شہاب جعفری UltraModern شاعر تھے۔اسی لیے ان کی شاعری برسوں بعد بھی آج کی شاعری معلوم ہوتی ہے۔شہاب جعفری کی شاعری کا زمانہ وہ ہے جب ترقی پسند تحریک زوال پزیر تھی اور حلقۂ اربابِذوق عروج پر تھا۔یہ وہ زمانہ ہے جب ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر زبان کے Superficialاور فطری طرزِ بیان میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی تاکہ زبان عوام سے قریب ہو سکے ۔اس کوشش میںترقی پسند تخلیق کاروں میںانفرادیت کے مقابلے میں یکسانیت زیادہ پائی جاتی تھی پھربھی کچھ تخلیق کار ایسے تھے جن کا طرزِ بیانSuperficial تھا ۔اس کے باوجود بھی انہوں نے اپنی انفرادیت کی مثال قائم کی۔شہاب جعفری بھی اُسی زمانے میں شاعری کر رہے تھے اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے لیکن ان کی شاعری پر ترقی پسندی کا اثرنہیںہے۔ان کی شاعری دراصل اس دور کے دونوں مکاتیبِ فکر، ترقی پسندی اور حلقۂ اربابِ ذوق کی کشمکش کی پیداوار ہے جس میں ان دونوں مکاتیبِ فکر کے تصوّرات کی تھرتھراہٹیں موجود ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شہاب جعفری کی شاعری میں وہ نعرہ بازی نہیںہے جو اُس زمانے کے دوسرے ترقی پسند شاعروں کے کلام میں موجود ہے۔شہاب جعفری نے اپنے مخصوص مزاج کی وجہ سے کسی خاص تحریک یارجحان کے دائرے میں خود کو مقید نہیں کیا۔
شہاب جعفری نے اپنی شاعری کی ابتدا تو غزلوں سے کی لیکن ان کے مجموعۂ کلام میں نظمیں، غزلیں، رباعیات کے علاوہ ایک طویل منظوم تمثیلی ڈرامہ بھی ہے۔انہیں شہرت نظموں کے علاوہ غزلوں کی وجہ سے بھی ملی۔ان کی غزل کے بعض اشعار زبان زدِ خاص و عام ہیں۔مثلاً ان کا یہ شعربہت مشہور ہے
چلے تو پاوں کے نیچے کچل گئی کوئی شے
نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے
ویسے شہاب جعفری بنیادی طور پر نظم کے شاعرتھے اور ان کی پہچان نظموں کی وجہ سے ہوئی۔ ان کی نظموں میں آزاد نظمیںاور معرّا نظموں کے علاوہ نثری نظم کے ابتدائی نمونے بھی ملتے ہیں ۔جدید نظموں کا دور تجربوں کا دور تھا۔اس دور کی شاعری کی ہیئت میںبے شمار تجربے کیے گئے اور روایت سے انحراف کیا گیا۔اس عمل میں بعض شعراتو کامیاب رہے لیکن زیادہ تر شعرا ہیئت کے تجربے میں ناکام رہے اور ان کی ادبی پہچان نہ بن سکی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب شاعر روایت سے کلّی طور پر انحراف کرتا ہے اور نئے نئے تجربے کرتا ہے توشاعری میں شعریت برقرار نہیں رہ پاتی لیکن شہاب جعفری نے نظموں میں ہر جگہ شعریت برقرار رکھی ہے۔ شہاب جعفری نے اپنی نظموں میں دیومالائی علامات کے استعمال سے الگ پہچان بنائی ہے اورالگ اسلوب قائم کیا۔ان کی نظموںکی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انہوںنے بعض نظموں میںPersonification یعنی تمثیلی اندازکے ذریعے نئے نئے ڈرامائی کردار خلق کیے ہیں اور مکالماتی انداز اختیار کرکے ڈرامائی کیفیت پیدا کی ۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ شہاب جعفری کی زیادہ ترنظمیں بیانیہ ہیں۔واضح رہے کہ بیانیہ بمعنی Narrative کا اطلاق عام طور پر فکشن کی نثری اصناف پر ہوتا ہے لیکن اس کا اطلاق شعری اصناف پر بھی کیا جا سکتا ہے اگر بیانیہ شعری اصناف میں پوری طرح تحلیل ہو جائے۔شہاب جعفری کی عشرتِ قطرہ، خودی کو کر بلند اتنا، خود آگہی، اپنا جنم، خدا کی واپسی، خوابِ تکمیل اور تسخیرِ فطرت کے بعدوغیرہ نظمیں بیانیہ ہیں،ان نظموں کے مصرعے ملاحظہ کیجیے کہ کس طرح ان میں واقعہ درواقعہ کی کیفیت کے ساتھ کہانی اندر ہی اندر چل رہی ہے اور اپنی داخلی ساخت میں نظم خود بخود بنتی جا رہی ہے۔متذکرہ نظموں کے مصرعوں میںجس طرح شاعر نے رمزیت پیدا کی ہے اوربیانیہ کو تحلیل کردیا ہے یہ شاعرکا کمال ہے۔پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنے ایک مضمون’’جدید نظم کی شعریات اور بیانیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ
’’جہاں وقت کے تحرک کی کیفیت ہوگی،کہانی اندر ہی اندر چلتی رہے گی ۔یہی بیانیہ کا بیج ہے جس سے داخلی ساخت میں نظم قائم ہوتی ہے،اور نظم کے حسن و لطافت اور تاثیر میں جس کے شعری تفاعل کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘‘ (اردو نظم ۱۹۶۰ کے بعد،ص ۳۰- ۳۱)
شہاب جعفری کی نظموں میں سورج ، چاند،سمندر ، پانی ،پتھراور ہوا جیسے الفاظ کا استعمال بطور استعارہ اور علامت بہت ہوا ہے لیکن سورج ان کی شاعری کا کلیدی لفظ ہے۔شہاب جعفری کی شاعری کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج ان کی شاعری کا مرکزی کردار ہے اور یہ ان کے فکر کامحرک بھی ہے۔شہاب جعفری نے سورج کا استعمال اپنی کئی نظموں میں مختلف علامات کے طور پر بار بار کیا ہے۔ مثلاً ’’سورج کا شہر‘‘، ’’ذرّے کی موت‘‘،’’گنہگار فرشتے‘‘،’’پسِ پردہ‘‘،’’آخری نسل‘‘، ’’خونین صدیاں‘‘، ’’ما حصل‘‘، ’’سورج کا زوال‘‘، ’’شہرِ انا میں‘‘، وجدان‘‘،’’ میں‘‘ اور ’’شام اور کھنڈر‘‘ وغیرہ نظموں میں سورج کو مختلف علامات کی شکل میں پیش کیا گیا ہے اور ان علامت کی مدد سے شاعر نے زندگی کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ دراصل سائنسی اور جغرافیائی نظریے کے علاوہ شمسی دیومالائی تصورات کے مطابق بھی زرعی معیشت کی ترقی میں سورج کا رول بہت ہے۔وزیر آغا نے ’’سورج کا شہر‘‘ سے مراد یہ دنیا لی ہے ۔اس نظم کے حوالے سے انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ
’’شہاب جعفری کے لیے سورج مسرت، عرفان اور شعورذات کا منبع ہے‘‘(نظم جدید کی کروٹیں، ص- ۱۸۶)
غالب نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے کہ قطرے کے لیے دریا میں فنا ہو جانا خوشی کا مقام ہے۔ لیکن علامہ اقبال نے کہا ہے کہ قطرہ سمندر میں مل کر سمندر تو بن جاتا ہے لیکن اپنا وجود کھو دیتا ہے۔اس لیے بہتر ہے کہ قطرہ سمندر سے الگ رہ کر اپنے وجودکو بر قرار رکھے کہ دونوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ دونوں شاعروں نے سمندر کی اہمیت کو مانا ہے لیکن شہاب جعفری نے اپنی ایک نظم ’’جنم جنم کی پیاس‘‘ میں دو ذیلی عنوانات کے تحت بڑے ڈرامائی انداز میںدونوں کے خیالات کو Deconstruct کیا ہے اور اس کے ذریعہ معنی کی دنیا میں تغیرّپیدا کر دیا ہے کہ اب سمندر اس لائق نہیں رہا کہ قطرہ اس میں فنا ہو کر خوشی محسوس کرے یا سمندر سے الگ رہ کر اپنے وجود کا احساس دلائے۔شاعر نے قطرے کو سمندر پر ترجیح دی ہے کیوں کہ سمندر اب آلودہ ہو چکا ہے اور اپنی پاکیزگی کھو چکا ہے۔شہاب جعفری کا یہ خیال انتہائی جدید ہے اور موجودہ صورتِ حال کے عین مطابق ہے۔ اس نظم کا پہلا ذیلی عنوان ہے ’’عشرتِ قطرہ۔۔۔۔‘‘ جو غالب کے ایک مصرعے کا ٹکڑا ہے۔اس عنوان کے تحت جو نظم لکھی ہے اس کے ابتدائی مصرعوں میں غالب کے ایک مصرع’’ عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا‘‘ میںمعمولی اضافے اور ترمیم کے ذریعے ما قبل متن کے معنی کو رد کر دیا ہے اور غیر معروف معنی سے اپنے قاری کو آشنا کرایا ہے جسے ہم نئی متنی فضا سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ پھراپنے چند مصرعوں کی مدد سے اس کی تضمین کی ہے اور ایک نئی فضا میں غالب کے خیال سے انحراف کیا ہے۔بند پیش ہے
سمندر کے کنارے پر کھڑا ہوں اور پیاسا ہوں
سمندر کا یہ کہنا ہے کہ قطرے کی حقیقت کیا ہے
میں ان موجوں میں مل کراپنی ہستی کو فنا کردوں
کمالِ عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہونا
(کسے سونپوں میں خود کو۔۔۔۔آہ سونا میری مٹّی کا)
اس نظم کا دوسرا ذیلی عنوان ’’خودی کو کر بلند اتنا۔۔۔‘‘علامہ اقبال کے ایک مصرعے کا ٹکڑاہے ۔یہاں شہاب جعفری نے اقبال کے اس تصوّرِ خودی کے پس منظر میںایک نئی فضا تیار کی ہے اور انسان کی عظمت کو تسلیم کیا ہے لیکن اقبال کے اس تصوّر کو Deconstruct کیا ہے کہ قطرہ اور سمندر کی اپنی اپنی اہمیت مسلم ہے۔شہاب جعفری قطرے کی اہمیت کو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن سمندر کی عظمت اور اس کی پاگیزگی کے قائل نہیں ہیں۔شہاب جعفری سمندر کی وسعت اور طاقت کے بارے میں یہ کہہ کر انکار کرتے ہیں کہ’’ ارے زہر آب ہے۔۔۔ تیرے ہی اشکوں کا ہلا ہل ہے‘‘ ۔ممکن ہے اس خیال کے پیچھے سماج کی بڑی طاقتوں کے خلاف احتجاج کا جذبہ کارفرما ہو اور سمندر کے پانی کو اشکوں کے ہلاہل سے تعبیر کرکے سماج کے دبے کچلے لوگوں کے تئیں اظہار ِ ہمدردی کی ہو۔ بند ملاحظہ ہو
’’مگر چُلّو کو ہونٹوں سے لگاتے ہی اک اور پیاسا
(جو زیرِآب تھا) ناگاہ سطحِ آب پر آیا
پُکارا ،’’ٹھہرمت پینا کہ یہ ٹھہرا ہوا پانی
ارے زہر آب ہے۔۔۔تیرے ہی اشکوں کا ہلاہل ہے
نہ جانے بند ہے کب سے تیرے سینے کے محبس میں
روانی چھین لی ہے اس سے اب انصافِ فطرت نے
نہ جانے کب سے دنیا کی ہوا اس تک نہیں پہنچی
خطا بیچارگی اس کی، سزا مرگِ دوام ا س کی‘‘
معلوم ہوتا ہے کہ غضنفر نے شہاب جعفری کے اسی بند کو پڑھ کر اپنا ناول ’’پانی‘‘ لکھا ہے۔ناول کا مصنف بھی صاف پانی کی تلاش میں دریا سے سمندر،سمندر سے سائنسدانوں کے تجربہ گاہ اور وہاں سے پھر حضرتِ خضر کے پاس جاتا ہے لیکن حضرتِ خضر جب آب حیات کے کنارے لے جاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آبِ حیات پر اب زہریلے گوہ و گھڑیال کا قبضہ ہے اور آبِ حیات بھی زہر آلو د ہو چکا ہے۔
اسی نظم کے ایک بندمیں سمندر کو جاندار بنا کر ایک کردار کی صوت میں پیش کیا ہے ۔بند ملاحظہ ہو
سمندر کوزہ لے کر دستِ ساقی کی طرح اٹھا
تو بیتابانہ ساحل سے بڑی قوت سے میں جھپٹا
اچانک ایک سرکش موج بھی میری طرف لپکی
(مرے اپنے ارادے کی طرح پُرشور تھی وہ بھی)
پکاری،’’ٹھہر!تیری پیاس بھی سودا ہے جینے کا
تیرے سینے کی دھرتی میں یہ ساگر سوکھ جائے گا‘‘
اس بند میں شاعر کا سمندر کی طرف جھپٹنا اور سرکش موج کا ان کی طرف لپکنا جیسے Situation پیدا کرکے شاعر نے جہاں ڈرامائی کیفیت پیدا کی ہے وہیں اس میںتمثیل( Personification) کابھی عمل ہے۔
جس طرح علامہ اقبال نے اپنی ایک نظم’’ساقی نامہ ‘‘کے پہلے بند میںاچکتی،پھسلتی اور پیچ کھا کر گرتی ہوئی جوئے کہستاں سے ز ندگی کا پیام اخذ کیا ہے اسی طرح شہاب جعفری نے پانی کی پُر شور روانی سے زندگی کا بھید پانے کی بات کہی ہے۔جس طرح پانی مسلسل رواں دواں اور پُر شور رہتا ہے اسی طرح زندگی بھی ہمیشہ رواں رہتی ہے۔ بند ملاحظہ کیجیے
سمندر مجھ میں آجائے کہ میں اس میں سماجاؤں
بہت ہی پُرکشش پُر شور پانی کی روانی ہے
میں اس خودسر سے شاید زندگی کا بھید پاجائو ں
شہاب جعفری نے اس بند کے پہلے مصرعے میں سمندر کو اپنے اندرلے لینے یا اس کے اندر سماجانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے جس میں ایک عجیب و غریب بے تابی کی کیفیت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سمندر کی سرکش موجوں میں جو توانائی اور کچھ کر گزرنے کا جو ارادہ ظاہر ہوتا ہے وہی توانائی اوروہی ارادہ شہاب جعفری کے اندر بھی موجود ہے۔یہ کیفیت تصوف کی طرف بھی قاری کے ذہن کو لے جا تی ہے کیوں کہ اکثر سمندر کو ’’کُل ‘‘یعنی خدا اور سمندر کے بوند کو’’ جز‘‘ یعنی بندوں سے تعبیر کیا جا تا ہے۔مذکورہ بالا نظم میں شاعر نے خطابیہ لہجہ اختیار کیا ہے جس میں با ضابطہ مکالمے کا استعمال ہوا ہے جس سے نظم میں تحرک پیدا ہوا ہے اور اس تحرک کی وجہ سے نظم میں ڈرامایت بھی پیدا ہو گئی ہے۔
شہاب جعفری انسان کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بھی مانتے ہیں کہ انسان کے اندراصل جوہر ’’خود آگہی‘‘ ہے جو ہمیشہ اس کے سینے میں ستاروں کی طرح چمکتا رہتا ہے لیکن یہی ’’خود آگہی‘‘ انسان کے دل سے اس وقت نکل جاتی ہے جب انسان کا ضمیر ختم ہو جاتا ہے۔شاعر نے اپنی ایک نظم ’’خود آگہی ‘‘میں اس تصور کی وضاحت کی ہے
ندی کی تہہ میں صدیوں پہلے اک ٹوٹا ہوا تارہ
چھپا ہے۔۔۔ سخت ظلمت میں بھی کیسا جگمگا تا ہے
کہ جس سے د ل فریب اس آب حیواں کی روانی ہے
غریب اس ریت کے تودے میں کتنے آسماں لے کر
نہ جانے دفن ہے کب سے فنا کے شور اور غل میں
یہاں ٹوٹا ہواتارہ ’’خود آگہی‘‘ کا استعارہ ہے اور ندی کی تہہ کی تشبیہ ظلمت سے دی گئی ہے، ظلمت انسانی ضمیر اور انسانی قدروں کے زوال کا استعارہ ہے اور چوتھے مصرعے میں آسماں دل کا استعارہ ہے۔شاعر نے خود آگہی کے عروج وزوال کی وضاحت ان مصرعوں کی ہے
کبھی یہ تارہ میرے سینے کے نُہ آسماں پر تھا
یہ جب سے گردشِ شام و شہر کی قید سے چھوٹا
مجھے میرے نظامِ روزو شب نے ہر طرح لوٹا
میں جب اک کوزۂِ دل لے کے نکلا تھا سبیلوں پر
بھرے بازار میں جب بک رہی تھی میری خوداری
جبھی سے روٹھ کر مجھ سے یہاں اب چھپ کے بیٹھا ہے
اب اس کا آسماں سونا ہے میرا سینہ خالی ہے
پہلے مصرعے میں شاعر نے ماضی کی اعلیٰ قدروں کو یاد کیا ہے جب اس کا ضمیر پاک تھا اور خوداری بلند تھی جس سے اس کا دل بھی روشن تھا اور اس کی خود آگہی اس کے اندر موجود تھی لیکن آج جبکہ انسان کی خوداری بک چکی ہے تو انسان کا سینہ بھی خود آگہی کے نور سے خالی ہو گیا ہے۔شاعر کو اس کھوئے ہوئے جوہر کو پھر حاصل کرنے کی تمنّا بیدار ہے کیوں کہ اس کے بغیر انسان کا وجود ممکن نہیں ہے۔اسی لیے شاعر نے ان مصرعوں میں اپنی بے چینی کا اظہار کیا ہے
’’مرے تارے تمہیں کھو کر میں خود گم ہوں، مجھے پا لو
میں زندہ ہوں،میں واپس آگیا ہوں،مجھ کو اپنا لو‘‘
آخری مصرعے میں شاعر کا یہ اعلان کہ میں زندہ ہوں،میں واپس آگیا ہوں، تجدید انسانیت یعنی اس امید کی طرف اشارہ ہے کہ ا نسانیت پھر سے واپس آئے گی انسان کا ضمیر پھر سے زندہ ہو گا۔
شہاب جعفری کی ایک اور نظم’’اپنا جنم ‘‘ میں انسان کی تخلیق و تجدیداوراس کی عظمت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اپنا جنم سے مراد انسانیت کا جنم ہے۔شاعر نے انسان کے جنم کو کسی مردِ کامل کے جنم سے عبارت کیا ہے۔ مردِ کامل کی بہترین مثال حضور ﷺ کی ذات ہے۔اسلامی عقیدے کے مطابق دنیا بنانے سے پہلے خدا نے حضور ﷺ کا نور پیدا کردیا تھا۔ اس نظم کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں
فضائے تیرہ میں ذراتِ نور اڑتے ہیں
تخیل ان کومرے جسم و جاں کی صورت میں
گداز کرکے نیا آب ورنگ دیتا ہے
تصورات کی بانہوں میں کائناتِ وسیع
سمٹ رہی ہے تو انسان بنتی جاتی ہے
شہاب جعفری نے ان مصرعوں میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کا خمیر جس چیز سے بنا ہے وہ کچھ اور نہیں بلکہ نور کے ذرّات ہیں۔ پہلے مصرعے میں نور علم کی علامت ہے جبکہ تیرہ یعنی اندھیرا جہالت اور پستی کی علامت ہے۔چوتھے اور پانچوین مصرعوں میں شاعر نے یہ کہہ کر کہ’’تصورات کی بانہوں میںکائناتِ وسیع ،سمٹ رہی ہے تو انسان بنتی ہے‘‘،انسان کی عظمت کو بڑھا دیا ہے۔ انسان کے وجود میں کائنات کا سمٹ جانا حضور ﷺ کی ذات کی طرف اشارہ ہے۔چند مصرعے اور ملاحظہ کیجیے
اٹھو اٹھو نئے میلاد کی ہے تیاری
چلو کہ ختم ہوئی نیند کی گرانباری
زمین کی کوکھ کا غنچہ چٹکنے والا ہے
سحر کی گود کی کھیتی لہکنے والی ہے
چلو بھی جشنِ مسرت کی آچکی ہے گھڑی
پہلے مصرعے میں ’’ نئے میلاد کی ہے تیاری‘‘ سے ایک طرف ذہن حضور ﷺ کی ولادت کی طرف جاتا ہے اور دوسری طرف تجدیدِ تہذیب کی طرف بھی جاتا ہے۔دونوں صورتوں میںنیند کی گرانباری یعنی جہالت ختم ہونے کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔ کئی مذہبی کتابوں میںاس بات کا ذکر ملتا ہے کہ حضور ﷺ کی ولادت دنیا میں علم نورِ علم پھیلنے کے مترادف ہے ۔اس نظم کے چند مصرعے اور ملاحظہ کیجیے
چلو چلو کہ کوئی دم میں ابنِ آدم آج
نئے سرے سے جنم خود کو دینے والا ہے
اب اس نے طوقِ حوادث کو توڑ ڈالا ہے
ان بندوں میں تجدیدِ انسان کا تصور ملتا ہے۔
شہاب جعفری کی ایک اور نظم’’تسخیر فطرت کے بعد‘‘ بھی قابلِ ذکر ہے کیوں کہ شاعر نے اس نظم میں انسان کی قوت تسخیر کا جائزہ پیش کیا ہے۔ یہ نظم ایک مکالماتی نظم ہے جس میں شاعر نے ہوا کو اپنا ہم سفر تصور کیا ہے کیوں کہ ہوا تیز چلتی ہے اور جلد ہی تمام اطراف میں پھیل جاتی ہے۔انسان بھی ہوا کے مانند تسخیرِ فطرت کے لیے چاروں طرف پھیل جانے کا مجاز رکھتا ہے لیکن جس طرح آج ہوا آلودہ ہو چکی ہے اور اس کے اندر فرحت بخشنے کی طاقت نہیں ہے اسی طرح انسان بھی اس قدر گر چکا ہے کہ اس کی حالت ایک پتھر کی سی ہو گئی ہے۔شاعر ہوا کی سست پیمائی اور انسان کی بیچارگی پرافسوس کا اظہار کر رہا ہے۔موجودہ دور میں مسلم معاشرے کا کچھ ایسا ہی حال ہے۔چند مصرعے ملاحظہ ہوں
ہوا اے ہوا!
میں کہ تجھ سے بچھڑنے سے پہلے
تری طرح آزاد و سرشار تھا
اب یہ کس طرح کی منہمک، ٹوٹتی زندگی ہے؟
کہ تو شہر شہر آدمی کی تگ و تازگی کی تاب لانے کے قابل نہیں
اور میں شہر شہر ایک پتھر سا رستوں میں بے حس پڑا ہوا ہوں
تری سست پیمائی اور اپنی بیچارگی کا گلہ کر رہا ہوں!
شہاب جعفری کی ایک نظم ہے’’خدا کی واپسی۔‘‘اس نظم کی ابتدا جس مصرعے سے ہوتی ہے اُسی مصرعے سے اس کاخاتمہ بھی ہوتا ہے جو نظامِ ارتقا کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ شاعر نے نظم کے اس مصرعے کو عوام کے لیے دلچسپ اور سنسنی خیز بنانے کے لیے اخبارکی ایک خبر کی صورت میں پیش کیاہے ۔ خبر سنانے والا شخص ایک پاگل ہے جو خدا کی واپسی کا اعلان، خدا کا پیغام سنا کر کرتا ہے اور اپنے آپ کو خدا کا پیغمبربتا تا ہے۔ مصرع یہ ہے
’’پھریک دیوانہ شہر کے راستوں پر دیکھا گیا ،جواعلان کر رہا تھا‘‘
در اصل نٹشے نے فوق البشر( Super Man (کا تصور(Concept) دیتے ہوئے God is dead کا اعلان کیا تھا ۔اس کے مطابق تکمیلِ کائنات کا سارا نظام انسانی عقل چلاتی ہے لہٰذا اس نے اعلان کیا کہ خدا مر چکا۔شہاب جعفری نے نٹشے کے اس خیال کو deconstruct کرتے ہوئے ’’خدا کی واپسی‘‘ کا اعلان کیاہے۔نظم ’’ خدا کی واپسی ‘‘ میں شاعر نے خدا کو قوتِ ارتقا کے استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے اور انسانی ارتقا کے مختلف منازل کو پیش کیا ہے۔ اس نظم کا مرکزیe Them نظریۂ ارتقا (Evolution Theory) ہے۔اس نظم میں شاعر نے ایک کردار خلق کیا ہے جو اپنے آپ کو خدا کا پیغمبر کہتا ہے اور خدا کا پیغام چیخ چیخ کر سڑک پر چلتے ہوئے ہجوم کو سناتا ہے لیکن لوگ جو نٹشے کےGod is deadکے Concept کے قائل ہیں اس لیے اسے پاگل سمجھتے ہیں لیکن عجب بات ہے کہ اسے پاگل سمجھنے کے باوجود بھی اس کے ذریعہ خداکا پیغام سن کر سبھی خوف زدہ ہیں کیوں کہ اس کا پیغام نٹشے کے تصورات کوردکرتا ہے اور خدا کے وجود کوثابت کرتا ہے۔مندرجہ ذیل مصرعوں کی قرأت کریں
مجھے خداوند نے دوبارہ زمیں پہ بھیجا ہے اہلِ دنیا
اسی خدا نے تم اپنی صورت سے جس کو پہچانتے ہوپہچان لو مجھے بھی
وہ قوتِ ارتقا ہے اور تم اس ارتقا کی عظیم منزل
تمہاری نشوونما کی خاطر خلاؤں نے یہ زمین بھیجی
تمہارے بے چین دل کی آسودگی کی خاطر
زمیں نے گردش قبول کی،روزوشب بنائے
بدلتے موسم کے معجزے بھی دکھائے۔۔۔ پانی کو دی روانی
کہ تم بھی سانسوں کے اک توازن سے اپنے پیروں پہ چل سکو۔۔۔
اور زمین نے اپنے رقصِ پیہم
ہواؤں کے پیچ و تاب ، شام و سحر کے چکّر
فضاؤں کے جاوداں تغیّر، صداؤں کی لازوال جنبش،
غرض تمہیں ہر طرح کی گردش سے آشنا کرکے یہ سکھایا
کہ تم خود ان گردشوں پہ قادر رہوگے تابع نہیں رہوگے
مندرجہ بالا مصرعوں میںشہاب جعفری نے قرآن کی آیتوں کو نظم کرکے خدا کے وجود کو پیش کیا ہے۔دوسرے مصرعے میں یہ کہہ کر کہ’’اسی خدا نے تم اپنی صورت سے جس کو پہچانتے ہو‘‘قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر بنایا ہے۔Bible میں بھی کہا گیا ہے کہ Man is the image of God. تیسرے مصرعے میں شاعر نے خدا کو قوتِ ارتقا اور انسان کواس ارتقاکی عظیم منزل قرار دیا ہے۔ قرآن میں بھی کہا گیا ہے کہ انسان خدا کی تخلیق کی انتہائی ترقی یافتہ صورت ہے ۔ متذکرہ بند کے باقی مصرعوں میں بھی قرآن کی ان آیات کی طرف اشارہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزیں انسان کی نشوونماکے لیے بنائی گئی ہیں۔آخر میں شاعر نے یہ کہہ کر کہ’’غرض تمہیں ہر طرح کی گردش سے آشنا کرکے یہ سکھایا کہ تم خود ان گردشوں پہ قادر رہوگے تابع نہیں رہو گے‘‘یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اس دنیا میں بھیجا اور تسخیر کائنات کا حکم دیا۔
اس نظم کے دوسرے حصے میں شاعر نےalance Disorder of ecological کی طرف اشارہ کیا ہے جو آج کی ضرورت ہے اور ان لوگوں کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے اور تنبیہ بھی کی ہے جو نٹشے کے تصورات کی پیروی کرتے ہیں اور اپنی قدرت کا بے محل استعمال کرتے ہیں
تم اپنی قدرت کے بے محل صَرف سے خود اپنے عظیم رتبے سے گر چکے ہو
زمیں پہ بارود کے وہ انساں کیے ہیں تخلیق تم نے،جن کے
بس اک دھماکے سے دن کو رات اور رات کو دن بنا رہے ہو
ہوا کو ساکت،سحر کو تاریک،شام کو شعلہ تاب کر کے
فضاؤں کو جاوداں جمود اور صداؤں کو لازوال خاموشیوںمیں تبدیل کر رہے ہو
ان مصروں میں شاعر نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح انسان اپنی عقل کا غلط استعمال کر کے انسانیت کو خوف زدہ کر رہا ہے۔تقریباً چالیس سال پہلے کہے گئے یہ مصرعے آج بھی کس قدر Relevant ہیں۔اعراق اورافغانستان میں امریکا اور برطانیہ نے آج جس طرح اپنی طاقت کے بیجا استعمال سے خوف وہراس کا ماحول پیدا کردیا ہے، اس کی تصویر ان مصرعوں میں بھی موجود ہے۔
صرف اتناہی نہیں، شہاب جعفری نے اس شخص کے ذریعہ گمراہ انسان کی لذت ،اس کی تسکین،اس کے ماحاصل پر طنز کے پیرائے میں پہلے سوالات قائم کیے ہیں اوران سوالوں کے جواب دیتے ہوئے ان کے تمام کارناموں ،ان کے خواہشات،زندگی کی لذت،ان کے تسکین،اور ان کے ما حاصل کو ادنیٰ اور حقیر بتاکر ان لو گوں کو کم تر اور معمولی درجے کے انسان کی شکل میں پیش کیا ہے جو لوگ خدا کی موت کے قائل ہیں اور اپنے کارناموں پر فخر محسوس کرتے ہیں
تمہاری لذت؟
سپاٹ سی زندگی کے دکھ درد۔۔۔ بے صلہ آدمی کی محنت!
تمہاری تسکیں؟
نپی تلی خواہشوں کی ہر لمحہ سخت گیری وجانگدازی!!
’’تمہارا حاصل؟
دلوں کی نا پختہ آرزوئیں، یتیم سی یہ ادھوری دنیا،یہ شاخِ طوبیٰ کی کچی کونپل!!!‘‘
شاعر نے ان مصرعوں کی مدد سے لوگوں کے سامنے سچائی پیش کرکے انہیں ٹھہر کر اس پیغا مبر کی بات سننے اور سوچنے کے لیے مجبور کیاہے پھراپنے تخلیق کردہ کردار کے ذریعہ تکمیلِ کائنات کے ا نظام کاتوازن برقرار نہیں رہنے کی وجوہات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔شاعر کا خیال ہے کہ اس کی وجہ انسان کے غیر فطری اعمال ہیںجسے وہ ما فوق البشر کا کارنامہ سمجھ کر کرتا ہے۔
زمین کاچاک۔۔۔جس کی گردش سے وقت تخلیق ہو رہا تھا،
سلونے پیکر ابھر رہے تھے،
اب اس کی رفتارکا توازن بگڑ چلاہے
ہتھیلیوں کی گدازآنچ اور کوری مٹی کی۔۔۔
باہمی کافرانہ تقدیس مٹ چکی ہے
کوئی بھی شے اپنے حسنِ تکمیل کو پہنچتی نہیں،
پہلے مصرعے میں شاعر نے زمین کو اس چاک سے تعبیر کیا ہے جس کی مدد سے کمہار گیلی چکنی مٹّی کو جس shape میں چاہتا ہے ڈھال لیتا ہے اور طرح طرح کے خوبصورت برتن بنا تا ہے۔ شاعر نے ’’زمین کا چاک‘‘ اس لیے کہا کہ چاک بھی گردش کرتا ہے اور زمین بھی گردش کرتی ہے۔زمین کی گردش سے وقت کی تخلیق ہوتی ہے اور چاک کی گردش سے سلونے مٹّی کے پیکر بنائے جاتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ اب نہ زمین اور چاک کی گردش کا توازن باقی ہے اور نہ کمہار کے ہتھیلیوں اور کوری مٹّی کے درمیان وہ تال میل برقرار ہے جس کی بدولت کوئی خوبصورت پیکر ابھرتا ہے۔اسی لیے شاعر اظہارِ افسوس کرتا ہے کہ
دلوں میں وہ شوقِ تکمیل بجھ چکاہے۔۔۔ حیات بدشکل ہو گئی ہے
دل ایسا بے باک،سات پردوں میںاپنا اظہار کرنے والا
فن ایسا خوداروخودنما۔۔۔ گندے پانی میں بھی کنول کی ماننداُبھرنے والا
یہ راہِ نشوونما کے معجزخرام، جن کا اک اک قدم ایک اک صدی ہے
تمہارے خائف ہجوم کی بھاگ دوڑ میں منہ کے بل گرے ہیں۔۔۔
بری طرح سے کچل گئے ہیں۔۔۔!
شہاب جعفری نے سماج کے اس طبقے پر بھی طنز کیا ہے جس طبقے نے سورج کی طاقت کو محسوس کر کے کبھی اسے خدا مانا تھااوراس کو پوجناشروع کیا تھا لیکن اسی طبقہ نے آج کل کارخانوںاوراپنے ہی بنائے ہوئے مشینوں کے معجزہ کو دیکھ کر اسے پوجنا شروع کردیا۔شاعر کا خیال ہے کہ انسان ایسا اس لیے کرتا ہے کہ وہ در اصل احساسِ کمتری میں مبتلا ہے۔
تم اپنے پیدا کیے ہوئے خوف اور احساسِ کمتری سے
کل آسماں، چاند اور سورج کو پوجتے تھے
اور آج بھی تم خود اپنی ڈھالی ہوئی مشینوں کے سامنے سر جھکا رہے ہو
خدائے خالق کو تم نے نادم کیا تھا کل تک
اور آج انسانیت کی تذلیل کر رہے ہو!!
شہاب جعفری نے ان مصرعوں میں ان لوگوں کی غیرت کو جگانے کی کوشش کی ہے جن کا ایمان بھٹکا ہوا ہے اور جو اصل خدا کی پرستش کرنے کے بجائے کبھی خدا کی پیدا کی ہوئی طاقت کے سامنے تو کبھی اپنی بنائی ہوئی مشینی طاقت کے سامنے سر جھکا تے ہیں۔ شاعر کا خیال ہے کہ اس سے نہ صرف خدا کی تذلیل ہوتی ہے بلکہ انسانیت کی بھی تذلیل ہوتی ہے۔
عام طور پر دن کو رات پر ترجیح دی جاتی ہے کیوں کہ دن خوشی کی علامت ہے جبکہ رات غم کی علامت ہے۔لیکن شہاب جعفری نے عام ڈگر سے ہٹ کر رات کو دن پر ترجیح دی ہے اور رات کو خوشی کی اور دن کو پریشانی کی علامت بنا کر پیش کیا ہے۔ شہاب جعفری نے رات کا رشتہ تصوّف،خواب اور تخلیقی عمل سے جوڑ کر اس کا تصوّر ہی بدل دیا ہے۔رات کو دن پر ترجیح دینے کی ایک وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ راتیں عبادت اور کشف و کرامات کے لیے موزوں ترین ہوتی ہیں۔تخلیق کاروں کی تخلیقات کے نزول کے لیے بھی راتیں خاص اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔شاعر نے راتوں کی اس اہمیت کا اظہار ان لفظوں میں کیا ہے
’’کہ اس کو اربابِ کارو بار اجنبی جو پائیں گے لوٹ لیں گے
قدم قدم احتساب کر کے متاعِ فن اس سے چھین لیں گے
متاعِ فن کی وضاحت شاعر نے اس طرح کی ہے۔
متاعِ فن۔۔۔۔میرا نازِ تخلیقِ فن،
مرے تجربے!میری زندگی کے کچھ سرفراز لمحے،
متاعِ فن شام کے دھندلکے میں فکرِ نو خیز۔۔۔
(کچھ نیندوں کی اُوس پی کر جوانِ رعنا)
اس Consumerism کے زمانے میںپرانی قدریں ختم ہوتی جا رہی ہیں ۔ بچے تعلیم تو حاصل کر رہے ہیں لیکن تربیت حاصل نہیں کر پا رہے ہیں ۔نتیجے کے طور پر دنیا بھر میں Destruction سے خوف کا ماحول ہے۔ایسے میں انسانی ذہن کو فنوںِ لطیفہ کی طرف مائل کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری صدیوں پرانی تہذیب زندہ رہے۔ہماری یہی تہذیب اور اس تہذیب کی پرانی قدریں ہمارے ملک اور قوم کو بچا سکتی ہیں۔شہاب جعفری کو بھی اس بات کا احساس ہے۔لہٰذا وہ اپنی ایک نظم’’رینا ساں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
دیکھتا ہوں اجنتا کے غاروں سے اک کارواں کو نکلتے ہوئے
دیکھتا ہوں کہ تہذیب کی اپسرائیں
سبھاؤں کی پریاں
سنگیت کی دیویاں
رقص کی پتلیاں
اپنے ہاتھوں میں صدیوں کی جلتی ہوئی مشعلیں لے کے نکلی ہیں
اور آن کی آن میں
شعرونغمہ کی دھرتی کے گرد ایک ہالا بناتے ہوئے
سارے مشرق کو اپنی حفاظت میں لے کر کھڑی ہو گئیں
ان مصرعوں میں اپسرائیں،پریاں،سنگیت کی دیویاں،رقص کی پتلیاں وغیرہ کا تعلق ہندستان کی قدیم اساطیری قصوں اور کہانیوں سے ہے۔الغرض شہاب جعفری کی شاعری ہندستانی تہذیب کا آئینہ ہے جس میں ہمارا قدیم ترین فلسفہ اور ہماری پرانی تہذیب کاعکس موجود ہے۔
ان نظموں کے تجزیاتی مطالعہ کے بعد قاری شہاب جعفری کو عام روش کے شاعر سے الگ پاتا ہے۔شہاب جعفری نے ہر بڑی شاعری کی طرح اپنی شاعری کے لیے مخصوص علامتیں اوراستعارے وضع کیے ہیں۔ان علامتوں کو انہوں نے کچھ اس طرح سے اپنی پوری شاعری میں برتا ہے جس کی روشنی میں انہیں ایک مربوط فکر کا عظیم شاعر قرار دیا جا سکتا ہے ۔
m