May 28, 2023

مئی 2019

اردو زبان کے فروغ اور تحفظ کے لیے صرف ہندوستان کے طول و عرض میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں سمینار، کانفرنسیں اور ادبی اجلاس منعقد کیے جاتے رہے ہیں اور ان سمیناروں اور کانفرنسوں کے ذریعے بہت سی تجاویز اور مشورے بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ گو کہ ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی صورت کم نکل پاتی ہے یا ان پر زیادہ سنجیدگی سے غور نہیں کیا جاتا۔ تاہم یہ خوش آئند بات ہے کہ اردو زبان کے تحفظ کے لیے ایک بڑا طبقہ پابند عہد نظر آتا ہے اور مختلف سطحوں پر اس کے لیے کوشاں بھی ہے۔ اسی وجہ سے اردو کی زمینی صورتِ حال سے ہم مایوس نہیں ہیں لیکن اردو کے فروغ کے لیے اب مزید سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اردو زبان کے تحفظ کے لیے نئے طور و طرز سے سوچنا ہوگا اور آج کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے عہد میں ہمیں نیا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا کیونکہ اردو زبان کی ترقی اب ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ممکن نہیں ہے اور اس سمت میں یقینی طور پر ماضی میں بھی بہت کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن اس میں بھی ہمیں کچھ مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی جس طرح اپنے دائرۂ کار کو وسیع کررہی ہے اور نئے نئے طریقہ کار اختیار کررہی ہے ایسے میں ہمیں بھی ان نئے طریقوں پر غور کرنا ہوگا۔
قارئین! اردو زبان کے مسائل و متعلقات پر عالمانہ اور دانشورانہ گفتگو ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے اور آج بھی جاری ہے۔ مگر زبان کی زمینی صورت حال پر نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں ہندوستان میں بہت سے ایسے علاقے نظر آئیں گے جو اردو زبان کے لیے زرخیز زمین کی حیثیت رکھتے ہیں مگر وہاں اردو کی راہ میں بہت سی دشواریاں حائل ہیں۔ خاص طور پر وہاں کے اسکولوں میں اردو کی بنیادی تعلیم کا انتظام نہیں ہے، اساتذہ نہیں ہیں، اور بہت سے اسکولوں سے اردو خارج ہے۔ بچوں کے لیے تدریسی مواد نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اردو کی بنیادی تعلیم سے جڑے ہوئے مسائل پر غور وخوضـ کرنا ہمارے لیے لازمی ہے تاکہ جن علاقوں میں اردو تعلیم و تدریس کے تعلق سے دقتیں ہیں ان کو دور کیا جائے۔
گذشتہ چند ماہ سے اردو دنیا میں اردو زبان کی زمینی صورت حال کے تعلق سے انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سے علاقوں میں اردو کی صورت حال بہتر نہیں ہے۔ خاص کر مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی اردو کے حالات زیادہ اچھے نہیں ہیں اور وہاں بہت سی سطحوں پر دشواریاں بھی ہیں اور ان انٹرویوز سے اور بھی بہت ساری باتیں سامنے آرہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جن علاقوں میں محبانِ اردو بہت پرجوش اور سرگرم ہیں وہاں ان کے سامنے وسائل کا فقدان ہے۔ وہ چاہنے کے باوجود بھی اردو کی بنیادی تعلیم پر زیادہ توجہ مرکوز نہیں کرپاتے کیونکہ اردو کی بنیادی تعلیم کو مضبوط کرنے کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے وہ انھیں مہیا نہیں ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان محبان اردو کی ناتو قدرافزائی ہوتی ہے اور نہ ہی انھیں انعامات سے سرفراز کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی ان کی توجہ ذرا کم ہوجاتی ہے تاہم خوش آئند بات ہے کہ وسائل کی تمام تر کمی کے باوجود بھی کچھ لوگ اردو زبان کے فروغ اورتحفظ کے لیے سرگرم ہیں اور یقینی طور پر یہی جذبہ رہا تو اردو زبان کی تعلیم کی راہ میں جو دقتیںحائل ہیں وہ یقینا دور ہوں گی اور قومی اردو کونسل اس تعلق سے خصوصی طور پر کوشش بھی کررہی ہے کہ اردو کی بنیادی تعلیم کو مضبوط کیا جائے اور جن علاقوں میں اردو آبادی کم ہے وہاں بھی اردو کا فروغ کیا جائے۔ چنانچہ قومی اردو کونسل نے گوا، منی پور، جزائر انڈمان نکوبار اور نارتھ ایسٹ کے علاقوں میں ایک رابطہ مہم بھی شروع کررکھی ہے تاکہ وہاں بھی بنیادی سطح پر اردو کو فروغ دیا جاسکے۔ اس کے علاوہ مختلف ریاستوں میں جہاں اردو اکادمیاں قائم نہیں ہیں وہاں اردو اکادمی کے قیام کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ یقینی طور پر اس کے مفید اور مثبت نتائج برآمد ہوں گے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب تمام محبانِ اردو اس میں تعاون کریں۔
قومی اردو کونسل نے ترجیحی طور پر اردو زبان کی بنیادی تعلیم پر توجہ مرکوز کی ہے کیونکہ جڑوں کو مضبوط کیے بغیر کوئی بھی زبان زندہ نہیں رہ سکتی۔ اس لیے قومی اردو کونسل کا ارتکاز اردو کی بنیادی تعلیم پر ہے۔ قومی اردو کونسل کی طرف سے منعقدہ چھٹی عالمی اردو کانفرنس میں بھی اردو زبان کی بنیادی تعلیم پر خاص طور پر توجہ دی گئی اور ایک سیشن اس کے لیے مختص کیا گیا اور اس سیشن میں زیادہ تر مقررین نے مختلف علاقوں میں اردو زبان کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ پیش کیا اور یہ بات سامنے آئی کہ بے توجہی کی وجہ سے زبانیں مرتی ہیں اور ارد وکے تعلق سے بھی بہت سی سطحوں پر یہی بے توجہی پائی جاتی ہے۔ مقررین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور اپنے گھر سے اردو کی تعلیم کا آغاز کرنا چاہیے۔

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.