزارسکتاہے۔