تبصرہ
شیخ عقیل احمد ایک نوجوان محقق، دانشوراور سنجیدہ قلم کارہیں۔تحقیق وتخلیق ان کا شوق ہے۔ان کی تحریروں کے موضوعات عام اور روایتی انداز سے قدرے مختلف ہوتے ہیں۔جس طرح وہ گفتگو کرتے ہیں وہی انداز ان کی تحریروں میں بھی پایا جاتا ہے۔شیخ عقیل احمد درس وتدریس سے وابستہ ہیں اور ستیہ وتی کالج، دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں بحیثیت استاد خدمات انجام دے رہے ہیں۔وہ گذشتہ دودہائیوں سے تصنیفی کاموں میں مصروف ہیں۔
شیخ عقیل احمد نئی نسل کے ان سنجیدہ ادیبوں میں سے ہیں جس کا طرز فکر اور انداز بیان ہمیشہ منفرد رہا ہے۔انہیں زندگی کو اپنی پوری حشرسامانیوں اور آسائشوں کے ساتھ جینے کاسلیقہ آتاہے۔انہوں نے بودوباش اور طرزِ زندگی کے معیار کو ہمیشہ قائم رکھا ہے۔بے نیازی ان کے مزاج میں شامل ہے لیکن وہ صحیح معنوں میں ایک جاں نثار دوست اور بے غرض وبے ضرر انسان کہلانے کے مستحق ہیں۔انفرادیت موصوف کی طبیعت کا خاصہ ہے۔غالباً یہ اثرات ان کے ادبی اور تخلیقی مزاج پر مرتب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔شاہد یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں کے موضوعات اپنے معاصرین سے مختلف ہیں۔ادبیات کا تقابلی مطالعہ ان کا خاص میدان ہے جو عام طور پر کسی بھی قلم کار کے لئے مشکل کام ہوتا ہے۔تقابلی مطالعہ کے لیے ایک سے زیادہ زبانوں اور ادبیات پر یدِ طولیٰ حاصل ہونا ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ادب سے تاریخ تک اور تہذیب سے تکنیک تک ان کی نظر بہت گہری ہے کیوں کہ وہ اپنی تحریروں کا حق بڑی ذمہ داری اور دیانتداری سے ادا کرتے ہیں۔عام فہم موضوعات پرفکر انگیز زاویے تلاش کرنے کا فن انہیں خوب آتا ہے۔شیخ عقیل احمد کا دائرۂ فکر صرف اردو تک محدود نہیں ہے۔ ادبیات کے حوالے سے وہ مذہبیات اور سنسکرت شعریات پر بھی خاصی دسترس رکھتے ہیں۔ان کی تحریروں میں جگہ جگہ انگریزی ادب کے حوالے اس بات کے ثبوت ہیں کہ انگریزی ادب سے انہیں نہ صرف گہری دلچسپی ہے بلکہ ان کا مطالعہ بھی وسیع ہے۔
زیر تبصرہ کتاب ’’ادب، اسطور اور آفاق‘‘ سترہ مضامین پر مشتمل ہے جس میں مختلف النوع قسم کے موضوعات شامل ہیں۔’’اقبال اور کالی داس کی شاعری میں فطرت کی منظر کشی‘‘اس کتاب کا پہلا مضمون ہے۔اس کتاب میں فطرت اور کائنات سے متعلق اردو اورسنسکرت کے دو عظیم شعرا کے یہاں فطرت کے حسن کی منظرکشی کا مستند حوالوں کے ساتھ بھرپور تجزیہ کیا ہے۔اقبال اور کالی داس کی شاعری میںفطرت کی منظرکشی کے حوالے سے جومشترک پہلو تلاش کئے ہیں وہ غیر معمولی ہیں اور مصنف کے عمیق مطالعہ کا نتیجہ ہیں۔
’’سماجی ہم آہنگی اور صوفیانہ افکار‘‘ میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جوہم آہنگی نظام فطرت میں موجود ہے وہی ہم آہنگی سماجی اور اخلاقی سطح پر بھی ہونا چاہئے۔اس عمل کے لیے دیبوں،شاعروں اوردانشوروںپرذمہ داری عائد ہوتی ہے۔نیز متصوفانہ افکار میںبھی اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔کتاب میں شامل دو مضامین مغیث الدین فریدی پر اور دو مضامین شہاب جعفری سے متعلق ہیں۔شہاب جعفری کی شاعری میں سورج کا علامتی اور اسطوری اظہار اور جامع مضمون ہے۔اس مضمون میں ہندوستانی اساطیر کے حوالے سے علامتی طور پر سورج کی اہمیت اور کردار سے خاطر خواہ بحث کی گئی ہے۔سائنسی اور فکریات کے حوالے سے صبااکبر آبادی پر مضمون ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے۔اس مضمون میں انہوں نے ایک باکمال شاعرکے فن کو ایک نئی شناخت دینے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی ہے۔
’’پریم چند کی نئی تفہیم اور شکیل الرحمٰن کا تنقیدی رویہ‘‘ پروفیسر شکیل الرحمٰن ہندوستانی جمالیات کے تنقیدی استعارہ کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔انہوں نے اردو دنیا کو ادب،فنون لطیفہ اور جمالیاتی جہتوں سے روشناس کراکر ایک نئی سمت کی طرف راہ ہموار کی ہے۔نیز شکیل الرحمٰن نے روایتی انداز سے ہٹ کر پریم چند کی تخلیقی پاروں میں نئی فکر اور نئی جہتیں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ وہ فنی جمالیات کے قائل ہیں ۔غالباً ان کے نزدیک موضوع سے زیادہ اہم فن ہے۔
کتاب میں شامل ایک اور قابلِ ذکر مضمون ’’شموئل احمد کے افسانوں میں علم نجوم کی معنویت‘‘ہے۔اس مضمون میں علم نجوم سے مفصل بحث کی گئی ہے اور علم نجوم سے متعلق ایسے رمو زاور نکات بیان کیے گئے ہیں جوعام قاری کی فکرسے بالاتر ہیں۔شموئل احمد نے اپنے بعض افسانوں میں کرداروں کی عکاسی کرتے ہوئے علم نجوم کا سہارا لیا ہے۔وہ کرداروں کی جنم کنڈلی بناتے ہیںاور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام کرداراپنی قسمت کے ستاروں کی چال کے سامنے بے بس اور مجبور ہیں۔اردو کے ایک ایسے افسانہ نگار کو تلاش کرنا جو روایتی انداز سے ہٹ کر ایک اچھوتے موضوع پر فکشن کی تخلیق کرتا ہویہ شیخ عقیل احمد کا ہی حصہ ہے۔
شیخ عقیل احمد جن دانشوروں سے متاثر نظر آتے ہیں ان کے بارے میں خاطرخواہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کردیتے ہیںمثلاً’’ٹیگور کا فلسفۂ زندگی‘‘مضمون میں ٹیگور کی دانشورانہ اور فلسفیانہ اقدار اور افکار پر بڑی عالمانہ بحث کی ہے۔علاوہ ازایں’’نظمیہ شاعری میں سورج کا اسطوری کردار‘‘،’’جدید نظم میں ہیئت کے تجربے‘‘اور’’عاشور کاظمی اور مرثیے کا تجدیدی سفر‘‘جیسے اہم موضوعات پرمضامین قلم بند کیے ہیں۔
مصنف نے ادبیات عالم نیز عالمی سطح کے مخلوط کلچر۔ تہذیب وتمدن اور مختلف موضوعات مثلاً مذہبیات، فلسفہ، تصوف، اسطور، علم نجوم، سنسکرت، انگریزی،عربی، فارسی ،انٹرنیٹ اور دیگر عالمی موضوعات کو بنیاد بناکر ادب کو پرکھااور ان کی تفہیم وتجزیہ کرنے کی عالمانہ اور دانشورانہ کوشش کی ہے جنہیں اس مختصرسے تبصرہ میں سمیٹنا آسان کام نہیںتھا۔مصنف نے کتاب کے دیباچہ میں خود بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’’ادب،اسطور اور آفاق‘‘میں شامل بیشتر مضامین ومقالات Interdisciplinary موضوعات پر مشتمل ہیں۔
موصوف نے کتاب میں شامل تمام ہی موضاعات کا بھرپور حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔بے جا طوالت سے احتراز، مختصر اور جامع سادہ سلیس اور عام فہم انداز میں ناقدانہ گفتگو کی ہے۔ایک محقق کی حیثیت سے وہ تحقیق کے بعد ہی اپنی بات کو کہنے کے قائل ہیں۔اس طرح ادبی موضوعات کے ازدھام میں ان کی شناخت ایک نئے زاویے سے اور منفرد لب ولہجہ کے ساتھ ابھر کر سامنے آئی ہے۔ عام طور پر اس نوع کے موضوعات کی طرف اردووالوں کا ذہن نہیں جاتا۔Globalization کے اس دور میں ادب کا منظرنامہ بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔اردو زبان وادب کو عالمی سطح کے موضوعات سے جوڑ نے کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔اس ضرورت کو شیخ عقیل نے بڑی سنجیدگی سے محسوس کیا اور اس نوع کے موضوعات پر قلم اٹھا کر اہل ادب کو اس جانب توجہ دلائی۔
کتاب کا سرورقجاذب نظر اور پر معنی ہے۔ سب ہی مضامین وقیع اور معیاری ہیں۔شیخ عقیل احمد ایک معتبر قلم کار ہیں۔ان کی تحریروں میں زبان کی تکنیک، اظہار بیان اور موضوعات کا انتخاب خاص اہمیت کا حامل ہے۔یہاں حقانی القاسمی کی رائے سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ’’ شیخ عقیل احمد کا اسلوب سادہ اور شفاف ہے۔اس میں کسی طرح کی ژولیدگی اور ابہام نہیں ہے۔وہ ترسیل کے المیہ سے دوچار نہیں ہوتے جبکہ ان کی نسل کی بیشتر تحریروں میں ترسیل کا فقدان ہے۔ان کے مضامین ارتکازفکر اور امعان نظر کے آئینہ دار ہیں۔‘‘
موصوف کی یہ کاوش ادبی حلقوں میں یقیناً لائق اعتنا تصور کی جائیگی۔اس امید کے ساتھ کہ وہ مستقبل میں اس نوع کے موضوعات پر مزید قلم اٹھائیں گے۔کیونکہ عام ڈگر اور روایت سے ہٹ کر ان کا قلم ایک کرشماتی انداز رکھتا ہے۔
ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن صدیقی(سولن)
ڈاکٹر شیخ عقیل احمد تقریباً نصف درجن کتابوں کے مصنف بن چکے ہیں۔علم وادب کی مسلسل وابستگی سے انہوں نے اپنا ایک مقام پیدا کیا ہے۔’’ادب، اسطور اور آفاق‘‘ان کی تازہ ترین تصنیف ہے۔اس کتاب میں ان کے متفرق مضامین شامل ہیں جو گذشتہ دنوں مختلف اوقات میں قلمبند ہوئے ۔اس کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ یہ کتاب ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کی گذشتہ کاوشوں سے جداگانہ ہے۔راقم الحروف کو ایسا محسوس ہوا کہ اب ان کی تحریروں میں بالیدگی اور نکھار پیدا ہو چکے ہیں۔کتاب کی عمدہ ، دلکش اور انفرادی طرزنگارش نے اسے اور بھی دلچسپ بنا دیا ہے۔تنقیدی مضامین میں تحقیق وجستجو کے ساتھ مخصوص نقطۂ نظر بھی ہے۔یہی زاویۂ نظر آگے چل کر مصنف کا مخصوص نظریہ اور پہچان بن جاتے ہیں۔یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ کتاب مذکورہ موضوعات اور ان پر خامہ رسائی نہایت وقیع ہیں۔موضوع سے سرسری گذرنے کے بجائے ا س کے اندرون میں جھانک کر دیکھنے کی سعی پائی جاتی ہے۔اس کوشش سے مضامین جاندار اور معلومات افزا بن گئے ہیں۔کتاب کے شروع کے پانچ مضامین ’’اقبال اور کالی داس کی شاعری میں فطرت کی منظرکشی‘‘، ’’سماجی ہم آہنگی اورصوفیانہ افکار‘‘،’’ٹیگور کا فلسفۂ زندگی‘‘،’’نظمیہ شاعری میں میں سورج کا اسطوری اور علامتی اظہار‘‘اور ’’جدیدنظم میں ہیئت کے تجربے‘‘، ایسے شاندار مضامین ہیں جو اپنی طرف راغب کئے بنا نہیں رہتے۔ان موضوعات پر تحریر نے انہیں ایک کلاسیکی رنگ عطا کردیا ہے۔یہ کلاسیکی انداز شاید انہیں اپنے اساتذہ سے ورثے میں ملا ہے۔قابل اساتذہ کی تربیت شاگردوں میں قابلیت کا جوہر پیدا کردیتی ہے۔یہاں پر یہ عرض کردینے میں کچھ عار نہیں کہ کتاب کے یہ پانچ مضامین ادب کے آفاقی پہلو کو محیط ہیں۔اس طرح آدھی کتاب بے حدقابلِ ذکر ہے۔ایک اور مسرّت افزا امر یہ ہے کہ اس کتاب میں ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کی زبان وبیان میں بڑی حد تک نفاست پیدا ہوگئی ہے۔زبان وبیان کا اعلیٰ اور ارفع ہونا اعلیٰ اور ارفع مضامین کے بیان کے لئے بے حدضروری ہے۔ان کی سخت محنت اور کاوش نے بعض ایسے نام اور حوالے ڈھونڈ نکالے ہیں جن سے ہمارے عہد کے اساتذہ اکثر وبیشتر نابلد ہیں۔کتاب کے آخر میںبعض مضامین شامل کرلینے سے اس کتاب کی یکسانیت مجروح ہوئی ہے۔کتاب کے عنوان کی ثقالت سے خیال پیدا ہوتا ہے کہ اگر واضح ہوتا تو اور زیادہ بہتر تھا۔ہمارے خیال میں اس کتاب کی اشاعت پر داکٹر شیخ عقیل احمد بجاتور پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
پروفیسر توقیر احمد خان
دہلی یونیورسٹی
ڈاکٹرشیخ عقیل احمد ان ادیبوں میں سے ہیں جو گذشتہ کئی برسوں سے مسلسل لکھ رہے ہیں۔ان کی تازہ ترین کتاب’’ادب، اسطور اور آفاق‘‘منتخب مضامین کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے عام روش سے ہٹ کر ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے جو عام طور پر اردو ادب میں دیکھنے کو نہیں ملتے۔انہوں نے کبھی بھی بے جا علمیت کی نمائش نہیں کی ۔وہ اپنی تمام تحریروں میں واضح فکری اور اسلوبی شناخت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔وہ کسی بھی روشِ عام پر چلنا پسند نہیںکرتے۔ ان کی دوسری کتابوں کی طرح اس میں بھی ان کا اسلوب بہت سادہ اور شفاف ہے۔اس میں کسی بھی طرح کا ابہام نہیں ہے۔ان کی تحریریں یہ احساس دلاتی ہیں کہ اردو ادب میں آج بھی ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو ادب میں تحریک اور تلاطم برپا کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔اس کتاب میں کل 17 مضامین شامل ہیں جو اساطیری ، فلسفیانہ،صوفیانہ اورInter disciplinary مطالعات پر مبنی ہیں۔
پہلا مضمون ’’اقبال اور کالی داس کی شاعری میں فطرت کی منظرکشی‘‘ ہے جس میں انہوں نے یہ بتایا ہے کہ کائنات اور فطرت کے متعلق فلسفیوں اور صوفیوں کے خیالات کیا ہیں؟سنسکرت اور اردو کی دو عظیم ہستیوں نے فطرت اور کائنات کے متعلق اپنے خیالات کو کس طرح اور کس انداز میں پیش کیا ہے۔اس کے علاوہ ان کے فطرت کے حسن کو پیش کرنے کے انداز پر بھی روشنی ڈالی ہے۔خود ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کا کہنا ہے کہ اقبال کی شاعری پڑھتے وقت احساس ہوا کہ کالی داس اور اقبال کے یہاں فطرت کے حسن کی منظر کشی میں کافی مماثلت ہے بس اس موضوع پر مضمون لکھنے کا ارادہ کر لیا اور واقعی میں انہوں نے انصاف بھی کیا۔اسی طرح دوسرے مضمون ’’سماجی ہم آہنگی اور سوفیانہ افکار ‘‘میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ قدرت کے نظام میں ہم آہنگی موجود ہے پر تخریبی طاقتیں اس نظام کو درہم برہم کرتی رہتی ہیں ۔اس کے علاوہ یہ بتایا ہے کہ مذہبی رواداری اور سماجی ہم آہنگی کتنی ضروری ہے۔اس بات کو اردو شاعروں نے بہت اچھے سے سمجھا اور اپنایا ہے اورصوفیانہ افکار میں اس کا حل تلاش کرکے لوگوں تک پہنچایا۔
اس کے علاوہ ’’تہذیب جنوں اور مغیث الدین فریدی‘‘،’’ٹیگور کا فلسفۂ زندگی‘‘، ’’سائنسی اور صوفیانہ فکریات کا شاعرصبا اکبر آبادی‘‘ وغیرہ فلسفیانہ اور صوفیانہ افکار کی روشنی میں لکھے گئے بے حد فکر انگیز مضامین ہیں۔’’آئینہ عکس سخن میں(مغیث الدین فریدی کے حوالے سے)‘‘ میں مصنف نے بہت عمدہ طریقے سے آئینہ کے وجود میں آنے کی تاریخ اور مختلف محاوروں اور مضمون میں آئینہ کے استعمال پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔اس کے علاوہ انسانی شخصیت کے پہلوؤں کو بھی آئینہ کے ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے۔یہ بھی بتا کہ انسان خود اپنا احتساب کر سکتا ہے اور اپنی کمزوریوں اور کمیوں کو دور کر سکتا ہے۔یعنی آئینہ خود کی حقیقت اور دنیا کی حقیقت کو جاننے کا وسیلہ ہے۔یہ مضمون اپنے موضوع کی بنا پربہت دلچسپ اور تعریف کے قابل ہے۔
’’نظمیہ شاعری میں سورج کا اسطوری کردار‘‘اور ’’شہاب جعفری کی شاعری میں سورج کا علامتی اور اسطوری اظہار‘‘ میں انہوں نے ہندوستانی تہذیب میں سورج کی اہمت اور اس کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔اس کے علاوہ نظمیہ شاعری میں سورج کا بطور علامت استعمال پر روشنی ڈالی ہے۔ایک اور مضمون ’’شموئل احمد کے افسانوں میں علم نجوم کی معنویت‘‘میں علم نجوم اور اساطیر کے رشتے پر گفتگو کی ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ شموئل احمد اپنے افسانوں کے کرداروںکی زندگی میں علم نجوم کے ذریعہ کشمکش پیدا کرکے قاری کی دلچسپی کو دوبالہ کردیا ہے۔اس مضمون کے زریعہ ہمیں مصنف کی علم نجوم کے متعلق جانکاری اور معلومات حیرت میں ڈال دیتی ہے۔
’’عاشور کاظمی اور مرثیہ کا تجدیدی سفر‘‘میں انہوں نے مرثیہ نگاری اور اس کے آغاز کے متعلق عاشور کاظمی کی تنقیدی اور تحقیقی بصیرت اور صلاحیت پربحث کی ہے ۔اس کتاب میں مغیث الدین فریدی کی تضمین نگاری پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے۔’’نصرت ظہیرمزاحیہ کالم نگار‘‘ میںانہوں نے طنزومزاح کی تعریف اور آغازوارتقاکے متعلق بہت تفصیل سے گفتگو کی ہے۔اس کے علاوہ نصرت ظہیر کے سیاسی طنز کے کالم پر بحث کی ہے۔آخر میں انہوں نے ایک مضمون ’’کیا ادب کے بغیر ہم زندہ رہ سکتے ہیں؟‘‘ لکھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ واقعی میں وہ ادب کے عاشق ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح internet کے زریعہ ادب کو بڑھاوا دے سکتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ بھی مشورہ دیا کہ اس طرح سے نئی نسل ہماری کھوئی ہوئی تہذیب سے روشناس ہوسکتی ہے ۔اس طرح ذہنی اور قلبی سکون حاصل کیا جا سکتا ہے۔کتاب کے تمام مضامین کی زبان نہایت ہی صاف اورسلجھی ہوئی ہے۔اس غیرمعمولی کارنامے کے لئے ڈاکٹر شیخ عقیل احمد میری دلی مبارک باد کے مستحق ہیں۔امید کرتی ہوں ادبی حلقوں میں یہ کتاب بہت پسند کی جائیگی۔
ڈاکٹرفرح جاوید
1980 کے بعد جن ناقدین نے نئے سیاق میں ادبی موضوعات پر لکھا ہے اور قارئین کی توجہ کا مرکز بنے ہیں ان میں شیخ عقیل احمد کا نام نمایاں ہے۔مختلف موضوعات پر ان کی کئی تنقیدی نگارشات سامنے آچکی ہیں۔ان میں ’غزل کا عبوری دور‘،’فن تضمین نگاریتنقیدوتجزیہ‘،’ فن تاریخ گوئی‘ اور’ مغیث الدین فریدی کا تخلیقی کینوس‘ خاص ہیں۔’’فن تضمین نگاری‘‘ اور’’ فن تاریخ گوئی‘‘ جیسے مشکل موضوعات پرلکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ حال ہی میں شموئل احمد کے افسانوں کا مطالعہ علم نجوم کی روشنی میں پیش کرکے تنقید کی ایک نئی جہت سے قاری کو روشناس کرایا ہے۔
شیخ عقیل احمد کی حالیہ تصنیف’’ادب، اسطور اور آفاق‘‘ سترہ تحقیقی وتنقیدی مضامین پر مشتمل ہے۔ہر مضمون کتاب کے عنوان کو مس کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ’’اقبال اور کالی داس کی شاعری میں فطرت کی منظر کشی‘‘میں کائنات اور فطرت کے متعلق فلسفیوں کے خیالات اور کائنات وفطرت کے مفہوم کی روشنی میں جس طرح اقبال اور کالی داس کی شاعری میں موجود فطرت کی منظر کشی کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے وہ ان کے وسعت مطالعہ اور جمالیاتی فکر کا ثبوت ہے۔
’’سماجی ہم آہنگی اور صوفیانہ افکار‘‘میں ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے انسانی خوشحالی، امن چین اور ترقی کے لئے سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کی معنویت کواردو شاعری کے تناظر میں واضح کیا ہے اور صوفی سنتوں کے خیالات وافکار کے جائزے کی روشنی میں اس امر پر زور ڈالا ہے کہ جب فطرت کا نظام ایک ضابطے اور قاعدے کا تابع ہے تو کیا وہی ضابطے سماجی سطح پرممکن نہیںہیں؟دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ گلوبل وارمنگ ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے، اس سے پورا ماحولیاتی توازن بگڑتا جارہا ہے۔اس سے بچنے کے لیے ایسی ترکیبیں ڈھونڈنی ہوں گی جس سے فطرت کے حسین مناظرکو برقرار رکھا جاسکے۔متذکرہ دونوں مضامین کو ماحولیاتی تنقید کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں سورج کی افادیت سے متعلق ہزاروں اساطیری قصے کہانیاں موجود ہیں۔مصنف نے ان اساطیری کہانیوں کو اردو کی نظمیہ شاعری میںبطور علامت اور استعارہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’’نظمیہ شاعری میںسورج کا اسطوری کردار‘‘ کے علاوہ مصنف نے ایک دوسرے مضمون میں ’’شہاب جعفری کی شاعری میں سورج کا علامتی اور اسطوری کردار‘‘ کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
’’سائنسی اور صوفیانہ فکریات کا شاعر صبااکبرآبادی‘‘ میں ان کے اشعار کو Physics کے Quantam Theory پر اطلاق کیا ہے اور بعض اشعار کی روشنی میںاشراقی فلسفیوں کے نظریہ روشنی کی وضاحت کی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔اسی مضمون میں Management کے سبجکٹ لسان البدن کی تعریف اور اردو ،ہندی اور سنسکرت شعرا نے کس طرح اپنی شاعری میں اس سے کام لیا وغیرہ موضوعات جو زیر بحث آئے ہیں۔
مغیث الدین فریدی کے تعلق سے اس کتاب میں تین مضامین ہیں۔پہلا بعنوان’’تہذیب جنوں اورمغیث الدین فریدی‘‘دوسرا’’آئینہ عکس سخن میں‘‘ اور تیسرا’’ مغیث الدین فریدی کی تضمین نگاری‘‘۔مصنف نے فریدی کی صوفیانہ صفات اور ان کی شخصیت کا بھرپور جائزہ لیاہے۔بقول مصنف ان کی شاعری میں ماسواخدا دنیا کی ہر چیز سے بے نیازی کی ترغیب ملتی ہے۔وہیں ان کے اشعار میں خرد یعنی عقل پر جنوں کوترجیح دی گئی ہے۔
’شموئل احمد کے افسانوں میں علم نجوم کی معنویت‘‘ میں علم نجوم کی تعریف اور تاریخ پر گفتگو کرتے ہوئے علم نجوم پرکالی داس کی کئی کتابوں کے حوالے پیش کئے ہیں اور ستاروں کی گردش کے اثرات سے کس طرح افسانوں کے کردار گردش میں آجاتے ہیں اور ان کی زندگیوں میں کشیدگی پیدا ہوجاتی ہے جو کسی کہانی کی سب سے بڑی کامیابی ہے اسی طرح ’’پریم چند کی نئی تفہیم اور شکیل الرحمٰن کا تنقیدی رویہ‘‘ میں پریم چند کی فکشن پر کی گئی اب تک کی تنقید کو رد کرتے ہوئے فکشن کی نئی تنقید جو شکیل الرحمن نے پیش کی ہے کوصحیح اور کارآمد قرار دیا ہے۔
شیخ عقیل احمد نے اردو کے مشہور طنزومزاح نگار نصرت ظہیر کی تحریروں کاجائزہ تفصیل سے لیا ہے۔نصرت ظہیر اردو طنزومزاح کی پہچان بن چکے ہیں۔ان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ الفاظ، فقرے،جملے، محاورے وغیرہ کے برمحل استعمال سے اپنے مضامین میں طنزومزاح پیدا کرتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ قاری ان کے طنزیہ ومزاحیہ مضامین پڑھنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔بقول مصنف ’’نصرت ظہیر کے مزاح کا مقصد کسی شخصیت یا کسی قوم۔۔۔۔کا دل دکھانا نہیں بلکہ صرف طنزومزاح ہے‘‘۔
دیگر مضامین مثلاً ٹیگور کا فلسفۂ زندگی، جدید نظم میں ہیئت کے تجربے، عاشور کاظمی اور مرثیہ کا تجدیدی سفروغیرہ اہمیت کے حامل ہیں اور لائق مطالعہ ہیں۔آخرالذکر مضمون کے تعلق سے ایک اہم بات یہ کہ عموماً مہا بھارت،رامائن اور گیتا کو جورزمیہ (Epic )ہیں لوگ تاریخی نقطۂ نظر سے آسمانی کتابیں نہیں مانتے ہیں لیکن شیخ عقیل احمد کی یہ رائے کہ مہابھارت، رامائن اور گیتا آسمانی کتابیں ہیں قاری وناقدین کے درمیان ایک نئی بحث کا باب وا کرسکتی ہے۔
ابوظہیر ربانی