تحقیق میں تکرار، اعادہ اور یکسانیت کی وجہ سے جامعات کا بھی معیار مجروح ہوتا ہے کیونکہ تحقیقی سرگرمیوں اور علمی مطبوعات کی بنیاد پر ہی کسی یونیورسٹی کا معیار متعین کیا جاتا ہے۔ آج دنیا میں بہترین یونیورسٹیاں وہی کہلاتی ہیں جن میں تحقیق کے اعلیٰ معیار کا خیال رکھاجاتا ہے، وہاں کے محققین اپنی تحقیقاتِ عالیہ سے دنیا کو ایک نئی جہت اور ایک نیا زاویہ دیتے ہیں۔ تحقیق میں نئے تجربے کرتے ہیں، اور ان تجربوں سے دنیا فائدہ اٹھاتی ہے۔ ایسی یونیورسٹیاں غیرروایتی موضوعات کا انتخاب کرتی ہیں، بالخصوص ایسے موضوعات کا جن میں نئے نکات اور نئی جہتو ں و جستجو کا امکان ہو مگر کچھ ایسی بھی یونیورسٹیاں ہیں جو تحقیق کے باب میں زیادہ سنجیدہ نہیں ہیں۔ خانہ پری کے لیے وہاں تحقیقی مقالے لکھوائے جاتے ہیں وہ نہ اپنے مواد کے اعتبار سے معیاری ہوتے ہیں اور نہ موضوعات کے لحاظسے اچھوتے۔ بالعموم ان یونیورسٹیوں میں ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کی موجودہ عہد میں زیادہ اہمیت و معنویت نہیں ہے۔ یہاں ریسرچ اسکالرز کی توجہ صرف ڈگریوں کے حصول پر مرکوز رہتی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ کچھ جامعات میں ایک ہی موضوع پر پی ایچ ڈی کی دو ڈگریاں دے دی جاتی ہیں۔ موضوعی سطح پر اس طرح کی یکسانیت عام ہوچکی ہے۔ اس بابت سنجیدہ ہونے اور تحقیق کے معیار کو بلند کرنے کے لیے نئے طریق کار تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹیوں کے اربابِ حل و عقد کو چاہیے کہ وہ اس پر زیادہ توجہ مرکوز کریں کہ کن موضوعات پر تحقیق نہیں ہونی چاہیے۔ ایسے موضوعات کی ایک فہرست بھی مرتب کی جانی چاہیے کیونکہ اس طرح کے موضوعات پر کام کرنے سے نہ صرف توانائی ضائع ہوتی ہے بلکہ یہ وقت کا زیاں بھی ہوتا ہے۔ معاشرے کو اس طرح کی تحقیق سے کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچتا۔ تحقیق زوال کی جس حد تک پہنچ چکی ہے ایسے میں کچھ تدارکی اقدامات لازمی ہیں۔ جامعات کے ارباب نظر کو بھی تحقیق کے تعلق سے سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ تحقیق پر بھی حکومت کا اچھا خاصا فنڈ صرف ہوتا ہے۔ تمام جامعات کو مل کر ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے تاکہ تحقیقی موضوعات کے انتخاب کے وقت تکرار اور یکسانیت سے بچا بھی جاسکے اور نئے تحقیقی موضوعات کا انتخاب بھی کیا جاسکے۔
ادبیات کے باب میں تحقیق کی صورتِ حال تشفی بخش نہیں ہے۔ جبکہ سائنس، ٹیکنالوجی اور دیگر علوم و فنون میں تحقیق کے اعلیٰ معیار کو قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ادبیات میں تحقیق زوال پذیر ہے اور اس کا احساس جامعات کے ارباب حل و عقد اور وہاں کے اساتذہ کو بھی ہے۔ خاص طور پر اردو زبان و ادب میں تحقیقی موضوعات کی جو فہرست شائع ہوتی ہے، اس سے یہ اندازہ لگانا آسان ہوجاتا ہے کہ جامعات میں معیاری اور مفید تحقیقی کام نہیں ہوپارہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آج تحقیقی ذہن رکھنے والے افراد کی کمی ہے، نئی نسل میں بھی بہت سے لوگ تحقیقی ذہن رکھتے ہیں اور اچھی تحقیق پیش کرسکتے ہیں مگر انھیں صحیح رہنمائی نہیں مل پاتی جس کی وجہ سے ان کی تحقیق بھی اس معیار پر نہیں پہنچ پاتی جو معیار تحقیق کو مطلوب ہے۔
صرف جامعات میں ہی نہیں بلکہ تحقیقی مجلات میں بھی زوال کی یہی صورتِ حال ہے اسی لیے اب تحقیقی مجلات کی تعداد بتدریج کم ہوتی جارہی ہے اور ان مجلات کے مدیران کو بھی یہ شکایت ہے کہ انھیں مطلوبہ معیار کے مضامین دستیاب نہیں ہوپاتے۔ جب کہ پرانے زمانے میں محققین کی معتد بہ تعداد ایسی تھی جو نئی تحقیقات کے ذریعے زبان و ادب میں گراں قدر اضافہ کررہی تھی، اب وسائل کی فراوانی کے باوجود تحقیق میں ارزانی عام ہوگئی ہے۔ لہٰذا تحقیق سے وابستہ تمام افراد کو معیاری تحقیق کے نئے امکانات تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
