مغیث الدین فریدی کی شاعری میں رومانی ماورایت اور تصوف کی رمزیت اور شعریت بھی ہے۔ان کا تعلق صوفیائے کرام سے تھا۔ حضرت سلیم چشتیؒ ان کے جدتھے اور ان کے وسیلے سے ان کا رشتہ با با فرید گنج شکرؒ تک پہنچتاہے۔ یہ والد کا شجرہ ہے اور والدہ کی طرف سے مولانا احمد حسن صاحب محدث کانپوری جو اپنے زمانے کے جید عالم اور محدث تھے، فریدی صاحب کے حقیقی نانا تھے جن کی شہرت ہندوستان سے سر زمینِ عرب تک تھی بڑے بڑے بزرگانِ دین اور علماء حضرات ان کے سامنے دست بستہ کھڑے رہتے تھے۔ان بزرگوں کے اثرات کی وجہ سے درویشی اور قلندری مغیث الدین فریدی کے مزاج میں موجود تھی جس نے دنیاوی جاہ و منزلت،شہرت اور دولت کی ہوس سے انہیں بے پروا کردیا۔ اس لئے بعض اشعار میں وہ ’’نفسِ مطمئنہ‘‘ یا تکمیلِ انسانیت کی منزل پر پنہچے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔جہاںان کا شعور انسانی شعور سے بلند ترہو گیا ہے۔یہ مقام وہی حاصل کر پاتا ہے جو ما سوااﷲ ہر شے سے بے نیاز اور آزاد ہوجاتا ہے۔
انسان دراصل روح سے عبارت ہے اور روح کا تعلق ’’عالم امر‘‘سے ہے۔روح کے وجود کی نوعیت خدا کی پیدا کردہ خارجی دنیا سے مختلف ہے۔یہ یکتا ویگانہ اور ذاتِ مطلق ہے۔اس کا طبعی رجحان خدا کے حکم کی تعمیل کرنے کی جانب تھالیکن چوں کہ اسے خارجی دنیا سے مربوط کر کے جسم دے دیا گیا اس لئے اس تجسیم کے عمل سے اس میں کچھ نئی صفات پیدا ہوگئیں جسے ہیجان اور سرکشی کہا جاتا ہے۔اسی لئے روح کے تصفیہ اور تزکیہ کرنے کی تاکیدکی گئی تاکہ اس کے طبعی میلان کو یعنی خدا کے حکم کی تعمیل کرنے کے رجحان کو تقویت پہنچائی جائے ۔روح کی یہی وہ نئی صفت یعنی سرکشی ہے جو تمام برائیوں کا سرچشمہ ہے۔سرکشی کی حالت میں روح نیکیوں سے گریز کرتی ہے اور برائیوں کی طرف مائل ہوتی ہے۔اسی صورت کو ’’نفسِ امّارہ‘‘ کہا جاتا ہے۔تاہم اس سرکشی کے باوجود اس میں برائیوں پر قابو پانے کی فطری صلاحیت ہوتی ہے۔لہٰذا برائیوں پر غلبہ پالینے اور تزکیہ کر لینے کے بعد اس میں ندامت اور ملامت کا انداز پیدا ہوجاتا ہے جس کو ’’نفسِ لوامہ‘‘ کہا جاتا ہے۔اس درجے سے گزرنے کے بعد جب یہ مزید ترقی کر لیتی ہے تو بلندی کی اس منزل پر پہنچ جاتی ہے جہاں احکامِ خدا اور اس(روح) میں ایسی مناسبت پیدا ہو جاتی کہ خدا کے کسی بھی حکم کو بجالانا اس کے لئے مشکل کام نہیں رہ جاتا۔چنانچہ بلندی کے اس درجے کو ’’نفسِ مطمئنہ‘‘ کہا جاتا ہے۔یہی غایت و مقصود انسانیت ہے اور اسی مقصود کے حصول کا نام عبدیت ہے۔یہ مقام وہی حاصل کر سکتا ہے جو خدا کی ذات کے سوا دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز اور آزاد ہو جائے۔فریدی صاحب کے بعض اشعار پڑھ کرمعلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے مقام عبدیت حاصل کر لیا تھا۔مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحطہ کیجئے
طبع فریدی کو کوئی شکوہ زمانے سے نہیں
دنیا میں وہ رہتا بھی ہے دنیا سے بے پروا بھی ہے
دل کی حالت پہ ہے موقوف غمِ سود و زیاں
دل سنبھل جائے تو یہ سود و زیاں کچھ بھی نہیں
پاس ہے تیری مشیّت کا یہ اندازِ طلب
ورنہ میرے لئے اسبابِ جہاں کچھ بھی نہیں
اس کے بعد فریدی اپنے دلِ آگاہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں جس نے انہیں دنیا کی بہاروں میںکھونے نہیں دیا
دنیا کی بہاروں میں کھو کر میں اپنی نظر سے چھپ جاتا
صد شکر دلِ آگاہ مِرا، دل بن گیا جامِ جم نہ ہوا
’’نفسِ مطمئنہ‘‘ کے درجے کو حاصل کر لینے کے بعدفریدی کو انسان کی عظمت کااحساس ہوتا ہے جس کا اظہار انہوں نے اقبال کے لہجے میں اس طرح کیا ہے
آرائشِ گیتی کا تو کیا ذکر ہے اے دل
حق یہ ہے خدا کو بھی خدا ہم نے بنایا
جس راہ میں جبریل کے پر کانپ گئے تھے
اس راہ میں نقشِ کفِ پا ہم نے بنایا
مندرجہ بالا اشعار میں مردِ مومن کا تصور پیش کیا گیا ہے اور حضور اکرم ﷺکی ذات گرامی کو مردِ مومن یا مردِ کامل قراردے کر واقعۂ معراج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
مقامِ عبدیت یا درجۂ ’’نفسِ مطمئنہ‘‘ حاصل کر لینے کے بعد تو انسان سب کچھ پا لیتا ہے۔دنیاوی چیزیں ایسے انسان کے لئے کچھ بھی نہیں ہیں لیکن اہلِ دنیا یہ سمجھ کر کہ ان کی رسائی محدود تھی طعنے دیا کرتے ہیںلیکن شاعر کے دل پر ان سب باتوں کا کوئی اثر نہیںہوتا ۔اس لئے وہ کہتے ہیں
فریدی کا دل بے نیازِ طلب ہے اسے طعنۂ نارسائی نہ دیجئے
کسی اور نشتر سے اب وار کیجئے یہ خنجر مرا آزمایا ہوا ہے
بار تھی روح پہ کل اپنے ہی دل کی دھڑکن
اب یہ کیا کہ طبیعت پہ گراں کچھ بھی نہیں
فریدی نے تو اہلِ دنیا کو کبھی اس لائق بھی نہیں سمجھا کہ ان سے اپنا جائز حق مانگتے۔ اہلِ دنیا تو صحیح معنوں میں صوفیوں اورابدالوں کے رحم و کرم کے محتاج ہیں۔ان کا شعر ہے
کس سے محنت کا اپنی صلہ مانگتے ذرّہ ذرّہ ہمارا ہی محتاج تھا
دشتِ امکاں کو ہم نے مہک بخش دی جھوم کر آہوئے مشکبو کی طرح
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ فریدی کا تعلق صوفیاء کرام سے تھا جس کی وجہ سے صوفیانہ صفات ان میں موجود ہیں لہٰذا جہاں ان کی شاعری میں ماسوا خدا دنیا کی ہرچیزسے بے نیازی کی ترغیب ملتی ہے وہیں ان کے اشعار میں خرد یعنی عقل پر جنوں کو ترجیح دی گئی ہے۔علّامہ اقبال نے کہا ہے کہ دماغ کی انتہائی ترقی یافتہ صورت عقل ہے اور عقل کی انتہائی ترقی یافتہ صورت عشق ہے۔ اس لئے اقبال نے بھی عقل پر عشق کو ترجیح دی ہے۔اقبال کا شعر ہے
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
جبکہ جنوں عشق سے کہیں آگے کی چیز ہے یا اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ جنوں عشق کی انتہائی ترقی یافتہ صورت ہے۔جنون دراصل ایک کیفیت ہے جو صوفیوں پر اس وقت طاری ہوتی ہے جب مراقبے میںمصروف ہوتے ہیں۔دورانِ سلوک جس مقام پر جنون کی کیفیت طاری ہوتی ہے اس مقام پر پہنچ کر شعور یا علمِ ذات اور ذوق و الہام کی طاقت بیدار ہوجاتی ہے جو تمام شکوک کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیتی ہے اس طرح انسان ان چیزوں کا بھی ادراک کر لیتا ہے جن چیزوں تک عقل کی رسائی نہیں ہوتی۔فریدی صاحب کے یہ ا شعار ملاحظہ کیجئے
پریشاں حال دیوانے، گریباں چاک دیوانے
جنوں کے دم سے ہیں آئینۂ ادراک دیوانے
کسی میں ہمّت نہ تھی کہ بڑھ کر جنوں کی زنجیر تھام لیتا
خرد کی بستی میں ہے اندھیرا چراغ صحرا میں جل رہا ہے
اشراقیہ فلسفیوں کا بھی یہ خیال ہے کہ انفرادی عقل نور اوّل کی ایک دھندلی سی تصویر یا عکسِ بعید ہے۔ اس لئے تنہا عقل ادراک کرنے کے قابل نہیں ہے۔اس کو ہمیشہ ذوق و الہام سے مدد لینی چاہئے جو اشیا کے ادراک کا پُر اسرار جوہر ہے اور جو مضطرب روح کو علم و سکون بخشتا ہے اور شکوک کو دائمی طور پر ختم کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی منش شاعر عقل و خرد پر جنوں کو ترجیح دیتے ہیں۔مندرجہ ذیل شعر کے پہلے مصرع میں فریدی صاحب نے عزمِ ترکِ طلب کی با ت کہی ہے اور دوسرے مصرع میں جنوں میں رنگِ شعور آنے کی بات کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مقامِ عبدیت حاصل کر چکے ہیں اور ان کے جنوں میں رنگِ شعور آگیا ہے یعنی شعور یا علم ذات ان کے اندر پیدا ہو چکا ہے جو نورِ مجرد کا جوہر ہے۔واضح رہے کہ نورِ مجرد اشراقی فلسفیوں کے مطابق خود کو بالذات جانتا ہے اور کسی ’’غیر انا‘‘ کا پابند نہیں ہوتا جو اس کے وجود کو منعکس کر سکے۔ فریدی کا شعرہے
عزمِ ترکِ طلب دل میں پیدا ہوا ان سے ملنے کی اک آرزو کی طرح
اب جنوں میں بھی رنگِ شعور آ گیا چاک کرتے ہیں دامن رفو کی طرح
انہوں نے ایک دوسرے شعر میں بھی یہ کہا ہے کہ جب شعور یعنی عقل نے راہِ طلب کا راستہ اختیا ر کیا ہے تب جنوں نے اسے آئینہ دکھا یا ہے یعنی صحیح راستے پر چلنے کی ترغیب دی ہے۔اس سے اہلِ عقل کو بلند مقام حاصل ہوا ہے
رہِ طلب میں جنوں نے اکثر شعور کو آئینہ دکھایا
جسے تھا عذرِ شکستہ پائی وہ اب ستاروں پہ چل رہا ہے
اسی لئے فریدی ہمیشہ یہ اصرار کرتے ہیں
زمانہ اس پہ تلا ہے، خرد کی بات رہے
ہمیں یہ ضد ہے کہ اُونچا جنوں کا نام رہے
فریدی کا یہ خیال کہ اس دنیا کی رونقیںا ہل جنوں سے ہیں نہ کہ اہلِ عقل سے
اہلِ جنوں کے دم سے ہیں بزمِ جہاں کی رونقیں
خاک اڑا کے رہ گئے عقل پہ کاربند لوگ
فریدی کے کئی اشعارمیں عقل و خرد پر جنوں کو ترجیح دی گئی ہے۔چند اشعار ملاحظہ کیجئے
جنوں کی ناتمامی پر مجھے حیرت، انہیں اُلجھن
گریباں چاک ہو جائے تو ماتھے کی شکن بدلے
یہ تہذیبِ جنوں اک معجزہ ہے تیری نظروں کا
ادب کرتے ہیں تیرا سرکش و بے باک دیوانے
زمانہ ہمّتِ اہلِ جنوں پر طعنہ زن کیوں ہے
ابھی زنجیر کی آواز تو آئی ہے زنداں سے
جنوں اور دیوانہ ایک ہی قبیل کے الفاظ ہیں۔جنوں اگرکیفیت ہے تو یہ کیفیت جس پر طاری ہوتی ہے وہ دیوانہ ہے۔اس لئے جہاں جنوں کا ذکر ہوگا وہاں دیوانے کا بھی ذکر ہوگا۔ فریدی کے اشعار میں لفظ دیوانہ کا بھی استعمال کثرت سے ملتا ہے۔ان کے اشعار میں بے نیازی اور ترکِ دنیا کے مضمون در آنے کی کیا وجہہ ہے اس کا تفصیلی ذکر کیا جا چکا ہے۔مندرجہ شعر میں بھی دنیا کی چمک دمک سے بے نیازی کا اظہار کیا ہے پھر بھی شہر کی زندگی جی رہے ہیں۔اس کی وجہ تو انہوں نے یہ بتائی کہ دیوانگی کے عالم میں صحرا کا راستہ بھول گئے ہیں۔لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ صوفی یا ابدال جو نظر آتے ہیں ویسے نہیں ہوتے اور جو صوفی جیسے نظر آتے ہیں وہ عموماً صوفی نہیں ہوتے۔ممکن ہے فریدی ایک عام انسان اور ایک استاد کے بھیس میں صوفی یا ابدال ہی رہے ہوں۔
پروفیسر خواجہ احمد فاروقی نے اپنی کتاب ’’یادِ یار مہربان‘‘کے صفحہ( ۹۱-۹۲) پر پروفیسر حامد حسن قادری کے ایک خط کا اقتباس نقل کرتے ہوئے لکھا ہے
’’۵اگست ۱۹۵۴ء کے خط میں لکھتے ہیں مدراس والے ڈاکٹر عبدالحق صاحب کا خطاب شاید افضل العلماء بھی ہے۔مجھے بھی ایک مرتبہ ان کی زیارت کا موقع ملا ہے جب وہ جامعہ اردو کے جلسے میں آگرہ تشریف لائے تھے۔مجھے ایک ادا ان کی بہت پسند آئی تھی۔ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں مولانا احمد حسن صاحبؒ محدّث کانپوری۔ڈاکٹر صاحب کے والدِ مرحوم محدّث کانپوری رحمتہ اﷲعلیہ کے شاگرد تھے۔صرف اس تعلق سے ڈاکٹرصاحب آگرہ سے کانپور گئے۔مولانائے مغفور کے مزار شریف پر فاتحہ پڑھی اور ان کے خاندان سے ملے۔یہ سن کر آپ کو لطف آئے گا کہ حضرت محدّث کانپوری ؒ مغیث الدین فریدی کے حقیقی نانا تھے اور لطفِ مزید کا باعث یہ لطیفہ ہوگا کہ حضرت مولانا احمد حسن صاحب رحمتہ اﷲعلیہ میرے پیرومرشد حضرت قبلۂ عالم محدّث علی پوری روحی فداہ کے بھی استاد تھے۔حضرت صاحبؒ نے کانپور آ کر اور مولانا صاحب کی خدمت میں رہ کر حدیث شریف پڑھی ہے۔لطیفہ یہ کہ حضرت صاحب آگرہ تشریف لائے اور فریدی صاحب مرحوم نے مغیث اور ان کے بھائی کو حضرتؒ کی خدمت میں پیش کیاتو حضرت صاحب اپنے استاد کے نواسوں کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے اور پہلے لڑکوں کو بٹھالیا جب خود بیٹھے۔حالانکہ انتہائے ضعف کے سبب سے ایک آدمی کی مدد سے اٹھتے اور کھڑے ہوتے تھے۔‘‘
پروفیسر حامد حسن قادری کی باتوں سے میں اتفاق کرتا ہوں لیکن یہ بھی ممکن ہو کہ حضرت صاحب نے ننھا مغیث میں صوفی اور ابدال مغیث الدین فریدی کو دیکھا ہو اور ان کی تعظیم کے لئے اُٹھ کر کھڑے ہو گئے ہوں۔فریدی کا ایک اور شعرہے
بستی میں بسیرے کا ارادہ تو نہیں تھا
دیوانہ ہوں، صحرا کا پتہ بھول گیا ہوں
شاعر یا تخلیق کار اگر دیوانہ نہ ہو تو ایک سچّا اور فطری شاعر نہیں بن سکتا کیوں کہ دیوانہ ہمیشہ دل سے اور ہوش مند لوگ دماغ سے کام لیتے ہیں۔ایک سچے اور فطری شاعر کے دل میں اس کی اپنی ایک خوبصورت سی دنیا آباد ہوتی ہے جہاں وہ کبھی تنہا ئی محسوس نہیں کرتا لیکن باہر کی دنیا میںطبعی طور پر موجود ہونے کے باوجود وہ خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔فریدی صاحب بھی ایک دیوانہ تھے ۔اس لئے دل کی دنیا ان کے لئے گلشن اور باہر کی دنیا صحرا ہے۔یہ شعر ان کے داخلی تجربے کا ترجمان ہے۔
دل کا عجب انداز ہے گلشن بھی ہے صحرا بھی ہے
دیوانہ اپنے رنگ میں محفل بھی ہے تنہا بھی ہے
مندرجہ اشعار میں بھی دیوانوں کے دل کی کیفیت کا اظہار ہے
طعنوں کا ہدف ٹھہرے جو ذوقِ نظر مانگے
دیوانہ کہاں جائے کس دشت سے گھر مانگے
بہارِ گرمیٔ آغوشِ ساقی دل میں رہتی ہے
خمِ گیسوئے دیوانہ نواز آنکھوں میں پھر تا ہے
m