’’حضرت ابوذرغفاری ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے مجھ سے پوچھا جب سورج ڈوب رہا تھا، تو جانتا ہے کہ سورج کہاں جاتا ہے؟میں نے کہا اﷲاور اس کے رسولﷺ خوب جانتا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا، وہ جا کر عرش کے پیچھے سجدہ کرتا ہے پھر (پورب سے نکلنے کی ) اجازت مانگتا ہے(اپنے پروردگار سے) اس کو اجازت دی جاتی ہے، اور وہ زمانہ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے گا اور اس کاسجدہ قبول نہ ہوگا، اور پورب سے نکلنے کی اجازت مانگے گالیکن اس کو اجازت نہ دی جائے گی، بلکہ یہ حکم ہوگا جدھرسے(پچھم سے)آیا ادھر ہی لوٹ جا۔پھر وہ پچھم سے نکلے گا اور(سورۂ یٰسین میں) یہ آیات کہاور سورج اپنے ٹھہراو پر جانے کے لئے چل رہا ہے، یہ انتظام اس زبردست علم والے خدا کا ہے۔اس کا بھی یہی مطلب ہے۔‘‘
(بخاری شریفجلد دوم)
علویات میںسورج ، چاند اورکواکب دنیا کے وجود میں آنے سے لے کر تا قیامت کسی نہ کسی شکل میں ہماری زندگی کو اثر انداز کرتے رہیں گے۔ ان میں سورج کئی لحاظ سے اہم ہے اسی لیے نظمیہ شاعری میںسورج کا استعمال بطور علامت اور استعارہ ہوتا رہا ہے۔سورج کو اس کے مختلف منازل اور مختلف صورتِ حال کے تحت خوشی، عیش و عشرت ،طاقت ، ترقی، علم و آگہی، روشنی کا سر چشمہ، خدااورسیارے وغیرہ کی علامات کے طور پر بہ کثرت استعمال کیا گیا ہے۔اس لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آخر سورج کی اہمیت ہماری تاریخ، تہذیب ،معاشرہ اور زندگی میں کیا ہے؟سائنسی نظریے سے اس کا جواب تلاش کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ زرعی پیداوارکے اعتبار سے سورج بہت اہمیت کا حامل ہے۔کیوں کہ سورج کی روشنی سے دریا میں بخارات پیدا ہوتے ہیںاور وہی بخارات کرّۂ زمہریر تک پہنچ کر ابر بن جاتے ہیں اور ہوا ابر کو دور دور تک لے جاتی ہے تب بارش ہوتی ہے اوریہی بارش زمین کو نمو عطا کرتی ہے،نہریں اورچشمے جاری ہوتے ہیں۔کہتے ہیں کہ بخارات کو سورج کی روشنی پکاتی ہے اور اس سے سونا، چاندی،لوہا،شیشہ، یاقوت، اورہیرے جیسے اجساد اور معدنیہ بھی پیدا ہوتے ہیں۔درخت بھی اگتے ہیں اورنباتات پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے۔
سورج سب ستاروں میں بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ فلک چہارم پر واقع ہے اگر یہ فلک ثوابت میں ہوتا تو حرارت اور برودت دونوں کا اثر اشیا پر نمایاں ہوتا اور اعتدال اور توازن قائم نہ رہ پاتا۔اس لیے سورج مسلسل سفر میں رہتا ہے اور مشرق سے طلوع ہوکر مغرب میں غروب ہوتا ہے۔اسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے کہ ’’والشمسُ لِمستقرِلہا‘‘۔سورج کے مختلف کردار پربحث کرنے سے پہلے یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ ہندو مائیتھو لوجی میںسورج سے متعلق کیا کہا گیا ہے؟
ویدک اشلوکوں میں سورج کو ’’سُریا‘‘ اور ’’ساوتری‘‘ کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے۔کبھی کبھی ان دونوں ناموں کو ساتھ ساتھ لیا جاتا ہے تو کبھی ایک دوسرے کے بدل کے طور پر۔یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ صبح اور شام میں جو سورج نظر آتا ہے اسے ’’سُریا‘‘ کہا جاتا ہے اور جب سورج غروب ہوجاتا ہے تو اسے ’’ساوتری ‘‘کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ساوتری کی سنہری آنکھیں، سنہرے ہاتھ، سنہری زبان ہوتی ہے۔یہ بگھی کی سواری کرتا ہے جسے سفید پاؤں والے چمکیلے گھوڑے کھینچتے ہیں۔
ہندوستان کی قدیم ترین ہندو ؤں کی مذہبی کتابوں میں سورج کو’ ’برہم‘ ‘کی علامت مانا گیا ہے۔سورج کائنات کی تخلیق کرتاہے اور اسے تباہ بھی کرتا ہے۔یہ عمل کی بھی علامت ہے ، یہ مذہب کی بنیاد ہے اورعلم کا بھی سر چشمہ ہے۔ر ِگ وید میں’’ سورج‘‘ کو تمام دیوتاؤں کی آنکھ کہا گیا ہے۔’’سورج‘‘ کو بارش کرانے والا دیوتا بھی سمجھا جاتا ہے۔سورج کو آفاقی حقیقت کی بھی علامت مانا جاتا ہے۔اسے ہمیشہ نیا اور جوان رہنے والا اداکار بھی کہا جاتا ہے۔شاید اسی لیے ن م راشد نے اپنی ایک نظم میں یہ کہا ہے کہ ’’مثالِ خورشیدوماہ و انجم مری محبت جواں رہے گی۔‘‘
وید کا مقدس ترین منتر ’’گائتری‘‘ جسے ویدوں کی ماں بھی کہا جاتا ہے، کی تلاوت طلوع آفتاب کے وقت عقیدت مند برہمن کرتے ہیں جس میں سورج کو مخاطب کرکے روحانی معجزاتی طاقت کے حصول کے لیے دعا مانگی جاتی ہے کیوں کہ آفتاب کے اوج سے ہی تمام حیوانات کے بدن میں قوت ونشو پیدا ہوتی ہے۔ اور اس کے نزول سے انسانی اجسام میںاضمحلال پیدا ہوتا ہے۔ اس منتر کا انگریزی ترجمہ Indian Wisdom’,p.20 میں اس طرح درج ہے
Let us meditate on the excellent glory of the Divine;
May He enlighten (or stimulate ) our understandings.
سائنسی نظریے سے دیکھا جائے تو زرعی پیداوار میں Direct یا Indirect طورپر سورج کا کرداربہت اہم ہے۔مثلاًزرعی پیداوار کے لیے زمین،روشنی ، ہوااور بارش بے حد ضروری ہے۔ان چاروں عناصر(زمین،روشنی،ہوا اور پانی) کے وجود میں آنے کی سائنسی اور جغرافیائی وجہ سورج ہی ہے۔ اسی لیے W. J. Wilkingsنے برہم پُران کے حوالے سے سورج کو “Mihira” یعنی(وہ جو زمین کو پانی دیتا ہے) “He who waters the earth” اور Vivaswat یعنی (وہ جو پُر نور ہو) “The Radiant one.” کہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے قدیم ترین تمدّن میسوپوٹامیا اور مصری تمدّن کی ابتدا سے ہی سورج کو غلہ پیدا کرنے والااورسکھ پہنچانے والا ’’را‘‘ دیوتا سمجھا جاتا تھا۔
فارسی اور اردو شاعری میںانسان کوایک ذرّہ ، مجبور وناتواںتصور کیاجاتارہا ہے لیکن علامہ اقبال نے مردِ مومن کا تصّور پیش کرکے انسان کے احساسِ کمتری کو دُور کیا ۔ اس کے بعد اردو شاعری میں انسان کو مٹی کا نہیںبلکہ خدا کا ذرّہ سمجھا جانے لگا ۔اس ضمن میں کئی شعرا کی نظمیں مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیںجن میں شہاب جعفری کی نظمیںتو اس تصور سے پوری طرح معمور ہیں۔انہوں نے اپنی بعض نظموں میںسورج کوخداسے تعبیر کیا ہے اور انسان کو سورج کا ذرّہ قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اُوپرذکر کیا گیاہے کہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے مطابق سورج کو’ ’برہما‘ ‘کی علامت مانا گیا ہے جو اس کائنات کی تخلیق کرتاہے، اسے اپنے اختیار میں رکھتا ہے اور اسے تباہ بھی کرتا ہے۔ اس قول کو مد نظر رکھتے ہوئے شہاب جعفری کی ایک نظم’’ذرّے کی موت‘‘کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے
اپنے سورج سے بچھڑا ہوا تارہ ہوں
اپنی فطرت سے بکھرا ہوا پا رہ ہوں
اسی نظم ’’ذرّے کی موت‘‘ میں ایک جگہ انسان کو سیّارہ سے تعبیر کیا ہے جو سورج سے ٹوٹ کر الگ ہو گیا ہے۔ جس سے نظامِ کشش کا توازن برقرار نہیں رہنے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔انسان کو ایک سیّارہ قرار دینے سے جہاں انسان کی عظمت اور اس کے طاقتور وجود کا احساس ہوتا ہے وہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شہاب جعفری سائنسی رموز سے بھی آشنا ہیں
میں نظامِ کشش سے جدا ہو گیا
چاند سے کس قدر فاصلہ ہو گیا
’’چاند سے کس قدر فاصلہ ہو گیا ہے‘‘ کہہ کر شاعر نے فلکِ تدویر کے قمر کی کشش اور آفتاب سے اکتثابِ نور اور پوری فلکی ماہیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔چاند تاریک ہے اور آفتاب سے روبرو ہوکر ہی روشن رہتا ہے۔یہ ایک نظامِ کشش ہے کہ وہ تاریک سیارہ ہوتے ہوئے بھی روشن رہتا ہے۔
اختر الا یمان کی مشہور بیانیہ نظم ’’ایک لڑکا‘‘ جو شاعر کا ہم زاد ہے اور جس میں بیانیہ پوری طرح سے تحلیل ہو گیا ہے، کے دوسرے بند سے شہاب جعفری کے مندرجہ بالا خیالات کی تائید ہوتی ہے ۔اس بند کا یہ حصہ دیکھیے
خدائے عزّو جل کی نعمتوں کا معترف ہوں میں
مجھے اقرار ہے اس نے زمین کو ایسے پھیلایا
کہ جیسے بستر کمخواب ہو، دیبا و مخمل ہو
مجھے اقرار ہے، یہ خیمۂ افلاک کا سایا
اسی کی بخششیں ہیں، اس نے سورج، چاند، تاروں کو
فضاؤں میں سنوارا اک حد فاصل مقرر کی
متذکرہ بند کے مصرعوں میںشاعر نے خدا کی بخشی ہوئی نعمتوں کا اعتراف کیا ہے جن میں سورۂ رحمن کی پرچھائیاں موجود ہیں لیکن آخری مصرعے میں یہ کہہ کر کہ’’ اس نے سورج ،چاند ،تاروں کو فضاؤں میں سنوارا ایک حد فاصل مقرر کی‘‘ ،سورج ،چاند اور تاروں کو سیارے قرار دیا ہے اورفلکیاتی نظام کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔
علمِ نجوم میں سورج کو تمام سیاروں کابادشاہ کہا جاتا ہے۔علمِ نجوم کے مطابق نو سیّارے ہیںاوران سیّاروں کی گردش ہی دنیا میں انسان کی تقدیر بناتی اور بگاڑتی ہے۔ان سیّاروں میں سورج کو خاص اہمیت حاصل ہے۔کہا جاتا ہے کہ تمام سیّارے سورج سے ہی طاقت حاصل کرتے ہیںاور نفع و نقصان پہنچاتے ہیں۔برہم پوران کے مطابق سورج کے بارہ نام ہیں جن میں W.J.Wilkins کے مطابق ایک نامGrahapatin یعنی”The Lord of the stars.” بھی ہے۔
ن م راشد نے اپنی ایک علامتی نظم ’’ اندھا جنگل ‘‘میں سورج کو علم اور کاتب تقدیر کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے جبکہ اندھا جنگل ظلمت کا مرکز ہے۔اس نظم کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں
۔۔۔جس جنگل میں سورج درّانہ در آیا ہے
پتھر ہے وہ جنگل، پتھر اس کے باسی بھی
دیو نے لے لی ان سے چھونے تک کی شکتی بھی
آفت دیکھی ایسی بھی؟
پہلے مصرعے میں جنگل ظلمت کی علامت ہے جبکہ سورج روشنی کی علامت ہے۔شاعر نے دو سرے مصرعے میں جنگل اور جنگل کے باسی کو پتھر قرار دے کر یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ یہ دنیا ایک اندھیرے جنگل کی طرح ہے جہاں ہنوز علم کی روشنی نہیں پڑی ۔اسی لیے یہاں کے انسان بھی پتھر کی طرح بے حس اور بے جان ہیں۔اسی بند کے مندرجہ ذیل مصرعوں میں شاعر نے سورج کی کرنوں کو زندگی بخشنے والی شے سے تعبیر کیا ہے
جن پیڑوں پر سورج نے ڈالیں اپنی کرنیں
وہ صدیوں کے اندھیرے پیڑ ہیں اندھے جنگل میں
آخر آنکھیں کیسے ان کو مل جائیں پل میں
یارا ہے کا جل میں؟
کرنیں پھر بھی کتنی دھنی ہیں،کتنی دریا دل
چھاپ رہی ہیں مردہ پتوں ہی پر تصویریں!
ان مصرعوں میں اندھا جنگل مرکز ظلمت ہے اور مردہ پتّے ان انسانوں کی علامت ہے جن پر نہ علم کی روشنی کا کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ تقدیر بدلنے والے ستاروںکا۔
ن م راشد نے سورج کو مشرقی تہذیب کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیاہے۔ ان کی ایک نظم ’’ظلم ِرنگ‘‘ جس میں امتیازِ رنگ و نسل کی وجہ سے مغرب و مشرق میں جو دوریاں اور نفرتیں پیدا ہو گئی ہیں ،ان کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مغربی تہذیب پر مشرقی تہذیب کو فوقیت دی ہے۔ اس نظم کے یہ مصرعے ملاحظہ کیجیے
مگر وہ ہاتھ جن کا بخت،
مشرق کی جواں سورج کی تابانی
کبھی ان نرم و نازک، برف پروردہ حسین باہوں
کو چھو جائیں،
محبت کی مکیں گاہوں کو چھو جائیں۔۔۔
شاعر نے ان مصرعوں میں مغربی تہذیب پر مشرقی تہذیب کے تفوق کی بات اس لیے کی ہے کہ مشرقی تہذیب کی بنیاد مذہب پر ہے جو محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے۔
راشد کی ایک اور نظم’’ایک زمزمے کا ہاتھ‘‘ میں بھی سورج کو بطور علامت استعمال کیا گیا ہے۔ اس نظم میں زمزمے کا ہاتھ یعنی وہ ہاتھ جو دعا کے لیے یا دعا دینے کے لیے اٹھتا ہو،پر زور دیا گیا ہے ۔شاعر نے اس ہاتھ کی اہمیت اور آفادیت کوظاہر کرنے کے لیے کبھی کہا ہے کہ اس ہاتھ میں شمع کی لرزش ہے جو شاہراہ پر روشنی دیکھاتی ہے، کبھی اسے روٹی کمانے والا ہاتھ اور زندگی کا اشارہ کہا ہے تو کبھی اسے جام اٹھانے والا ہاتھ کہا ہے جو خوشی کی علامت ہے۔اس ہاتھ کو غم زدہ کے آنسو پوچھنے والا ہاتھ بھی کہا ہے۔آخر میں اس ہاتھ کو سورج کا جز قرار دے کر اسے عبادت کے لائق قرار دے دیا ہے۔اس نظم کے یہ مصرعے ملاحظہ کیجیے
’’افسوس کہ دہلیز پر
اک عشق کہن سال پڑاہے
اس عشق کے سوکھے ہوئے چہرے
پہ ڈھلکتے ہوئے آنسو
اس ہاتھ سے پونچھیں
یہ ہاتھ ہے وہ ہاتھ
جو سورج سے گرا ہے
ہم سامنے اس کے جھک جائین دُعامیں
کہ یہی زندگی ومرگ کی ہر دھوپ میں
ہر چھاؤں میں
الفاظ و معنی کے نئے وصل کا پیغام بنے گا
یہاں سورج روشنی کے مرکز اور بلندی کے علاوہ خدا کی بھی علامت ہے جو بڑا ہی رحیم و کریم ہے۔متذکرہ نظم میں شاعر نے یہ کہہ کر کہ ’’یہ ہاتھ ہے وہ ہاتھ، جو سورج سے گرا ہے،ہم سامنے اس کے، جھک جائیں دعا میں‘‘ سورج کے اُس اساطیری کردار کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ یہ بگھی کی سواری کرتا ہے جسے سفید پاؤں والے چمکیلے گھوڑے کھینچتے ہیں،وہ زمین کو روشن کرتا ہے،اس کے سنہرے ہاتھ دعا دینے کے لیے پھیلے رہتے ہیں۔
ن م راشد نے سورج کو بلندمرتبہ اور جاہ جلال کے استعارے کے طور پر بھی استعمال کیاہے۔اپنی ایک نظم ’’شباب گریزاں‘‘ میں دنیا کی بے ثباتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
میں اک تازہ وارد ستارہ سہی،
جانتا ہوں کہ، اس آسماں پر
بہت چاند ، سورج، ستارے اُبھر کر
جو اک بار ڈوبے تو پھر اُبھرے نہیں
یہاں آسماں ، چاند ،سورج اورستارے اُن انسانوں کی علامات ہیں جو اپنی طاقت اور دولت کی بدولت پوری دنیا پر حکومت کرتے آئے ہیں لیکن وقت کی گردش نے صفحۂ ہستی سے ایسے لوگوں کا نام و نشان تک مٹا دیا۔
گوہر نوشاہی نے بھی اپنی ایک نظم’’سانپ! آ کاٹ مجھے‘‘ میں انسان کو بے بس مجبور، ناتواں اور مفلس کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے جبکہ سورج کوبلندی اور دولت کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے اس نظم میں شاعر نے تذلیل ہونے سے مر جانا بہتر سمجھتا ہے۔چند مصرعے ملاحظہ ہوں
شہر کے اُونچے مکانوں پہ چمکتا سورج
مجھ سے کہتا ہے کہ تو ننگا ہے
اور میری روح مجھے کہتی ہے
جسم کو ڈھانک، مری شہر میں تذلیل نہ کر
’’شہر کے اُونچے مکانوں پر چمکتا سورج‘‘ شان و شوکت اور دولت کی علامت ہے جو ہمیشہ غریبوں کو نیچی نظر سے دیکھتی ہے۔اس نظم میں شاعر نے دولت مندوں پر طنز اور مفلسوں پر اظہارِ ہمدردی کی ہے۔
ن م راشد نے اپنی کئی نظموں میں’’ سورج‘‘ کو ظلم و ستم کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا ہے۔اپنی ایک نظم’’نیا آدمی‘‘ میں ایک خاص ماحول پس منظر میں ایک سین ابھارا ہے ۔پھر جیسے پردہ گرتا ہے اور کوئی نیا منظر کسی نئے پس منظر میں پھر ابھرتا ہے جس سے اس نظم میں ڈرامائی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔اسی ڈرامائی انداز میں سورج کے اساطیری کردار کا رول نظم کے ان مصرعوں میں ملاحظہ کیجیے
روایت،جنازہ
خدا اپنے سورج کی چھتری کے نیچے کھڑا
نالہ کرتا ہوا
جنازے کے ہمراہ چلتے ہوئے
گھر کے لوگوں کا شور و شغب
ریا کار لوگوں کو شور و شغب کا سرور
یہاں ’’سورج ‘‘ تباہ و برباد کرنے والے آلات کی علامت ہے جسے طاقتور ملک اپنے ملک کی حفاظت کا سامان سمجھتے ہیں لیکن کمزور ملکوں کے لیے یہ تباہ کن ہتھیار ہیں۔دوسرے مصرعے میں’’سورج کی چھتری‘‘ سے ذہن میدان حشر کی طرف بھی منتقل ہوجاتا ہے جس کے متعلق قرآن شریف میں کہا گیا ہے کہ سورج سوا نیزے پر ہو گا ،آسمان زمین سے مل جائے گا اور خدا کو آٹھویں عرش کے ساتھ نیچے لایا جائے گااور خدا کے سامنے سبھی کے ا عمال کا حساب کتاب ہوگا۔
جدید نظم نگار شعرا میں میراجی نے سورج کو بطور علامت تقریباًپچیس نظموں میں استعمال کیا ہے۔ان نظموں میں آمدِ صبح،دن کے روپ میں رات کی کہانی،کتھک،حرامی، سوریہ پوجا، دیو مالا سے سائنس تک،اجنتا کے غار، انجام، دور کنارہ، ایک شکاری، ایک شکار، اے لڑکی، لذت کی بیچارگی، ایک شام کی کہانی،شرابی، کب جوگ مٹے گا تیرا،جیون آس کا دھوکا گیانی،دل دامن کا متوالاہے، دل میں جس کی دھن ہے سمائی وغیرہ۔ اس کے علاوہ میراجی نے انگریزی، فرانسیسی اور روسی ادب کے شعرا کی متعدد نظموں کے ترجمے کیے ہیں جن میں سورج کا استعمال بطور علامت دس مرتبہ کیا گیا ہے۔
میرا جی کی ایک نظم ’’آمدِ صبح‘‘ میں رات محبوبہ،چاند،عاشق اور ستارے رات کے دوپٹّے کااستعارہ ہے لیکن ’’سورج‘‘ رات اور چاند کے درمیان کی محبت کا خاتم ہے یعنی villian کی علامت ہے۔اس نظم کے چند مصرعے ملاحظہ کیجیے۔
ہے دل میں چاند کے، جذبہ محبت کا
چھپاتا ہے وہ غیروں کی نگاہوں سے اڑھا کر اک دوپٹّہ اس کو تاروں کا
مگر چنچل ہے رانی رات کی بے حد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرندے چہچہاتے ہیں،
وہ لو، سورج بھی اپنی سیج پراب جاگ اٹھا ہے،
گئی رات اور دن آیا
پہلے تینوں مصرعوں میں چاند اور رات کو مجسم قرار دے کر چاند کے جذبۂ محبت کو ظاہر کرنے کے لیے شاعر نے کہا ہے کہ چانداپنے محبوبہ یعنی رات کو غیروں کی نگاہوں سے چھپانے کے لیے تاروں کے دوپٹّے سے اسے ڈھک دیا ہے۔تاروں کے دوپٹے سے ڈھکنے کا خیال انتہائی نازک ہے اور اس عمل میں محبت کی سرشاری کا احساس ہوتا ہے۔لیکن سورج کو اپنے اسٹیج پر آنے سے چاند،رات،اور ان دونوں کی محبت کا وجود پل بھر میں ختم ہوجاتاہے یعنی سورج ظلم کی علامت ہے۔اسی طرح شاعر نے ایک دوسری نظم’’دن کے روپ میں رات کی کہانی‘‘ میں رات کو دن پر ترجیح دی ہے کیوں کہ رات میں سایے نہیں ہوتے ہیں۔میرا جی کے یہاں سایے دراصل دل کا غم ،دل کی خلش اور دل کی وہ تمنائیں ہیں جو خاموش رہتے ہیں مگر سور ج کے آجانے سے رات کی سیاہی مٹ جاتی ہے اور چاروں طرف ہر چیز کے سایے ابھرنے لگتے ہیں ۔ اسی لیے شاعر یہ نہیں چاہتا ہے کہ سورج کبھی نکلے اور اگر نکل بھی جائے تو شاعر دعا کرتا ہے کہ گھٹا چھا جائے۔اس نظم کے چند مصرعے ملاحظہ کیجیے
رات کے سائے ہی خاموش رہا کرتے ہیں
دن کے سائے تو کہا کرتے ہیں
بیتی لذت کی کہانی سب سے
اور مری ہستی بھی اب دن کا ہی اک سایہ ہے
جس کے ہر ایک کنارے کو شعاع سوزاں
اپنی شدّت سے جلانے پہ، مٹانے پہ تلی بیٹھی ہے،
کاش آجائے گھٹا ۔۔۔اور بن جائے
چڑھتے سورج کا زوال
چڑھتا ہوا سورج ایک محاورہ ہے جو طاقت کی علامت ہے۔اسی لیے علامتی پیرایے میں یہ مقولہ مشہور کہ ہمیشہ چڑھتے ہوئے سورج کی پوجا ہوتی ہے۔لیکن یہاں چڑھتا ہوا سورج ظلم و ستم کی علامت ہے۔عمر خیام کی رباعیوں کا انگریزی ترجمہ فیٹز جیر لرلڈ نے کی تھی ۔میرا جی نے بھی انگریزی ترجمے کو بنیاد بنا کر عمر خیام کی رباعیوں کا اردوتر جمہ کیا تھا۔ان ترجموں میںمندرجہ ذیل رباعی اس لیے قابلِ ذکر ہے کہ اس میں بھی سورج کو ظلم و ستم کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے
جاگو! … سورج نے تاروں کے جھرمٹ کو دور بھگایاہے
اور رات کے کھیت نیرجنی کا آکاش سے نام مٹایا ہے
جاگو! اب جاگی دھرتی پر اس آن سے سورج آیا ہے
راجہ کے محل کے کنگورے پر اُجول تیر چلایا ہے
اس رباعی کے پہلے اور دوسرے مصرعے کی ابتدا لفظ ’’جاگو!‘‘ سے کی گئی ہے جو خبردار کر رہا ہے سورج سے ۔تاروں کو بھگانااور اجول تیر چلاناجیسے افعال ظلم و جبر کی اشاریہ ہیں۔
موجودہ دور کے نظم نگار بلراج کومل نے اپنے مجموعۂ کلام ’’ سفر مُدام سفر‘‘ کی کئی نظموں میں سورج کو علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ مثلاًنظم ’’میں شاعر میں فنکار‘‘ میں کہا ہے کہ ’’ میں سرسوں کے ہنستے ہوئے کھیت میں؍پھول بن کرکھلا تھا؍میں سونا تھا؍ پگھلا ہوا گرم سورج؍۔۔۔یہاں شاعر نے ایک تخلیق کار اور فنکار کو پھول ،سونا اور پگھلے ہوئے سورج سے تعبیر کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایک تخلیق کار جہاںپھولوں کی طرح نرم و نازک اور شگفتہ ہوتا ہے وہیں پگھلے ہوئے سورج کی طرح اپنے اندر آگ کی گرمی رکھتا ہے۔
ان کی ایک نظم ’’ سُرخ سورج کا زہر‘‘ میں سورج ظلم کی علامت ہے۔اس نظم کے چند مصرعے ملاحظہ کیجیے
جستجو کی ہر ایک منزل پر
تنہا ہوتا ہوں، یاد کرتا ہوں
آخرِ شب وہ کون آیا ؟
سُرخ سورج کا زہر ہاتھوں سے
کس نے آکر مجھے پلایا تھا
سُرخ رنگ، خود ہی خطرے کی علامت ہے اور زہر تو جان لیوا ہوتاہی ہے لیکن ان دونوں کو سورج کے ساتھ جوڑ کر سورج کو مزید ظلم کی علامت بنا دیا ہے۔
حمایت علی شاعر نے بھی ایک نظم’’تضاد‘‘ میں طاقتور اور دولت مندوں کے زوال کو ڈوبتے ہوئے سورج سے تعبیر کیا ہے۔یہ مصرعے دیکھیے
نہ جانے اس لمحۂ گریزاں کے تنگ دامن میں کتنی صدیاں سمٹ گئی تھیں
نہ جانے میری نظر میں کتنے نئے افق جگمگائے
کتنے ہی چاند سورج اُبھر کے ڈوبے
حمایت علی شاعر کے اس جملے سے کہ’’کتنے نئے افق جگمگائے،کتنے ہی چاند سورج ابھر کے ڈوبے‘‘سے ہماری تہذیب کی شکست و ریخت کی طرف بھی ذہن جاتا ہے جو درست ہے کیوں کہ اس دور کے اکثر شعراکے کلام میں تہذیبی عروج وزوال سے متعلق نظمیں ملتی ہیں۔
ڈوبتا ہوا سورج بھی ایک محاورہ ہے جو زوال کی علامت ہے۔چڑھتا ہوا سورج کبھی ڈوبتا بھی ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وقت کے بدلنے کے ساتھ ظالم کا ظلم ختم ہو جاتا ہے بلکہ کبھی کبھی ظالم مظلوم بن جاتا ہے۔میرا جی نے اپنی ایک نظم ’’کتھک‘‘ میں ڈوبتے ہوئے سورج کو زوال کی علامت کے روپ میں استعمال کیا ہے۔چند مصرعے ملاحظہ کیجیے
کیوں چھوڑ سنگھاسن راجا نے بن باس لیا،کیا بات ہوئی
کب سکھ کا سورج ڈوب گیا، کب شام آئی، کب رات ہوئی
ساون کی رم جھم گونج اٹھی– بادل چھائے، برسات ہوئی
راجا تو کہاں ، پرجا پیاسی اک اور ہی روپ میں ناچتی ہے
میرا جی کے یہاں سورج ،چاند اور رات کے علامتی اظہار کے متعلق فتح محمد ملک اپنے ایک مضمون ’’ میرا جی کی کتابِ پریشاں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’میرا جی کے ہاں دن ظلم کی علامت ہے اور رات تخلیقی جوش ونمو اور انبساط کی علامت۔’’آمدِ صبح‘‘ اور ’’ سنجوگ‘‘ جیسی نظموں میں رات اور چاند پریتم اور پریمی ہیں اور سورج رقیب۔اور غروب آفتاب سے لے کرطلوع آفتاب تک کے لیے حدول کش وقفۂ زماں میں انسانی عشق کا ڈراما سارے رنج و راحت سمیت دیکھا جا سکتا ہے۔رات اور دن کی یہ علامات ذاتی اور رومانی ہی نہیں اجتماعی اور سیاسی رنگ بھی رکھتی ہیں۔ (میرا جی ایک مطالعہ،ڈاکٹر جمیل جالبی،ص،۲۶۲)
میرا جی کی ایک نظم ’’دیو مالا سے سائنس تک‘‘ میں سورج کو جہاں دیو مالائی علامات کے طور پر استعمال کیا گیا ہے وہیں اسے سائنسی نظریے سے بھی دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔چند مصرعے ملاحظہ کیجیے
تارے مل کر شور مچائیں۔۔۔ دیکھو چندا ماموں ننگے
ان کو کون یہ بھید سمجھائے
گیان کا سورج بڑھتا جائے
مکتب میں استاد بتائے
کیسے دن ساون کے آئے
چلتے سورج میں ہے گرمی
اس گرمی کے دل کی نرمی
دھیرے دھیرے کھوَلتے ساگر کے سینے پر کرنوں کا اک جال بِچھائے
بوندیں بھاپ بنیں پھر بادل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تینوں اَن مٹِ دھیان کے دھوکے
سورج دیوتا چندا ماموں، دھرتی ماتا
او ہو ہو ہو بھیگ نہ جائیں لاؤ چھاتا
سورج کی گرمی سے بھاپ کا بننا اور بھاپ بن کر اوپر اٹھنا اور بادل کا بننا پھر ٹھنڈا ہوکر بارش کا ہونا ایک سائنسی عمل ہے۔لیکن اس سائنسی عمل کو دیو مالا سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔شاید اسی لیے ہندو مائیتھو لوجی میں سورج کو’’ مہر‘‘ یعنی پانی برسانے والا دیوتا کہا جا تا ہے۔سائنس کے مطابق دھرتی اور چاندسورج سے الگ ہوئے سیارے ہیں ۔اسی لیے ہندو مائیتھولوجی میں دھرتی کو ماں اور چاند کو ماما کہا جاتا ہے۔
چوں کہ سورج ہر روز طلوع ہوتا ہے اس لیے ویدوں کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ سورج ہمیشہ نیا اور نوجوان رہنے والا ایک اداکار ہے۔ ویسے یہ دوسری بات ہے کہ سورج غروب بھی ہوتا ہے لیکن طلوع ہونے کے لیے غروب ہونا بھی ضروری ہے اس لیے دونوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے لیکن عجیب بات ہے کہ ہماری تہذیب میں طلوع آفتاب خوشی وترقی کی اور غروب آفتاب غم و تنزلی کی علامات ہیں۔ جذبی کی ایک مشہور نظم ’’نیا سورج‘‘ میں سورج ہندستان کی آزادی کا استعارہ ہے جو ہمارے لیے انتہائی خوشی کا مقام ہے۔ اس نظم میں کئی جگہ سورج کا استعمال آزادی کے استعارے کے طور پرہوا ہے۔چندبند ملاحظہ کیجیے
بڑے ناز سے آج ابھرا ہے سورج
ہمالہ کے اُونچے کلس جگمگائے
فضاؤں میں ہونے لگی بارشِ زر
کوئی نازنیں جیسے افشاں چھڑائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے او نئی شان کے میرے سورج!
تری آب میں اور بھی تاب آئے
ترے پاس ایسی بھی کوئی کرن ہے
جو ایسے درختوں میں راہ پائے
جو ٹھٹھرے ہوؤں کو، جو سمٹے ہوؤں کو
حرارت بھی بخشے گلے بھی لگائے
ان مصرعوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جذبی کو سورج کی جغرافیائی ،سائنسی اور اساطیری معنویت و افادیت کا بھی احساس ہے لیکن انہوں نے سورج کو ’’نیا سورج ‘‘کہہ کر اس کا رشتہ ہندستان کی آزادی سے جوڑ کر نیاپن پیدا کیا۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ جذبی نے یہ نظم آزادی کے پس منظر میں لکھی تھی۔ ڈاکٹر مشتاق صدف نے بھی اپنی کتاب ’’ جذبی شناسی‘‘ میں اس نظم کا تجزیہ کرتے ہوئے سورج کو آزادی کا استعارہ قرار دیا ہے۔ پروفیسر محمد حسن نے بھی اس نظم کے حوالے سے لکھاہے کہ
’’نیا سورج ،اس وقت کی نظم ہے جب علامت نگاری کا چلن اردو میں عام نہ تھا اور یہ نظم آزادی کے فورناً بعد اس وقت کہی گہی جب ابھی آزادی کی معنویت اور حقیقت کے بارے میں فلسفہ طرازی ، سیاست کی دنیا میں بھی عام نہیں تھی۔اس وقت آزادی کو سورج کی علامت اس بلاغت اور رمزیت سے استعارہ کرنا، جذبی کے فنکارانہ درک کا ثبوت ہے۔‘‘ (جذبی شناسی،مشتاق صدف،بحوالہ ’’معاصر ادب کے پیش ر و ‘‘ ، ص-۱۱۴)
سردار جعفری نے بھی سورج کو اپنی ایک نظم’’اودھ کی خاکِ حسیں‘‘ میں خوشی عطا کرنے والی طاقت کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔اس نظم کے چند مصرعے ملاحظہ کیجیے
ہمالہ کی بلندیاں برف سے ڈھکی ہیں
ان آسماں بوس چوٹیوں کو
سحر کے سورج نے سات رنگوں کی کلغیوںسے سجا دیا ہے
شفق کی سرخی میں میری بہنوں کی مسکراہٹ گھلی ہوئی ہے۔
نذیر احمد ناجی نے بھی اپنی ایک نظم ’’ اتوار‘‘میں سورج کی تلمیحی معنویت کا اظہار ان مصرعوں کیا ہے
بند دریچے کھول کے
صبح کے سورج کی کرنوں کو
کمرے کی تاریکی سے
اک سرگوشی لینے دو
مدّت سے اس تاریکی کی
آگ میں جلتا آیا ہوں
سورج کے کرنوں کو علم کی روشنی اور کمرے کی تاریکی کو جاہلیت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
شہاب جعفری نے اپنی کئی نظموں میں انسان کو خداکاجزقرار دے کر اسے نور سے تعبیر کیا ہے۔ ’’برہم پران‘‘ کے مطابق بھی سورج کو Bhaskera یعنی(نور کا خالق) “The Creater of light.” کہا جاتا ہے۔ نور علم و آگہی کی بھی علامت ہے۔انسان کو خدانے جب اس دنیا میں بھیجا تو اس کے نور سے یہ دنیا چمک اٹھی اور ارض و سما روشن ہو گئے۔ گیارہ مصرعوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی آزاد نظم ’’میں‘‘اسی حقیقت کا اشاریہ ہے ۔چند مصرعے ملاحظہ ہوں
کس قدر روشن ہیں اب ارض و سما
نور ہی نور آسماں تا آسماں
میرے اندر ڈوبتے چڑھتے ہوئے سورج کئی
جسم میرا روشنی ہی روشنی
پانُو میرے نور کے پاتال میں
ہاتھ میرے جگمگاتے آسمانوں کو سنبھالے
سر مرا۔۔۔کاندھوں پہ اک سورج،
کہ نا دیدہ خلاؤں سے پرے ابھرا ہوا
اور زمیں کے روزوشب سے چھوٹ کر
آگہی کی تیز رو کرنوں پہ میں اڑتا ہوا
چار جانب اک سہانی تیرگی کی کھوج میں نکلا ہوا!!
اس نظم میں حد درجہ مبالغہ آمیز فقروں کو مصرعوں کے دروبست میں ڈھالاگیا ہے جس سے ان میں تحیّر یا Fantasy پیدا ہو گئی ہے۔اس کے علاوہ نظم میں افعال کے مقابلے ،اسماء کا استعمال کثرت سے کیا گیاہے جس سے پتہ چلتا کہ شاعر نے زمینی حقیقت کے بجائے آسمانی باتیں کی ہیں۔لہٰذا قاری کا ذہن تصوف کی طرف لا محالہ منتقل ہو جاتا ہے ۔اس لیے’ نور‘ اور’ سورج‘ کی علامتوں کی تلاش تصوف یا اسلامی فلسفے کی روشنی میںکرنا مناسب ہو گا۔واضح رہے کہ خدا سراپانور ہے اورنور کا سرچشمہ بھی۔ جبکہ انسان مٹی سے بنا ہے لیکن خدا نے اپنے نور کا پرتو انسان پر ڈال کر اسے بھی نور سے مالا مال کر دیا اس لیے انسان کے اندر وہ تمام خوبیاں پیدا ہو گئیں جس کی بدولت وہ تسخیرِ کائنات کی قدرت رکھتا ہے۔سورج بھی نور کا ایک گولہ ہے شاید اسی لیے سورج کو خدا مانا جا تا ہے۔تیسرے مصرعے میں شاعر نے ’’ میرے اندر ڈوبتے چڑھتے ہوئے سورج کئی‘‘ کہہ کراور چوتھے ،پانچویں اور چھٹے مصرعے میں یہ کہ کر کہ ’’جسم میرا روشنی ہی روشنی‘‘،’’پانو میرے نور کے پاتال میں‘‘اور’’ ہاتھ میرے جگمگاتے آسمانوں کو سمبھالے‘‘اور پھر ساتویں مصرعے میں’سر‘ کو سورج سے تشبیہ دے کرجہاںقاری کو تحیریاFantasy کی دنیا میں لے جاتا ہے وہیں اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتاہے کہ انسان علم وآگہی سے پوری طرح معمور ہے اور اب وہ اس لائق ہے کہ ’’چار جانب اک سہانی تیرگی کی کھوج‘‘ کر سکے۔
اسی طرح کا تحیر آمیز سماں شہر یارنے اپنی ایک نظم’’اس کے حصے کی زمین‘‘میں روشنی اور سورج کے علامتی اظہار سے باندھا ہے۔ روشنی ،سورج اور چاند روحانی طاقتوں کے علامات ہیں۔نظم کے مصرعے دیکھئے
وہ یہاں تک روشنی کے ساتھ تھا
اس کی مٹھی میں کئی سورج بہت سے چاند تھے
اس کے قدموں کی صدا سے راستے آباد تھے
اس کی آنکھوں میں ادھورے خواب تھے
اس کے ہونٹوں پر خدا کا نام تھا
منزل سودوزیاں آئی نہ تھی
دھوپ اس کے درمیاں آئی نہ تھی
اور اس کے بعد یہ دیکھا گیا
پہلے وہ، پھر روشنی اوجھل ہوئی
اس کے حصے کی زمیں جل تھل ہوئی
وہ یہیں تک روشنی کے ساتھ تھا
پہلے مصرعے’’وہ یہاں تک روشنی کے ساتھ تھا‘‘ اور دوسرے مصرعے’’اس کی مٹھی میں کئی سورج بہت سے چاند تھے‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نظم کا مرکزی کردار’’وہ‘‘ ایک غیر معمولی انسان ہے جو روشنی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے یا جس کے چاروں طرف روشی کے ہالے ہیں۔صرف اتنا ہی نہیں اس کے ہاتھ میںکئی سورج اور بہت سے چاند ہیں، سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ چاروں طرف روشنی بکھیرتے ہوئے چلتا ہے۔ پانچویں مصرعے’’اس کے ہونٹوں پر خدا کا نام تھا‘‘سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک مذہبی انسان تھاجسے خداسے غیر معمولی عقیدت اورمحبت ہے جس کی بدولت وہ مرد کامل کا درجہ حاصل کر چکا ہے اور حیرت انگیز روحانی قوتوں سے معمور ہے۔یہی وجہ ہے فطرت کی قوتیں ،آفتاب و ماہتاب اور روشنی وغیرہ اس کے تابع ہیں۔نویں مصرعے میں شاعر نے یہ کہہ کر کہ’’پہلے وہ ،پھر روشنی اوجھل ہوئی ؍اس کے حصے کی زمیں جل تھل ہوئی؍وہ یہیں تک روشنی کے ساتھ تھا‘‘ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان چاہے جتنی بھی روحانی طاقت پیدا کر لے لیکن اسے بھی ایک دن موت کا مزا چکھنا ہے یہ دوسری بات ہے کہ اس کے حصے کی زمین جہاں وہ دفن ہے ’’ جل تھل ہے‘‘ یعنی خدا کی رحمتوں سے معمور ہے۔ پروفیسر حامدی کشمیری نے اس نظم پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’نظم میں اعلیٰ روحانی اوصاف سے آراستہ انسان کی موجودہ صارفیت کے عہد سے متصادم ہونے کے نتیجے میں نا گزیر عدمیت کے المیے کو پیش کیا گیا ہے۔‘‘
رابندر ناتھ ٹیگور کی تخلیقات میں بھی روشنی کا استعمال بہت ہوا ہے۔روشنی ان کے یہاں علم و آگہی کی علامت ہے۔ وہ اپنے اِدراک و آگہی کی پختگی اور تصوّر کی بلند پروازی کے لیے دعا مانگتے تھے۔
“They stand with uplifted eyes thirsty after light,lead them to light My Lord.” (The Times of India,The speaking Tree)
رابندر ناتھ ٹیگور کے لیے روشنی خوشی کا سرچشمہ بھی ہے۔ ان کی نظم کا یہ ٹکڑا ملاحظہ کیجئے
Light my light, the world filling light, the eye kissing light, heart sweetening light.” ـ”(The Times of India,The speaking Tree)
د راصل رابندر ناتھ ٹیگور کے فلسفے کا محرک بھی سورج ہی ہے۔ان کے یہاں روحانی حقیقت کا ادراک سورج کی شعاعوںکے ذریعہ ہوا ہے۔
علامہ اقبال نے اپنی ایک نظم’’آفتاب‘‘(ترجمہ گایتری منتر)میں خدا کے نور کی وضاحت اس طرح کی ہے
وہ آفتاب جس سے زمانے میں نور ہے
دل ہے خرد ہے روحِ رواںہے شعور ہے
اے آفتاب ! ہم کو ضیائے شعور دے
چشمِ خرد کو اپنی تجلی سے نور دے
نے ابتدا کوئی، نہ کوئی انتہا تری
آزادِ قیدِ اول وآخر ضیا تری
اسی ضمن میں ابنِ انشا کی نظم ’’افتاد‘‘ کا یہ شعر بھی قابلِ ذکر ہے جس میں سورج کو اجالے کا خالق کہا گیا ہے۔
اجالے کے خلّاق سورج کی رفتار تاروںسے یا کہکشاں سے چھپی ہے
تو پھر آج کی شام کیوں آنے والے سویرے کے وعدوں کو بھولی ہوئی ہے
سائنس کے مطابق تو سورج ، چاند اور زمین سیارے ہیں اور یہ تینوں اپنے اپنے محور پرگرد ش کرتے رہتے ہیں۔ پچھلے سطور میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ سورج کبھی غروب نہیں ہوتا ۔دراصل زمین سورج کے چاروں طرف گردش کرتی ہے ۔ گردش کے دوران زمین کا جو حصہ سورج کے سامنے آتا ہے وہاں دن ہوتا ہے اور جو حصہ سامنے نہیں آتا ہے وہاں رات ہوتی ہے۔ سائنس کی یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے لیکن سائنسی حقیقتوں تک انسانی ذہن کی رسائی پہلے قصے اور کہانیوں کے ذریعہ ہی ہوتی تھی اور قصے کہانیوں کا سرچشمہ مِتھ اور اساطیر ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ سورج ،چاند ،رات ،صبح ،طلوع آفتاب اور غروبِ آفتاب سے متعلق متعدد اساطیری کہانیاں مشہور ہیں جن کی طرف شاعر نے اپنی ایک نظم’’پسِ پردہ‘‘ میں قاری کے ذہن کو منتقل کیا ہے، ساتھ ہی سو رج کے غروب ہونے کے بعد رات کے آغوش میں چلے جانے سے لے کر طلوع ہونے اور پھر صبح سے شام تک گردش میں رہنے تک کے عمل کو پیش کر کے اس سے زندگی کے نشیب و فراز ، تجدید زندگی اور تجدید تہذیب کو سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ چند مصرعے ملاحظہ ہوں
سورج کے پجاریوں نے دیکھا
رات اپنی اداسیوں کے بدلے
سورج کو گہن میں لے کے شاداں
کس شان سے آسماں سے اتری
رات اتنی سیاہ، سرد، خاموش
بے حس، بے رحم، بے اماںہے
تصویرِ عذابِ جاوداں ہے
سرچشمۂ نور کے نگہباں
لرزاں ہیںکھڑے ہیں دست بستہ
اقرارِ گنہ کی خامشی کے
خنجر نے زباں تراش دی ہے
تہذیبِ بشر کی لوحِ عصیاں
ہر بوند لہو کی، پڑھ رہی ہے
شاعر نے سورج سے متعلق جس اساطیری کہانی کی طرف اشارہ کیا ہے وہ بے حد دلچسپ ہے۔ دیومالائی تصور کے مطابق سورج کا اُوشا اور رات سے کیا رشتہ ہے اور سورج دن بھر رات کا تعاقب کیوں کرتا ہے اور وہ رات کی آغوش میںآکر کیسے اپنے وجود کو ختم کر لیتا ہے۔پھر صبح میں کیسے رات سے اپنا دامن چھڑا کرگردش پر مامور ہوجاتا ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا نے رگ وید کے حوالے سے سورج کو عاشق اور رات کو بہ یک وقت ماں اور محبوبہ قرار دیا ہے ۔اس کے علاوہ رات کے تین روپ یعنی شام،رات اور صبح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا ہے کہ شام سورج کو نگلنے والی ماں،رات حاملہ عورت کا کردار نبھا تی ہے اور صبح کے کردار کو خون آلود صبح سے تعبیر کیا ہے یعنی رات بچہ کی تخلیق کرتی ہے۔یہی وجہ کہ سورج صبح میں رات سے اپنا دامن چھڑا کر گردش پر معمور ہوجاتا ہے۔وزیر آغا نے اس تمثیل کو زرعی معیشت سے جوڑ کر دیکھا ہے۔
وزیر آغا کے اس خیال کی تائید میں مغنی تبسم کی نظم ’’رشتے‘‘ کے دو مصرعے ملاحظہ کیجیے
میں کیا جانوں، کون ہے سورج، کس نگری کاباسی ہے
کیسا سرچشمہ ہے جس سے جیون دھارا بہتی ہے
زاہد ڈار کی نظم’’زوال کا دن ‘‘کے چند مصرعے ملاحظہ کیجیے جس میں سورج کی اہمیت اور اس کے اثرات ختم ہونے کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے شاعر نے مندرجہ بالا خیالات کی وضاحت کی ہے
جس دن کھیتوں کی خاموشی
بوجھل ڈھات کی آوازوں میں کھو جائے گی
اس دن سورج بجھ جائے گا
جیون کی پگڈنڈی اس دن سو جائے گی
افتخار جالب کی نظم’’دھند‘‘ کے یہ مصرعے بھی قابلِ توجہ ہیں
ایلو! ، سورج، چاند ستارے دھرتی کے سینے پر اترے
میری راہگذر پر بکھرے
ہلکی، مدھم اور مسلسل حرکت
منزل، پھول، کنول کا پھول عدم کے بحرِ بے پایاں میں
تنہا جھولے
دراصل سماجی ناہمواریوں کی وجہ سے ادب میں طنز کا پہلو در آتا ہے اور جب طنز ادب میںزیادہ پایا جانے لگتا ہے تو اس کے بعد کے زمانوں کے ادب میں خود بخود اساطیر کی واپسی ہو جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ۱۹۶۰ کے بعد کے ادب میں علامتوں کا استعمال کثرت سے ہونے لگا۔
’’سورج‘‘ سے متعلق ہزاروں اساطیری قصے کہانیاں وابستہ ہیں جو مذہبی کتابوں اور ٹی وی سیریلس کے ذریعہ ہم تک پہنچتی رہتی ہیں۔اس لیے تخلیق کار سورج یا سورج جیسی علامتوں کا استعمال اپنی تخلیق میں کرتا ہے تو اس سے قاری کا اجتماعی حافظہ بیدار ہوجاتا ہے اور وہ ہزاروں سال پرانی دنیا میں اپنے آپ کو پاتا ہے۔اس سے ایک عام قاری کی قوتِ متخیلہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ سورج چونکہ ہماری زندگی کو کسی نہ کسی روپ میں متاثر ضرور کرتا ہے اس لیے اس کا استعمال دوسری علامتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ کیا گیا ہے۔سورج کی استعاراتی اور اساطیری معنویت کے کئی اور ابعاد ہیںمگر اس پر روشنی طوالت کا موجب ہوگی۔
m