دنیا کی بہت ساری زبانیں مرتی جارہی ہیں۔ زبانوں کی موت ہمارے عہد کا ایک گمبھیر مسئلہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے آدھی زبانیں خطرے سے دوچار ہیں۔ خاص طور پر جن زبانوں کے ذریعے علم و عرفان کی کی روشنی پھیلی اور ان زبانوں نے بہت سی زبانوں کو جنم دیا آج وہ زبانیں بھی رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ دوسری شکل میں ان زبانوں کو زندگی ضرور مل گئی ہے۔ مگر اب ان کا کوئی فنکشنل کردار نہیں رہ گیا ہے جس کی وجہ سے ان زبانوں سے عام لوگوں کی دلچسپی ختم ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے قدیم رسم الخط بھی ختم ہوتے جارہے ہیں اور جن زبانوں میں علوم و فنون کا بیش بہا ذخیرہ تھا وہ زبانیں بھی اب بتدریج سکڑ رہی ہیں۔
زبانوں کی کثرت کے اعتبارسے ہندوستان دوسرے نمبر پر ہے۔ یہاں تقریباً 778 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں بہت سی بولیاں اور زبانیں اب ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کا تناسب تیزی سے گھٹ رہا ہے اور وہ دوسری غالب یا حاوی زبانوں کا حصہ بنتی جارہی ہیں۔ اس میں زیادہ تر قصور لسانی استعماریت کا ہے۔ زبان اور تہذیب کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ثقافتی بالادستی کے جذبہ نے بھی زبانوں کو ختم کرنے میں بہت منفی کردار ادا کیا ہے ۔ جہاں جہاں تہذیبی بالادستی کی جنگ ہوئی ہے وہاں چھوٹی زبانوں اور بولیوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ آج بہت سی پرانی زبانوں کے نام و نشان اس لیے مٹ گئے کہ دوسری بڑی زبانوں نے اپنا تسلط جما لیا ہے اور ان کے تہذیبی نشانا ت کو بھی مٹا دیا ہے۔ تہذیبی یا لسانی بالادستی نے جس طرح بہت سی زبانوں کو ختم کیا ہے یہ ہمارے لیے بہت تشویش ناک ہے کیونکہ یہ مسئلہ صرف زبانوں کی موت کا نہیں ہے بلکہ یہ انسانی وراثت کے تحفظ سے جڑا ہوا ہے۔ کیونکہ انسانی وراثت صرف ایک تہذیب یا زبان میں محفوظ نہیں بلکہ مختلف زبانوں اور تہذیبوں میں انسانی وراثت کا گراں قدر سرمایہ موجود ہے اور اسی سے ہمیں انسانی رویے، کلچر اور جذبات کا بھی پتہ چلتا ہے۔ بہت سے جذبے اور رویے ایسے ہوتے ہیں جن کا دوسری زبانوں میں اظہار ممکن نہیں ہوتا۔ بہت سے الفاظ اور محاورے ایسے ہیں جن کا دوسری زبان میں کوئی متبادل نہیں ہے اور یہاں اس حقیقت کو بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ انسانی ذہانت پر کسی ایک زبان یا کلچر کی اجارہ داری نہیں ہے۔ ساری زبانوں میں تہذیب و ثقافت کے بہت سے مظاہر محفوظ ہیں۔اگر یہ چیزیں ختم ہوجائیں گی تو نسل انسانی تاریخ و تہذیب سے محروم ہوجائے گی۔ کیونکہ جب بھی کوئی زبان مرتی ہے تو تاریخ اور تہذیب سے اس کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ہماری انسانی تاریخ نہ صرف لکھی ہوئی زبان میں محفوظ ہے بلکہ بولی جانے والی زبان میں بھی ہے۔ اس طرح اگر ہم نے زبانوں کو معدوم ہونے سے نہیں روکا اور زبانوں کے تحفظ کے لیے کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی تو رفتہ رفتہ بہت ساری زبانیں دم توڑ جائیں گی اور ہم علوم و فنون اور تاریخ و تہذیب سے محروم رہ جائیں گے۔
دراصل جو زبانیں مرتی ہیں اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اس زبان کے بولنے والوں کا تناسب گھٹنے لگتا ہے۔ تعلیم اور خواندگی کے مواد میں کمی کی وجہ سے بھی بہت سی زبانیں مرر ہی ہیں اور جس طبقے یا برادری کی زبان ہے اس طبقے کی عدم دلچسپی بھی اس زبان کی موت کا باعث بن جاتی ہے۔ سماج، سیاست اور معاش بھی زبان کو زندہ رکھتے ہیں اور جب زبان کا رشتہ ان سے کٹ جاتا ہے تو وہ زبان مرنے لگتی ہے۔ اس لیے آج سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لسانیاتی تنوع کا تحفظ کیسے کیا جائے، زبانوں کو کیسے زندہ رکھا جائے، بولی جانے والی زبانوں کا احیا کیسے کیا جائے، زبانوں کی موت کو زندگی میں تبدیل کس طرح کیا جائے، اس طرح زبانوں کی موت کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین لسانیات سے اس سلسلے میں خاص طور پر مدد لی جاسکتی ہے کہ کس طرح معدوم ہوتی زبانوں کو محفوظ رکھا جائے۔ آج محفوظ رکھنے کی ایک اچھی شکل تکنالوجی کی صورت میں ہمیں مل گئی ہے اس لیے بہتر ہوگا کہ آڈیو اور ویڈیو ٹیپس کے ذریعے ان زبانوں کے تحفظ کی کوشش کی جائے اور ان زبانوں میں لکھے ہوئے دستاویزات کو محفوظ کیا جائے ورنہ آنے والے زمانے میں ہماری تاریخ اور تہذیب کے بہت سارے نشانات معدوم ہوجائیں گے۔ آج پوری دنیا میں جب حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی بات کی جارہی ہے تو لسانیاتی تنوع کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر ہمیں اپنی مادری زبانوں کے تعلق سے زیادہ بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہماری اردو زبان آج کس صورتِ حال سے دوچار ہے۔ کیا اس کے بولنے والوں کا تناسب گھٹ رہا ہے، کیا اس زبان میں تعلیم، خواندگی اور دیگر سائنسی، سماجی مواد کی کمی ہے، کیا اس زبان کے بولنے والے دوسری غالب زبان کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ اور اس طرح کے بہت سے سوالات اردو زبان کے تعلق سے جنم لے رہے ہیں۔ جیسا کہ لسانیاتی سروے سے پتہ چلتا ہے کہ کہ اردو بولنے والوں کی تعداد گھٹ رہی ہے تو یقینا یہ ہمارے لیے بہت تشویش ناک ہے کیونکہ اگر ہماری زبان کسی اور غالب زبان کا حصہ بن گئی تو پھر ہمارا تاریخی، تہذیبی سرمایہ ختم ہوجائے گا۔ اس لیے ہمیں بڑی سنجیدگی کے ساتھ ہندوستان کی دوسری زبانوں کے ساتھ ساتھ اپنی زبان کے تحفظ کے طریقہ کار پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.