اج محل اور غالب کی شاعری فنونِ لطیفہ کی اعلیٰ ترین مثال ہیں اور ان دونوں کا تعلق آگرہ سے ہے۔فنون لطیفہ کے اعتبار سے آگرہ کی سرزمین بے حد زرخیز ہے کہ اس سرزمین نے تاج محل اور غالب کے علاوہ میر تقی میرؔ، نظیرؔ اکبر آبادی، سیمابؔ اکبر آبادی، میکشؔ اکبر آبادی ، اخضرؔ اکبر آبادی،صباؔ اکبر آبادی اور مغیث الدین فریدیؔ جیسے شعرا کو پیدا کیا۔
ان شعرا میں جدید عہد کے صباؔ اکبر آبادی اور مغیث الدین فریدی خاص اہمیت کے حامل ہیں جنہوں نے اپنی شاعری سے اردو دنیا کے قاری کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ مابعد کی نسل پر گہرے اثرات بھی ڈالے ہیں۔ان دونو ں شعرا کی عمر میں ۱۸ سال کے فرق کے ساتھ استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی تھا اور دونوں ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست بھی تھے۔لیکن تقسیم ہند کے بعد صباؔ اکبر آبادی پاکستان ہجرت کر گئے اور پاکستان کے ادبی افق پر درخشاں ستارے کی طرح چمکتے رہے جبکہ مغیث الدین فریدی نے ہندوستان کی مٹی کو ہی مسکن بنایا اور یہیں درس و تدریس کے ساتھ شاعری کی مختلف اصناف میں قادر الکلامی کاجوہر دکھاتے رہے۔
صبا ؔاکبر آبادی کی تخلیقات میںحمد و نعت کا مجموعہ’’ ذکر و فکر‘‘، غزلوں کے مجموعے ’’اوراقِ گُل‘‘، ’’چراغِ بہار‘‘ اور ’’ ثبات‘‘،مرثیے کے مجموعوں میں ’’سر بکف‘‘، ’’ شہادت‘‘، اور ’’خونناب‘‘ بے حد مشہور ہیں۔اس کے علاوہ عمر خیام کی رباعیوں کا منظوم (رباعی کے فارم میں)اردو ترجمہ’’دستِ زرفشاں‘‘ اور غالب کی فارسی رباعیوں کا اردو ترجمہ (رباعی کے فارم میں) ’ ’ ہم کلام‘‘ شائع ہو چکے ہیں جو فنِ رباعی میں ان کی مہارت کی دلیل ہے۔غالب کی تمام غزلوں کے اشعار کی تضمین بھی صباؔ صاحب نے کی ہے جو ابھی تک شائع نہیں ہو سکی ۔مغیث الدین فریدی نے بھی شاعری کی تمام اصناف میںطبع آزمائی کی لیکن ناسازگار حالات اور قلندرانہ مزاج کی وجہ سے ان کے تخلیقی سرمائے محفوظ نہیںرہ سکے اس کے باوجودان کی تخلیقات میں تحقیقی و تنقیدی نوعیت کی کتابوں کے علاوہ غزلوں کا مجموعہ ’’کفر تمنا‘‘ ان کے ایک عزیز شاگرد ڈاکٹر محمد فیروز دہلوی کی کوششوں سے اور قطعات تاریخ کا انتخاب ’’مغیث الدین فریدی اور قطعات تاریخ‘‘ ان کے دوسرے شاگرد ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کی کوششوں سے شائع ہوئے۔
جغرافیائی اعتبار سے صبا اور فریدی ایک دوسرے سے بہت دور لیکن فکری، فنی اور ذہنی اعتبار سے ایک دوسرے سے بے حد قریب تھے اور ایک دوسرے کی تخلیقی صلاحیتوں کے معترف بھی۔ فریدی صاحب کا مجموعہ کلام ’’کفر تمنا‘‘ کی کاپی موصول ہو نے پر ۷ جولائی ۱۹۸۸ کو ایک خط میںصبا ؔاکبر آبادی نے لکھا ہے کہ
’’آپ کا ارسال کردہ مجموعہ ’’کفر تمنا‘‘ ملا۔آپ جیسے مومن کے دل میں بھی کفرِ تمنا کے لیے جگہ نکلی۔اﷲاﷲ،پڑھ کے ایمانِ تمنا زندہ ہو گیا۔ایک ایک مصرعہ آپ کی قدرتِ سخن کی گواہی دے رہا ہے۔آپ نے اپنے خرمنِ بے کراں سے چند خوشے ہی منظر عام پر لانے میں خاصی دیر کردی۔اب تک تو آپ کے ایسے متعدد مجموعے شائع ہو جانے چاہیں تھے۔‘‘
صباؔ صاحب نے ان جملوں میں یہ کہہ کر کہ ’’آپ جیسے مومن کے دل میں بھی کفرِ تمنا کے لیے جگہ نکلی۔اﷲاﷲ،پڑھ کے ایمانِ تمنا زندہ ہو گیا‘‘، فریدی صاحب کی شاعری کے اس پہلو پر بہترین تبصرہ کیا ہے جہاں وہ انسانیت کی سطح پربہت بلند و بالا نظر آتے ہیںجس کی طرف پروفیسر قمر رئیس صاحب نے بھی اشارہ کیا ہے کہ
’’فریدی صاحب کی شاعری نے کہیں کہیں وہ منزلیں بھی چھو لی ہیں جہاں بہت کم شاعر اس شان سے پہنچ پاتے ہیں اور اس عارفانہ سطح پر یا شعور تک پہنچ کر شعر کہہ پاتے ہیں‘‘۔( کتاب نما کا خصوصی نمبر، مغیث الدین فریدی،شخصیت اور شاعری ،ص-۲۱)
فریدیؔ صاحب نے صبا ؔاکبرآبادی پر کوئی مضمون نہیں لکھا لیکن ان کی غزلوں پرکی گئی تضمینوں ، خراج عقیدت کے طور پر لکھے گئے اشعار اور قطعاتِ تاریخِ وفات کے مصرعوں میں ان کی شخصیت اور شاعری کے متعلق جو اشارے ملتے ہیں وہ تفصیلی مضمون کو محیط ہیں۔اس مضمون میں انہیں اشاروں کی وضاحت کی کوشش کی گئی ہے جس سے صباؔ صاحب کی شخصیت اور شاعری پر روشنی پڑتی ہے ساتھ ہی فریدی صاحب کی تنقیدی بصیرت کا باب بھی وا ہوتا ہے۔
صبا صاحب کی تخلیقی شخصیت کی رفعت کے معترف فریدی صاحب ہمیشہ ہی رہے لیکن پہلی باران کی شاعری کے متعلق اپنی پسندیدگی کا اظہار انہوں نے اس وقت کیا جب دونوں ۱۹۴۲ میںؔ بھرت پور کے ایک مشاعرے میں شاعر کی حیثیت سے شریک ہونے جا رہے تھے۔اس مشاعرے میں پڑھنے کے لیے دونوں نے غزلیں کہی تھیں ۔ ریل میں سفر کے دوران دونوں نے ایک دوسرے کو اپنی اپنی غزلیں سنائیں۔صبا ؔ صاحب کی غزل یہ تھی
آنسو کو واپس آنکھ میں لا یا نہ جائے گا
موتی یہ گر پڑا تو اٹھایا نہ جائے گا
اپنے یہی جلے ہوئے تنکے سمیٹ لوں
اب اور آشیاں تو بنایا نہ جا ئے گا
وہ دن قریب ہیں کہ مرے عشق کا اثر
کوشش کرو گے اور چھپا یا نہ جائے گا
آنا، مگریہ آنکھ کے آنسو تو پوچھ لوں
موجوں کی رو میں پاؤں جمایا نہ جائے گا
ہو ملتوی جزائے عمل شامِ حشر تک
ہم سے تو ایسی بھیڑ میں جا یا نہ جا ئے گا
اے فتنہ گر نمودِ مزارِ صبا تو ہے
کچھ روز میں نشان بھی پایا نہ جائے گا
یہ غزل فریدی صاحب کو اتنی پسند آئی کہ صبا ؔصاحب غزل سناتے جا رہے تھے اور فریدی صاحب چپکے چپکے اس کی تضمین کرتے جارہے تھے ۔بھرت پور پہنچ کر دونوں مشاعرے میں شریک ہوئے ۔فریدی ؔصاحب چونکہ صباؔ صاحب سے چھوٹے تھے اس لیے غزل سنانے کے لیے انہیں پہلے بلایا گیا۔اس مشاعرے میں فریدی صاحب نے اپنی غزل سنانے کے بجائے صباؔصاحب کی غزل پر کی گئی وہ تضمین سناکر نہ صرف صباؔ صاحب کو بلکہ تمام سامعین کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ اس واقعہ کا ذکر فریدی صاحب نے اکثر اپنے شاگردوں اور دوستوں سے کیا ہے۔ اس واقعہ کی بابت صباؔ صاحب کے صاحب زادے سلطان جمیل نسیم نے فریدی صاحب کے مکتوب مورخہ ۱۵ جنوری ۱۹۹۴ کا حوالہ دیتے ہوئے ۲۷مارچ ۲۰۰۶ کے ایک خط میں راقم الحروف کو لکھا
’’آپ نے گراں قدر کتاب(مغیث الدین فریدی اور قطعات تاریخ) میں جو قطعۂ تاریخ شامل کیا ہے وہ میرے والد کی وفات پر مغیث صاحب نے مجھے بھی ارسال کیا تھا۔انہوں نے اپنے ایک خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ۱۹۴۱ ء میں بھرت پور مشاعرے میں جاتے وقت ریل میں صبا صاحب غزل کہتے جاتے تھے اوروہ(مغیث صاحب) تضمین کرتے جاتے تھے۔انہوں نے اپنی تضمین بھی خط میں نقل کی ہے۔‘‘
سلطان صاحب نے اس خط کی فوٹو کاپی مجھے بھی بھیجی ہے جس میں فریدی صاحب نے انہیں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے متذکرہ تضمین بھی نقل کی ہے جس کے بند یہ ہیں
دامن سے داغِ اشک مٹا یا نہ جائے گا
پھر ضبط کے فر یب میں آیا نہ جائے گا
ہم رو دیئے تو راز چھپا یا نہ جائے گا
آنسو کو واپس آنکھ میں لایا نہ جا ئے گا
موتی یہ گر پڑا تو اُٹھا یا نہ جا ئے گا
کب تک رہینِ کشمکشِ ضبط و غم رہوں
آرائشِ بہار کا سامان کیا کروں
اے روحِ درد اُٹھ، مدد اے ہمتِ جنوں
اپنے یہی جلے ہوئے تنکے سمیٹ لوں
اب اور آشیاں تو بنایا نہ جا ئے گا
آہیں بھرو گے بیکسیِ شوق دیکھ کر
آنسو نکل پڑیں گے اٹھاؤ گے جب نظر
میرا گمان ہوگا تمہیں اپنے عکس پر
وہ دن قریب ہیں کہ مرے عشق کا اثر
کوشش کرو گے اور چھپایا نہ جائے گا
طوفانِ اضطراب کی لہروں کو روک دوں
ٹھہرو ذرا کہ راہ تو ہموار کر سکوں
وہ دن خدا نہ لائے کہ تم سے گلہ سنوں
آنا، مگریہ آنکھ کے آنسو تو پوچھ لوں
موجوں کی رو میں پاؤں جمایا نہ جائے گا
اے شعلۂ غرورِ محبت ذرا بھڑک
توہین اہلِ عشق ہے انعامِ مشترک
کہہ دیں گے ہم خدا سے قیامت میں بے جھجک
ہو ملتوی جزائے عمل شامِ حشر تک
ہم سے تو ایسی بھیڑ میں جا یا نہ جا ئے گا
تو شکر کر کہ تیرا ستم بر ملا تو ہے
اک مشتِ خاک آئینہ دارِ وفا تو ہے
اک یاد گارِ عالمِ جورو جفا تو ہے
اے فتنہ گر نمودِ مزارِ صبا تو ہے
کچھ روز میں نشان بھی پایا نہ جائے گا
فریدی صاحب نے صباؔ صاحب کی غزل کے ہر شعر پر تین تین مصرعوں کے اضافے کر کے مخمس کے فارم میں تضمین کی اور پانچ مصرعوں کی ایک الگ اکائی بناکر غزل کے تشنہ اشعار اور اس کے موضوع کو تشفی بخش بنا دیا۔ غزل کے اشعار کی رمزیت اپنے مفہوم کی توسیع اور توضیح کے لیے چند مصرعوں کی وسعت چاہتی ہے اور تضمین اسے وسعت عطا کرتی ہے۔
صباؔ اکبرآبادی کی غزلوں پر تضمین کا یہ سلسلہ جاری رہا اور فریدی صاحب نے ان کی اور بھی غزلوں پر تضمینیںکیں اور ان کے افکار کو نئی جہتوں سے آشنا کیا اور نئی وسعتوں سے ہمکنار کیا۔ جولائی ۱۹۸۸ میں صبا صاحب کا مجموعۂ کلام’’ ثبات‘‘ فریدی صاحب کو موصول ہوا توانہوں نے اس کتاب پر مضمون کی شکل میں اظہار خیال نہیںکیا لیکن ۶نومبر۱۹۸۸ میں صبا صاحب کو ایک خط میںلکھتے ہیں
’’ثبات کی دیدہ زیب طباعت کی مبارک باد قبول کیجیے ۔کلام پر رائے کیا دوں بارہا اپنی عقیدت کا اظہار کر چکا ہوں۔یہاں ثبات کو صحیفے کے طور پر لوگ دیکھ رہے ہیں۔‘‘
فریدی صاحب نے اپنے خط میں یہ جملہ لکھ کر کہ ’’یہاں ثبات کو صحیفے کے طور پر لوگ دیکھ رہے ہیں‘‘ اس کتاب کی قدروقیمت پر اپنی رائے بھی دی ہے اور اپنی عقیدت کا اظہار بھی کیا ہے۔صرف اتنا ہی نہیں انہون نے ’’ثبات‘‘ میں شامل ایک غزل کی تضمین کرکے بھی اپنی عقیدت کا اظہارکیاہے اور یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ’’صبا کا ہم نوا میں بھی رہا ہوں‘‘ ۔فریدی صاحب نے جس غزل کی تضمین کی ہے اس کا مطلع یہ ہے
مئے تلخِ ضعیفی پی رہا ہوں
جوانی کی سزا میں جی رہا ہوں
اس مطلع کی تضمین یہ ہے
اسیرِ سحرِ خوش فہمی رہا ہوں
ہلاکِ جادوئے ہستی رہا ہوں
صبا کا ہم نوا میں بھی رہا ہوں
مئے تلخِ ضعیفی پی رہا ہوں
جوانی کی سزا میں جی رہا ہوں
زیر بحث دو نوں غزلوں کے علاوہ فریدی صاحب نے صبا اکبرآبادی کے ایک مشہور ’’سلام‘‘ کے چار اشعارپر بھی تضمین کی ہے جو۱۹۸۸ کے محرم کے مہینے میں All India Radio کے External Service سے نشر ہوئے تھے جس کا ذکر فریدی صاحب نے ۱۱نومبر ۱۹۸۸ میں صبا صاحب کو لکھے ایک خط میں کیا ہے۔ اس سلام کا مطلع یہ ہے
کام یوں معرکۂ کرب و بلا آتا ہے
آج تک صبر کا دستور چلا آتا ہے
فریدی صاحب نے تضمین کے مصرعوں کی مدد سے صبا صاحب کے بیشتر اشعارکی توضیح و توجیہ پیش کی ہے اور بعض اشعار کو نئی جہت و نیا مفہوم عطا کیا ہے۔ صبا صاحب کے اشعار میں جو کیفیت اور روانی پائی جاتی ہے وہی کیفیت اور روانی فریدی صاحب نے تضمین کے مصرعوں میں پیدا کرکے صبا صاحب کی لَے سے لَے ملا دی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ان کی غزلوں کو کس قدر پسند کرتے تھے۔متذکرہ تضمینوں سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ د و نوں شعرا فکری ، فنّی اور ذہنی طورپر ایک دوسرے سے کتنے قریب تھے ۔کیوں کہ کسی شاعر کے اشعار کی تضمین کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تخلیقی سطح پر دونوں شعرا میں کافی مناسبت اور ذہنی ہم آہنگی ہو ۔
فریدی صاحب نے نہ صرف صباؔ صاحب کی غزلوں اور سلام کے اشعار کی تضمین کرکے ان کی تخلیقات کے تئیں اپنی پسندیدگی اور ذہنی ہم آہنگی کا ثبوت پیش کیا ہے بلکہ ان کی یاد میں اور شاعرانہ عظمت کے اعتراف میںنظمیں اور قطعات لکھ کر اپنی عقیدت اور محبت کا بھی ا ظہار کیا ہے۔
۱۹۴۷ میں پاکستان جانے کے بعد صباؔ صاحب جولائی ۱۹۵۴ میں آگرہ آئے تھے ۔آگرہ میں ان کا پرجوش استقبال ہوا۔اس موقع پر فریدی صاحب نے ایک نظم لکھی اور آگرے سے واپس پاکستان جانے لگے تو ایک قطعہ لکھا جنہیں صبا صاحب بطور سوغات پاکستان لے گئے۔یہ دونوں ’’جہان حمد‘‘ کے ’’صبااکبرآبادیحمد و نعت نمبر‘‘میںشائع ہو چکے ہیں۔صبا صاحب کے فریدی صاحب سے تعلقات ، متذکرہ نظم اورآگرہ کے سفر کے متعلق ان کے بیٹے سلطان جمیل نسیم صاحب نے راقم الحروف کو ۲۷ مارچ ۲۰۰۶کے ایک خط میں لکھا ہے کہ
’’مرحوم مغیث الدین فریدی میرے والد حضرت صبا اکبر آبادی کے شاگرد ودوست تھے۔۱۹۴۷ء تک یہ سلسلہ قائم رہا، پھر میرے والد اہل و عیال کے ساتھ پاکستان آگئے۔جولائی ۱۹۵۴ء میں آگرہ گئے تو مغیث صاحب سے ملاقات ہوئی۔واپس آئے تو ان کے ساتھ مغیث صاحب کی ایک نظم،ایک قطعہ اور ایک گروپ فوٹو تھا۔‘‘
فریدیؔ صاحب نے صباؔ صاحب کے آگرہ آنے کے بعد ان کے استقبال میںجو نظم لکھی تھی وہ یہ ہے
اے دیارِ آگرہ اے مرکز ارباب فن
اے ادب گاہِ نظیرؔاے میرؔ و غالبؔ کے وطن
تربیت گاہِ غزل، گہوارۂ حسن سخن
تیرے ساغر میں ہے اب تک کیفِ صہبائے کہن
فخر دہلی تیرے شاعر تھے، جوابِ لکھنؤ
آج بھی ہیں اخضرؔ و میکشؔ غزل کی آبرو
انقلابِ دہر اب رفتار کو اپنی بدل
اے بہارِ عیشِ رفتہ خاکِ گلشن سے ابل
چھیڑ دے نغمہ، کھلا دے دل کے افسردہ کنول
کوئی رعناؔ کی رُباعی یا صباؔ کی اک غزل
آئے ہیں یہ عمرِ رفتہ کو صدا دیتے ہوئے
یہ نہ سمجھیں ہم وطن میں اجنبی بن کر رہے
اے وطن اس جذبۂ حب وطن کی داد دے
یہ کراچی سے یہاں آئے ہیں تجھ کو دیکھنے
تیرے ذرّے بن کے مہر و ماہ بھی تیرے رہے
تجھ سے چھٹ کربھی وہی ہے ربط تیرے نام سے
خود کراچی میں رہے اور آگرہ میں دل رہا
سوزِ پروانہ شریکِ گرمیٔ محفل رہا
ذرّہ ذرّہ میں یہاں ان کے ترانے جذب ہیں
شوق کے قصے، غمِ دل کے فسانے جذب ہیں
تاج کے دامن میں غزلوں کے خزانے جذب ہیں
عمر کے رنگین اور نازک زمانے جذب ہیں
یاد ان لمحاتِ رنگیں کی دلانے آئے ہیں
خود بھی رونے آئے ہیں ہم کو رلا نے آئے ہیں
چار بندوں پر مشتمل اس نظم کے ہر بند کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے تاکہ یہ اندازہ لگا جا سکے کہ صبا صاحب کی شاعری اور شخصیت کے متعلق فریدی صاحب کی سوچ کیا تھی۔
پہلا بند آگرہ کی تاریخی اورادبی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے فریدی صاحب نے اس بند میں تمہید کے طور پر پہلے تو سرزمین آگرہ کو ارباب فن ، ادب گاہِ نظیر، تربیت گاہِ غزل اور گہوارہِ حسنِ سخن جیسے صفات سے خطاب کرتے ہوئے بتا یا کہ یہ وہ سر زمین ہے جہاں میر و غالب جیسے شعرا پیدا ہوئے جو دہلی کی ادبی و شعری محفلوں کی شان تھے جن کی بدولت دہلی کا دبستان وجود میں آیا اور جنہوں نے اپنے کمالات سے دبستانِ لکھنؤ کے شاعروں کے فن کا جواب دیا ۔ آخر میں یہ کہہ کر کہ’’تیرے ساغر میں ہے اب تک کیفِ صہبائے کہن‘‘ اخضرومیکش جیسے شعر ا غزل کی آبرو اور ان کے اشعار میں پائی جانے والی کیفیت کو ’’کیفِ صہبائے کہن‘‘ سے تعبیر کیا اور کیفِ صہبائے کہن سے مراد میر ؔو غالبؔ و نظیرؔ کی شاعری کی وہ خصوصیات ہیںجوعہد جدید کے شاعروں میںمنتقل ہوتی جارہی ہے ۔چوتھے اور چھٹے مصرعے سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ متذکرہ شاعری کی یہ روایت ابھی ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ سلسلہ اسی آب و تاب سے ہنوز جاری ہے۔
دوسرا بند آگرے کے شاندار ماضی کاواسطہ دیتے ہوئے دوسرے بند میں فریدی صاحب نے انقلابِ دنیا سے اپنی رفتار بدلنے اور بہارِ عیشِ رفتہ کو خاکِ گلشن سے ابلنے کے لیے کہا یعنی وہی پرانی شعری فضا پھر سے پیدا کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے جس کے نغموں سے ساری دنیا جھوم اٹھتی تھی ا ورجس کی محفل کی رونق سے سارا جہاں منور ہو اٹھتا تھا۔ایسی محفل سجانے کی آرزو اس لیے ہے کہ آج کی محفل میں صبا ؔشمع محفل ہوں گے اور اس محفل میں انہیں اجنبیت کا احساس نہ ہو۔ محفل میں سرور و مستی پیدا کرنے کے لیے میر و غالب کی غزل کی ضرورت نہیں ہے بلکہ رعنا کی کوئی رباعی اور صبا کی کسی غزل کو چھیڑنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ان کی شاعری بھی تو اسی خاک اور اسی آب ہواکی خمیر کی دین ہے جس سے میر و غالب کی شاعری وجود میں آئی تھی۔
صبا صاحب کے استقبال کے لیے اس بند میں فریدی صاحب نے جس طرح کی محفل کا تصوّرپیش کیا ہے اور جو کیفیت اپنے اشعار میں پیدا کی ہے اس سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ صبا صاحب کی شخصیت ان کے نزدیک کیا تھی بلکہ یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ فریدی صاحب کے اشعار بھی نئی بوتل میں پرانی شراب کی مانند ہیں۔
تیسرا بند اس بند میں فریدی صاحب نے صباؔ صاحب کے جذبۂ حب الوطنی کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اہلِ آگرہ کو یہ احساس دلا یا جا سکے کہ آگرہ میں ان کی آمد کس قدر باعثِ فخر ہے اور ایسے محب وطن کی شان میں شعرو شاعری کی محفل سجانا کتنا اہم ہے۔ اپنے وطن سے خطاب کرتے ہوئے وطن کے تئیں صبا ؔصاحب کے جذبۂ محبت کی داد فریدی صاحب نے وطن اور اہلِ وطن سے چاہی ہے کیوں کہ اپنے وطن کی محبت میںکراچی سے چل کر وہ آگرہ کو دیکھنے آئے ہیں۔اس کے بعد فریدی صاحب نے صباؔ صاحب کو وطن کی خاک سے جدا ہونے والا وہ ذرّہ قرار دیا جو اب مہروماہ بن گیا ہے پھر بھی وطن کے لیے اس کے دل میں وہی محبت اوروہی ربط آج بھی باقی ہے کہ وہ کراچی میں رہ کر بھی آگرہ کی یاد سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔صباصاحب کو مہروماہ قرار دینا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ فریدی صاحب کی نظر میں صبا صاحب کی شخصیت اور شاعری کی کیا قدروقیمت ہے۔آخری بند ملاحظہ کیجئے۔
چوتھا بند اس میں فریدی صاحب نے انتہائی جذباتی انداز میں پرانے دنوں کی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آگرے کے ذرّہ ذرّہ میںصباؔ صاحب کے ترانے،شوق کے قصّے ،دل غم کے فسانے اور تاج کے دامن میں غزلوں کے خزانے، عمر کے رنگین و نازک زمانے وغیرہ جذب ہیں جن کی یاد دلانے کے لیے صبا صاحب کراچی سے آگرہ آئے ہیں۔ فریدی صاحب نے اس بند میں ترانے، فسانے اور خزانے جیسے قافیے کی تکرار سے جہاں اپنے مصرعوں میں ترنم کی جھنکار پیدا کردی ہے وہیں ان الفاظ سے یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ دونوں نے تاج کے دامن میں بے شمار غزلیں کہیں جو آج بھی ان کی یادوں میں بسی ہوئی ہیں۔ بیتے ہوئے ان حسین لمحات میں فریدی صاحب چوں کہ ہر قدم پر ان کے ساتھ تھے اس لیے ان لمحات کے احساس کی شدت جتنی صباؔ صاحب کو تھی اتنی ہی فریدی صاحب کو بھی تھی جس کا اظہار بند کے آخری شعر میں اس طرح کیا ہے
یاد ان لمحاتِ رنگیں کی دلانے آئے ہیں
خود بھی رونے آئے ہیں ہم کو رلا نے آئے ہیں
اس شعر میںدونوںکے درمیان دوستی اورمحبت کے جو رشتے تھے اس کی گہرائی کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں۔
پچھلے سطور میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ صباؔ صاحب کے پاکستان واپس جاتے وقت فریدی صاحب اپنے جذبات کو روک نہیں پائے لہٰذا انہوں نے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے ایک قطعہ بھی کہا تھا جس میں انہوں نے انہیں یادو ں کی کڑیوں کو جوڑتے ہوئے لکھا
کلفٹن پر تمہیں جمنا کی یاد آئی تو کیا ہوگا
تصور میں ہوائے تاج لہرائی تو کیا ہو گا
وطن کی خاک سے دامن کشاں جاتے تو ہو لیکن
صبا تم کو وہاں یادِ وطن آئی تو کیا ہوگا
وطن سے دور چلے جانے کے بعد بھی صبا صاحب کا دل کبھی وطن سے دور نہیںرہا جس کا اظہار اکثر صبا صاحب نے اپنے اشعارمیں کیا ہے۔مندرجہ ذیل اشعا رگواہ ہیں
فضا دیکھی ہے ہر اک سر زمیں کی
ہمیشہ اکبر آبادی رہا ہوں
چھٹ کر وطن سے اتنے غریب الوطن ملے
آزردگیٔ عالم غربت نہیں رہی
آگرہ میں اپنے بچپن کی یادوں کو اور خاص کر شام میںکبھی جمنا کے کنارے کے سیر سپاٹوں کو تو کبھی چاندنی راتوں میں تاج محل اور اس کے آس پاس کے نظاروں کو وہ کبھی بھلا نہیں پائے۔بیتے ہوئے دنوں کی انہیں یادوں کی ر وشنی میں فریدی صاحب نے مندرجہ بالا قطعہ صبا ؔصاحب کی واپسی پر لکھ کر دیا تھا جووطن کی محبت کے جذبے سے سر شار ہے۔’’کلفٹن‘‘ کراچی میںایک ساحلی علاقہ ہے۔ 1954 میں جب فریدی صاحب نے یہ قطعہ کہا تھا اس زمانے میں کلفٹن ساحل پر ایک تفریح گاہ تھی۔اب وہاں ایک بستی آباد ہو گئی ہے جس کی آبادی دس بارہ لاکھ کے قریب ہے۔ ممکن ہے یہ تفریح گاہ آگرہ میں جمنا کے کنارے کی جگہوں کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت ہو لیکن بچپن کی یادیں جس جگہ سے وابستہ ہو تی ہیں اس سے زیادہ حسین کوئی اور جگہ نہیں ہوسکتی ۔ فطری اورعظیم شاعر و ادیب تو ہمیشہ اپنے بچپن میں جیتے ہیں کیوں کہ رات میں جگنوؤں کے جلنے،بجھنے اور آسمان میں ستاروں کے چمکنے،شام میں شفق رنگ میں نہائے ہوئے پیپل کے پیڑوں پر چڑیوں کے چہچہانے سے لطف اندوز ہو نے کے لیے بچپن کی آنکھوں کی ضرورت پڑتی ہے اور قدرت کے ان حسین مناظر سے لطف اندوز ہوئے بغیر اعلٰی درجے کا ادب تخلیق کرنا ممکن نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک فطری اور اعلیٰ درجے کا شاعر معصوم اور فطرتاً بچہ ہوتا ہے لیکن جب زندگی کا مشاہدہ پیش کرتا ہے تو ایک فلسفی معلوم ہوتا ہے ۔صباؔ صاحب اور فریدی صاحب ایسے ہی شاعروں میں سے تھے جو اپنے بچپن کی یادوں میں ہمیشہ کھوئے رہے لیکن جب مشاہدۂ زندگی او رمطالعۂ فطرت اپنے اشعار کی صورت میں پیش کیا تو ایک صوفی اور فلسفی معلوم ہوئے۔متذکرہ قطعے کے دوسرے مصرع میں یہ کہہ کر کہ’’ تصور میں ہوائے تاج لہرائی تو کیا ہو گا‘‘ تاج کو چھو کر گزرنے والی ہواؤں کی اس تاثیر کی طرف بھی ا شارہ کیا ہے جس نے میر، غالب، نظیر، میکش اوردوسرے تمام شاعروں کے فن میں وہی نزاکت اور لطافت پیدا کی جو تاج میں موجود ہے۔ تاج کو چھو کر گذرنے والی ہواؤں نے نہ جانے کتنی بار صبا صاحب کو بھی گلے لگایا ہوگا اور ان سے محظوظ و متاثر ہوکر نہ جانے صبا ؔنے کتنی غزلوں کی تخلیق کی ہوگی جسے بھلانا آسان نہیں۔ان تمام یادوں کو دل میں بسائے اور وطن کی خاک سے دامن کشاں جاتے ہوئے صبا ؔسے فریدی کا یہ سوال کہ’’ صبا ؔتم کو وہاں یاد وطن آئی تو کیا ہوگا‘‘ کس قدر مناسب ، موزوں اور معصوم جذبے سے پُرہے اور اس کے علاوہ وطن کی محبت کے جذبے سے کس قدر سرشار ہے۔
فریدی صاحب نے اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار انتہائی جذباتی انداز میں اپنے قطعات میں اس وقت کیا جب صبا صاحب ۳ اکتوبر ۱۹۹۱ میں اس دنیائے فانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔آخری قطعہ اور اس کے دو عنوانات ’’تاریخِ وفاتِ والا ہنر‘‘ اور’’ مرجعِ انام خواجہ محمد امیر صبا اکبر آبادی مرحوم‘‘ سے بمطابق حروف تہجی ،سال وفات برآمد کیا۔ پہلا قطعہ ملا حظہ کیجئے
بزمِ جہاں کو چھوڑ کر خلد میں نغمہ سنج
ہاں وہ غزل سرا صبا، ہاں وہی خوش نوا صبا
بزم سے وہ جو اٹھ گیا، رونقِ بزم لُٹ گئی
روحِ غزل پکار کر کہتی رہی صبا! صبا!
اس قطعہ میں صبا ؔصاحب کے انتقال کے بعداظہار افسوس کرتے ہوئے فریدی صاحب نے پہلے یہ کہا کہ وہ اس دنیا کو چھوڑ کر خلد میں نغمہ سنج ہیں۔انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اس دنیا کو چھوڑ کر خلد میں چلے گئے کیوں کہ خلد میں جانے والا شخص کو ئی عام انسان نہیں ہے بلکہ صباؔ ہیں ، وہ صبا جو غزل سرا تھا اورجو خوش نوا بھی تھا ۔اس کی غزل سرائی اور خوش نوائی کا ایسا اثر تھا کہ اس کے چلے جانے کے بعد رونقِ بزم لٹ گئی اور’’روحِ غزل پکار کر کہتی رہی صبا! صبا!‘‘۔ صبا! صبا !پکارنے میں فریدی صاحب نے عجیب و غریب بین کی کیفیت پیدا کی ہے جو خود ان کے دل کی آواز بھی ہے لیکن یہ کہہ کر کہ روح ِ غزل پکار کر کہتی رہی صبا!صبا! انہوں نے غزل کی اصل روح کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جس کے متعلق ۱۲ ویں صدی میںفارسی کا ماہر علم عروض شمس قیس رازی نے کتے اور ہرن کی تمثیل کے ذریعے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ روحِ غزل شاعر کے دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی وہ آواز (غزل القلب) ہے جس میں خوشی اور غم کے ملے جلے اثرات پائے جا تے ہیں ۔ جسے سن کر سامع کا موڈ خوشگوار ہوجاتا ہے۔غزل کی اصل روح کے ذریعے صبا!صبا! پکارنے میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ غزل کی روح کا خالق صبا ؔ،اب اس دنیا میں نہیں رہا لہٰذا اس بات کا اب ڈر ہے کہ غزل کہیں بے روح قافیہ پیمائی بن کر نہ رہ جائے۔فریدی صاحب اگلے بند میں روحِ غزل کے ذریعے صبا! صبا! پکارنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ
تھا وہ بہار کا چراغ بزمِ سخن کا رنگ و بو
لب تھے لب گہر فشاں، دست تھا دستِ زر فشاں
اس نے غزل کو بخش دی خونِ جگر میں گھول کر
تاج محل کی چاندنی، میر و نظیر کی زباں
اس بند میں صبا صاحب کو بہار کا چراغ ، بزمِ سخن کا رنگ وبو قرار دے کر ان کی شاعرانہ عظمت بڑھا دی ہے کیوں کہ رنگ و بو کے بغیر پھولوں کا تصور ہی ممکن نہیں ہے۔ یہاں ’’پھول‘‘ غزل کا اور’’ رنگ‘‘ غزل کی آرائش و زیبائش کا جبکہ ’’بو‘‘ غزل کی اصل روح کا استعارہ ہے۔ اوردوسرے مصرعے میں یہ کہہ کر کہ ’’لب تھے لب گہر فشاں، دست تھا دستِ زر فشاں‘‘یہ اشارہ کیا ہے کہ ان کی زبان سے اشعار نہیں بلکہ موتی جھڑتے تھے اور ہاتھوں سے زرفشاں ہوتے تھے۔اگلے شعر میں یہ کہہ کر کہ صبا ؔصاحب نے اپنی غزل کو تاج محل کی چاندنی اور میر و نظیر کی زبان عطا کر دی، یہ ظاہر کیا ہے کہ چاند کی لطافت اور میر و نظیر کی شاعری کی نزاکت صبا ؔکی شاعری میں بھی موجود ہے۔ آخری قطعہ سے فریدی صاحب نے سال وفات نکالی ہے لیکن اس قطعے کے مصرعوں میں بھی صباؔ صاحب کی غزل کے فن پر جو نظر تھی اس کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔قطعہ ملاحظہ کیجئے
اس کو کہاں سے لائیں گے کس کو غزل سنائیں گے
جا نہ سکے گا عمر بھر دل میں جو داغ آج ہے
فاتحہ پڑھ کے قبر پر سالِ وفات کہ دیا
دفن اسی مزار میں’’شاعرِ ارضِ تاج ہے‘‘
اس قطعہ کے آخری شعر کی مدد سے صباؔ صاحب کی سال وفات نکالی ہے لیکن پہلے شعر میںیہ کہہ کہ کر کہ ’’ اس کو کہاں سے لائیں گے کس کو غزل سنائیں گے‘‘ غزل کے فن کی باریکیوں پر صباؔ صاحب کی نظر اور ان سے ملنے والی دادوتحسین کی اہمیت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ اس بات کا اندازہ صبا صاحب کو لکھے ایک خط کی اس عبارت سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے تفصیل سے خیر و خبر لکھنے کے بعد اپنی چھ غزلیں بھی لکھنے کی گنجائش نکالی
’’شعر گوئی کی رفتار کم سے کم ہے، مگر آپ کی دعا سے میں نے بھی آگرے کے معیار کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔آپ کی کتاب پر اپنی رائے اگلے خط میں لکھوں گا۔اب میرا جی چاہتا ہے کہ اس خط میں جتنی گنجائش ہے اسے اشعار کے لیے وقف کردوںتاکہ جو کچھ کہا ہے اس کی ایک جھلک آپ دیکھ سکیں۔‘‘
اس کے بعد فریدی صاحب نے inland letterکی معمولی سی جگہ میں اپنی چھ غزلوں کے لیے گنجائش نکال لی۔ان چھ غزلوں کا مطلعے یہ ہیں
ہم نے تنہا نشینی خریدی تو ہے رونق و شورشِ انجمن بیچ کر
شمع میراب دل میں جلائی تو ہے آرزوؤں کا اپنی کفن بیچ کر
بارشِ سنگ و شورِ ملامت میں ہم ہنس کے گزریں گے دامن کشاں ہی سہی
اب جنوں کے قدم بھی زمیں پر نہیں اس گلی کی زمیں آسماں ہی سہی
ہستی کے ہر اک موڑ پہ آئینہ بنا ہوا ہوں
مٹ مٹ کے ابھرتا ہوا نقشِ کفِ پا ہوں
ذہن بیدارونگاہِ نگراں کچھ بھی نہیں
دل وہاںچھوڑ گیا ہے کہ جہاں کچھ بھی نہیں
مرہم سا مری روح کے زخموں کو ملا ہے
ان آنکھوں نے جیسے مرا غم بانٹ لیا ہے
وہ دورِ بادۂ مینا گداز آنکھوں میں پھرتا ہے
ترانے چھوتے ہیں دل میںسازآنکھوں میں پھرتا ہے
میری معلومات کے مطابق فریدی صاحب ہر کسی کو اپنی غزلیں سنا نا پسند نہیں کرتے تھے۔وہ عام مشاعرں میں بھی کم ہی شریک ہوتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ ان لوگوں کو غزلیں سنا نا پسند کیا جن کا شعری ذوق اعلیٰ ہو تا تھااور جن کی داد و تحسین کی قدروقیمت ہوتی تھی۔صبا ؔصاحب انہین خاص اور باذوق شعرا میں سے تھے جنہیں مندرجہ بالاچھ غزلیں خط میں لکھ کر بھیجیں تاکہ ان سے دادوتحسین مل سکے اور یہی وہ وجہ تھی کہ ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد انہیں یہ لکھنا پڑا کہ’’ اس کو کہاں سے لائیں گے کس کو غزل سنائیں گے‘‘۔جبکہ فریدی صاحب خود ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر عروض اور ماہر علم بدیع و بیان بھی تھے اور ان کی غزلیں جیسا کہ خود ہی انہوں نے کہا کہ’’ آپ کی دعا سے میں نے بھی آگرے کے معیار کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے‘‘ یعنی ان کی غزلوں میں وہی کیف و اثر ہے جو میر و غالب کی غزل میں تھی ۔اور یہ حقیقت ہے کہ ان کی غزلیں تغزل کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے چاند کی چاندنی میں نہائی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔
صبا صاحب کی غزلوں کی تضمین ، ان کی شان میں لکھی گئی نظمیں اور قطعات کی روشنی میں جس طرح فریدی صاحب نے ان کی شخصیت اور شاعری کے مختلف جہات پر اشارے اور کنائے میں اظہارِ خیال کیا ہے وہ کسی طویل مضمون سے بھی بہتر ہے۔لہٰذا انہیں افسوس کرنے کی قطعی ضرورت نہیں کہ انہوں نے صباؔ صاحب کی شاعری پر کو ئی مفصل مضمون نہیں لکھا۔فریدی صاحب کی تخلیقات کی روشنی میں صباؔ صاحب سے ان کے تعلقات، ذہنی اورفکری ہم آہنگی، آگرہ کی سرزمیں سے دونوں کی بے پناہ محبت ، بچپن کی حسین یادوں ، دونوں کے شعری ذوق اور رموز غزل پر ان کی نظر سے متعلق جتنی باتیں کی گئیں انہیں مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ فریدی صاحب صبا ؔصاحب کے سب سے بڑے مداح اور ان کے فن کے معترف تھے لہٰذاان کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ’’صبا کا ہم نوا میں بھی رہا ہوں۔‘‘
m