جامعات میںتحقیق کے منہج اور معیار پر اب وہ شخصیتیں بھی سوال اٹھانے لگی ہیں جن کا براہِ راست جامعات سے رشتہ ہے۔ ان حضرات کی رائے ہے کہ جامعات میں تحقیق کا معیار گرا ہے اور ان موضوعات کو بھی تحقیق میں شامل کیا جارہا ہے جن کی موجودہ عہد میں کوئی افادیت نہیں ہے۔ پہلے بھی تحقیق کے معیار پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، تحقیق کی نارسائیوں اور محرومیوں کے حوالے سے بھی گفتگو ہوتی رہی ہے مگر اب جب یہ سوالات خود جامعات کے اندر سے اٹھ رہے ہیں تو معیارِ تحقیق پر اب سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے۔آج کی تحقیق کا المیہ یہ ہے کہ ایک ہی موضوع پر کئی جامعات میں تحقیق ہورہی ہے اور ایک ہی شخصیت کو تحقیق کا موضوع بنایا جارہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اردو میں تحقیقی موضوعات کا فقدان یا بحران ہے جس کی وجہ سے ایک ہی موضوع کی تکرار ملک کی مختلف جامعات میں ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح سے ہماری اردو تحقیق چند موضوعات میں محصور اور محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ معاملہ یہ بھی ہے کہ تحقیق کرنے والے طلبا اپنے موضوع کے تئیں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ کاتا اور لے دوڑی پر عمل کرتے ہیں۔ جو ارتکاز، انہماک، ریاضت، عرق ریزی تحقیق میں ہونی چاہیے وہ نہیں ہوپاتی۔ ان لوگو ںکا مقصد صرف ڈگریوں کا حصول ہوتا ہے اس لیے یہ محنت سے جی چراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ عہد میں مستثنیات کو چھوڑ کر بیشتر تحقیقی مقالے ایسے ہیں جو شائع نہیں کیے جاسکتے۔افسوسناک بات تو یہ بھی ہے کہ کچھ تحقیقی مقالے من و عن پرانی کتابوں سے ماخوذ ہوتے ہیں اور وہ بغیر کسی ترمیم و اضافے کے شائع بھی کردیے جاتے ہیں۔یہ جرأت اور جسارت قابل مذمت ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے اس طرح کے بہت سے واقعات سامنے آئے کہ پاکستان میں چھپی ہوئی کتاب کو من و عن تحقیقی مقالے کی صورت میں ڈگری کے لیے پیش کردیا گیا اور بعد میں وہ کتاب شائع بھی ہو گئی۔ اس طرح کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ اردو تحقیق میں سرقے کا چلن عام ہوچکا ہے۔ پہلے بھی سرقے کے تعلق سے بعض معتبر اور مؤقر جرائد نے بہت سے اہم انکشافات کیے ہیں جن سے پتہ چلا کہ بہت سی شخصیات نے دوسروں کے تحقیقی مقالوں اور اقتباسات پر شب خون مارا ہے اور اس میں کہیں بھی حوالہ نہیں دیا گیا ہے۔ اس طرح کی صورتِ حال اردو تحقیق کے لیے بہتر نہیں ہے اسی لیے اب جامعات کے اساتذہ بھی اردو تحقیق کے معیار سے عدم اطمینان کا اظہار کررہے ہیں۔ لیکن سوال صرف عدم اطمینان کا نہیں ہے بلکہ تحقیق میں دَر آئی اس بیماری کے علاج کا بھی ہے۔ تحقیق کی یہ صورتِ حال دیکھتے ہوئے جامعات میں ایک ایسی کمیٹی تشکیل دیے جانے کی ضرورت ہے جہاں ماہرین کی ایک جماعت ہو اور وہ سرقے پر نگاہ رکھ سکیں تاکہ جو تحقیقی مقالے سرقے سے پاک نہیں ہیں ان پر ڈگری تفویض نہ کی جاسکے اور اس کے علاوہ تمام جامعات کے تحقیقی مقالات کا ایک توضیحی اشاریہ بھی شائع کیا جانا چاہیے تاکہ تحقیقی موضوعات میں تکرار اور یکسانیت سے بچا جاسکے۔ تحقیق کے معیار کو بلند کرنے کے لیے جامعات کے ارباب حل و عقد کو کچھ اقدامات کرنے پڑیں گے ورنہ تحقیق کی کوئی اہمیت اور افادیت نہیں رہ جائے گی۔
سہ ماہی ’فکرو تحقیق‘ بھی تحقیق سے جڑا ہوا ایک مجلہ ہے اس لیے اس رسالے کے سامنے بھی اسی طرح کی دقتیں آتی رہی ہیں۔ عموماً آج کے محققین تحقیقی موضوعات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے جب کہ پہلے کے مقابلے میں آج وسائل کی کثرت ہے، انٹرنیٹ پر بھی معلومات کا بیش بہا ذخیرہ ہے، نادر و نایاب کتابیں موجود ہیں، اس کے باوجود اگر تحقیق کمزور ہوتی جارہی ہے تو یقینا یہ بہت تشویشناک مسئلہ ہے۔
’فکر و تحقیق‘ کے اس شمارے میں کچھ اہم تحقیقی مقالے شائع کیے جارہے ہیں۔ ان مقالوں میں کچھ نئی جہتوں کا انکشاف بھی ہے، خاص طور پر ماہنامہ ’شاعر‘ امروہہ، ’اٹھارہ سو ستاون کا نشان دہندہ‘ ، ’نصیر حسین خیال کی نثر نگاری‘ وغیرہ اس طرح کے مضامین ہیں جن سے ہمیں نئی روشنی مل سکتی ہے۔ ضرورت ہے کہ اسی طرح کے موضوعات کا انتخاب کیا جائے تاکہ تحقیق کا معیار بھی بلند ہو اور ہماری معلومات میں اضافہ بھی۔
فکرو تحقیق‘ میں کچھ نئی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ تلخیص اور کلیدی الفاظ کی شمولیت کو بیشتر قارئین نے سراہا ہے اور آئندہ کوشش ہوگی کہ ’فکر و تحقیق‘ میں لکھنے والے قلم کاروں کا تعارف بھی پیش کیا جائے تاکہ اِن کے علمی اور ادبی آثار و کوائف سے ہمارے قارئین بھی آگاہ ہوسکیں۔
