تحقیق میں تعطل، جمود، تکراری تحقیق، موضوعاتی یکسانیت کے حوالے سے تحقیقی مجلات کے مدیران اور تحقیق سے جڑے ہوئے دانشوران اکثر لکھتے رہے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے۔ بہت پہلے علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی
یہ سچ ہے کہ تحقیق میں رجالِ کار کا فقدان ہے۔ ماضی میں تحقیق کی جو مشعلیں روشن کی گئی تھیں وہ رفتہ رفتہ دھیمی ہوتی جارہی ہیں۔ اب تحقیق میں نہ تو نئے حقائق کا انکشاف ہوتا ہے اور نہ ہی نئے علاقوں، منطقوں، زاویوں اور جہات کی جستجو کی جاتی ہے۔شاید ڈگری کا حصول ہی تحقیق کا مقصد بن کر رہ گیا ہے۔ تحقیق کے نمونہ جاتی معیارات تحقیقی رسائل و مجلات میں اب کم ہی نظر آتے ہیں جب کہ آج پہلے کی بہ نسبت وسائل بھی زیادہ ہیں اور علمی، ادبی مسائل کی بھی کثرت ہے۔ اگر تحقیق میں مستقبل پسندانہ انداز اختیار کیا جائے اور ادبیات و بشریات کا سائنس، سوشل سائنس اور دیگر علوم و فنون سے ارتباط کو مدنظر رکھا جائے تو اور اچھی و معیاری تحقیق سامنے آسکتی ہے۔
مستقبل مرکوز تحقیق آج کے وقت کی ضرورت ہے۔ صرف معلومات کی فراہمی ہی تحقیق کا مقصد نہ ہو بلکہ نئے انکشافات اور معاشرتی افادیت کا عنصر بھی اس میں شامل ہو تو تحقیق بیش قیمت ہوسکتی ہے۔ آج عالمی سطح پر تحقیق کے جو معیارات قائم کیے گئے ہیں ان پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے۔ مغرب میں علمی تحقیق کا جو معیار ہے خاص طور پر سائنسی میدان میں اس کا تعلق معاشرتی افادیت سے بھی ہے اس لیے ہمیں تحقیقی موضوعات کے تعین کے سلسلے میں سنجیدہ ہونا چاہیے اور اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کن موضوعات پر اب تحقیق نہیں ہونی چاہیے۔
تحقیق کا بنیادی مقصد علم کے اضافے کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور دیگر مسائل کو تحقیق کے پیمانے پر پرکھنا اور نئے نتائج کا استخراج کرنا ہے مگر بالعموم آج کی تحقیق میں یہ سب نہیں ہوپارہا ہے۔ جب کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے اس دور میں بہت سے ایسے مباحث اور مسائل ہیں جن پر گفتگو ہونی چاہیے۔
اردو میں جو تحقیقی مجلات شائع ہوتے ہیں ان کا مقصد علمی اور ادبی سرمایے کو ایک بڑے طبقے تک پہنچانا اور نئی نسل کو بھی اس بیش قیمت سرمایہ سے واقف کرانا ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارا بہت سارا علمی سرمایہ مخطوطات کی صورت میں محفوظ تو ہے مگر اس کی تحقیق اور تدوین کرنے والے افراد کم ہیں جس کی وجہ سے بہت سے قیمتی مخطوطات ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔ خاص طور پر لائبریریوں میں ایسے نایاب اور نادر مخطوطات ہیں جن میں علم و دانش کا بیش بہا ذخیرہ ہے۔
سہ ماہی ’فکر و تحقیق‘ کے اس شمارے میں تحقیقی ریاضتوں کو شامل کیا گیا ہے اور ان موضوعات پر بھی تحریریں ہیں جن پر کم لکھا گیا ہے یا جن کے تمام زاویوں کے احاطے کی کوشش نہیں کی گئی ہے، تاکہ قارئین کے سامنے نئی جہتیں اور نئے زاویے آسکیں۔ چونکہ یہ دور قحط الرجال کا ہے، علوم و فنون سے لوگوں کا رشتہ کم ہوتا جارہا ہے، اس لیے اس نسل کی آبیاری ضروری ہے جو اردو زبان و ادب کے فروغ اور تحفظ کے ساتھ اس میں نئے امکانات کی جستجو کرسکے۔ اس شمارے میں کچھ ریسرچ اسکالرس کے مضامین بطور خاص شامل کیے گئے ہیں کیونکہ وہی ہمارے زبان و ادب کا مستقبل ہیں۔ انہی سے تحقیق و تنقید کے نئے معیارات اور امکانات کی توقع کی جاسکتی ہے اور اب یہی نئی نسل ہے جس کی ذمے داری ہے کہ وہ تحقیق کے اعلیٰ معیار کی پاسداری کرے اور تحقیق جس تعطل کی شکار ہے اسے دور کرنے کی کوشش کرے۔ جامعات کے اساتذہ، اگر طلبا کی صحیح طور پر رہنمائی کریں تو یقینی طور پر تحقیق کا معیار بلند ہوگا۔ مختلف جامعات میں تحقیق کرنے والے طلبا کی ایک کثیر تعداد ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ان کے موضوعات صرف حیات و خدمات تک محصور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا دائرۂ کار بھی محدود ہوجاتا ہے۔ ان کے موضوعاتی دائروں کو وسعت عطا کرنے کی آج کے عہد میں شدید ضرورت ہے!
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.