دنیا کی وہ تمام قومیں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں جنہوں نے اپنی تہذیب اور اپنے ادب کی حفاظت نہیں کی۔لیکن مٹھی بھر اسرائیلی قوم آج بھی زندہ ہے اور اپنے وجود کا احساس ساری دنیا کو دلاتی رہتی ہے۔کیوں کہ اس قوم نے اپنی تہذیب اور اپنے ادب کو مٹنے نہیں دیا۔لہٰذا ادب اور شاعری قوموں کو زندہ و تابندہ رکھنے کے وسیلے ہیں۔ کسی بھی زندہ قوم کی پہچان اس کی تہذیب،زبان،ادب اورفلسفے سے ہوتی ہے جنہیں پھیلانے اور مشتہر کرنے کے لئے شاعری سب سے بہتر ین ذریعہ ہے۔یہ وہ ذریعۂ اظہار ہے جو سینہ بہ سینہ ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا رہتا ہے ساتھ ہی کتابوں کے اوراق میں محفوظ رہے یا نہ رہے لیکن دل کے نہا خانے میں ضرور محفوظ رہتی ہے۔قرآن شریف نثری صنف میں ہونے کے باوجود بھی شعری لوازمات اور تخلیقی لطافتوں سے پُر ہے۔اس کی آیتیں کسی نہ کسی وزن و بحر میں ہیں۔قافیے اور ردیف کی تکرار کی گونج ہر جگہ سنائی دیتی ہے۔مہا بھارت ،رامائن اور گیتا جیسی آسمانی کتابوں کے علاوہ دنیا کی بیشتر رزمیہ اور عظیم کتابیں شاعری کے سانچے میں ڈھالی گئی ہیں۔مثلاّ کالی داس کی گرنتھاولی میں شامل ’’میگھ دوتم‘‘، ’’رگھوونشم‘‘، ’’کمار سمبھو‘‘ اور ’’شکنتلم‘‘ جیسی تخلیقات شاعری کی ہیئیت میں ہیں۔اسی طرح شاہنامۂ فردوسی ، مثنویاتِ مولانا روم ، حافط ، سعدی اور بیدل وغیرہ شاعروں کی غزلیات، Wordsworth, Milton, Shakespeare وغیرہ عظیم تخلیق کاروں کی تخلیقات شعری اصناف میں ہیں۔میر، غالب اور اقبال جیسے عظیم شخصیات نے بھی شاعری کی زبان میں اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کیاہے۔اقبال نے فلسفۂ عشق، خودی، شاہین اور ابن عربی کے صوفیانہ نظرئے کی تشریح و تعبیر شاعری کی زبان میں کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ شاعری چیزِ دیگر است۔اہلِ علم کا خیال ہے کہ تمام ذرائع ابلاغ میں شاعری موثر ترین ذریعہ ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ شاعر کے دل سے نکلی ہوئی بات قاری یا سامع کے دل تک براہ راست پہنچتی ہے اوردیر تک اپنا اثرقائم رکھتی ہے۔شایداسی لئے پیغمبر اسلام محمدﷺ نے اپنے دور کے شاعروں کو Erotic شاعری اور خرافات کو ترک کرکے شاعری کے ذریعہ دین کو پھیلانے اور عوام اورمعاشرے کی اصلاح کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔آپ ﷺ اگر چاہتے تو شاعری کو لعنت قرار دے دیتے لیکن آپ ﷺ نے ایسا نہیں کیا کیوں شاعری ایک ایسا Atom ہے جس سے تخریبی اور تعمیری دونوں کام لیئے جا سکتے ہیں۔اس لئے آپ ﷺنے سوچا کہ کیوں نہ اس سے تعمیری کام لیا جائے اس لئے انہوں نے شاعری کی تعریف کی اور اس سے تعمیری کاموں کو انجام دینے کی ترغیب دی۔ مولانا حالی نے بھی شاعری کے ذریعہ معاشرے کی اصلاح کی بات کی اور مناجات بیوہ اور مدوجزر اسلام جیسی نظمیں لکھ کر معاشرے کی اصلاح کی تحریک چلائی۔فارسی اور اردو کے بیشتر شعرانے صوفیوں کے نظریۂ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے مشکل ترین مسائل کو شاعری کی زبان میں آسان اور موثرطریقہ سے پیش کر کے یہ ثابت کردیاکہ اپنے جذبات و خیالات کے اظہار کے لئے اس سے بہتر اور موثر ذریعہ کوئی دوسرا نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ عہدِمیر و مرزا سے لکھنوی شعرا کے زمانے تک شاعری کا جادو خانقاہوں سے شرفاء کی محفلوں تک اور گلی کوچوں سے طوائفوں کے کوٹھوںتک سر چڑھ کر بولتا تھا۔ مشاعرے اور ادبی و شعری محفلیں جہاں عوامی تفریح کے ذرائع تھیں وہیںتہذیب سیکھنے ،ذہنی سکون حاصل کرنے اور تصوف کی پہلی زینہ سے آخری زینہ تک کی سفر طے کرنے کے لئے شاعری کی مدد لی جاتی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ’’ادب‘‘ تہذیب کا چہرہ ہوتاہے اور شاعری چہرے کی لطافت و نزاکت ہوتی ہے کیوں کہ شاعری ادب کے تمام اصناف اور تمام فنونِ لطیفہ میں لطیف ترین صنف ہے۔ چہرہ اور خاص کر چہرے کی لطافت ونزاکت کے بغیر دنیا کے کسی بھی خوبصورت شے کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔تھوڑی دیر کے لئے فرض کیجئے کہ ہماری مشترکہ تہذیب ایک خوبصورت دلہن ہے تو ادب اس دلہن کا چہرہ ہے اور شاعری اس دلہن کے چہرے کی نزاکت ہے۔ تاج محل فن تعمیر کی انتہائی نادر و نایاب مثال ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کا ساتواں عجوبہ ہے۔ یہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب بھی ہے جس کا چہرہ ’’ادب‘‘ اور چہرے کی نزاکت شاعری ہے۔اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ادب اپنے آپ میں سب سے بڑا عجوبہ ہے اور شاعری اس سے بھی بڑا عجوبہ ہے۔لہٰذا اس کی قدروقیمت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اس کی حفاظت کرنا ہماری اوّلین فرض ہے۔
آج پوری دنیا ایک Globel Village میں تبدیل ہو چکی ہے اور ایک ملک کی تہذیب دوسرے ملک کی تہذیب پر اثر انداز ہو رہی ہے اورنوجوان طبقہ مشاعروں اور دیگر علمی و ادبی محفلوں سے محظوظ ہونے کے بجائے Friendship Dayاور اس طرح کے نہ جانے کون کون سے daysمنا رہے ہیں اور مَول کلچر، culture remix اورکئی دیگر خرافات کی کلچر سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ مادیت پرستی اور صارفیت بھی بیماری کی طرح مغرب سے مشرق تک پھیلتی جا رہی ہے ،ذہنی و قلبی سکون ختم ہو رہا ہے ، لوگ نروان اور موکش حاصل کرنے کے لئے پہاڑوں کے غاروں میںاور گنگا کے پَویترگھاٹوں پر بھٹک رہے ہیں۔لیکن انہیں نہ کہیں موکش پراپت ہو رہی ہے اور نہ کہیں قلبی و ذہنی سکون مل رہا ہے۔ایسی صورتِ حال میں انہیں روحانیت اور تصوف کے راستے پر گامزن کر نے کی ضرورت ہے۔اور ان راستوں پر چلنے کے لئے جس راہبر کی ضرورت ہے وہ صرف شاعری ہے۔شاعری ہمیں عشق مجازی کے راستے عشق حقیقی تک پہنچاتی ہے ۔ عشق حقیقی وہ منزل ہے جہاں پہنچ کر انسان دنیا کے تمام غموں اور الجھنوں سے نجات پا لیتا ہے۔کیوں کہ اس مقام پر صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہیںجسے پرمانند بھی کہا جاتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ انگریزی زبان میں شاعرکوخالق، فاطر اور صافع وغیرہ کہا جاتا ہے اورقدیم لاتینی زبان میں شاعر کو نبی بھی کہا جاتا ہے ۔فارسی کا بھی بڑا قدیم ضرب المثل ہے کہ’’شاعری پیغمبری کا جزو ہے‘‘۔اسی لئے رابرٹ براؤنگ نے خدا کو شاعرِ اکمل کہا ہے اور ڈاکٹر بجنوری نے انہیں تصورات کے زیرِ اثر کہا ہے کہ’’ آفرینش کی قدرت جو صفاتِ باری میں سے ہے جو شاعر کو بھی ارزانی کی گئی ہے‘‘۔رابرٹ براؤنگ اور بجنوری کے خیالات کو درست ٹھراتے ہوئے ناقدوں نے شعری اصطلاح ’’آمد‘‘ کو وحی یا الہام قرار دیا ہے اور دلیل یہ پیش کی ہے کہ آمد دراصل شعر کی وہ عنصری ماہیت ہے جو بے اختیار اور بے ساختہ شاعر کے دل میں موجزن ہوتی رہتی ہے جسے وحی سے تعبیر کیا سکتا ہے۔ لہٰذا شاعری محض تفریح ہی نہیں بلکہ کچھ اور بھی ہے۔آج کا دور High Tech کا دور ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ شاعری کو High Tech سے جوڑ دیا جائے اور Internet کی www.youtube.com جیسی websites پر مشاعروںاور شعری نشستوں کی Vedio recording اور غزل گلوکاراؤں کی مترنم آواز ڈال کر پوری دنیا کو پھر سے شاعری کے سحر میں اسیر کر دیا جائے۔ تاکہ ہمارے قوم کے نوجوان High Techتفریح کے ساتھ ساتھ ہماری کھوئی ہوئی تہذیب سے روشناس ہو سکیںاور قلبی وذہنی سکون پھر سے حاصل کر سکیں۔