May 28, 2023

جولائی 2019

مادیت اور صارفیت میں محصور معاشرے کا رشتہ کتابوں سے ٹوٹ چکا ہے۔ صارفی کلچر نے انسانی ذہن کو اس قدر مادیت پرست بنا دیا ہے کہ انسان کی معراج اب صرف مادی عروج اور ترقی بن کر رہ گئی ہے۔کتابوں میں جو روحانیت کی خوشبو ہوتی ہے اس سے ہمارا سماج دور ہوچکا ہے۔ ایسی صورت میں کتاب کلچر کو فروغ دینا وقت کی ضرورت بن جاتی ہے کیونکہ اس کلچر سے دوری کی وجہ سے ہمارے معاشرے کاچہرہ بھی مسخ ہوتا جارہا ہے اور بہت سی منفی قدریں ہمارے معاشرے کا حصہ بنتی جارہی ہیں، جرائم اور دیگر برائیوں کے بڑھنے کی اصل وجہ بھی کتاب کلچر سے دوری ہے۔
کتاب کلچر سے دوری کا ایک نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ اعلیٰ اقدار و افکار و خیالات کے دروازے بند ہوگئے ہیں جبکہ ماضی سے لے کر اب تک کتاب ہی ایک ایسی چیز تھی جو نہ صرف انسان کو اسرارِ فطرت سے آشنا کرتی تھی بلکہ آدابِ زندگی بھی سکھاتی تھی۔ کتاب ہی ہے جو احساس کے نئے نئے دروازے کھولتی ہے اور انسانوں کو متانت اور تمکنت سکھاتی ہے۔ کتاب کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سے بہتر کوئی دوست نہیں ہے۔ تنہائی کا سب سے بہترین رفیق کتاب کو ہی کہا گیا ہے لیکن آج معاشرہ تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے۔ اب کتاب کی جگہ موبائل اور انٹرنیٹ نے لے لی ہے۔ شاید آج کا معاشرہ مادی ترقی پر مرکوز ہوکر رہ گیا ہے۔ اس لیے روحانیت کے لیے بہت کم جگہ رہ گئی ہے۔ جبکہ انسانی اقدار اور روحانیت کے تحفظ کے لیے کتابوں سے رشتہ جوڑنا بہت ضروری ہے کہ یہی کتابیں ہیں جو ہمیں مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں سے آشنا کرتی ہیں اور ہمارے ضمیر اور ذہن کو نئی زندگی عطا کرتی ہیں۔ اس لیے کتاب کلچر سے دوری آج کے معاشرے کا ایک بڑا المیہ ہے جس پر دانشورانِ قوم و ملت کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ معاشرے کو کتابوں سے کیسے جوڑا جائے اور مطالعے کے رجحان کو کیسے بڑھاوا دیا جائے کیونکہ جب تک کتاب اور کاغذ پر توجہ مرکوز نہیں کی جائے گی، حالات نہیں بدل سکتے۔
پرانے زمانے میں لوگ کتابوں کی جستجو میں دور دراز علاقوں کا سفر کرتے تھے، صعوبتیں برداشت کرتے تھے، لیکن آج جبکہ پہلے کے مقابلے میں نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے کتابوں تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔ اس کے باوجود بھی لوگ کتابوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اسی لیے اب معاشرے کے بیدار اور حساس افراد کی ذمے داری بنتی ہے کہ کتاب کلچر کے تحفظ کے لیے کوشش کریں اور اس کی کئی شکلیں ہیں۔ایک بہتر صورت تو یہ ہے کہ ہر گاؤں، قصبہ اور شہر میں لائبریریاں قائم کی جائیں اور کتابیں ردّی میں بیچنے کے بجائے لائبریریوں کو دی جائیں۔ آج بہت سے لوگ اپنی کتابیں ردّی میں بیچ دیتے ہیں اس طرح کے بہت سے المناک واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ بہت سی قیمتی کتابیں بڑے مصنّفین کے وارثوں نے ردّی میں بیچ دیں۔اس طرح کے واقعات یقینا احساس دلاتے ہیں کہ کتابوں کی جو قدر و قیمت تھی وہ اب ختم ہوتی جارہی ہے۔
تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ جنھوں نے اپنی ذاتی لائبریریوں میں نادر و نایاب کتابوں کا قیمتی اثاثہ محفوظ رکھا ہوا ہے اور انھیں یہ کتابیں اپنی جان سے بھی عزیز تھیں۔ انھیں احساس تھا کہ ان کتابوں سے روشنی پھیلے گی مگر اب صورتِ حال یہ ہے کہ کتابوں کے لیے گھروں میں جگہ نہیں رہ گئی ہے۔جن گھروں میں کتابوں کی روشنی ہوتی ہے وہ گھر آباد رہتے ہیں لیکن جو گھر کتابوں سے محروم ہیں وہاں تاریکیوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ پرانے زمانے میں کتابیں تحفے میں دی جاتی تھیں اور بہت ہی قیمتی تحفہ سمجھی جاتی تھیں مگر آج کے عہد میں کتابوں کی کوئی اہمیت اور معنویت نہیں رہ گئی ہے اس لیے اب ضرورت ہے کہ دانش گاہوں کے اساتذہ اور طلبا آگے آئیں اور لوگوں کو کتاب کی معنویت اور اہمیت و افادیت سے آگاہ کریں اورمطالعے کے رجحان کو آگے بڑھائیں۔ اس رجحان کو تقویت دینے کے لیے دیہات اور دور دراز کے علاقو ںمیں بھی اس طرح کی مہم چلانی چاہیے تاکہ ہمارے معاشرے کا رشتہ کتابوں سے قائم ہوسکے کیونکہ کتابیں ہی ہیں جن سے دنیا میں بہت سے انقلابات بپا ہوئے ہیں اور بہت سے ملکوں کی تصویر و تقدیر بھی بدلی ہے۔ کتابوں سے رشتہ جوڑ کر ہم اپنی روایت اور تہذیب کا بھی تحفظ کرسکتے ہیں اور شاید اسی مقصد کے تحت بہت سے ادارے کتاب میلوں کا انعقاد کرتے رہے ہیں۔ ان کے ذریعے عام لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، انھیں معیاری اور سستی کتابیں فراہم کی جاتی ہیں۔ قومی اردو کونسل نے مختلف ریاستوں اور اضلاع میں کتاب میلے کے انعقاد کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ کتابوں سے سماج کو جوڑا جائے کیونکہ کتاب کے ذریعے ہی معاشرے میں متانت اور دانائی پیدا کی جاسکتی ہے۔

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.