آئینے کا استعمال فلسفہ اور شاعری میں قدیم زمانے سے ہوتاآیا ہے۔ فریدی نے بھی شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنی نظموں، غزلوں، قطعات اور تضمین کے بیشتر اشعار میں آئینے کا استعمال کیا ہے۔صرف کفرِتمنّاکی غزلوں میں بیس دفعہ آئینہ کا استعمال کبھی حقیقی معنوں، کبھی تصوف کی روشنی میں۔ کبھی استعارے بنا کر تو کبھی محاورے کے طور پر کیا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک آئینہ کافی تہ دار اور معنی خیز شے ہے اور استعاراتی اظہار کے لئے یہ مناسب لفظ ہے۔
آئینہ سکندر اعظم نے ایجاد کیا تھا تاکہ اس میں اپنا یا کسی بھی چیز کا عکس دیکھا جا سکے۔تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ آئینہ سب سے پہلے لوہے کو جِلادے کر ایک لہار نے سکندر کے کہنے پر بنایا تھا لیکن جب کانچ دریافت ہوئی تو کانچ کاآئینہ بنایا جانے لگا۔آئینہ کا لغوی معنی ہے منھ دیکھنے کا شیشہ،گواہ، صاف صاف بتانے والا۔بہت صاف شفاف چیزکو بھی آئینہ کہا جاتا ہے۔آئینہ حیران کردینے یا ششدر کردینے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔آئینہ سے متعلق بے شمار محاورے بھی بنائے گئے ہیں۔مثلاً آئینہ الٹ کر دکھانا۔اس کا استعمال عورتیں ٹوٹکے کے طور پر نظرِ بد سے بچنے کے لئے اس وقت کرتی ہیں جب وہ بناؤ سنگار کرتی ہیں۔آئینہ اندھے کو دکھانا بھی محاورہ ہے جس کا مطلب ہے کہ ایسے شخص کو نصیحت کرنا جو نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہو۔آئینہ بنادینا بھی محاورہ ہے جس کا مطلب ہے حیران کردینا۔اسی طرح آئینہ بن جانا حیران کردینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔آئینۂ تمثال کنایتاً معشوق یا رخ معشوق کو کہتے ہیں۔ اسی طرح آئینہ یا آئینہ رو یا آئینہ رخسار معشوق اور حسین سے کنایہ ہے۔آئینہ سیما اور آئینہ عذار بھی معشوق سے کنایہ ہے۔ آئینہ جڑنے سے مراد ہے کسی چیز کو صاف کر کے چمکا دینا۔ آئینہ میںبال آجانا یا پڑ جانا بھی محاورہ ہے جس کا مطلب ہے کسی صدمے سے آئینے میں خفیف سا خطِ شکست کا نمودار ہونا۔ مختصر یہ کہ اشعار میں آئینے کے استعمال کی کافی گنجائش ہے۔
جلا اور صفائی آئینہ کی بنیادی وصف ہے۔دل بھی آئینہ کی طرح صاف شفاف ہوتا ہے جس میں انسان کی حقیقت کو دیکھاجا سکتا ہے۔اسی مناسبت سے بے شمار شاعروں نے آئینہ کو دل کے استعارہ کے طور استعمال کیا ہے۔اقبال کا شعر ہے
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ،ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو توعزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
یہاں آئینہ دل کا اور آئینہ ساز خدا کا استعارہ ہے۔دل وہ آئینہ بھی ہے جس میں محبوب کی پرچھائیں نظر آتی ہے اور عاشق اس کا دیدار کرتا رہتا ہے۔حسرت موحانی کا شعر ہے
جلائے شوق سے آئینہ تصویرِ خاطر میں
نمایاں ہو چلا روئے نگار آہستہ آہستہ
اسی دل کے آئینہ میں کائنات کی حقیقت بھی نظر آتی ہے۔بعض شاعروں نے نظریہ ٔ وحدت الوجود کی روشنی میں کائنات کو آئینہ سے تعبیر کیا ہے۔ غالب کے ایک شعر میں’ آئینہ ‘کائنات کا استعارہ ہے۔غالب کا شعر ہے
آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
غالب نے اس شعر میں کہا ہے کہ خد ا کائنات میں اپنے آپ کو دیکھتا رہتا ہے اوراس کو بہتر سے بہتر بنانے کی مسلسل کوشش کرتا رہتا ہے ۔میر تقی میر نے بھی کائنات کو آئینہ خانہ سے تعبیر کیا ہے۔میر کا شعرہے
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منھ نکل آتے ہیں دیواروں کے بیچ
دوسرے مصرع میں میر نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مرنے کے بعد انسان مٹّی بن جاتا ہے جس سے اینٹ بنائی جاتی ہے اور اینٹ سے دیوار۔اس لئے دیواروں سے بھی انسان کے منھ نکل سکتے ہیں۔
شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربی نے بھی اپنی کتاب’’ فصوص الحکم‘ میں‘انسانِ کامل اور خدا کی حقیقت سے بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ خدا انسان کا اور انسان خدا کا آئینہ ہے۔یہ پوچھے جانے پر کہ اگر خدا انسان کا آئینہ ہے تو پھر خدا ہمیں نظر کیوں نہیں آتا؟اس کے جواب میں شیخ اکبر فرماتے ہیں کہ آئینہ میں دیکھنے سے صرف اپنا عکس نظر آتا ہے نہ کہ آئینہ۔وہ فرماتے ہیں کہ آئینہ میں دیکھتے وقت اگر آئینہ نظر آنے لگے تو وہ آئینہ ہر گز نہیں ہو سکتا۔وہ صرف کانچ کا ایک ٹکرا ہے۔اسی لئے خدا کے اندر دیکھنے سے دیکھنے والا صرف اپنے آپ کو دیکھتا ہے خدا کو نہیں دیکھ سکتا۔اسی طرح خدا بھی انسانِ کامل میں خود کو دیکھتا ہے۔بہر حال آئینہ کا استعمال حقیقی معنوں میںکیا جائے یا مجازی معنوں میں کیا جائے آئینہ خود کو اور سب کو دیکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔
آئینے میں اگر کوئی عیب نہ ہو تو وہ خارجی معروضات کو جوں کا توں منعکس کر دیتا ہے۔اس لئے آئینہ اگر دیکھنے والے کی رعنائی کے متعلق کہہ سکتا ہے تو وہ عیب اور خامیوں کے متعلق بھی کہہ سکتا ہے۔یعنی آئینہ خود کی حقیقت اور دنیا کی حقیقت جاننے کا وسیلہ ہے۔انسان اگر اپنی قیمت اور حقیقت کو پہچان لے تو خود احتسابی کر سکتا ہے اور اپنی کمزوریوں اور کمیوں کو دور کر سکتا ہے۔شاید اسی لئے فریدی نے آئینہ کا استعمال کثرت سے کیا ہے۔انہوں نے آئینے کا استعمال زیادہ تر فلسفیانہ معنوں میں کیا ہے بعض اشعار میں تو وہ فکر کی انتہائی بلندی پر نظر آتے ہیں ۔مثلاً یہ شعر ملاحظہ کیجئے
کیا ہوا جسم کے بام ودر لُٹ گئے، دل کے آنگن میں ہنگامہ ہوتا رہا
روح کے آئینے کو سجاتے رہو بیتے لمحوں کی پرچھائیاں ہی سہی
اس شعر میںفریدی صاحب نے روح کے آئینے کو سجانے کی بات کہی ہے جس کا مطلب ہے روح کے آئینے میں اس (روح)کی اصل حقیقت کو پہچاننا ۔اور اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ یکتا ویگانہ اور ذاتِ مطلق ہے اور اس کے وجود کی نوعیت خدا کی پیدا کردہ خارجی دنیا سے مختلف ہے۔اس کے علاوہ اس کا طبعی رجحان خدا کے حکم کی تعمیل کرنے کی جانب تھا جو اب بیتے لمحوں کی پرچھائیوں کی مانند ہے کیوںکہ تجسیم کے عمل کے بعد اس میں سرکشی کی خصوصیت پیدا ہوگئی۔پھربھی اس کا تعلق ذاتِ مطلق سے ہے اس لئے ہمیں اس کی اصل حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے خارجی نفع یا نقصان کی فکر نہیں کرنا چاہئے۔بلکہ اس بات سے ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ روح کے مناسبت سے انسان خدا کا جز ہے جو انسان کے لئے بہت بڑی بات ہے۔ فریدی نے ایک شعر میں چاکِ قبا کا آئینہ سے مراد وہ آئینہ لیا ہے جس میں جنوں کی صفات اور قدرو قیمت کو دیکھا جاسکے۔تاکہ ہوشمند لوگوں کے ہوش ٹھکانے آجائیں۔شعر یہ ہے
چاکِ قبا کا آئینہ دیکھ کے دنگ رہ گئے
سنگ اٹھا کے چل دیے دشت سے ہوشمند لوگ
فریدی کا شعر ہے
جو ترکِ طلب سے پہلے تھا دل کا وہی عالم آج بھی ہے
آئینہ نہیں بدلا جاتا تصویر بدلتی رہتی ہے
مندرجہ بالا شعر میں آئینہ دل کا استعارہ ہے اور بدلتی ہوئی تصویر ضرورت کی نئی نئی چیزوں کا استعارہ ہے۔جو شخص ’’نفسِ مطمئنہ‘‘ حاصل کر چکا ہو اس کے لئے ترکِ طلب بہت آسان ہے لہٰذا کوئی بھی نئی چیز اس کے ارادے کو ہلا نہیں سکتی۔ ایک اور شعر ہے
سنگِ ملامت لے کے تم جس کو چلے ہو توڑنے
اے ناصحو! تم نے کبھی وہ آئینہ دیکھا بھی ہے
فریدی نے اس شعر میں آئینہ کا استعمال دل کے معنوں میں کیا ہے۔ناصح پرطنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس انسان کو سنگِ ملامت کا نشانہ بنا رہے ہو کبھی تم نے اس کے دل کو بھی دیکھا ہے
پڑتی ہے نظر ہاتھ مگر اب نہیں بڑھتے
ٹوٹا ہوا آئینہ ہوں رستے میں پڑا ہوں
فریدی نے اس شعر میں بھی ترکِ طلب کی بات کی ہے۔متوجہہ کرنے والی دنیا کی ہر چیز پر ان کی نظر پڑتی ہے لیکن اس کی طرف ہاتھ نہیں بڑھتے ۔لیکن اہلِ دنیاترکِ طلب کی اہمیت سے بے خبر انہیں بے کار کی چیز سمجھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
گرد آئینہ کا مخالف یا ضد ہے کیوں کہ یہ آئینہ کو دھندلا دیتی ہے۔گرد آئینہ پر ہو یا چہرے پر دونوں صورتوں میں چہرہ صاف نظر نہیں آتا۔بعض شعرا نے گرد وغبار کو بیتے ہوئے دنوں کے المیہ سے تعبیر کیا ہے۔فریدی کا ایک شعرہے
ہوائے وقت سے دھندلا گیا ہے آئینہ دل کا
مگر اب تک رُخِ آئینہ ساز آنکھوں میں پھرتا ہے
اس شعر میں فریدی نے بیتے ہوئے دنوں کی المیہ کو دھندلائے ہوئے دل کے آئینہ سے تعبیر کیا ہے۔اور آئینہ سازالمیہ پیدا کرنے والے کا استعارہ ہے۔
ایک دوسرا شعرہے
ہستی کے ہر اک موڑ پہ آئینہ بنا ہوا ہوں
مِٹ مِٹ کے ابھرتا ہوا نقشِ کفِ پا ہوں
مندرجہ بالا شعر میں فریدی نے آئینہ کا استعمال حیران یا ششدر ہونے کے مفہوم میں کیا ہے۔کہتے ہیں کہ زندگی کے ہر موڑپر حیران ہوں کیوں کہ بار بار نقشِ کفِ پا کی طرح مٹ مٹ کر ابھرتا ہوں ۔مٹ مٹ کر ابھرنے میں ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ کہیں وجود کی سالمیت باقی نہ رہے۔
لیکن زندگی نے انہیں ہر کڑے وقت پر آئینہ دکھایا ہے یعنی صحیح راستہ دکھایا ہے اور جینے کا حوصلہ دیا ہے
ہر کڑے وقت پہ آئینہ دکھایا ہے مجھے
زندگی تونے بڑے پیار سے برتا ہے مجھے
فریدی کا ایک مشہور شعر ہے
کیا عرضِ ہنر لفظ پرستوں میں فریدی
آئینے کے ہاتھوں پہ حنا باندھ رہا ہوں
’’آئینے کے ہاتھوں پہ حنا باندھنا‘‘محاورہ ہے۔حنا کا رنگ ہاتھوں میں آ سکتا ہے لیکن آئینے میں اس کا رنگ نہیں چڑھ سکتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ جو شخص نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہو اسے نصیحت کرنا وقت برباد کرنے کے برابر ہے۔فریدی نے لفظ پرستوں پر طنز کرتے ہوئے اس محاورے کا بے حد خوبصورت استعمال اس شعر میں کیا ہے۔
محبوب اپنے حسن اور حسن کی تاثیر سے اکثر بے خبر رہتا ہے لیکن جب آئینہ دیکھتا ہے تو خود پر عاشق ہو جاتا ہے اس کے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ کتنا حسین ہے۔فریدی نے کئی اشعار میں آئینہ حسن کو دیکھنے کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔وہ محبوب سے مخاطب ہوکر کہیں یہ کہتے ہیں کہ اگر تمہیں میری باتوں پر یقین نہ ہو تو تم خود آئینے میں اپنے آپ کو دیکھو اس کے بعد تمہیں میرے صاحبِ نظر ہونے کا اندازہ ہوگا۔شعر ملاحظہ کیجئے
ملا کے ہم سے نظر آئینہ ذرا دیکھو
کہاں ملیں گے تمہیں صاحبِ نظر ہم سے
اس موضوع پرحسرت کا یہ شعر بھی قابل تعریف ہے
آئینہ کہے گا کیا کیا تجھ میں ہے رعنائی
پوچھ اس سے اپنی قیمت تیرا ہے جو شیدائی
فریدی کبھی یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے محبت ترک کردی ہے اس لئے اپنے حسن کا واسطہ دے کر اب انہیں بلانے سے کیا فائدہ
میں گیا وقت ہوں اے زہرہ وشو، گُل بدنوں
آئینہ ہاتھ میں لے کر مجھے آواز نہ دو
فریدی کا ایک دوسرا شعر ہے
بس گئی ہیں اب اس میں بستیاں جمالوں کی
آئینہ تو آیا تھا ان کے رو برو تنہا
مندرجہ بالا شعر میں آئینہ کنایتاً محبوب یا اس کی صورت کا استعارہ ہے۔اس شعر میں کہا گیا ہے کہ محبوب تو میرے سامنے تنہا آیا تھا لیکن اس کے حسن کا یہ کرشمہ ہے کہ میری آنکھوں میں جمالوں کی بستیاں بس گئیں ہیں۔ایک اور شعر ملاحظہ کیجئے
دیر تک ساتھ نہ دے گا یہ جہانِ گزراں
محفلِ دہر کو تم آئینہ بن کر دیکھو
اس شعر میں آئینہ بننے سے مراد حیرت زدہ ہونا ہے۔
m