ایشیائی ادیبوں،شاعروں مفکروں اورفلسفیوں کے کہکشاں میں رابندرناتھ ٹیگور ایک چمکتے ہوئے ستارے کی مانند ہیں۔ایک ادیب وشاعر کی حیثیت سے ٹیگور بنگالی زبان و ادب کے گوئیٹے مانے جاتے ہیں۔مغرب کی نظر میں وہ ایک غیر معمولی قومی رہنمااور مغرب میں روحانیت کے مشرقی سفیر تھے۔انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اپنے ہم وطنوں کے دل میں دھیرے دھیرے حب الوطنی کا جذبہ پیدا کیا تھا۔اسی لیے گاندھی جی نے انہیں ایک قدآور قومی نگہبان کے مجسمے سے تشبیہ دی ہے۔وہ انسانیت ،آفاقیت اورانسانی اتحاد کے زندمثال تھے۔
ویویکا نند نے ہندوستان کے نشاۃِثانیہ کو خود آگاہ اور جواں سال بنانے اور مغرب و مشرق کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کی تھی تاکہ دونوں ایک دوسرے کو سمجھ سکیں اور ایک دوسرے کی تہذیبی قدروں سے مستفید ہو سکیں۔رابندر ناتھ ٹیگور نے ویویکا نند کے ان دونوں کاموں کو اپنے دیگر پیشرؤں اور ہم عصروں کے مقابلے میں زیادہ پُر زور طریقے سے آگے بڑھایا۔اس اعتبار سے ویویکا نند کو رابندر ناتھ ٹیگور کا پیشرو اور خود رابندر ناتھ ٹیگور کو قدیم و جدید کے درمیان تخلیقی کڑی کہا جا سکتا ہے ۔انہوں نے ادب اور فن کی روشنی میں نشاۃِثانیہ کے اہم پہلوؤں کو آگے بڑھایا اور زندگی کے تمام گوشوںکومشتر کہ فلسفے کی روشنی میں اپنایا جن میں ادب،موسیقی، پینٹنگ،معیشت، سیاست، سماجی اصلاح اور تعلیم اہم ہیں۔ان معاملات میں انہیں اپنے ہم عصروںسے نظریاتی اختلافات تھے تاہم ان تمام چیزوں سے پیشتر وہ لازماً ایک شاعر اور موسیقار تھے۔وہ ایک ڈرامہ نگار، ایک ناول نگار، ایک کہانی کار، ایک اداکار، ایک ما ہرِ تعلیم اور ایک اعلیٰ درجے کے مفکر بھی تھے۔وہ ایک عظیم محبِّ وطن بھی تھے لیکن ان کا جذبۂ حبّ الوطنی لاکھوں ہندوستانیوں سے مختلف تھا۔وہ تعمیری اور سماجی کاموں سے زیادہ جڑے رہے جبکہ دوسروں نے اپنے جذبۂ حب الاوطنی کے اظہار کے لیے نعرہ بازی اور مظاہروں کا سہارا لیا۔اگرچہ ٹیگور نے سیاسی واقعات و حادثات میں تمام عمر پوری دلچسپی لی مگر ذہنی طور پر انہیں سیاست سے نفرت تھی۔اسی لیے وہ کبھی بھی سیاسی تحریکوں سے اپنے آپ کو متحرک طور پر وابستہ نہیں کیا۔البتّہ وہ مختصر عرصے کے لیے تقسیم ہند کے خلاف جو احتجاج کیے جا رہے تھے اس سے جڑے رہے۔
رابندر ناتھ ٹیگور۷مئی ۱۸۶۱ میں اپنے آبائی مکان جوراسنکو(JORASANKO) میں پیدا ہوئے تھے جو کلکتّے میں گنگا کے کنارے واقع ہے۔ٹیگور کا خاندان ٹیگور فیملی کے نام سے مشہور ومعروف تھا جو بیک وقت قدیم وجدید کا سنگم تھا۔کہا جاتا ہے کہ ۸ویں صدی کے وسط میں کنّوج کی راجدھانی سے پانچ برہمنوں کو ہندو سماج کو پاک کرنے کے لیے لایا گیا تھا جسے بدچلن بدہسٹ لا حکومیت نے ناپاک کردیا تھا۔مانا جاتا ہے کہ ٹیگور کے جدِ اول کا نام دَکشا (DAKSHA) تھا۔
ربندر ناتھ ٹیگور کا خاندان قدیم وجدید کا منفرد سنگم تھا۔اس بات کا اندازہ اس سے چلتا ہے کہ ان کے گھر میں ایک طرف اُپنیشدکا مطالعہ ہر روز پابندی سے کیا جاتا تھا اور دوسری جانب اہلِ خانہ ہمیشہ نئے خیالات اور نئی سوچ کے حق میں رہتے تھے جس نے پرانے رسم ورواج کودرکنارکردیا۔دراصل رابندر ناتھ ٹیگورکے والددبندر ناتھ ٹیگوراُپنیشد کے ایک بڑے عالم اور قدیم ہندوستانی تہذیب کے استعارہ تھے۔والد کی تمام علمی اور تہذیبی خوبیاں ورثے کے طور پر بیٹے کے اندر منتقل ہو گئیں۔
قدیم وجدید کے اس خوشگوار سنگم ٹیگور کی فکرکی بنیاد کو پختہ کرنے میں کار آمد ثابت ہوا ۔ماضی کی روشنی میں نئی تہذیب کی تمام خوبیوں کو انہوں نے اپنا یا اور اسے ہندوستانی تہذیب کے سانچے میں ڈھالا۔ٹیگور کی تخلیقات میں شاعری ، موسیقی، کہانیاں ،ناول اور ڈراموں کے علاوہ ان کا قائم کردہ وِشوَبھارتی جیسے علمی اور تہذیبی ادارہ بھی مغرب و مشرق کے خوبصورت امتزاج کا بہترین نمونہ ہے جو آج بھی اپنی معنویت اور محبوبیت کے اعتبار سے بے مثال ہے۔ٹیگور قدیم ہندوستان کے رشیوںاورمنیوں کے نقشِ قدم پر چلتے رہے لیکن اپنا ذہن ہمیشہ کھلا رکھا اور مغرب کی اچھائیوں سے فیضیاب ہو نے کی ترغیب دیتے رہے۔اس لیے انہیں اگر جدید رشی سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہیں ہو گا۔
رابندر ناتھ ٹیگور کا دور ہندوستان کی تاریخ کا عظیم الشان دور تھا ۔اُس دور کی اہمیت اس اعتبار سے اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ اس دور میں تین بڑی انقلابی تحریکیں ایک ساتھ چلائی جا رہی تھیں جن میں پہلی تحریک ـ’’برہموں سماج ‘‘کی تحریک تھی جس کے بانی راجہ رام موہن رائے تھے۔دوسری تحریک ’’قومی تحریک ‘‘تھی جس کا مقصد تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان تیزی سے پھیلتے ہوئے اس رجحان کی مخالفت کرنا تھی جس سے متاثر ہو کر ماضی کی قدروں کو ترک کیا جا رہا تھا۔اس تحریک کے ذریعے عوام سے اپنے سوچ میں توازن پیدا کرنے اور ماضی کی قدروں کو بغیر سوچے سمجھے ترک نہ کرنے کے لیے اپیل کی جاتی تھی کیوں کہ صحیح معنوں میں ماضی اپنے دامن میں کچھ ایسی قدریں سمیٹے ہوئے رہتی ہے جو لازوال ہوتی ہیں۔اس تحریک سے متاثر ہو کر ٹیگور نے کہا تھا کہ ہمیں اپنی عقل و فکرسے اپنی دنیا تخلیق کرنی چاہئے۔اس کے لیے ہمیں ایسی بنیاد پر اپنی مثالی دنیا کی تخلیق کرنی ہو گی جو بے حد مضبوط ہو۔اور ایسی بنیاد کوئی اور نہیں بلکہ ہندوستان کی شاندار ماضی ہے ۔ تیسری سب سے اہم تحریک اصلاحِ زبان و ادب کی تحریک تھی جوبنکم چندرچٹرجی (Bankim Chandra Chatterjee) کے ذریعے چلائی جا رہی تھی۔اس تحریک نے بنگالی ادب میںقدیم مرصع و مسجع اسلوب اور مشکل اورثقیل ہیئت کو ترک کرکے آسان ،سادہ اور سلیس اسلوب ایجاد کیااور جدید جہت اور ہیئت سے روشناس کرا کر ادبی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔را بندر ناتھ ٹیگور نے بھی بنکم چندر چٹرجی کے اس تحریک سے متاثر ہو کر نہ صرف نثر و نظم کی ہیئت ا ور اسلوب میں نت نئے کامیاب تجربے کیے بلکہ بنگالی نظم و نثر میںنشاۃِثانیہ کا آغاز کیا۔
رابندر ناتھ ٹیگور سات سال کی عمر سے اسکول جانے لگے تھے لیکن اسکول کا ماحول اور طالب علمی کا وہ زمانہ ان کے لیے خوشگوار نہیں تھالہٰذا انہوں نے اسکول میں شرارتیں بھی کی اور اسکول سے کلاس چھوڑ کر بھاگتے بھی رہے۔اسکولی زمانے کی تمام ناخوشگوار یادوں نے انہیں اپنے بچوںاور دوسرے بچوں کی تعلیم کے لیے ایک ایسے اسکول قائم کرنے پر مجبور کر دیا جس کا طرز تعلیم اور ماحول خوشگوار اور منفرد ہو۔لہٰذا انہوں نے ۲۲ دسمبر ۱۹۰۱ میں شانتی نیکیتن میں ایک آشرم قائم کیا جس کا نام ’’برہم چریہ آشرم‘‘ رکھا گیا۔اس آشرم کو قائم کرنے کا مقصد خوشگوار ماحول میں طالب علموں کو تعلیم دینے کے علاوہ ان کے دماغ کو ایسے خیالات اور سوچ سے بھر نا تھا کہ انسان،انسانوں کی دنیا میں پیدا ہوا ہے لہٰذا ہماری زندگی اور دنیا کے تمام انسانوں کی زندگی کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے۔اسی لیے آگے چل کراس ادارے کو آفاقی سطح پر شہرت اور مقبولیت نصیب ہوئی۔
والدہ کے انتقال کے بعد رابندر ناتھ ٹیگور کی تعلیم وتربیت ان کے بڑے بھائی جوتی رندرا ٹیگور اور بھابھی کادمبنی نے کی۔بڑے بھائی اور بھابھی کی بے انتہا محبت اور بہترین تربیت نے ان میں فرشتہ جیسی صفت پیدا کی اور ان کے اندر چھپے ہوئے شاعرانہ وموسیقانہ جوہر کو پہچاننے اور پھر اسے بروئے کار لانے میں مدد کی۔اس بات کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے صرف ۱۴ سال کی ہی عمر میں اپنی پہلی طویل بیانیہ نظم لکھی تھی جو ۱۶۰۰ مصرعوں پر مشتمل تھی۔اس کے بعد انہوں نے کبھی بھی پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا اور اپنی طویل زندگی کو شاعری اور موسیقی، ڈرامہ ، ناول اور کہانیوں کی تخلیق کے لیے وقف کر دیا ۔ تخلیقی زندگی کے پہلے سال کی چند تخلیقات شائع نہیں ہو سکیں لیکن ان کی طویل اور متحرک زندگی میں جو تخلیقات منظر عام پر آئیں ان میں ان کی نظمیہ شاعری کے مجموعوں کی تعداد ۲۵ ہیںجبکہ ناولوں کی تعداد ۵، ڈراموں کی تعداد ۱۵ اور مضامین کے مجموعوں کی تعداد۵ہے۔انہوں نے اپنی تخلیقات بنگالی اور انگریزی میں ہی لکھی لیکن عالمی سطح پر ان کی تخلیقات نے مقبولیت ومحبوبیت حاصل کی جس کی وجہ سے دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں ان کے ترجمے کرائے گئے ۔ ان تخلیقات میں’’ گیتانجلی ‘‘ قابل ذکر ہے جس کی بدولت انہیں ’’نوبل انعام‘‘ سے نوازا گیا۔ ان کی پوری زندگی میں جو تخلیقات شائع ہوئیں ان کی کُل تعداد ۶۷ ہے۔ان کے انتقال کے بعد جو کتابیں شائع ہوئیں ان کی تعد ۱۸ ہے۔ان کی کتابیں جو بہت مشہور ہوئیں ان میں گیتانجلی کے علاوہ TheGardener,Crescent Moon,The Fruit Gathering,Lover’s Gift and Crossing وغیرہ خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ شاعری میں Glimpses of Bangal Life اور Hungry Stones اور دوسری کہانیاں جیسے’’ ماسی‘‘ وغیرہ بہت مشہور ہوئیں۔ان کے ڈراموں میں چترا، The King of the Dark Chamber,The Post Office, اور The Cycle of the Springs وغیرہ بہت مشہور ہیں۔ان کے ناولوں میں The Home and the World,Gora, اورThe Wreck وغیرہ بے حد مقبول و مشہور ہیں۔ان تمام تخلیقات کے علاوہ لندن اور Oxford میں دیئے گئے ان کے خطبات بھی قابلِ ذکر ہیں جن میںMy Reminiscences, Nationalism, Nationalism,Creative Unity,The Religion of Man اورCrisis of Civilization وغیرہ بہت مشہور ہیں۔
رابندر ناتھ ٹیگور کی تخلیقات کی بنیادی خصوصیات وہ ہیں جن میں انہوں نے انسانی ہمدردی کی بات کی ہے جو انسانی روح پر خوشگوار اور گہرا اثر ڈالتی ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر انہیں پسندیدگی کی نظر دیکھی گئی اور انہیں آفاقی شہرت بھی حاصل ہوئی اس کے باوجود کہ ان کی تخلیقات ہندوستانی عناصرکی بھینی بھینی خوشبو اور ابتدا تا آخر قومی جذبے سے سرشار ہیں کیوں کہ یہ خالص ہندوستانی نشاۃِ ثانیہ کی پیداوار ہیں۔ٹیگور نے اپنے ناولوں اور ڈراموں کے جو کردار خلق کیے ہیںوہ انتہائی معمولی درجے کے عام انسان ہیں لیکن ان کے ہرکات و سکنات، غموں اور خوشیوں سے غیر معمولی بصیرت کا انعکاس ہوتا ہے۔
رابندر ناتھ ٹیگور کی شاعری جن چیزوںسے سب سے زیاد ہ اثر انداز ہوئی ان میں اپنیشد اور بدھ مذہب کا گہرامطالعہ خاص ہے جس نے ان کی شاعری میں اس فلسفے کو جنم دیاجس میں کہا گیا ہے کہ اپنی روح میں اتنی وسعت پیدا کروکہ دنیا کے تمام انسان اس میں سما جائیںکیوں کہ دنیا کے تمام انسانوں میں جو بنیادی جوہر ہے وہ صرف روح ہے۔ Quantam Physics نے تو اب یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہر مادے میں جو چیز قدر مشترک ہے وہ جوہر ہے ۔اس لیے کائنات میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس سے انسانی رشتے قائم نہ ہو سکیں اسی لیے فارسی کے ایک شاعر مرزا عبدالقادر بیدل نے کہا ہے
دل اگر می داشت وسعت بے نشاں بود ایں چمن
رنگِ مے بیروں نشست از بسکہ مینا تنگ بود
(اگر دل میں کچھ گنجائش ہوتی تو اس باغ یعنی دنیا کا نشان بھی نہ ملتا۔مینا کے تنگ ہونے کی وجہ سے شراب کا رنگ باہر رہ گیا۔شراب کا رنگ استعارہ ہے دنیا کی رونق کے لیے اورمینا سے اپنے دل کو تشبیہ دی ہے )
’’ اتحاد ِ زندگی ‘‘(Oneness)کے تصور کو انہوں نے اپنی تخلیق اور فکر کی بنیاد بنا یاکیوں کہ انہوں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ انسان اور فطرتNature) ( کے درمیان ایک قریبی رشتہ ہے۔ اس کا اظہار انہوں نے اپنی ایک نظم میں بھی کیا ہے۔نظم کا یہ حصہ ملاحظہ کیجئے
My heart is full, full of joy, no one is out side,all are within my heart.
ایک دوسری نظم میں وہ کہتے ہیں
Come brothers, come, plunge into this stream of life,to be carried away with the world current in company with the sun, moon and stars.
دراصل ان کی نظموں سے ظاہرہوتا ہے کہ وہ نہ صرف انسان اور کائناتِ فطرت کے گہرے اتحاد کو شدت سے محسوس کرتے تھے بلکہ انسان اور خالق کائنات کے درمیان بھی گہرے اتحاد کو محسوس کرتے تھے۔’’ اتحاد زندگی‘‘ کے تصور سے شاعر کا یہ اعتقاد اُبھرتا ہے کہ تمام زندگی ایک ہے کیوں کہ خدا بھی ایک ہے ۔اس لیے انسان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو خدا کا جز سمجھے۔
رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنی تخلیقات میں روشنی کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے کیوں کہ روشنی ان کے یہاں علم و آگہی کی علامت ہے۔ وہ اپنے ادراک و آگہی کی پختگی اور تصور کی بلند پروازی کے لیے دعا مانگتے تھے۔
“They stand with uplifted eyes thirsty after light, lead them to light My Lord.” (The Times of India,The speaking Tree)
رابندر ناتھ ٹیگور کی نظم کا یہ ٹکڑا بھی ملاحظہ کیجئے
Light my light, the world filling light, the eye kissing light, heart sweetening light.” ـ” (The Times of India,The speaking Tree)
رابندر ناتھ ٹیگور کے فلسفے کا محر ک سورج بھی ہے۔ان کے یہاں روحانی حقیقت کا ادراک سورج کی شعاعوںکے ذریعہ ہوا ہے۔انہوں نے لکھا ہے
“One day while I stood watching at early dawn the Sun sending out its rays from behind the trees, I suddenly felt as if some ancient mist had in a moment lifted from my sight and the morning light on the face of the world revealed an inner radiance of joy.The invisible screen of the common place was removed from all things and all of mankind and this ultimate significance was intensified in my mind and this is the definition of beauty.” (The Times of India, Soma Chakravarty , speaking tree)
رابندر ناتھ ٹیگور کا مندرجہ بالا انگریزی عبارت میں روشنی کی اہمیت اور افادیت پر زور دیا گیا ہے کیوں کہ یہ وہ روشنی ہے جس سے آنکھوں پر پڑے ہوے قدیم دھند اور عام جگہوں کی ظلمت ختم ہو جاتی ہیں اور دل ودماغ منور ہو جا تے ہیں جس کی وجہ سے معنی و مفہوم اور ادراک کااحساس شدت کے ساتھ ہوتا ہے جو حسن کی صحیح تعریف ہے۔فراق گورکھ پوری نے اپنے کسی مضمون میں لکھا ہے کہ کسی بھی شے کو دیکھ کر احساس کی شدّت جتنی زیادہ تیز ہو گی وہ شے اتنی ہی زیادہ خوبصورت نظر آئے گی۔بہر حال ٹیگور کے مندرجہ بالا عبارت میں آنکھوں پر پڑے قدیم دھند اور ظلمت کے پردے جاہلیت کی علامت ہے جبکہ نور یا روشنی عقل و آگہی کی علامت ہے لیکن ان دونوں میں گہری معنویت اور فلسفہ بھی چھپا ہوا ہے جسے اشراقی فلسفے کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔اس فلسفے کے مطابق نور وظلمت دو الگ چیزیں نہیں ہیں اور نہ یہ دو نوں مختلف قائم بالذات ماخذ سے ظہور میں آئی ہیں۔واضح رہے کہ قدیم ایرانی فلسفی زرتشی کے پیروکاروں کا خیال تھا کہ نورو ظلمت کے دو مستقل ماخذ ہیں۔دراصل زرتشی مسلک کے ماننے والے ثنویت پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے اس لیے ان کا یہ خیال تھا کہ ایک سے صرف ایک ہی صادر ہو سکتا ہے۔اسی بنیا د پر انہوں نے نوروظلمت کے دو مختلف ماخذ قرار دیئے تھے جسے بعد میں اشراقی فلسفیوں نے اسے بے بنیاد بتایا جو صحیح ہے۔اشراقیوں کا کہنا تھا کہ نور کے اثبات میں ہی ظلمت کی نفی پوشیدہ ہے۔دراصل نور خود کو قائم رکھنے کے لیے ظلمت کو منور کر دیتا ہے۔ٹیگور نے اپنے اقتباس میں جس نور کی بات کی ہے وہ در اصل’’نور مجرد‘‘ یعنی ’’عقل کلی‘‘ ہے۔ایک مادی جسم ظلمت اور نامعلوم جوہر کا مرکب ہے جس کو’’ نور مجرد‘‘ منور کر دیتا ہے۔ اس سلسلے میں اشراقی فلسفیوں کا خیال ہے کہ
’’انفرادی عقل یا جسے روح بھی کہا جا تا ہے نور اول کی ایک دھندلی سی تصویر یا عکس بعید ہے ۔نور مجرد خود کو بالذات جانتا ہے اور کسی’’ غیر انا ‘‘ کا پابند نہیں ہوتا جو اس کے وجود کو منکشف کر سکے۔شعور یا علم ذات نور مجرد کا جوہر ہے۔یہی نور مجرد کو نفی ٔ نور سے متمیز کرتا ہے۔‘‘
ٹیگور نے کہا تھا کہ خدا کے متعلق معلومات حاصل کرنا اور اپنے وجود کوخدا کا جز سمجھنا ہی انسان کا اصل اور آخری مقصد ہو نا چاہئے ۔ اس عظیم مقصد کو دنیاوی مقاصد کا زائدہ نہیں سمجھناچاہئے۔ٹیگورنے اپنی نظموں میں لوگوں سے اپیل کی ہے کہ خدمت خلق اورعشق خلق کے ذریعے خدا کے سامنے اپنے آپ کوسپرد کردیں۔ اسلامی نظرئے کے مطابق بھی عبادت کا مطلب ہے خدا کے سامنے اپنے آپ کو سپرد کرنا اور خدا کے سامنے خود سپردگی سے مراد ہے کہ انسان کے جسم کا ہر جز اوراس کے علاوہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ خدا کے مخلوق کی خدمت کے لیے وقف ہو۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری لا محدود اور غیر فانی خوشیاں قوم و ملک اور انسانیت کی خدمت میں مضمر ہیں۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے بھی اپنی نظموںمیں جا بجا یہ کہا ہے کہ ایک انسان کی زندگی تکالیف سے بھر جائیگی اگر وہ مادی دنیاکی آرزؤںسے اپنے آپ کو الگ نہ کرلے۔صوفیا کرام کا بھی یہی خیال ہے کہ انسان جب مادی دنیا کی تمام آرزؤں سے بیگانہ ہو جائے تو وہ تمام غموں سے نجات پا لیتا ہے۔ دراصل ٹیگور اپنی تخلیقات میںدنیا وی چیزوں کو حاصل کرنے کی آرزو ٔں کو ترک کرنے کا پیغام دیاہے ۔ان کی تصانیف سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ صرف اپنے ملک اور اپنی سر زمین سے محبت کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ صرف اپنے ملک کا شہری نہیں بلکہ پوری کائنات کا شہری ہے اس لیے اسے پوری کائنات سے اتنی ہی محبت کرنی چاہئے جتنی کہ وہ اپنے ملک اور اپنی سر زمین سے کرتا ہے۔آفاقیت یا پوری دنیا کے لیے اتحاد کے فلسفے کے ذریعے انہوں نے ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھا تھا جو انسانی استحصال اور کمزور ملک پرطاقتور ملک کے غلبے سے پاک صاف ہو۔
اپنیشد اور بدھ مذہب کی تعلیمات کے بعد ویشنَو مت کا بھی ان کی شاعری پر گہرا اثر ہے۔ان کی شاعری میں جو سوز و گداز کی کیفیت اور بے پناہ محبت کا جذبہ پایا جاتا ہے وہ وَیشنَو مت کی دین ہے۔ کبیر کی تعلیمات اوران کے فلسفے کا اثر بھی ان کی شاعری پر پڑا تھا جس کی وجہ سے انہوںنے اسلام اور ہندو مذہب میںدر آئے سخت رویّے کی مخالفت کی تھی۔ ان سب کے علاوہ ان کی شاعری کو ’’بال سنگیت’’Baul songs‘‘ میں پائی جانے والی سادگی، فکر میں گہرائی اوردرد سے بھری آوازنے بھی بے حد متاثر کیا۔بال سنگیت دراصل بنگال کے گاؤں گاؤں میں گھوم گھوم کر گائے جانے والی وہ علاقائی سنگیت ہے جو انسانی ہمدردی اور آپسی محبت کا درس دیتا ہے۔اس سنگیت سے جو پیغام ملتا ہے اس کے مطابق خدا انسان کے دل میں رہتا ہے اس لیے رابندر ناتھ ٹیگور کا ماننا ہے کہ انسانوں سے نفرت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انسان ہی وہ اصل خدا ہے جو محبت اور خدمت کیے جانے کے لائق ہے۔متذکرہ تمام اثرات نے انسانی تاریخ یعنی انسانی کائنات کی تخلیق کی تاریخ کے تئیں عزت اور محبت کے جذبے سے ٹیگور کو سرشار کردیا۔
انگریزوں کی آزادہ روی نے بھی رابندرناتھ ٹیگور کو بے حد متاثر کیا تھا۔وہ یوروپ کے اعلیٰ تمدن اور بے شمار سائنسی ترقی کی تحسین کرتے تھے۔انگریزوں کے ذریعے لائی ہوئی نئی تہذیب اور نئے علوم و فنون سے مستفید ہونے کی ترغیب دیتے تھے۔انگریز مصنفوں خاص کر ورڈسورتھ اوراور شیلیؔجیسے شاعروں کی تخلیقات بھی انہیں پسند تھیں کیوں کہ ان میں انسانی محبت، انصاف اور انسان کی آزادی جیسے موضوعات سب سے زیا دہ نمایاں ہیں۔انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ
“When I was young we were all full of admiration for Europ, with its high civilization and its vast scientific progress,and especially for England which had brought this knowledge to our doors. We had come to know England through her glorious literature, which had brought a new inspiration into our young lives.The English authors,whose books and poems we studied, were full of love for humanity, justice and freedom.This great literary tradition had come down to us from the revolution period. We felt its power in Wordsworth’s sonnets about humen liberty.We gloried in it even in the immature productions of Shelley…..All this fired our youthful imaginations.We belived with all our simple faith that even if we rebelled against forign rule, we should have the sympathy of the west.”
ر اجہ رام موہن رائے اور برہمو سماج کی تعلیمات نے بھی ان کو متاثر کیا تھا۔ان دونوں تعلیمات کے زیرِاثران کے خیالات اور فکر میں وسعت پیدا ہوئی اورانہوں نے مغربی تہذیب کی اچھائیوں کو اپنانا ضروری سمجھا۔
۱۹ویں صدی کے آخر تک رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنے آپ کو ادب کے لیے وقف کر دیا تھا۔سماجی اور سیاسی تقاضے اور ان سے جڑے سوالات نے انہیں اپنی طرف بہت زیادہ متوجہ نہیں کیا لیکن انیسویں صدی کے خاتمے کے بعد انہوں نے اپنے ادبی کاموں کو بہت حد تک کم کرکے دھیرے دھیرے قومی رہنما کا رول ادا کرنے لگے۔
آخر میں یہ کہا جاسکتا ہت کہ رابندر ناتھ ٹیگور صرف ایک ادبی اورسماجی شخصیت کے مالک نہیں تھے بلکہ وہ ایک محب و طن بھی تھے۔وہ کبھی بھی سیاست داں نہیںرہے لیکن وہ ایک سیاسی مفکر ضرور تھے۔انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ہمارے سماجی تنظیم میںفرد کو ذات پات کے بنا پر نظر انداز کرکے ہندوستان اپنی آزادی کھو چکا ہے۔اس لیے انہوں نے ہمیشہ قومی فلاح و بہبود کے لیے مختلف طرح کی خدمات کی ضرورت پر زور دیا تھا۔انہوں نے اپنے ملک سے بے پناہ محبت کی جس کا انعکاس ان کی کئی نظموں میںموجودہے۔ان کی مشہورنظم ’’ جَنَ گَنَ من ادھینا یک … ‘‘ قومی ترانہ بنی۔ان کی حب الوطنی الگ نوعیت کی ہے۔انسانیت کے لیے ان کے دل میں محبت کا جو جذبہ تھا اس نے انہیں اپنے ملک و قوم سے بھی محبت کرنا سکھایا اور ساتھ ہی پوری دنیا میں امن پیدا کرنے کاجزبہ بھی ان کے اندر پیدا کیا۔اس طرح وہ انسانیت کے پیغامبر بنے۔انسان اور انسان کے درمیان بہتر مفاہمت کے لیے انہوں نے عوام کے اندر استعداد پیدا کرکے انسانیت کی خدمت کرنے کی کوشش کی۔وہ ہندوستان میں سماج کے مختلف نسلوں کو مدغم کرنے کے ساتھ ساتھ مغرب ومشرق کو بھی متحد کرنا چاہتے تھے ۔انسانی اتحاد ان کی زندگی کا آخری مقصد تھا۔آپسی مفاہمت اور تعاون کے زریعے دنیا بھر میں نوعِ انسان کی اتحاد کی کوشش اور انسان کی قدروعظمت کے اعتراف پر زور دے کر انہوں نے انسانیت کی بہت بڑی خدمت کی۔یہی وجہ ہے کہ وہ صرف ایک شاعر اور ادبی شخصیت کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ ایک انسان دوست کی حیثیت سے پوری دنیا میں مشہور ہوئے۔