تضمین وہ صنف ِ سخن ہے جس میں تضمین نگار اپنے پسندیدہ شعرا کے کسی شعر یا مصرعے پر اپنے چند مصرعوں کا اضافہ اس حسن وخوبی سے کرتاہے کہ وہ اصل شعر یا مصرعے میں ضم ہوجائے اور ایک الگ اکائی بن جائے۔ تضمین نگاری کے اس تخلیقی عمل میں تضمین نگار ’’تضمین کے شعر یا مصرعے کا رنگ وآہنگ‘‘ اس کی داخلی کیفیت اور اس کے مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مصرعوں کو تضمین کے شعر یا مصرعے میں اس طرح پیوست کرتاہے کہ ان میں کسی بھی اعتبارسے کوئی فرق محسوس نہ کیا جاسکے اور تضمین کے بعد سارے مصرعے کسی ایک ہی شاعر کے کہے ہوئے معلوم ہوں۔ تضمین نگار اس عمل میں اصل شعر یا مصرعے کے مفہوم کی توسیع کرتاہے یا اس کی علامتوں کی نئی توجیہ پیش کرتاہے جس سے دونوں شاعروں کے تخلیقی عمل کے امتزاج سے ایک نئی فضا اور ایک نئی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
تضمین کا فن بڑا نازک اور لطیف ہے۔ غزل گو شعرا کے لیے شعر کہنا آسان کام ہے لیکن کسی دوسرے شاعر کے شعر پر تضمین کرنا مشکل ہے کیوںکہ غزل کے ہر شعر میں شاعر کی داخلی کیفیت، رنگ وآہنگ اور اس کی پوری شخصیت کے ارتعاشات موجود ہوتے ہیںجبکہ تضمین نگار کو اپنے مصرعوں کی تخلیق کرتے وقت ان سب باتوں کا خیال رکھتے ہوئے اپنی شخصیت کی سطح کو اس شاعر کی شخصیت کی سطح پر لانا پڑتاہے جس شاعر کے شعر یا مصرعے کی تضمین کرنی ہوتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں وہ اصل شعر یا مصرعے کے مفہوم کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اس کے کچھ تشنہ پہلوئوں کو تلاش کرتاہے اور اپنے جذبات وخیالات سے ہم آہنگ کرکے ان کے مفہوم کو ایک نئی جہت عطا کرتاہے۔
غزل کے اشعار پر تضمین کرنا اردو کے شاعروں کا محبوب مشغلہ رہاہے۔قصیدے اور مثنوی کے اشعار بھی تضمین کیے گئے ہیں لیکن جو لطف واثرغزل کے اشعار کی تضمین میں ہے وہ قصیدے اور مثنوی کی تضمین میں نہیں ملتا۔ کیونکہ غزل کے اشعار کی رمزیت اپنے مفہوم کی توسیع اورتوضیح کے لیے چندمصرعوں کی وسعت چاہتی ہے اور قافیہ کی ہم آہنگی سے نغمگی کی لَے اور بڑھ جاتی ہے۔
تضمین کے فن کی اہمیت اوراثر انگیزی پرتبصرہ کرتے ہوئے سید حامد نے لکھا ہے
’’زمان ومکاں کے فاصلوں کے باوجود دوبڑے شاعروں کے درمیان اشتراک عمل کا منظر دیدنی ہوتاہے۔ ماضی اور حال کی اس ملی جلی تخلیقی کوشش میں خیالات وجذبات کی عجیب گہماگہمی دیکھنے میں آتی ہے۔ پہلے شاعر نے اپنے شعر میں جن خیالات اور احساسات کی ترجمانی کی ہے وہ پڑھنے والے کے دماغ سے نکل نہیں پاتے اوربعد میں آنے والے شاعر (تضمین نگار) نے اس شعر میں جو نئے مطالب داخل کیے ہیں، اسے جو نیافکری اورجذباتی رُخ دیاہے، وہ پہلے شاعر کے مفہوم ومقصود سے ٹکراتاہے۔ اس تصادم سے شرارے اٹھتے ہیں اورمفاہیم کے نئے خزائن منکشف ہوتے ہیں اورتعبیر اورحظ کے لیے نئی راہیں کھلتی ہیں۔ زیرتضمین شعرکا حسن تضمین اشعار کے پیرہن سے چھلکتاہے۔ ایک تحریر کے اوپر دوسری تحریر نگاہوں کو جستجو اورجمال سے نوازتی ہے۔ ابتدائی اورثانوی مفاہیم کی باہمی کشمکش کی لطف سامانی کوکیاکہئے۔ ابتدائی مفہوم کی وجہ توانائی یہ ہے کہ وہ قارئین کے دماغ میں ایک مدت سے پیوست ہوتاہے، ثانوی مفہوم (جوتضمین نگار نے دیاہے) کی طاقت کا راز یہ ہے کہ اسے تضمین نظم کی پوری کمک حاصل ہے۔۔۔ ایک زاویہ سے دیکھئے توتضمین زیرتضمین شعر کی تخمینِ جدید یاتعبیرِ نوہے۔ اس نئی تعبیر (RE-INTERPRETATION) کی اہمیت اس لیے اوربڑھ جاتی ہے کہ تعبیر کرنے والا خود ایک بڑا شاعر ہے۔۔۔
تضمین کی اثرانگیزی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ طویل تضمین ماقبل کوپڑھتے ہوئے قاری کے دماغ کا توقع اورمفہوم طلبی سے یہ عالم ہوجاتاہے جیسے ٹائم پیس میں الارم کی چابی بھردی گئی ہو۔ یہ تنائو، یہ آشوب ِانتظار، یہ کھینچائوتب ختم ہوتاہے جب الارم کی گھنٹی بجتی ہے اور زیرتضمین شعر، جس کا بے تابی کے ساتھ انتظار تھا، ذہن کو آسودہ کردیتاہے۔‘‘
(نگارِخانۂ رقصاں،ص۲۸۱)
جس طرح اردوغزل فارسی سے اورفارسی غزل عربی سے ماخوذ ہے۔ اسی طرح تضمین کی روایت فارسی سے اردو میں آئی ہے۔ فارسی کے متعدد کلاسیکی شعرا کے کلام کی تضمینیں فارسی میں ہوئی ہیں۔ شیخ سعدیؔ کے کلام کی تضمینیں فارسی کے ہی ایک شاعر غلام حسین امیرؔ خانی کی ہے جو ’’تضمین گلچین سعدیؔ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ دکنی شعرا کے کلام میں بھی فارسی غزلوں اور ہندی دوہوں کی تضمینیں ملتی ہیں۔ اٹھارہویں صدی میں میرؔ، سوداؔ، دردؔ، مصحفیؔ، انشاءؔ اور نظیرؔاکبرآبادی کے علاوہ کئی دوسرے شعرا کے کلام میں بے شمار تضمینیں ملتی ہیں۔ انیسویں صدی میں سب سے زیادہ تضمینیں کی گئی ہیں۔ عربی، فارسی کے نعتیہ قصیدے اورہندی دوہوں پر متعدد شعرانے تضمینیں کی ہیں۔ قدسیؔ کی نعت پر سب سے زیادہ تضمینیں کی گئی ہیں جس کا مجموعہ ’’حدیث قدسی‘‘ کے نام سے شائع ہوچکاہے۔ حکیم قطب الدین صاحب نے میرحسن کی مثنوی سحرالبیان کے پورے اشعار کا خمسہ کیاہے جو ’’اعجاز رقم‘‘ کے نام سے شائع ہوچکاہے۔ بیسویں صدی کے شعرا میں صباؔ اکبرآبادی اورمرزاؔ سہارن پوری نے مکمل دیوان غالبؔ کی تضمینیں کی ہیں۔موجودہ دور کے شعرا میں مغیث الدین فریدی نے متعدد شعرا کی غزلوں کی تضمینیں کی ہیں۔
آگرہ کے ادبی جلسے اور مشاعرے فریدی کے ادبی ذوق کو نکھارنے اور شعر گوئی کے شوق کو بڑھانے میں بڑے مددگار ثابت ہوئے۔وہاں کے سیماب لٹریری سوسائٹی، بزم نظیر کا سالانہ ادبی میلہ، بزم اقبال اور دوسری ادبی انجمنوں کے ذریعے منعقد ہونے والے طرحی مشاعروں میں فریدی کے شعر پڑھنے کا سلسلہ برسوں چلتا رہا۔انہیں طرحی مشاعروں میں شرکت کرتے رہنے کی وجہ سے فریدی کے اندر اساتذہ حضرات کے کلام کی تضمین کرنے کا شوق پیدا ہوا۔مصرعِ طرح پر مصرع لگانا دراصل ایک تضمینی عمل ہے جس پر مہارت فریدی کو بچپن ہی سے حاصل تھی۔ایک مصرع پر ایک مصرع لگانے کے علاوہ فریدی نے ایک شعر پر تین مصرعے اور کبھی کبھی ایک مصرع یا ایک شعر پر کئی مصرعے لگا کر تضمینیں کیںاور اس فن کے وقار کوبرقرار رکھا۔ ’’کفرِ تمنا‘‘ میںصرف میر، غالب،فانی، فیض اور خورشید الاسلام کی غزلوں کی تضمینیںشامل ہیں۔ویسے انہوں نے علّامہ اقبال، مجروح اور صبا اکبر آبادی کی غزلوں کی بھی تضمین کی ہے۔فریدی نے میر کی ایک غزل کے اشعار کی تضمین کی ہے ۔اس کا مطلع ہے
میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
اِک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں
فریدی نے میر کے اس مطلع کی کیفیت اور رنگ و آہنگ کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اس کی توضیح وتشریح بھی ہے اور اپنے احساسات کو میر کے حسّی تجربے سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ فریدی کے مصرعوں کے بغیر میر کا مطلع نا مکمل تھا۔تضمین کا بند ملاحظہ کیجئے
آشفتہ مزاجی سے میں آشوبِ جہاں ہوں
پر کالۂ آتش ہوںکبھی برقِ تپاں ہوں
یانالہ ہوں یا درد ہوں یا آہ وفغاںہوں
ــ’’میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
اِک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں ‘‘
میر کی اسی غزل کا دوسر ا شعر ہے
جلوہ ہے مجھی سے لبِ دریائے سخن پر
صد رنگ مری موج ہے میں طبعِ رواں ہوں
اس شعر کی تضمین میں فریدی نے میر کی غزل پر تبصرہ بھی کردیا ہے اوران کی شاعرانہ تعلی کو شعری صداقت کی سند بھی دے دی ہے۔تضمین کے مصرعوں میں میر کے لہجے کا اثر اور نشتریت پیدا کر دینا فریدی کی قادرالکلامی کی دلیل ہے۔تضمین کا بند یہ ہے
سجتی ہے قبا درد و اثر کی مرے تن پر
تا حشرجہاں ناز کرے گا مرے فن پر
صد رنگ مری موج ہے میں طبعِ رواں ہوں
میں ابر بہاری ہوں تغزل کے چمن پر
’’جلوہ ہے مجھی سے لبِ دریائے سخن پر
صد رنگ مری موج ہے میں طبعِ رواں ہوں‘‘
میر کی اسی غزل کے تیسرے شعر کی تضمین یہ ہے
غیرت نے کبھی راحت دنیا نہ طلب کی
گردش کبھی دیکھی ہی نہیں جامِ طرب کی
شکوے کی زبان پر ہے مگر مُہر ادب کی
تکلیف نہ کر آہ مجھے جنبشِ لب کی پر
میں صدسخن آغشتہ بخوں زیرِ زباں ہوں
میر کا تضمین شدہ شعر معنوی اعتبار سے بہت تہہ دار ہے۔اس شعر میں میر نے کہا ہے کہ سیکڑوں باتیں ایسی ہیں جو خون میں تر ہیں اس لئے میں کلام نہیں کرسکتا ہوں۔لیکن انہوں نے یہ بتایا کہ وہ سیکڑوں باتیں کون سی ہیںجو خون میں تر ہیں۔نیز’’صدسخن آ غشتہ بخوں زیرِ زباں‘‘ کا غیر معمولی پیکر قاری کے تخیل کو متاثر اور متحرک کردیتا ہے اور کئی طرح کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں ۔ان سب سے فائدہ اٹھا کر فریدی نے میر کے شعر پر اپنے تین مصرعوں کا اضافہ کرکے میر کے شعر کی توضیح وتشریح پیش کردی۔چوتھے شعر کی تضمین یہ ہے
جو سب کی زباں پر ہے وہ افسانہ ہے میرا
سرشار ہیں سب جس سے وہ پیمانہ ہے میرا
کیا ہوش ربا نغمۂ مستانہ ہے میرا
دیکھا ہے مجھے جس نے سو دیوانہ ہے میرا پر
میں باعثِ آشفتگیِ طبعِ جہاں ہوں
میر نے اپنے شعر کے پہلے مصرعِ میں صرف یہ کہا ہے کہ جس نے بھی انہیں دیکھا وہ ان کا دیوانہ ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ دیوانگی کی وجہ کیا ہے۔ فریدی نے اپنے مصرعوں کی مدد سے اس کی وجہ بتانے کے ساتھ ساتھ میر کی شاعری کی خصوصیت اور مقبولیت پر بھی روشنی ڈال دی۔ پانچویں شعر کی تضمین یہ ہے
بے زار زمانے سے ہوں خود سے بھی گریزاں
دامن کی خبر ہے نہ مجھے پاس گریباں
یہ وقتِ نصیحت ہے بھلا ناصحِ ناداں
’’رکھتی ہے مجھے خواہشِ دل بسکہ پریشاں
درپے نہ ہو اس وقت خدا جانے کہاں ہوں‘‘
میر نے اپنے شعر میں تو صرف اتنی سی بات کہی تھی کہ خواہشِ دل انہیں پریشان رکھتی ہے جس کی وجہ سے انہیں یہ خبر نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں۔فریدی نے اپنے مصرعوں کی مدد سے میر کی بیزاری کی شدّت کو اور بڑھا دیا ہے۔تیسرامصرع ’’یہ وقتِ نصیحت ہے بھلا ناصحِ ناداں‘‘ نے تو میر کے شعر کی پوری کیفیت اور شعری فضا کو بدل دیا ہے۔تضمین کا یہی کمال ہے۔
فریدی نے غالب کی غزل پر جو تضمین کی ہے وہ لاجواب ہے۔غالب کی غزل کا مطلع ہے
دل سے تری نگاہ جگر تک اُتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی
اس پر فریدی نے جو تضمین کی ہے اس سے غالب کے شعر کے مفہوم میں توسیع ہو گئی ہے۔غالب نے اس شعر میں صرف یہ کہا تھا کہ تیری نگاہ کا تیر دل کو چیرتا ہوا جگر تک پہنچ گیا جس کی وجہ سے دل اور جگر خوش ہوئے۔لیکن فریدی نے دل و جگر کے خوش ہونے کے علاوہ کئی اور خوش گوار باتوں کا اضافہ کیا ہے ۔مثلاّ تیری نگاہ کے فیضان سے پژمردہ فضائے محب کا نکھرنا، تقدیرِ عشق کا سنورنااور سوزِ بے پناہ کا رگ و پے میں بھرنا وغیرہ۔اس تضمین میں فریدی نے غالب کی لے سے لے ملا دی ہے۔تضمین ملاحظہ کیجئے
پژمردہ تھی فضائے محبت نِکھر گئی
تقدیرِ عشق ایک نظر میں سنور گئی
اک سوزِ بے پناہ رگ و پے میں بھر گئی
’’دل سے تری نگاہ جگر تک اُتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی‘‘
غالب کی غزل کے دوسرے شعر کی تضمین یہ ہے
جس راہ سے وہ پیکر خوبی گذر گیا
اس رہ گذر پہ سب کو گماں ہے بہشت کا
بہکے ہوئے شباب کے قدموں نے کیا کیا
’’دیکھو تو دل فریبیِ اندازِ نقشِ پا
موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی‘‘
فریدی نے اس تضمین میں غالب کے شعر کی توضیح و توسیع کرکے مضمون آفرینی اور دلکشی کو بڑھا دیا ہے۔تضمین کے تینوں مصرعوںنے فضا آفرینی میں اہم کردار نبھائیں ہیں۔ تیسرا مصرع’’بہکے ہوئے شباب کے قدموں نے کیا کیا‘‘کی برجستگی قابلِ تعریف ہے۔اس غزل کے تیسرے شعر کی تضمین یہ ہے
بے پردگی سے کام لیا ہے حجاب کا
راس آگیا ہے حسن کو نشہ شباب کا
ساغر چھلک گیا نگہہِ کامیاب کا
’’نظارہ نے بھی کام کیا واں نقاب کا
مستی سے نگہہ ترے رُخ پر بکھر گئی‘‘
غالب نے اپنے شعر میںصرف یہ کہا کہ محبوب کے رخ پر جب ان کی نگاہ پڑی تو مستی کے عالم میں بکھر گئی اور بکھرجانے سے محبوب کے رخ کا دیدار نہیں ہوسکا کیوں کہ بکھری ہوئی نگاہ نے نقاب کا کام کیا۔فریدی نے اپنے تضمینی مصرعوں میں یہ نکتہ نکالا کہ دراصل محبوب کی بے پردگی اور نشۂ شباب کا اثر تھا کہ غالب کی نگاہ محبوب کے رخ پر پڑنے کے بعد ٹھہری نہیں بلکہ بکھر گئی اور اس طرح بکھری ہوئی نگاہ نے وہاں نقاب کا کام کیا۔ تضمین کے تیسرے مصرع نے غالب کے شعر کی کیفیت کو اور بڑھا دیا ہے۔غالب کے چوتھے شعر کی تضمین یہ ہے
اخفائے رازِ عشق کا ہم کو کہاں دماغ
روشن ہیں دل میں غم کے کنول یاد کے چراغ
اے ضبطِ غم سلام، کہ لو دے اٹھے ہیں داغ
’’شق ہو گیا ہے سینہ خوشا لذّتِ فراغ
تکلیفِ پردہ داریٔ زخمِ جگر گئی‘‘
غالب نے اپنے شعر میں کہا ہے کہ جب ان کا سینہ شق ہو گیا تو زخمِ جگر کو چھپائے رکھنے کی تکلیف سے انہیں نجات مل گئی اوروہ فراق کی لذت سے محظوظ ہونے لگے۔غالب نے اس شعر میں یہ نہیں واضح کیا کہ ان کا سینہ کیسے شق ہوا۔ایسا لگتا ہے کہ جبراً سینہ شق ہوا۔فریدی نے تضمین کے مصرعوں میں سینہ شق ہونے کا جواز یہ پیش کیا کہ رازِ عشق چھپانے کا دماغ غالب کے اندر تھا ہی نہیں۔ان کے دل میں توغم کے کنول اور یاد کے چراغ ہمیشہ روشن تھے جس کی وجہ سے انہوں نے ضبط کو الوِداع کہہ دیا۔اس طرح سینہ کا شق ہونا ایک آسان اور فطری عمل معلوم ہونے لگا۔فریدی کے مصرعوں سے غالب کے شعر کا حسن دوبالا ہو گیا ہے۔پانچویں شعر کی تضمین یہ ہے
شعلے اُٹھے ہیں جام سے پیمانے سے دھواں
نغمہ بنا ہوا ہے لبِ ساز پر فغاں
آلامِ روزگار سے ملتی نہیں اماں
’’وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
اٹھئے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحر گئی‘‘
غالب نے اپنے شعر میں کہا ہے کہ بادہ شبانہ کی سر مستیاں لذتِ خوابِ سحر پر موقوف ہیں۔صبح کا وقت گذر جانے کے بعد لذتِ خوابِ سحر بھی ختم ہوجاتی ہے۔فریدی نے تضمین کے مصرعوں سے اس کا رشتہ آلامِ روزگار سے جوڑ کر اس شعر کی توضیح و توسیع کردی۔ غالب کی اس غزل کے چھٹے شعر کی تضمین ملاحظہ کیجئے
ہر شر میں ہے ہوائے محبت بھری ہوئی
پہلے تو اتنی عام یہ جنسِ گراں نہ تھی
موتی کی آب سیپ کے ٹکڑوں نے لوٹ لی
’’ہر بُولہَوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی‘‘
فریدی نے غالب کے شعر پر جو تضمین کی ہے وہ ان کے زورِ تخیل اور قادرالکلامی کا بہترین نمونہ ہے۔اس شعر پر فریدی نے جو مصرعے لگائے ہیں ان میں تیسرے مصرع کا جواب نہیں۔’’موتی کی آب سیپ کے ٹکڑوں نے لوٹ لی‘‘ کیا ہی لطیف خیال ہے۔
فریدی نے بانگِ درا ،حصہ اوّل کی پہلی غزل کی تضمین کی ہے جس کی تضمین کے بند یہ ہیں
نظریں جما کے آئینۂ روزگار دیکھ
تصویرِ کائنات کے نقش و نگار دیکھ
تیرے لئے ہے دہر کا یہ شاہکار دیکھ
گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
ذرّہ ہے عکسِ مہر کا آئینہ دار دیکھ
قطرے میں موجزن ہے یم بے کنار دیکھ
ہمت تری بڑھانے ترا اعتبار دیکھ
آیا ہے تو جہان میں مثلِ شرار دیکھ
دم دے نہ جائے ہستی نا پائدار دیکھ
تسلیم ہے کہ عشق میں کامل نہیں ہوں میں
موسیٰ نہیں ہوں جلوے کا سا ئل نہیں ہوں میں
آئینہ بن کے ترے مقابل نہیں ہوں میں
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
رکھنا رہِ طلب میں قدم پھونک پھونک کر
روشن جمالِ یار سے ہوگی تری نظر
آئینہ خانہ بن گئی ایک ایک رہ گزر
کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھ تری اگر
ہر رہ گزر میں نقشِ کفِ پائے یار دیکھ
علّامہ اقبال نے اپنے مطلع میںاس دنیا کو دیکھنے کی چیز قرار دے کر اسے باربار دیکھنے کی تلقین کی ہے۔لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ دنیا دیکھنے کی چیز کیوں ہے۔فریدی نے اس مطلع پر تضمین کے تینوں مصرعوں کی مدد سے یہ بتا کر کہ یہ دنیا خدا کا شاہکار ہے اور اس کے نقش و نگار دید کے قابل ہے مطلع کی توضیح و توسیع کی ہے۔دوسرے اور تیسرے مصرعے کا جواب نہیں ہے۔
دوسرے بند میں اقبال نے زندگی کو شرار سے تشبیہ دے کر اسے ناپائدار قرار دیا ہے لیکن فریدی نے ہستی کا مفہوم اوراقبال کے شعر میں تصوف کا رنگ یہ کہہ کر پیدا کر دیاہے کہ اس دنیا کا ہر زرّہ مہر یعنی آفتاب کا آئینہ دار ہے اور انسان اگر قطرہ تو اس کے اندر سمندر موجزن ہے۔ دنیا دیکھنے کی چیز اس لئے کہ موجوداتِ کائنات دراصل خدا کا کثیرروپ ہے اور بقول ابن عربی انسا ن خدا کا آئینہ ہے جس میں وہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے۔لہٰذا ہستی اگر شرار کے مانند ہے بھی تو اس سے اس کی عظمت میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔
تیسرے بند میں اقبال کا شعر تصوف سے تعلق رکھتا ہے جس میں انہوں نے خدا کے مقابلے میں انسان کو ادنیٰ اور حقیر قرار دے کر یہ کہا ہے انسان خدا کے دید کے قابل نہیں ہے لیکن اس کے دل میں خدا کے تئیں محبت کا جو جذبہ ہے اسے اہم قرار دیا ہے۔ فریدی نے تضمین کے پہلے مصرعے میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان چونکہ عشق میں کامل نہیں ہے اس لئے وہ خدا کی دید کے قابل نہیں ہے اور دوسرے مصرعے میں یہ کہا ہے کہ میں موسیٰ نہیں ہوںکہ تیری دید کے لئے تجھ سے کہوںاور تیسرے مصرعے کو اقبال کے شعرکے پہلے مصرعے میں ضم کرکے شوق اور انتظار کی شدّت کو بڑھا دیا ہے جس سے اقبال کا دعوہ مستحکم ہو جاتا کہ خدا کو اپنا جلوا دکھانا ہی چاہئے۔
آخری بند میں اقبال نے اپنے شعر میں نقش ِکفِ پائے یار سے مراد خدا کا جلوا لیا ہے اور ذوقِ دید سے مراد وہ نظر جس سے ہم خدا کو پہچان سکیں۔فریدی نے اقبال کے شعر کی توسیع کی ہے ۔تضمین کے تیسرے مصرعے میں انہوں نے یہ کہہ کر کہ’’ آئینہ خانہ بن گئی ایک ایک رہ گزر‘‘ تصوف کے اس نظریے کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ ذرّے ذرّے میں خدا کا جلوہ موجود ہے لیکن اسے دیکھنے کے لئے مخصوص نظر کی درکار ہے۔
فریدی نے اقبال کی غزل کے تمام اشعار میں تصوف کا رنگ بھر دیا ہے اور اقبال کے اشعار کی لے سے لے ملا دی ہے۔
فریدی نے فانی کی جس غزل کی تضمین کی ہے اس کا مطلع ہے
مژدۂ عیش یہ تمہیدِ پریشانی ہے
ﷲِّالحمد کہ پھر غم کی فراوانی ہے
اس مطلعِ میں فانی نے کہا ہے کہ پریشانی دراصل خوشی کی تمہید ہے۔اس لئے وہ خدا کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ پھر غم کی فراوانی ہے۔لیکن فانی نے اس شعر میں واضح نہیں کیا کہ غم کی فراوانی کیسے اور کیوں ہے۔فریدی نے اپنے مصرعوں میں کیوں اور کیسے کا جواب دے کر فانی کے شعر کی توسیع اور توضیح پیش کردی ہے اور ساتھ ہی فانی کے شعر کے رنگ و آہنگ کو ملحوظ خاطر رکھ کر تضمینی مصرعوں سے فانی کے شعر کو ہم آہنگ کردیا ہے۔تضمین کا بند ملاحظہ کیجئے
خشک آنکھوں میں پھر اب اشک کی طغیانی ہے
دل کے ویرانے میں پھر درد کی مہمانی ہے
گرمیٔ عشق سے چہرے پہ بھی تابانی ہے
’’مژدۂ عیش یہ تمہیدِ پریشانی ہے
ﷲِّالحمد کہ پھر غم کی فراوانی ہے‘‘
فانی کی غزل کا دوسراشعر ہے
دونوں عالم ہیں ترے سوختہ ساماں پہ نثار
چشمِ بدور عجب بے سروسامانی ہے
فریدی نے اس شعر کی رمزیت سے فائدہ اٹھا کر اس کی توسیع و توضیح کی ہے۔فانی نے سوختہ ساماں ہونے کی وجہ نہیں بتائی ہے۔فریدی نے اپنے تضمینی مصرعوں میں یہ واضح کردیا کہ فانی نے شعلۂ آتشِ الفت میں گھربار جلا دیا اور فکرِ دنیاغمِ عقبیٰ سے بیزار ہو گئے۔تضمین ملاحظہ ہوں
شعلۂ آتشِ الفت میں جلا کر گھر بار
فکرِ دنیا غمِ عقبٰی سے ہوا ہوں بیزار
اب مجھے خوفِ خزاں ہے نہ تمنّائے بہار
’’دونوں عالم ہیں ترے سوختہ ساماں پہ نثار
چشمِ بدور عجب بے سروسامانی ہے‘‘
تیسرے شعر کی تضمین یہ ہے
بحرِ الفت میں کہیں بھی نہیں ساحل نایاب
وہم نے ڈال دیا ہے رخِ ساحل پہ نقاب
ہمتِ عشق اگر ہے تو اُٹھا دے یہ حجاب
’’قطرہ کیا، موج کسے کہتے ہیں کیسا گرداب
ڈوب کر دیکھ نہ دریا ہے نہ طغیانی ہے‘‘
فانی نے اپنے شعر میں یہ کہا ہے کہ جب تک انسان حوادث کے دریا میں اترتا نہیں ،گرداب اور موجیں اسے ڈراتی رہتی ہیں۔لیکن انسان جب اس میں اتر جاتا ہے تونہ طغیانی رہتی ہے اور نہ طوفان۔یہ فانی کی شاعری کا مستقل فلسفہ اور غم پسندی کا بنیادی سبب ہے۔ایک اور جگہ کہتے ہیں
اس بحرِ بیکراں میں کشتی کا جستجو کیا
ساحل کی آرزو کیا، ڈوب اور پار اُتر جا
فریدی نے تضمین کے مصرعوں کی مدد سے فانی کے شعر کے مفہوم کو بدل دیاہے۔اس فلسفیانہ شعر کا رشتہ عشق اور عشق کی طاقت سے قائم کردیا۔فریدی کے تیسرے مصرعِ نے فانی کے شعر کو نیا موڑ دے دیا۔فانی کا چوتھا شعر ہے
یاں یہ ویرانے ہی آباد بھی ہو جاتے ہیں
کوئی میرے دلِ برباد کی ویرانی ہے
فانی نے اس شعر میں یہ کہا کہ بستی کے ویرانے آباد ہوجاتے ہیں لیکن دل کے ویرانے آباد نہیں ہوتے۔فریدی نے اپنے مصرعوں کی مدد سے فانی کے شعر کی توسیع کرتے ہوئے یہ کہا کہ انسان اگر کوشش کرے اور دعا گو ہو تو سب کچھ ممکن ہے یہاں تک کہ انسان لاکھ مجبور کیوں نہ ہو آزاد بھی ہو سکتا ہے اور بیزار دل زمانے سے کبھی کبھی شاد بھی ہو سکتا ہے لیکن فانی کے دل کی ویرانی ایسی ہے کہ وہ آباد نہیں ہوسکتا ۔ تضمین کا بند ملاحظہ کیجئے
ہاں دعاگو لبِ فریاد بھی ہو جاتے ہیں
لاکھ مجبور ہوں آزاد بھی ہوجاتے ہیں
دل زمانے سے کبھی شاد بھی ہو جاتے ہیں
’’یاں یہ ویرانے ہی آباد بھی ہو جاتے ہیں
کوئی میرے دلِ برباد کی ویرانی ہے‘‘
فانی کے پانچویں شعر کی تضمین یہ ہے
واقفِ یاس ابھی تک دلِ معصوم نہیں
ہجر اک لفظ ہے جس کا کوئی مفہوم نہیں
ان چھُٹ کر بھی فسُردہ نہیں مغموم نہیں
’’غمِ دوری اثرِ قُربت سے محروم نہیں
میرے نالوں میں بھی اندازِ غزل خوانی ہے‘‘
فانی نے اپنے شعر میں یہ کہا ہے کہ محبوب کی جدائی سے قربت کے احساس پر کوئی فرق نہیں پڑا۔کیوں کہ محبوب کی یاد اور اس کا تصور خیالوں میں بسا ہوا ہے۔اسی لئے ان کے نالوں میں بھی رنگینی اور دلکشی آگئی ہے۔فریدی صاحب نے تضمینی مصرعوں کی مدد سے فانی کے خیال کو مستحکم بنا دیا یہ کہہ کر کہ ’’ہجر اک لفظ ہے جس کا کوئی مفہوم نہیں‘‘۔فانی کا مقطع ہے
میں کہاں اور کہاں عمرِ دو روزہ فانی
زندگی اب بہ تقاضائے گراں جانی
فریدی نے فانی کے مقطع کی بہترین تضمین کی ہے۔تضمین کے مصرعوں سے فانی کے شعر کی کیفیت اور تاثیر دوبالا ہوگئی ہے۔اس شعر میں فانی نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی زندگی کے سخت جانی سے گزارنے کی وجہ کیا ہے؟فریدی نے اس کی وجہ بتا کر فانی کے شعر کی توضیح پیش کردی۔تضمین کا بند یہ ہے
قدرِ ہستی دلِ آگاہ نے جب پہچانی
اُڑگئی آئینۂ دہر کی سب تابانی
آزمانا ہے مگر تیغِ سِتم کا پانی
’’میں کہاں اور کہاں عمرِ دو روزہ فانی
زندگی اب بہ تقاضائے گراں جانی‘‘
فریدی نے فارسی اور اردو کے کلاسکی شعرا کے مقابلے میں اپنے ہم عصر شعرا کے کلام کی تضمینیں زیادہ کی ہیں جن میں صبا اکبر آبادی کی دو غزلوں کی تضمینیں خاص ہیں۔صبا صاحب کی غزل کی تضمین سے وابستہ کچھ دلچسپ کہانیاں ہیںجن کا ذکر پچھلے مضمون ’’خوش نواصباخوشادا فریدی‘‘ میں کر چکا ہوںیہاں ان تضمینوںکا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے
دامن سے داغِ اشک مٹا یا نہ جائے گا
پھر ضبط کے فر یب میں آیا نہ جائے گا
ہم رو دیئے تو راز چھپا یا نہ جائے گا
آنسو کو واپس آنکھ میں لایا نہ جا ئے گا
موتی یہ گر پڑا تو اُٹھا یا نہ جا ئے گا
کب تک رہینِ کشمکشِ ضبط و غم رہوں
آرائشِ بہار کا سامان کیا کروں
اے روحِ درد اُٹھ، مدد اے ہمتِ جنوں
اپنے یہی جلے ہوئے تنکے سمیٹ لوں
اب اور آشیاں تو بنایا نہ جا ئے گا
آہیں بھرو گے بیکسیِ شوق دیکھ کر
آنسو نکل پڑیں گے اٹھاؤ گے جب نظر
میرا گمان ہوگا تمہیں اپنے عکس پر
وہ دن قریب ہیں کہ مرے عشق کا اثر
کوشش کرو گے اور چھپایا نہ جائے گا
طوفانِ اضطراب کی لہروں کو روک دوں
ٹھہرو ذرا کہ راہ تو ہموار کر سکوں
وہ دن خدا نہ لائے کہ تم سے گلہ سنوں
آنا، مگریہ آنکھ کے آنسو تو پوچھ لوں
موجوں کی رو میں پاؤں جمایا نہ جائے گا
اے شعلۂ غرورِ محبت ذرا بھڑک
توہین اہلِ عشق ہے انعامِ مشترک
کہہ دیں گے ہم خدا سے قیامت میں بے جھجک
ہو ملتوی جزائے عمل شامِ حشر تک
ہم سے تو ایسی بھیڑ میں جا یا نہ جا ئے گا
تو شکر کر کہ تیرا ستم بر ملا تو ہے
اک مشتِ خاک آئینہ دارِ وفا تو ہے
اک یاد گارِ عالمِ جورو جفا تو ہے
اے فتنہ گر نمودِ مزارِ صبا تو ہے
کچھ روز میں نشان بھی پایا نہ جائے گا
تضمین کاپہلا بند صبا کی پوری غزل ایک ہی موڈ میں ہے ۔اس غزل کے تمام اشعار میں کیف و اثر بھی ہے ۔اس غزل کا مطلع بھی بہت خوب ہے۔صباؔ نے اس شعر میں آنسو کی بوندکو موتی سے تشبیہ دی ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آنسو کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے یونہی ضائع کیا جائے۔ اس میں رمز کا پہلو بھی ہے جس کی وجہ سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ آنسو قیمتی کیوں ہے اور اس کے گر جانے سے نقصان کیا ہے؟ فریدی نے اس رمز کا فائدہ اٹھا کر اس میں بین المتونیت خلا پیدا کیا تین مصرعوں کا اضافہ کر کے شعر کی عمومیت اور بیان کی نوعیت کوبدل دیا ہے اور اس میں یہ نقطہ پیش کیا کہ آنسو گرتے ہی راز محبت کھل جائے گا کیوں کہ غمِ محبت کو چھپانے کی بہت کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش فریبِ ضبط ثابت ہوئی ۔ لہٰذا ایسی صورت حال میں آنسوؤں کوضائع نہیں کرنا ہی مناسب ہے ۔تضمین کے مصرعوں سے فریدی نے اصل شعر کی توجیہ پیش کی ہے۔اس شعر میں جو روانی اور کیف واثر ہے وہی روانی اورکیف و اثر تضمین شدہ مصرعوں میں بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تضمین کے تینوں مصرعے ایک ہی شاعر کے کہے ہوئے ہیں۔
دوسرا بند صباؔ اکبر آبادی کے شعر میں مایوسی اور سکوت کی کیفیت ہے ۔انہوں نے اپنے شعر میں یہ کہہ کر کہ دوسرا آشیاں بنانا مشکل ہے اس لیے جلے ہوئے تنکے ہی سمیٹ لیے جائیں، بے بسی، لاچارگی اور محرومی کا احساس دلایا ہے۔ فریدی نے تضمین کے پہلے مصرعے میں’’کشمکشِ ضبط و غم‘‘ کے استعمال سے بے زاری کا اظہار کیا ہے ۔اس میں ضبط غم سے نجات پانے کی کوشش بھی موجودہے۔ تیسرے مصرعے میں روح ِدرد اور ہمتِ جنوں کو ایک طاقت کی شکل میں پیش کیا گیاہے جو جلے ہوئے تنکے سمیٹ لینے میں ہمت اور حوصلہ دیتی ہے۔یعنی اصل شعر میں جو سکوت ہے اسے ہلچل میں بدل دیا ہے اور احساس تباہی کو چیلنج سمجھ کر ہمت سے اس کا سامنا کرنے کی ترغیب دے دی ہے۔اس طرح تضمین کے مصرعوں سے اصل شعر کی پوری فضا بدل جاتی ہے جو اچھی تضمین کی مثال ہے۔
تیسرا بندصباؔ نے اپنے شعر میں صرف یہ کہا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب محبوب میرے عشق کے اثر کو کوشش کے باوجود بھی نہیں چھپا سکے گا لیکن انہوں نے یہ نہیں بتا یا کہ عشق کے اثر سے محبوب کو کن کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔فریدی نے اپنے تین مصرعوں کی مدد سے اصل شعر میں یہ کہہ کروسعت پیدا کردی ہے کہ محبوب پر عشق کا اثر ایسا پڑے گا کہ وہ عاشق کے بیکسیِ شوق دیکھ کر آہیں بھرے گا،اس کی طرف دیکھ کر رونا آئے گا اور خود اپنے عکس پر اسے محبوب کا گمان ہوگا۔ایسے حالات میں کوشش کے باوجود محبوب عشق کے اثر کو کیسے چھپا پائے گا۔
چوتھابندصباؔ اکبر آبادی اپنے شعر میں محبوب کو بلانا تو چاہتے ہیں لیکن اس سے پہلے اپنے آپ کو سنبھالنا چاہتے ہیں کیوں کہ ان کے آنسو ابھی تھمے نہیںہیں۔انہوںنے آنسوکی زیادتی کو ظاہر کرنے کے لیے اسے’’ موجوں کی رو‘‘ سے تشبیہ دی ہے ۔ صبا اکبر آبادی کے دوسرے مصرعے’’موجوں کی رو میں پاؤں جمایا نہ جائے گا‘‘ میں جس ذہنی انتشار کا اظہار کیا گیا ہے اس کی شدّت کو مزید بڑھانے کے لیے فریدی نے اپنے پہلے مصرعے ’’ طوفانِ اضطراب کی لہروں کو روک دوں ‘‘سے کام لیا ہے۔ صبا اکبر آبادی نے اپنے شعر میں محبوب کو بلانے کی کوئی وجہ نہیں بتائی ہے لیکن فریدی صاحب نے یہ کہہ کر اس کی توجیہ پیش کی کہ’’ وہ دن خدا نہ لائے کہ تم سے گلہ سنوں‘‘سارا الزام محبوب پر دھردیا ہے اور صبا کو محبت کے الزام سے بری کر دیا ہے۔
پانچواں بندـصباؔ اکبرآبادی کے شعر میںاس خواہش کا اظہار ہے کہ خدا جزائے عمل کی تقسیم شامِ حشر تک ملتوی کردیں کیوں کہ ان سے اپنے نیک اعمال کا جزا حاصل کرنے کے لیے بھیڑ بھاڑ میں نہیں جایاجائے گا۔اس میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ خدا کے عام بندوں میں سے نہیں خاص بندوں میں سے ہیں۔ لیکن اس سے یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ کیسے ؟۔فریدی نے تضمین شدہ مصرعوں میں یہ کہہ کر کہ ’’ اے شعلۂ غرورِ محبت ذرا بھڑک‘‘ یہ ظاہر کر دیا ہے کہ خدا کے تئیں جو محبت ہے وہ شعلہ کی مانند غیر معمولی ہے اور اس غیر معمولی محبت نے عاشق کے اندر یہ جرء ات پیدا کردی ہے کہ وہ خدا سے بے جھجک یہ کہہ سکیں کہ جزائے عمل شام حشر تک ملتوی کی جائے کیوں کہ انعام مشترک اہلِ عشق کے لیے توہین ہے۔ تضمین کے مصرعوںسے صباؔ اکبر آبادی کے شعر کی پوری فضا اور مفہوم میں وسعت پیداہوگئی ہے۔
چھٹا بند صبا ؔاکبر آبادی نے اپنے مقطع میں محبوب کو فتنہ گر سے خطاب کیاہے اوریہ کہا ہے کہ ابھی تو مزارِ صباؔ کا نشان باقی ہے لیکن کچھ دنوں میں یہ نشان بھی ختم ہوجائے گا۔اس شعر میںمحبوب سے مزارِ صباؔ پر حاضر ہو کر بے وفائی کے الزام کو دھونے کی طرف اشارہ ہے۔لیکن فریدی نے یہ کہہ کر کہ محبوب کا ستم برملا ہے اور’’ اک مشت ِخاک‘‘ جو اس نے مزارِ صبا پر رکھی تھی وہ اس کی وفا کا آئینہ دار ہے۔ اس لیے یہ’’ اک یادگارِ عالمِ جور و جفا‘‘ بھی ہے صبا ؔاکبر آبادی کے شعر کا مفہوم بدل دیا ہے۔ فریدی صاحب نے صبا کی ایک دوسری غزل کے چند اشعار کی بھی تضمین کی ہے
ا اسیرِ سحرِ خوش فہمی رہا ہوں
ہلاکِ جادوئے ہستی رہا ہوں
صبا کا ہم نوا میں بھی رہا ہوں
مئے تلخِ ضعیفی پی رہا ہوں
جوانی کی سزا میں جی رہا ہوں
مئے الفت بقدرِ ظرف پی لی
مگر قسمت میں سر مستی نہیں تھی
گزاری ہے یوں ہی بس عمر ساری
میسر کب ہوئی منزل جنوں کی
خرابِ ہوش و آگا ہی رہا ہوں
یہ دل شوریدہ ہے رسوا نہیں ہے
یہ دامن چاک ہے میلا نہیں ہے
ضعیفی میں بھی سر جھکتا نہیں ہے
زمانے نے مجھے بدلا نہیں ہے
کہ میں جیسا تھا ویسا ہی رہا ہوں
نہ راس آئی ہوا مجھ کو کہیں کی
کشش تڑپاتی ہے اب تک وہیں کی
بسی ہے یاد اس ارضِ حسیں کی
فضا دیکھی ہے ہر اک سرزمیں کی
ہمیشہ اکبرآبادی رہا ہوں
گزارے ہیں یونہی کتنے زمانے
حقیقت کل بنیں گے یہ فسانے
میں اپنے قصرِ ماضی کو سجائے
بزرگوں کی روایت کو بچائے
شکستہ قلعہ کا فوجی رہا ہوں
ادب سے رکھ دیا اس خاک پر سر
جہاں کے سنگریزے لعل و گہر
فریدی یہ نصیب اﷲاکبرُ
گدائی کر کے بابِ مصطفی پر
صباؔ دنیا سے مستغنی رہا ہوں
متذکرہ غزل کی تضمین بھی فریدی صاحب نے مخمس کے فارم میں کی۔ غزل کے ہر شعر میں تین تین مصرعوں کی تضمین کرکے انہوں نے پانچ پانچ مصرعوں کی ایک الگ اکائی بنائی۔مخمس کے فارم میں تضمین کی روایت بہت پرانی لیکن کامیاب اور مقبول ہے ۔اس فارم میں تضمین کی مقبولیت کی وجہ پچھلے سطور میں بتائی جا چکی ہے کہ غزل کے شعر کی رمزیت تضمین کے مزید تین مصرعوں کی متقاضی ہوتی ہے۔اب تضمین کے ہر بند کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔
پہلا بندصبا ؔصاحب نے اپنے مطلع میں ضعیفی کوتلخ شراب اور زندگی کو جوانی کی سزا قرار دے کر یہ ظاہر کیا ہے کہ دونوں کو جھیلنا انسان کی مجبوری ہے۔فریدی صاحب نے صباؔ صاحب کے شعری مفہوم کووسعت دیتے ہوئے جوانی کو خوش فہمی کا سحر اور زندگی کو موت سے تعبیر کرکے یہ دعویٰ کیا ہے کہ’’صبا کا ہم نوا میں بھی رہا ہوں‘‘۔ تضمین کادوسرا بند یہ ہے۔
دوسرا بنداکثر شاعروں نے خِردپرجنوں کو ترجیح دی ہے کیوں کہ خرد کے مقابلے میں جنوں کی قوتِ ادراک زیادہ ہو تی ہے۔ صباؔ صاحب نے اپنے شعر میں صرف یہ کہا ہے کہ انہیں ہوش و آگاہی میں کامیابی نہیں ملی کیوںکہ جنوں کی منزل تک وہ پہنچ نہیں پائے ۔فریدی صاحب نے تضمین شدہ مصرعوں کی مدد سے صباؔ اکبر آبادی کے شعر کے مفہوم کی تشریح و توضیح پیش کی ہے اور تضمین کے پہلے اور دوسرے مصرعے سے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ محبت کی شراب پینے سے جنوں کی کیفیت حاصل ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے ظرف کے مطابق الفت کی شراب تو ضرور پی لیکن جنوںان کی قسمت میں تھی ہی نہیں۔تضمین کا تیسرا مصرع صباؔ صاحب کے شعر سے پوری طرح پیوست ہو گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پورا بند ایک ہی شاعر کا کہا ہوا ہے۔
تیسرا بند اس بند میں فریدی صاحب نے صباؔ صاحب کے جذبۂ حب الوطنی کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اہلِ آگرہ کو یہ احساس دلا یا جا سکے کہ آگرے میں ان کی آمد کس قدر باعثِ فخر ہے اور ایسے محب وطن کی شان میں شعرو شاعری کی محفل سجانا کتنا اہم ہے۔ اپنے وطن سے خطاب کرتے ہوئے وطن کے تئیں صبا ؔصاحب کے جذبۂ محبت کی داد فریدی صاحب نے وطن اور اہلِ وطن سے چاہی ہے کیوں کہ اپنے وطن کی محبت میںکراچی سے چل کر وہ آگرہ کو دیکھنے آئے ہیں۔اس کے بعد فریدی صاحب نے صباؔ صاحب کو وطن کی خاک سے جدا ہونے والا وہ ذرّہ قرار دیا جو اب مہروماہ بن گیا ہے پھر بھی وطن کے لیے اس کے دل میں وہی محبت اوروہی ربط آج بھی باقی ہے کہ وہ کراچی میں رہ کر بھی آگرے کی یاد سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔صباصاحب کو مہروماہ قرار دینا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ فریدی صاحب کی نظر میں صبا صاحب کی شخصیت اور شاعری کی کیا قدروقیمت ہے۔آخری بند ملاحظہ کیجئے۔
چوتھا بندصبا نے اپنے شعر میںایک عام بات کہی تھی کہ زمانہ انہیں بدل نہیں سکا لیکن ان کے شعر سے یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ کس معاملے میں زمانے نے انہیں نہیںبدلا۔فریدی صاحب نے اپنے تضمین کے مصرعوں سے اصل شعر کے مفہوم کو ایک خاص جہت عطا کرکے اس میں وسعت پیدا کی اور صبا صاحب کی شخصیت میں اناکے پہلو کو پیدا کر دیا۔فریدی صاحب نے اپنے پہلے مصرع میں یہ کہہ کر کہ دل شوریدہ ہے رسوا نہیں اوردوسرے مصرعے میں یہ کہہ کر کہ دامن چاک ہے میلا نہیں صبا صاحب کی پاکیزہ شخصیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اور تیسرے مصرعے میںیہ کہہ کر کہ’’ضعیفی میں بھی سر جھکتا نہیں ہے‘‘۔اصل شعر کے مفہوم کو نئی جہت عطا کردی۔ صبا ؔصاحب سے فریدی صاحب کے گہرے تعلقات کے بنا پرانہیں یہ معلوم تھا کہ ان کے شعر کے مفہوم میںکس طرح کی جہت ان کی شخصیت کے عین مطابق ہوگی۔
پانچواں بندصبا اکبر آبادی نے اپنے شعر میں یہ کہہ کر کہ اکبرآباد(آگرہ) سے ہجرت کر جانے کے باوجود بھی انہوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ اکبرآبادی ہی سمجھا ہے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ انہیں اپنے آبائی وطن سے آج بھی اتنی ہی محبت ہے جتنی پہلے تھی۔ اصل شعر کے پہلے مصرعے ’’فضا دیکھی ہے ہر اک سرزمیں کی‘‘ کی مناسبت سے فریدی صاحب نے تضمین کا پہلا مصرع یہ کہا کہ’’نہ راس آئی ہوا مجھ کو کہیں کی‘‘ ۔ اسی طر ح اصل شعر کے دوسرے مصرعے ’’ہمیشہ اکبرآبادی رہا ہوں‘‘ کی مناسبت سے تضمین کا دوسرا مصرع’’کشش تڑپاتی ہے اب تک وہیں کی‘‘ اور تیسرا مصرع’’بسی ہے یاد اس ارضِ حسیں کی‘‘ کہہ کر صبا صاحب کے شعر کی توضیح و تشریح پیش کی ہے۔
چھٹا بند صباؔ صاحب نے اپنے شعر میں اپنے آپ کو پرانی روایت اور پرانی قدروں کا امین بتانے کی کوشش کی ہے۔فریدی صاحب نے بھی اپنے تضمین کے مصرعوں کی مدد سے اصل مفہوم کی وضاحت کی ہے۔
ساتواں بند صبا ؔصاحب نے اپنے مقطع میں حضور اکرم ﷺ کے تئیں بے پناہ محبت اوردنیا کی چمک دمک سے بے نیازی کا اظہار کیا ہے۔فریدی صاحب نے تضمین کے پہلے اور دوسرے مصرعے میںمدینۂ منورہ کی زیارت کی طرف اشارہ کر کے اور تیسرے مصرعے میں یہ کہہ کر کہ ’’فریدی یہ نصیب اﷲاکبر‘‘صبا صاحب کے بابِ مصطفی پر گدائی کر نے اور دنیا سے مستغنیٰ رہنے کو عظیم عمل قرار دیا ہے اور ان کی اس قسمت کو ناز کے قابل بتایا ہے ۔فریدی صاحب نے اپنے پہلے اور دوسرے مصرعے میں جس خاک پر سر رکھنے کی بات کی ہے وہ اشارہ ہے عرب کی اس سر زمین کی طرف جہاں حضرت محمّد ﷺ پیدا ہوئے ۔وہاں کی خاک وہ مبارک خاک ہے جہاں کے سنگریزے بھی لعل وگہر ہیں۔
فریدی صاحب نے تضمین کے مصرعوں کی مدد سے صبا صاحب کے بیشتر اشعارکی توضیح و توجیہ پیش کی ہے اور بعض اشعار کو نئی جہت و نیا مفہوم عطا کیا ہے۔ صبا صاحب کے اشعار میں جو کیفیت اور روانی پائی جاتی ہے وہی کیفیت اور روانی فریدی صاحب نے تضمین کے مصرعوں میں پیدا کرکے صبا صاحب کی لَے سے لَے ملا دی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ان کی غزلوں کو کس قدر پسند کرتے تھے۔متذکرہ تضمینوں سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ د و نوں شعرا فکری ، فنّی اور ذہنی طورپر ایک دوسرے سے کتنے قریب تھے ۔کیوں کہ کسی شاعر کے اشعار کی تضمین کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تخلیقی سطح پر دونوں شعرا میں کافی مناسبت اور ذہنی ہم آہنگی ہو ۔
فریدی نے تضمین کے مصرعوں کی مدد سے صبا کے بیشتر اشعارکی توضیح و توجیہ پیش کی ہے اور بعض اشعار کو نئی جہت و نیا مفہوم عطا کیا ہے۔ صبا کے اشعار میں جو کیفیت اور روانی پائی جاتی ہے وہی کیفیت اور روانی فریدی نے تضمین کے مصرعوں میں پیدا کرکے صبا کی لَے سے لَے ملا دی ہے ۔متذکرہ تضمینوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ د و نوں شعرا فکری ، فنّی اور ذہنی طورپر ایک دوسرے سے کتنے قریب تھے ۔کیوں کہ کسی شاعر کے اشعار کی تضمین کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تخلیقی سطح پر دونوں شعرا میں کافی مناسبت اور ذہنی ہم آہنگی ہو۔
m