May 28, 2023

ستمبر 2019

بچے ملک کا مستقبل اور قوم کا سرمایہ ہیں۔ اس سرمایے اور مستقبل کا تحفظ ہماری معاشرتی ذمے داری ہے۔ مگر ہماری بے توجہی کی وجہ سے بچوں کا بچپن کھوتا جارہا ہے۔ ان کی معصومیت معدوم ہوتی جارہی ہے۔ کچی عمر میں ان کے کندھوں پر بھاری بوجھ ہے۔ صورتِ حال ایسی بن گئی ہے کہ بچے غربت یا اپنے بوڑھے ماں باپ کی معاشی کفالت کے لیے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے ان کے بچپن کی ساری آرزوئیں، تمنائیں، خواب اور خوشیاں چھِن جاتی ہیں۔
یہ صرف ایک ملک یا ایک قوم کا قصہ نہیں ہے بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں بچوں کا یہی دکھ درد ہے۔ تاروں کو دیکھنے کی عمر تناؤ میں بدل جائے ،کھیلنے کودنے کی عمر میں فکر معاش ستانے لگے تواس سے بڑی بدنصیبی کیا ہوسکتی ہے؟ہمارے ملک میں بھی بچوں کی زندگی سے بہت سے المیے جڑ گئے ہیں۔ چھوٹی سی عمر میں اداسیاں، محرومیاں ان کے ننھے منے وجود سے چمٹ جاتی ہیں اور ان کی پوری توانائی اور طاقت کو سلب کرلیتی ہیں۔ یہ صورتِ حال بہت تشویشناک ہے۔ ہمیں اِس پر سنجیدگی سے توجہ دینی پڑے گی تاکہ ہم بچو ںکے مستقبل اور ان کے بچپن کو محفوظ رکھ سکیں۔ بچوں کے حقوق، تحفظ نگہداشت اور روشن مستقبل کے لیے ایک مضبوط لائحہ عمل تیار کرنا ہم سب کی ذمے داری ہے اور اس کے لیے پہلا قدم بچوں میں خواندگی کا جذبہ پیدا کرنا، ان کی تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام کرنا اور ان کی ذہنی نفسیات اور ترجیحات کے پیش نظر تعلیمی مواد تیار کرنا ہے۔ اس محاذ پر اگر ہمیں کامیابی مل گئی تو یقینی طور پر یہی بچے ہمارے ملک کی تعمیر و تشکیل بھی کریں گے اور مستقبل کو ایک نیا رنگ بھی دیں گے۔
بچوں کی تعلیم و تربیت پر اس وقت سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ماہرین تعلیم کو آگے آنا ہوگا اور ان کے لیے ایک ایسا نصاب تیار کرنا ہوگا جو ان کے لیے مفید ہو۔ اسی سے جڑا ہوا مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کے لیے کیسا ادب تیار کیا جائے اور ان کی کردار سازی کس طرح کی جائے؟ تفریح کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کس طرح کیا جائے؟ ماضی میں بچوں کے لیے بہترین کہانیاں، نظمیں وغیرہ ہمارے بزرگوں نے لکھی تھیں۔ مولوی اسمٰعیل میرٹھی خاص طور پر بچوں کے ادیب کی حیثیت سے مشہور ہوئے کہ انھوں نے بچو ںکے لیے بہت سی کتابیں تحریر کیں جنھیں پڑھ کر بچوں کے اندر سلیقہ اور شعور پیدا ہوا۔ اسی طرح بعد کے ادیبوں نے بچوں سے دوری نہیں بلکہ قربت اختیار کی اور ان کے لیے بہت کچھ ایسا لکھا جس سے ان کے اندر قومی شعور بیدا ر ہو اور وہ اپنے مستقبل کو روشن کرسکیں۔ مگر اب حالات بدل رہے ہیں، بڑے قلم کار بچوں کے لیے لکھنا کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ گوکہ بچوں کے ادب کا وافر سرمایہ موجود ہے پھر بھی ضرورت ہے کہ ہمارے بڑے قلم کار آج کے بچوں کی ذہنی ضروریات کو سمجھتے ہوئے بچوں کے ادب سے جڑیں کیونکہ ان کے جڑنے سے ہمارے پاس بچوں کے ادب کا بہتر اور عمدہ ذخیرہ ہوگا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ اب ادبِ اطفال پر سنجیدگی سے توجہ دی جانے لگی ہے اور برسوں سے جو ایک جمود سا طاری تھا وہ ٹوٹ رہا ہے۔ ادب اطفال کے حوالے سے سمینار اور سمپوزیم بھی منعقد ہورہے ہیں جن میں ادبِ اطفال کو عصرِ حاضر سے ہم آہنگ کرنے کے حوالے سے معنی خیز گفتگو بھی ہورہی ہے۔ بہت سے ادارے بچوں کے لیے دیدہ زیب، جاذبِ نظر کتابیں بھی شائع کررہے ہیں۔مختلف ریاستوں میں جہاں اس وقت بچوں کے لیے عمدہ کتابیں شائع ہورہی ہیں وہیں اچھے رسائل بھی شائع ہورہے ہیں۔ اس ضمن میں قومی اردو کونسل کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ قومی اردو کونسل نے اپنے سلسلۂ مطبوعات کے تحت بچوں کے لیے کہانیاں، ناول، ڈرامے، سوانحی ادب، سائنسی ادب ، سماجی ادب پر مشتمل کتابیں شائع کی ہیں اور خاص طور پر سائنس اور ماحولیات پر توجہ دی ہے۔ دوسری زبانوںسے ترجمہ شدہ کتابیں بھی قومی اردو کونسل سے شائع ہوئی ہیں۔ بچوں کے لیے کونسل کی جو مطبوعات ہیں وہ یقینا بیش قیمت ہیں اور ان میں عصرحاضر کے بیشتر موضوعات کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ قومی اردو کونسل ماہنامہ ’بچوں کی دنیا‘ بھی شائع کررہی ہے جس میں بچوں کی دلچسپیوں کا بھرپور مواد ہوتا ہے۔ یہ رسالہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیرونِ ممالک میں بھی مقبول ہے۔ اس طرح اور بھی بہت سارے ادارے ہیں جہاں سے بچوں کے لیے بیش قیمت کتابیں شائع ہورہی ہیں۔ پیامِ تعلیم، امنگ، باغیچہ ، گل بوٹے اور روشن ستارے، جیسے رسالے شائع ہورہے ہیں۔ یقینی طور پر بچوں کے ادب پر بہت اچھا کام ہورہا ہے مگر اس وقت ضرورت ہے کہ دنیا کی بڑی زبانوں اور ہندوستان کی علاقائی زبانوں میں لکھے جانے والے ادب اطفال کی سمت و رفتار کا جائزہ لیا جائے اور اس کی روشنی میں اردو میں ادب اطفال کے لیے ایک مربوط لائحہ عمل تیار کیا جائے اور اس کے لیے کل ہند سطح پر ادب اطفال اکادمی کا قیام ضروری ہے، اس سلسلے میں اردو کے تمام ادارے، انجمنیں، اکادمیاں ساتھ ہوں تو یقینی طور پر بچوں کے ادب کے فروغ کے ضمن میں بہتر کام ہوسکے گا۔

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.