July 7, 2023

سائنسی اور صوفیانہ فکریات کا شاعر:صبا ؔاکبر آبادی

صبا ؔ اکبرآبادی کا تعلق اس سرزمین سے ہے جہاں کی مٹّی فنونِ لطیفہ کے لئے زرخیز مانی جاتی ہے۔یہ وہی سرزمین ہے جس نے فنِ تعمیر کی بہترین اور لاثانی مثال تاج محل اور فنِ شاعری کی بے نظیر مثال غزلیات غالب دنیا کے سامنے پیش کی جا سکتی ہے۔ تاج محل اگر دنیا کا ساتواں عجوبہ ہے تو’’ دیوانِ غالب‘‘بقول بجنوری ایک الہامی کتاب ہے۔

اسی مٹّی سے میر تقی میرؔ اور عوامی شاعری کا بلند مرتبت شاعر نظیرؔ اکبر آبادی کا بھی تعلق تھا۔میرؔ، غالبؔ اور نظیرؔ کے علاوہ سیمابؔ اکبر آبادی، میکشؔ اکبر آبادی،اخضرؔ اکبرآبادی، صباؔ اکبرآبادی، مغیث الدین فریدیؔ،معین فریدیؔ اور موجودہ دور میں اسرارؔ اکبرآبادی اور خلشؔ اکبرآبادی وغیرہ شعرا کا تعلق بھی آگرہ کی ہی سرزمین سے ہے۔

ان شعر ا کی اپنی ایک الگ پہچان ہے لیکن صباؔ اکبر آبادی کی بات ہی کچھ اور ہے۔صباؔ ۱۹۰۸ء میں پیدا ہوئے اور دس سال کی عمر یعنی ۱۹۱۸ء سے شعر کہنا شروع کردیا تھا اور ۱۹۲۰ء یعنی ۱۲ سال کی عمر سے مختلف رسالوںمیں ان کا کلام شائع ہونے لگا تھا ۔ صباؔ اکبر آبادی بنیادی طورپر غزل کے شاعر تھے لیکن انہوں نے حمد و نعت، مرثیے، تضمین اور رباعیوں کا ترجمہ رباعی کے فارم میں کر کے ایک قادرالکلام شاعر کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی۔ صباؔ کی سب سے پہلے شائع ہونے والی تخلیق حمدونعت اور سلام کا مجموعہ ’’ذکروفکر ‘‘ ہے جو ۱۹۳۸میںشائع ہوئی۔اس کے بعد نظموں کا مجموعہ ’’زمزمۂ پاکستان‘‘۱۹۴۶ میں شائع ہوا۔غزلوں کے تین مجموعے ’’اوراق گل‘‘، ’’چراغِ بہار‘‘ اور ’’ ثبات ‘‘ شائع ہوئے۔مرثیوں کے بھی تین مجموعے ’’سر بکف‘‘ ، ’’ شہادت‘‘ اور’’خونناب‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔اس کے علاوہ غالب کی تمام فارسی رباعیات کا ترجمہ ’’ہم کلام‘‘ اور عمر خیام کی بارہ سو رباعیات میں سے صرف سو رباعیوںکا ترجمہ ’’ دست زرفشاں‘‘ کے عنوان سے شائع ہو چکے ہیں۔غالب کے مکمل دیوان کی تضمین بھی صباؔ نے کی ہے لیکن وہ بھی عمر خیام کی گیارہ سو رباعیات کی طرح ابھی تک غیر مطبوعہ ہے۔

صباؔ اکبر آبادی کا تخلیقی سفر ۱۹۱۸ سے شروع ہوا اور مختلف رسائل اور جرائد میںچھپنے کا سلسلہ مئی ۱۹۹۱ تک جاری رہا۔ اس طویل عرصے میں بے شمار غزلیں ایسی بھی تھیں جو رسالوں میں تو شائع ہوئیں لیکن ان کی غزلوں کے مجموعوں میں شامل نہ ہو سکیں۔ صباؔ کا زیرِ نظرمجموعہ کلام ’’میرے حصے کی روشنی ‘‘ انہیں غزلیات پر مشتمل ہے۔’’میرے حصے کی روشنی‘‘ان کے باقی تینوں غزلیہ مجموعوں کا Trailer ہے جسے پڑھ کر ان کے تمام غزلیہ سرمائے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اس اعتبار سے اس مجموعۂ کلام کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

صباؔ اکبرآبادی کی شاعری پر بے شمار ادیبوں، شاعروں اور ناقدوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جن میں ڈاکٹر جمیل جالبی، مجنوں گورکھ پوری، پروفیسر قرار حسین ،پروفیسر سیّد موسیٰ رضا کے نام اہم ہیں ۔لیکن ان تمام حضرات نے ان کی شاعری کے صرف ایک پہلو کو موضوع بحث بنایا ہے کہ صباؔ اکبر آبادی ایک ایسے شاعر تھے جنہوں نے غزل کی روایت کو برقرار رکھا اور غزل کی قدیم روایت کو آگے بڑھایا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے ’’ثبات‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے 

’’صباؔ صاحب نے اردو غزل کی تاریخ میں جو کچھ کیاہے وہ اردو غزل کی روایت سے پوری طرح وابستہ رہ کر کیا ہے۔انہوں نے بعض شاعروں کی طرح روایت سے دامن بچانے کی کوشش نہیں کی بلکہ روایت میں عصر حاضر کے مزاج کو شامل کر کے اسے بدلا بھی ہے اور وسیع بھی کیا ہے۔اس میں نئی حسیت کو سمویا بھی ہے اور اپنے تجر بات اور مشاہدات کا اظہار بھی کیا ہے۔اسی لئے صبا صاحب کی غزل ایک با شعور شاعر کے جذبات کا زندہ اظہار ہے اور اسی لئے ان کے شعرہمارے دلوں کی ترجمانی کر کے ہمیں متاثر کرتے ہیں۔ان کی غزلوں میں ماضی بھی محفوظ ہے اور حال بھی لیکن حال ماضی بن کر نہیں بلکہ ماضی حال بن کرمحفوظ ہے۔‘‘

ڈاکٹر جمیل جالبی نے مندرجہ بالا عبارت میں جو کچھ کہا وہ درست سہی لیکن اس طرح کے بیانات کسی بھی شاعر کے لئے دیئے جا سکتے ہیں کیوں کہ شاید ہی کوئی غزل کا شاعر ہو جس نے غزل کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے شاعری نہ کی ہو اور اگر کسی نے غزل کی روایت سے ہٹ کر غزل کہنے کی کوشش کی ہے تو ان کا لہجہ اکھڑ گیا ہے اور غزل کی تمام تر شیرینی ختم ہو گئی ہے مثال کے طور پر مولانا حالی کی ان غزلوں کو دیکھ سکتے ہیں جہاں انہوں نے غزل کی روایت سے انحراف کرنے کی کوشش کی ہے وہاں ان کا لہجہ اکھڑ گیا ہے لیکن جن غزلوں میں غزل کی روایت کو برقرار رکھا ہے وہ غزلیںپر لطف ہیں۔علامہ اقبال ؔنے اپنی نظموں اور غزلوں میں روایت سے کوئی انحراف نہیں کیا ہے پھر بھی وہ بیک وقت اردو کے عظیم غزل گو اور نظم نگار ہیں۔اسی طرح ناصر کاظمی نے غزل کی روایت سے کوئی انحراف نہیں کیالیکن غزل کے بڑے شاعروں میںان کا شمار ہوتا ہے بلکہ جدید غزل کے پیش رو کہلاتے ہیں۔

ڈاکٹرجمیل جالبی نے روایت کے علاوہ غزل میںنئی حسیت اور تجربات و مشاہدات کے اظہار کی بات بھی کی ہے ۔یہ بھی ہر شاعر کے لئے کہا جا سکتا ہے۔

اسی طرح مجنوں گورکھپوری نے ایک جگہ لکھا ہے 

’’ صبا اکبر آبادی کی غزل میں ہمیں ان کی شخصیت ، تجربے، اور زمانے کی روح بھری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔اور غزل کے حوالے سے صباؔ کی شخصیت کو دیکھیں تو تہذیب کے تمام عناصرصبا ؔکی ذات میں مجتمع نظر آئیں گے۔صبا اکبرآبادی کی شاعری میں تغزل کے ساتھ خوبصورت زبان اور تازگی بھی ملتی ہے۔عصر موجود کا شعور بھی اور مستقبل کا امکان بھی۔یعنی اگر یہ کہا جائے تو شاید میرا بیان مکمل ہو کہ صباؔصاحب کی شخصیت Infinite Past یعنی لامتناہی ماضی کی روح اور اس کی سب خوبیوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے اور سموئے اور ساتھ ہی اپنے دور کی خصوصیت اور عصر موجود کی روح کو بھی سمیٹے ہوئے اور سب کو ایک آہنگ یعنی Harmony بنائے ہوئے ہے۔‘‘

صبا صاحب کی غزلوں پراظہار خیال کرتے ہوئے مجنوں گورکھپوری نے جو کچھ کہا ہے اس طر ح کی باتیں میر تقی میرؔ سے لے کر آج تک کے شعرا کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے نہ جانے کتنے ناقدوںنے کہی ہیں لیکن مجنوںگورکھپوری کے کہنے کا اندازدلچسپ معلوم ہوتا ہے۔ویسے انہوں نے بھی صباؔ صاحب کی شاعری پر ایک سرسری نظرڈالتے ہوئے ایک عام سی بات کہہ دی ہے۔

پروفیسرکرار حسین نے اپنے مضمون ’’ایک سچّا شاعر‘‘ میں لکھتے ہیں

’’صبا صاحب نے زنداں، صحرا، بہار، خزاں ،قفس، آشیاں، بلبل، گُل و خار،ساقی، میخانہ، حسن ، عشق ، جنون، گریباں۔غرض غزل کی روایتی علامتوں سے کام لے کرآپ بیتی گو جگ بیتی بنایا ہے۔روایتی علامتوں کے استعمال پرکسی صاحب کو ’’گُل و بلبل‘‘ کی شاعری کہہ کر ناک بھون چڑھانے کی ضرورت نہیں۔آج کل روایت کے نام سے ایک چڑھ سی ہو گئی ہے اور جدّت بہر نوع ایک مستحسن صنف شمار کی جاتی ہے۔لیکن ایک جدّت قدرتی ہوتی ہے جو اپنے عہد سے قوّتِ نمو حاصل کرتی ہے اور ایک مصنوعی جڈّت ہوتی ہے۔صباصاحب روایت کے تسلسل کے ساتھ جب شاعری میں آگے کا سفر کرتے ہیں اور اپنے عہد کا المیہ بیان کرتے ہیں تو جیسا کہ میں نے کہا کہ ان کی شاعری اعلیٰ شاعری کی طرح جدید اور قدیم کی تقسیم سے بے نیاز ہوکرسچّی شاعری کے منصب پر نظر آتی ہے۔‘‘

پروفیسرکرار حسین کی مندرجہ بالا عبارت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی صباؔ صاحب کی شاعری میں پائی جانے والی غزل کی روایت سے خوف زدہ ہیںاور غزل کی روایت کی حمایت میں دفاعی طریق کار اپنا رہے ہیں۔

مجھے حیرت کہ صباؔ اکبر آبادی کے ناقدوں میںسے کسی نے بھی ان کی شاعری کی ان پہلوؤں پر روشنی نہیں ڈالی ہے جن میں وہ فکرا ور فلسفے کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں۔صبا اکبرآبادی کی زیرِ بحث مجموعۂ کلام کا نام ’’ مرے حصّے کی روشنی‘‘ گہرے فلسفے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔یہ نام جس شعر سے ماخوذ ہے وہ یہ ہے

طے کرچکی سفر مرے حصے کی روشنی

اِس شمعِ انجمن سے چراغ مزار تک

شاعر نے اس شعر میں ’’مرے حصے کی روشنی‘‘ اور ’’شمعِ انجمن‘‘ کہہ کر اس کائنات اور کائنات کے تمام موجودات کے وجود میں آنے اور ایک خاص مدت تک زندہ رہنے اور دوسرے اشیاء کو زندہ رکھنے کا جو فلسفہ ہے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔دراصل اشراقی فلسفے کے مطابق موجوداتِ کائنات کی حرکات کا مبدا نورِ اوّل (یا نورِ قاہر) ہے۔حرکات سے مراد تبدیلیٔ مقام نہیں بلکہ حرکات کا سبب منوّر کرنے کی خواہش ہے جو نورِ اوّل کا جوہر بھی ہے۔یہی وہ خواہش ہے جس کی بدولت نور چاروں طرف پھیل جاتا ہے اور اپنی شعاعوں کو تمام موجودات پر ڈال کر ان میں زندگی کی روح پھونک دیتا ہے اور اس سے جو تجلّیات پیدا ہوتی ہیں ان کی تعداد لا محدود ہوتی ہے۔ان تجلیات میں جن کی روشنی شدید ہوتی ہے وہ دوسری تجلیات کا سرچشمہ بن جاتی ہیں جس سے آہستہ آہستہ ان کی روشنی میں کمی آنے لگتی ہے یہاں تک کہ ان میں دوسری تجلّیوں کو پیدا کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ اپنا وجود بھی کھو دیتی ہیں۔اس طرح ایک تجلّی اپنا وجود کھوتی ہے تو بے شمار تجلّیاں دوسری تجلّیوں کا سرچشمہ بن جاتی ہیں۔یہ سلسلہ ہمیشہ قائم رہتا ہے۔یہ تمام تجلّیات ایسے ذرائع ہیں جن کے وسیلے سے نورِ اوّل وجود کے بے شمار اقسام کو حیات و قیام بخش دیتا ہے۔

صبا اکبر آبادی نے مندرجہ بالا شعر میں جس روشنی کے سفر کرچکنے کی بات کہی ہے وہ دراصل وہی روشنی ہے جو دوسری تجلیوں کا سرچشمہ بننے کے بعد خود اپنی روشنی اور اپنا وجود کھو دیتی ہے۔

صباؔ اکبر آبادی کو روایتی شاعر کہنے والے اور روایت کے حوالے سے انہیں Defend کرنے والے ناقدین ذرا اس شعر کو بھی ملاحظہ کریں جس میں صباؔ صاحب نے ذرّے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بیک وقت Physicsکی Quantum Theory اور تصوّف کے نظریۂ وحدت الوجود کی وضاحت کی ہے۔شعر یہ ہے

بتا دیا ہے یہ جوہر شناس نظروں نے

کہ ایک ذرے میں ہوتی ہیں قوتیں کیا کیا

اس شعر میں سائنس کے اس نقطے کی طرف اشارہ ہے جس کے مطابق مادّے کے سب سے چھوٹے حصّے کو جسے مزیدتقسیم نہیں کیا جاسکے ’’جوہر‘‘(Atom ) کہتے ہیں جس میں اتنی توانائی ہوتی ہے کہ اس کے تخریبی استعمال سے پل بھر میں یہ دنیا تباہ و برباد ہو سکتی ہے اور تعمیری استعمال سے دنیاوی ترقی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

جدید فلسفے میںڈیکارٹ نے ’’جوہر‘‘ اور’’ صفات‘‘ کے درمیان رشتہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ جوہر موجود بالذات ہے اور اپنے وجود کے لئے کسی اور علت کا پابند نہیںہے‘‘۔ڈیکارٹ کی اس تعریف سے ’’جوہر‘‘ صرف ایک ہو سکتا ہے اور وہ خدا ہے۔ اس تعریف کی رو سے تصوّف کے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ موجوداتِ عالم کے ذرّے ذرّے میں خدا ہے۔ کیوں کہ موجوداتِ عالم ایک مادہ ہے جس کے ذرّے بے شمار ہیں اور ہر ذرّہ ایک ’’جوہر‘‘ ہے۔

صباؔ اکبر آبادی کی غزلوں میں مختلف فلسفیانہ نظریے سے متعلق اشعار کے علاوہ ایسے اشعار کی بھی کمی نہیں ہے جن میں ابن عربی کے نظریۂ وحدت الوجودکو سیدھے سادے اور آسان لفظوں میں ایسے بیان کیا گیا ہے کہ تصوف کے پیچیدہ مسئلے کوبہ آسانی سمجھا جا سکتاہے ۔مثلاّ ابن عربی کے توحیدی نقطۂ نظر کے مطابق ــ’’وجود‘‘ ایک ہے اور اس ایک وجود کے علاوہ کچھ بھی موجود نہیں ہے اور یہی ’’وجود‘‘ خدا ہے جو واحد ہے لیکن اپنے مختلف ناموں سے معروف ہے۔کائنات کی ہر وہ شے جو اس کے ماسوا ہے وہ صرف اسی وجودِ واحد یعنی خدا کا مظہر ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ کائنات خدا کا عین ہے۔اس لئے اس کائنات کی ہر شے کو خدا کی ذات و صفات کے تناظر میں یا خدا کی عینیت کی بنا پر سمجھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام موجوداتِ کائنات اسی خدا کی تجلّی ہے۔

صباؔ اکبر آبادی نے اس شعر میں تصوف کے اسی نقطے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

ٰٓٓماسوا ڈھونڈ کے آئے تری دنیا والے

تیری دنیا کو کوئی تیرے سوا بھی نہ ملا

یعنی وجود ایک ہے اور کائنات کی ہر وہ شے جو اس کے ماسوا ہے دراصل اسی ’’وجودِ واحد‘‘ کا ایک مظہر ہے۔لیکن عینیت کا یہ باطنی مشاہدہ کوئی مستقل تجربہ نہیں ہے اس لئے ابن عربی نے ایک نئے تجربے ’’فرق بعدالجمع‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگر کوئی چاہے تو یہ کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ حقیقی طور پر موجود ہے وہی خدا ہے اور اگر کوئی چاہے تو اسی کو کائنات بھی کہہ سکتا ہے۔لہٰذا شیخ اکبر کے نئے تجربے ’’فرق بعدالجمع‘‘ کے پہلے حصے کے مطابق ماسوا ڈھونڈنے والوں کو خدا کے علاوہ کچھ نہیں مل سکتا ہے ۔صبا اکبرآبادی کے اس شعر

دنیا کو دیکھ کر انھیں کیا دیکھتے صباؔ

گم ہوگیا صفات میں احساس ، ذات کا

میں بھی ابن عربی کے اس نظریے کی طرف اشارہ ہے کہ یہ کائنات چونکہ عین وجود واحد ہے اسی لئے موجوداتِ عالم اس خدا کی تجلّی ہے جس میں خدا اپنے تئیں ظہور کیا اور ان تجلّیات میں وہ پوری طرح گم ہو گیااور اس لئے ان تجلیات کے علاوہ خدا کا الگ تھلگ کوئی وجود نہیں ہے یعنی صفات میں ذات گم ہے ۔یہ شعر بھی انہیں خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔

نمود غیب کو عین شہود کہتے ہیں

کہانیوں میں ڈھلی ہیں حقیقتیں کیا کیا

ابن عربی کے نظریۂ انسان کامل کے مطابق انسان ہی وہ مخلوق ہے جو خدا اور اس کائنات کی صورتوں کو اپنے اندرسموئے ہوئے ہے اور یہی انسان خدا کے تمام اسما اور صفات کو متجلّی کرتا رہتا ہے اور خدا انسان کے آئینے میں خود کا جلوہ دیکھتا رہتا ہے۔اسی نظرئے کی روشنی میں صبا صاحب نے کہا ہے 

جب ہمیں مظہرِ انوارِ حقیقت ٹھہرے

اپنے ہی عکس کو آئینے میں دیکھا نہ کریں

صباؔ کا یہ شعر بھی ابن عربی کے نظریات کے مطابق ہے

عجب ہیں بھول بھلیاں جہانِ جلوہ کی

بھٹکتے رہتے ہیں اور راستہ نہیں ملتا

یہ کائنات دراصل خدا کی تجلّی ہے جس میں خدائے واحد خود گم ہوگیا ہے تو پھر جہانِ جلوہ ایک ایسے بھول بھلیاں کی مانند ہے جس میں انسان زندگی بھر بھٹکتا رہے تو بھی اسے راستہ نہیں مل سکتا ہے۔

خدا اور کائنات کے درمیان جو رشتہ ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے ابن عربی نے کہا ہے کہ کائنات عین واحد ہے اور اس عینیت کا اثبات وہ یا تو کائنات کے وجو د کے انکار سے کرتے ہیں یا پھر خدا ئے واحد کے اقرار سے کرتے ہیں۔کائنات کے وجود کی نفی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے پہلے یہ کہا کہ ’’کائنا ت جیسی کہ وہ ہے اسے غیر حقیقی اور واہمہ ہی کہا جا سکتا ہے۔آگے انہوں نے یہ کہا کہ وجود اگر ہے تو صرف خد ا کا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کائنات اور اس کی کثرت اگر موجود ہے تو وہ اسی خدا کی پرچھائیں ہے۔کائنات کے وجود کی نفی کرتے ہوئے ان کا قول ہے کہ’’الاعیان ماشمت رائحتہ من الوجود‘‘(یعنی اعیان ثابتہ نے وجود خارجی کی بوتک نہیں سونگھی۔)

ابن عربی کے انہیں خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے صبا اکبرآبادی نے بھی کائنات کو واہمہ قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں ان کے اشعار ملاحظہ کیجئے

کب تک نجات پائیں گے وہم و یقیں سے ہم

اُلجھے ہوئے ہیں آج بھی دنیا و دیں سے ہم

کچھ بھی نہیں جہان میں جب نیند اچٹ گئی

سچ پوچھئے تو آنکھ کا سرمایہ خواب ہے

بجا کہ مجھ کو ہے انکار اپنے ہونے سے

اِس ایک جھوٹ میں گُم ہیں صداقتیں کیا کیا

صباؔ اکبر آبادی نے مکمل دیوان غالب کی تضمین کی ہے۔ان تضمینوں کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صباؔ نے غالب کے فلسفیانہ اشعار کی گہرائیوں میں اتر کر تضمینیں کی ہیں۔اس لئے ممکن ہے صبا اکبرآبادی کی شاعری میں فلسفیانہ یا صوفیانہ رنگ غالب کے اثر سے پیدا ہوا ہو لیکن حیرت ہوتی ہے جب صباؔ نے غالب کے تصور کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں

اَبر و سبزَہ ، گل و نکہت ، شفق و رنگِ شراب

جو ہے وہ دشمنِ ایماں ہے خدا خیر کرے

اور ابن عربی کے نظریے سے اتفاق کرتے ہوئے غالب کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ غالب کی مشہور غزل کا مطلع ہے

دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے

آخر اس درد کی دوا کیا

غالب نے ابن عربی کے اس نظریے کو کہ’’ موجوداتِ عالم واہمہ یامحض آنکھوں کا دھوکا ہے‘‘ کو رد کرتے ہوئے مندرجہ ذیل قطع بند اشعار میں استعجاب کے عالم میں یہ سوال کیا ہے 

جب کے تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟

غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟

شکنِ زلفِ عنبری کیوں ہے؟

نگہ چشمِ سرمہ سا کیا ہے؟

سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟

ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے؟

صبا اکبر آبادی نے ابن عربی کے نظریے سے اتفاق کرتے ہوئے غالب کے سوالوں کا جواب دیا ہے بلکہ انہیں خبردار کیا ہے یہ کہہ کر کہ موجوداتِ عالم ایمان کا دشمن ہے۔غالب کے تمام سوالات کا جواب صباؔ صاحب نے صرف ایک ہی شعر میں دے کر یہ ثابت کردیا کہ بڑے سے بڑے موضوع کو غزل کے ایک ہی شعر میں سمویا جا سکتا ہے۔ صبا اکبرآبادی نے موجودات عالم رنگ و بو کو طلسمات قرار دے کر کہا ہے کہ انسان کی قسمت میں نہ جانے کیا کیا امتحان آگئے ہیں

دل کو ہر اک قدم پہ طلسماتِ نو مِلے

کیا امتحان قسمتِ انساں میں آگئے

علامہ اقبال نے کہا ہے کہ کسی شے کو اپنا بنانے یا اپنے اندر جذب کر لینے کی آرزو کا نام عشق ہے۔واضح رہے کہ جس شے سے محبت کی جاتی ہے اسے اپنے اندر جذب کرلینے کے بعد جو خوشی ملتی ہے اس کادائرہ بحرِ بے کراں کی طرح ہوتا ہے اور اس مقام پر پہنچ کر عاشق اور معشوق کے درمیان فرق مٹ جاتا ہے اور فاصلے ختم ہوجاتے ہیں، ’’میں‘‘،’’ میں‘‘ نہیں رہتا ہے بلکہ تو ہوجاتا ہے۔یہ مقام روحانی مدارج میںچوتھا درجہ’’تو ہے‘‘ کا ہے۔اس مر تبہ میں ’’انا کی کلیتاً نفی کی جاتی ہے اور’’’تو‘‘ کا اثبات کیا جاتا ہے جس کامطلب اپنی ذات کومنشائے الٰہی کے سپرد کردینے کے ہیں۔ ایسی صورت میں کہیں سے بھی محبوب کو پکارا جائے لیکن جواب اپنے ہی دل سے آتا ہے۔صباؔ اکبرآبادی نے ایسی ہی صورتِ حال کو اپنے اشعار میں یوں بیان کیاہے۔

ہم بے خبر ہیں اور وہ اِتنے قریب ہیں

دل سے جواب آئے پکاریں کہیں سے ہم

محبت کی اس سطح پر پہنچ کر جو خوشی ہوتی ہے اس کا اظہار شاعر نے اس طرح کیا ہے

سُرورِ محبت سے مدہوش ہیں ہم

عجب سرخوشی ہے عجب زندگی ہے

محبت کی یہی کیفیت ان کے نعتیہ اشعار میں بھی ملتی ہے۔صبا صاحب کی پہچان غزل گو شاعرکے علاوہ نعت گو کی بھی ہے۔ الگ سے ان کا نعتیہ کلام بھی شائع ہو چکا ہے جس کا ہر شعر عشق رسولﷺ سے سرشار ہے۔صبا صاحب کی غزلوں میں بھی چند نعتیہ اشعار ملتے ہیں جن میںوہی عقیدت اور وہی سرشاری ہے جو ان کے نعتیہ کلام میں موجود ہے۔ مثلاًیہ شعر ملاحظہ کیجئے

دیکھ اے باب حرم پائے صباؔ کی لغزش

پھر ہے اس رندِ خرابات کا رُخ تیری طرف

بو علی سیناکا خیال ہے کہ جس طرح مادی لذتوں کے کئی درجات ہوتے ہیں اسی طرح روحانی لذتوں کے بھی کئی درجات ہوتے ہیں۔مثلاً حسین یادوں میں ایک خاص طرح کی لذت کا احساس ہوتا ہے جو روحانی لذت کا ایک درجہ ہے۔لذت کا دوسرا درجہ مخلص اور سچے دوست احباب کی قربت ہے۔تیسرا درجہ علم کا حصول ہے۔چوتھا درجہ فکر ہے۔اسی طرح پانچویں درجے کی لذت ذکر و سجود سے پیدا ہوتی ہے۔عالموں کا خیال ہے کہ نماز میں نمازی کی روح خدا سے ہم کلام ہوتی ہے۔مسرت قرب یزداں ہے اور الم یزداں سے دوری کا نام ہے۔اسی لئے صبا اکبر آبادی نے کہا ہے 

کعبہ ہے کہ بت خانہ مجھے ہوش نہیں ہے

اک لذت سجدہ ہے جو محسوس جبیں ہے

علامہ اقبال نے اپنے تصوّرِ مردِ مومن کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مردِ مومن دراصل نائبِ خدا ہوتا ہے۔اس منصب کو حاصل کرنے کے لئے عشق رسول اختیار کرنا ضروری ہے۔صباؔ کے یہاں عشق کا جب یہ عالم ہو تو ان کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ

اے دور آسمان صباؔ کو سلام کر

یہ زائرِ دیارِ رسالت مآبؐ ہے

پروفیسر سیّد موسیٰ رضا بہ عنوان’’صبا اکبرآبادی کی غزل میں نعت‘‘میں لکھتے ہیں کہ

’’ میں نے بار بار ذکر محمد مصطفےﷺ کو ان کی غزل میں بھی مختلف طرح سے جلوہ گر دیکھا۔ذیل کا شعر آسمانِ نعت کا ستارہ نہیں تو اور کیا ہے؟

دل کافر خدا کا منکر تھا

تم کو دیکھا تواعتبار کیا

صبا صاحب کی عشق رسولﷺ کی شدّت میں میرا خیال تھا کہ ان کی غزل میں نعت کے شعر ضرور ملیں گے لیکن اگر ملیں گے توکیا غزل کے تنگنائے میں وہ اپنے جوہر دکھا سکیں گے؟لیکن ان کی غزل پڑھ کر نظر آیا کہ جو شخص ہر سال التزاماًچار پانچ مرثیے لکھتا تھا اور مراثی میں ذکر رسولﷺ کو مختلف انداز اور جہات سے پیش کرتا تھا، وہ غزل کے رمزیہ سلسلہ میں کس شائستگی اور کس نزاکتِ احساس کے ساتھ بیان عقیدت کرتا ہے، متذکرہ بالا شعر سے اندازہ ہوتا ہے۔‘‘

اقبال کا خیال ہے کہ ’’خودی ‘‘کا سب سے موثر پہلو عشق میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ عشق صرف گرمیٔ حیات کا ہی ضامن نہیں ہوتا بلکہ موت کے بعد کی زندگی کا امکان بھی اسی عشق کے موثر تحریک کا نتیجہ ہے۔عشق وہ عظیم نعمت ہے جو زندگی کو محکم تر بناتا ہے اور موت کے بعدکی زندگی میں اعتماد بحال کرتا ہے۔ جنون دراصل عشق کی انتہائی ترقی یافتہ صورت ہے۔اسی لئے اقبال نے عقل پر جنون اور عشق کو ترجیح دی ہے ۔

عقل ،عشق اور جنون کے درمیان جو فرق ہے اس کا اندازہ صباؔ اکبرآبادی کو بھی ہے اسی لئے اقبال کی طرح وہ بھی عقل پر جنون کو ترجیح دیتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ کیجئے

لَو جُنوں کی جو بڑھا دی ہم نے

عقل کو آگ لگا دی ہم نے

ٹھوکریں کھاتے ہیں صحرائے خرد میں جو صبا

کبھی دیوانوں میں شامل نہیں ہونے پاتے

خرد کو بیخودی کا تابع فرماں بنا ڈالا

محبت کا اچھوتا انتقام آنکھوں میں پھرتا ہے

زمانہ جس طرح سے سو رہا ہے آج سونے دو

جنوں کو ہوش میں لا کر نہ بدلو زندگی میری

رفوئے پیرہن سے در گزر کر خوش نظر دُنیا

ذرا پروان چڑھنے دے ابھی دیوانگی میری

خرد کو آج بھی ہے اعترافِ محکومی

دیارِ ہوش میں ہے وحشتوں کا آج بھی راج

جنون چونکہ عشق کی انتہائی ترقی یافتہ صورت ہے اورعشق موت کے بعدکی زندگی میں اعتماد بحال کرتا ہے تو پھر زندگی کی پرواہ کون کرے۔ اسی لئے صباؔ اکبر آبادی ہستی و عدم کی باتیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ زندگی ا ن کے لئے محض ایک رسم سی ہے۔یہ اشعار ملاحظہ کیجئے

ہستی و عدم میں فرق کیا ہے

بس اِک دو نفس کا فاصلہ ہے

اب تک نفس کی آمد و شُد کا رواج ہے

اِک رسم سی ہے میرے لیے زندگی ابھی

بدھ اور اوشو کے فلسفے کے مطابق دنیا کا ہر انسان غلام ہے۔چاہے وہ کوئی عام انسان ہو یا کوئی بادشاہ ،پیر فقیر ہو یا صوفی سنت سب کے سب غلام ہیں۔یہاں تک کہ چرندے ، پرندے حیوانات یا ہر وہ چیز چاہے وہ جاندار ہو یا غیر جاندار۔ آزادی کسی چیز کو بھی نصیب نہیں ہے ۔دنیا کی ہر شے قدرت کے ایک منظم نظام کے تحت اپنا وجود رکھتی ہے ۔اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ دنیا کی ہر شے کسی نہ کسی نظام کی پابند ہے ۔

ہستی و عدم اور زندگی و موت کے موضوعات میر‘ خواجہ میر درد‘نظیر‘ غالب گویا سب ہی عظیم شاعروں کے کلام میں اُن کی فکر کے مطابق موجود ہیںغالب کا شعر ہے 

قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

جبکہ صبا اکبرآدی زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں سمجھتے کیوں کہ انسان مرنے سے پہلے اور مرنے کے بعد بھی آزاد نہیں ہے ۔چند اشعار ملاحظہ کیجئے

دُنیا سے بچ کے قبر کے چکر میں قید ہوں

اُس گھر سے چھٹ گیا ہوں تو اِس گھر میں قید ہوں

میرے لئے صباؔ مرے زنداں کی حد نہیں

آزاد ہوکے میں تو جہاں بھر میں قید ہوں

صباؔ اکبر آبادی کے نزدیک صرف انسان ہی نہیں بلکہ دریا کی لہر بھی ساحل میں اورشراب ساغر میں قید ہے

دریا کی لہر کہئے تو ساحل کی قید ہے

ہوں جرعئہ شراب تو ساغر میں قید ہوں

صبا ؔاکبرآبادی نے اساتذہ کرام کامطالعہ کثرت سے کیا تھاجس کا اعتراف انہوں نے اپنے ایک شعر میں اس طرح کیا ہے

اساتذہ کو سمجھ کر پڑھوگے تو سمجھو گے

پرانے رنگ میں ہوتی ہیں ندرتیں کیا کیا

غالب کا ایک شعر ہے 

غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل

خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا

صبا ؔنے غالب کے مضمون کو اپنے ایک شعر میں اس طرح باندھا ہے

غنچہ سرِ شاخِ گُل کِھلا ہے

اب میرے جنوں کی ابتداء ہے

ان دونوں اشعار میں غنچہ کھلنا محبت کی علامت ہے۔غالب نے یہ ظاہرکرنے کے لئے کہ محبت ہو چکی ہے ڈ یڑھ مصرعوں کا سہارا لیایعنی غالب نے یہ کہا کہ’’آج ہم نے اپنا دل خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا‘‘۔جبکہ صبا اکبرآدی نے ا سی خیال کا اظہارصرف یہ کہہ کر کردیا کہ’’اب میرے جنوں کی ابتدا ہے۔‘‘

دو شاعروں کے مضامین جب آپس میں ٹکراتے ہیں تو اسے شعری اصطلاح میں توارد کہا جاتا ہے۔دراصل کسی شاعر کے کلام کے مطالعہ کے دوران کوئی خیال یا خوبصورت مضمون کوئی دوسرا شاعر پڑھ لیتا ہے جو اس کی یادداشت میں محفوظ رہ جاتا ہے اور غیر شعوری طور پر وہی مضمون شعر میں نظم ہوجاتا ہے۔یا کبھی کبھی ایسا خیال قدرتی طور پر شاعر کے ذہن میں آجاتا ہے اور اسے اپنے شعر میں نظم کر لیتا ہے۔ ممکن ہے کہ صبا اکبرآبادی کے بعض اشعار کے مضامین جو کسی دوسرے شاعر کے مضامین سے ٹکرا رہے ہیں اس کی وجہ یہی ہو۔

صباؔ نے غالب کی طرح اپنے اشعار میں مرکب تراکیب،مرکب افعال اور مرکب الفاظ کا استعمال کثرت سے کیا ہے جس سے ان کے اسلوب میں زور، اختصار اور معنوی تہ داری کے علاوہ استعاراتی حسن پیدا ہوگیا ہے جو غزل کے اشعار کے لئے ضروری ہے۔

صباؔ کا مطلع ہے

کوئی آنسو تو نہیں ہے تری مژگاں کے قریب

ایک کانٹا سا کھٹکتا ہے رگِ جاں کے قریب

فانی کی اسی زمین میں غزل کا ایک مصرع ثانی ملاحظہ کیجئے

’’کھینچ لایا ہے دل اک شاہدِ پنہاں کے قریب‘‘

اس مصرعے سے صبا ؔکا یہ مصرع کس قدر ملتا ہے دیکھئے

کھنچ کے خود رُوح نہ آئے غم پنہاں کے قریب

لیکن فانی اور صبا اکبر ابادی کے اشعار کے مفہوم میں کافی فرق ہے۔

صباؔنے صرف اساتذہ کی غزلوں کا ہی مطالعہ نہیں کیا تھا بلکہ اپنے ہم عصروں اور شاگردوں کے کلام کا بھی مطالعہ کیا کرتے تھے ۔مثلاً ڈاکٹر مغیث الدین فریدی (جو صبا صاحب کے دوست اور شاگرد بھی تھے) نے صبا صاحب کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے اپنی چھ غزلیں لکھ کر صباؔ صاحب کے پاس بھیجی تھیںجس کا مطلع ہے

وہ دورِ بادۂ مینا گداز آنکھوں میں پھرتا ہے

ترانے جھومتے ہیں دل میں، ساز آنکھوں میں پھرتا ہے

صباؔ کو یہ غزل شاید اتنی پسند آئی کہ انہوں نے شعوری یا لاشعوری طور پر اس غزل کے چند اشعار میں لفظی اور معنوی تصرف کر کے ایک غزل کہی جس میں وہ کیف و اثر نہیں ہے جوفریدی صاحب کی غزل میں موجود ہے۔مثال کے طور پر یہ اشعار پیش کئے جاتے ہیں

وہ بزمِ میکدہ کا اہتمام آ نکھوں میں پھرتا ہے

صراحی جھومتی ہے دل میں جام آنکھوں میں پھرتا ہے

فریدی صاحب کے ا شعار کے مصرعِ اوّل میں ’’دورِ بادئہ مینا گداز‘‘ اور صبا نے کہا ہے کہ ’’ بزم میکدہ کا اہتمام‘‘ اسی طرح مصرعِ ثانی میںصرف دو لفظ تبدیل کئے گئے ہیں مثلاً ’’ صراحی‘‘ کی جگہ’’ترانے‘‘ اور ’’ جام‘‘کی جگہ پر ’ ’ساز‘‘ استعمال کئے گئے ہیں۔اسی غزل کا یہ شعر بھی ملاحظہ کیجئے جس میں معنوی تصرف کیا گیا ہے

فریدی جس کی محفل میں خدا کو بھول جاتے ہیں

وہ کفرِ عشق و مستی کا جواز آنکھوں میں پھرتاہے

(فریدیؔ)

زمانہ عاشقی کا صبح و شام آنکھوں میں پھرتا ہے

جہاں سجدے کئے تھے وہ مقام آنکھوں میں پھرتا ہے

(صباؔ)

اردو زبان و ادب میں دنیا کی بے شمار زبانوں سے بے شمار لفظی ومعنوی تصرف کیا گیا ہے۔شاید اسی لئے کہا گیا ہے کہ دنیا کی ایسی کوئی بات نہیں ہے جو پہلے کہی نہیں جا چکی ہو۔لیکن انہیں باتوں کو نئے انداز اور نئی ترتیب سے جب شاعر کہتا ہے تو اچھا لگتا ہے۔ اکبر آبادی شعرا کے کلام میں تصوف کی نزاکت اور لطافتِ خیال سب سے زیادہ غالب۔ میکش اکبرآبادی اور صبا اکبرآبادی کی شاعری میں پائی جاتی ہے ہیں۔ میکش اکبر آبادی اور صبا اکبر آبادی کی شاعری سے ایک ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔میکش کا ایک شعر ہے 

نسیم آئی ہے شاید گلے لگا کے انہیں

مرے قریب تو آئی مگر جھجھک بھی گئی

صبا اکبرآبادی کا یہ شعر دیکھئے جس میں انہوں نے وہی کیفیت پیدا کی ہے جو میکش اکبر آبادی کی شاعری میں موجود ہے

دل سُلگ اُٹّھا ہے پھر شعلۂ سوزاں کی طرح

پھر صباؔ آیا ہے جھونکا سا گلستاں سے ہمیں

میکش اکبر آدی کے شعر میںنسیم محبوب کو گلے لگا کر عاشق کے پاس آتی ہے تو شرم سے ٹھٹھر جاتی ہے جبکہ صباؔ کے شعر میں صرف گلستاں سے ہوا کا جھونکا آنے سے دل سلگ اٹھتا ہے۔گلستاں سے ہوا کا آنا محبت ہونے کی علامت ہے۔

غزل میں محبت کا اظہار زبان سے نہیںبلکہ چہرے کے تاثرات اور اشاروں ہی اشاروں میں کی جاتی ہے۔ماہرین لسان البدن کے مطابق صرف ۶ فیصد ترسیلِ ابلاغ الفاظ کے ذریعے اور ۹۴فیصد حرکات و سکنات (Body Language)کے ذریعے ہوتا ہے۔بدن کے لسان کے ذریعے جو کچھ کہا جاتا ہے اس میں جھوٹ بولنے کی گنجائش نہیں کے برابر ہوتی ہے۔اس لئے غزل کے اشعار میں محبوب یا عاشق بدن کے لسان کے ذریعے گفتگو کرتے ہیں تو اس میں عجیب و غریب لطافت اور صداقت کا احساس ہو تا ہے۔صبا اکبر آبادی کی غزلوں میں ایسے اشعار کی کمی نہیں ہے جن میں بدن کے لسان سے کام لیا گیا ہے۔چند شعر ملاحظہ ہوں

جب کسی نے ان سے پوچھا میرا نام

کچھ نہ بولے، سر جھکا کر رہ گئے

پوچھا جو دل کا حال کسی کی نگاہ نے

اک آہِ زیر لب کے سوا کیا جواب تھا

صبا اکبر آبادی آگرہ کے رہنے والے تھے لیکن بعد میں پاکستان چلے گئے تھے۔پاکستان میں ایک شاعر کی حیثیت سے اپنا الگ مقام بنا کر ادبی دنیا میں شہرت و مقبولیت حاصل کر چکے تھے لیکن اپنے آبائی وطن کی یاد انہیں ہمیشہ ستاتی رہی اسی لئے پاکستان میں انہیں اکثر اجنبیت کا احساس ہو تا رہا جس کا ذکر انہوں اپنے اشعار میں کیا ہے۔مثلاً ان کا یہ شعر دیکھئے

کسے پکارئیے اِن اجنبی فضاؤں میں

نظر اُٹھے تو نظر آشنا نہیں ملتا

دراصل انسان اپنے بچپن کی حسین یادوں کو کبھی بھلا نہیں سکتا ہے کیوں کہ بچپن کی یادوں میں اپنے دوستوں ،رشتہ داروں، چاہنے والوں کے ساتھ گذارے ہوئے پل اور ان پلوں میں بے شمار واقعات و حادثات ایسے ہوتے ہیں جنہیں بھلانا مشکل ہو تا ہے۔اکثر آنکھیں ان چہروں کو ڈھونڈتی ہیں جن کے ساتھ کئی حسین یادیں وابستہ ہوتی ہیں۔اس لئے صباؔ کی غزلوں کے بعض اشعار میں جذبۂ حب الوطنی ملتا ہے۔چند اشعار ملاحظہ کیجئے

کبھی جو گزرا تھا موسم وہی ہے دل میں صبا

زمانہ ہوگیا ہم کو چمن سے آئے ہوئے

ابھی تو ایک وطن چھوڑ کر ہی نکلے ہیں

ہنوز دیکھنی باقی ہیں ہجرتیں کیا کیا

صباؔ اکبرآبادی کی غزلوں کے مطالعہ کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے غزل کی روایت کے دائرے میں رہ کر غزل کے دامن میں وسعت پیدا کی ہے لیکن ان کی شاعری میں فلسفے اور تصوف کے بعض مسائل جس طرح در آئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غیر معمولی شاعر ہیں۔اس لئے ان کے ناقدین ان کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے ان کی فلسفیانہ اور صوفیانہ شاعری کو نظر انداز کرتے ہیں تو یہ ان کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔انہوں نے غزل کی پرانی علامتوں کا استعمال اگر اپنی غزلوں میں کیا ہے تو ان کے مفہوم کو بدل دیا ہے اور ان علامتوں میں نئی معنویت اور نئی کیفیت پیدا کی ہے۔انہوں نے اساتذہ کے کلام کا اثر قبول کیا ہے اور انہی کے طرز میں شاعری کی ہے تو اس میں ایک نئی فضا پیدا کی ہے۔صبا اکبر آبادی غزل کے فن کی نزاکتوں سے بخوبی واقف تھے لہٰذاان کے کلام کو پڑھ محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک فطری شاعر تھے ۔ ان کے ذہن کی روشنی ، روح کی تازگی اور شعلۂ احساس ،حرف کے پیکر میں ڈھل کر کسی شعلہ رو کی طرح نکھر گئے ہیںجو باکمال شاعر کی پہچان ہے۔

m

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.