حضرات! میں اردو رائٹرس اینڈ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے اربابِ حَلّ و عَقۡد کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجھے اپنی اس تقریب میں شرکت کا موقع عنایت کیا۔ میں سمینار کے منتظمین کو مبارکباد بھی دینا چاہوں گا کہ انھوں نے سمینار کے لیے ایک بہت ہی اچھے موضوع کا انتخاب کیا ہے۔ ادبِ اطفال پر موجودہ حالات میں گفتگو کی بڑی شدید ضرورت ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ ادبِ اطفال کے تعلق سے جو ایک جمود طاری تھا، وہ گذشتہ چند برسوں میں ٹوٹا ہے اور اب ملک کے مختلف علاقوں میں ادبِ اطفال کے حوالے سے سمینار اور سمپوزیم کا انعقاد ہونے لگا ہے۔ ایک بڑا طبقہ ادبِ اطفال پر سنجیدگی سے توجہ بھی دے رہا ہے اور ہندوستان کے طول و عرض سے مختلف موضوعات پر ادب اطفال کے حوالے سے نہ صرف بیش قیمت تحریری شائع ہورہی ہیں بلکہ بچوں کے رسائل بھی نکل رہے ہیں۔ خود دہلی سے پیامِ تعلیم، امنگ اور بچوں کی دنیا شائع ہورہا ہے تو وہیں اترپردیش اردو اکادمی سے ’باغیچہ‘ کے نام سے رسالہ شائع ہورہا ہے۔ تلنگانہ اردو اکادمی سے ’روشن ستارہ‘ نام کا رسالہ بھی شائع ہورہا ہے اور فاروق سید صاحب تقریباً پچیس برسوں سے ماہنامہ ’گل بوٹے‘ شائع کررہے ہیں۔ غیرسرکاری رسالوں میں ’گل بوٹے‘ سب سے کثیرالاشاعت رسالہ ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ وسائل کی کمی کے باوجود بھی وہ یہ رسالہ شائع کررہے ہیں، میں ان کے جنون اور جذبے کو سلام کرتا ہوں!
حضرات! موجودہ دور میں ادبِ اطفال کے تئیں لوگوں کی دلچسپی بڑھی ہے اور بچوں کا ادب تیزی سے فروغ پارہا ہے اور اس کے لیے بہت سے ادارے بھی متحرک اور فعال ہیں۔ میں یہاں خاص طور پرقومی اردو کونسل کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ اس کی ترجیحات میں ادبِ اطفال کا فروغ ہمیشہ سے شامل رہا ہے۔ اس ادارے نے مختلف موضوعات پر محیط ادب اطفال کی بہت سی کتابیں شائع کی ہیں، کونسل کی مطبوعات پر نظر ڈالی جائے تو اس میں جہاں بچوں کے لیے کہانیاں، ناول، ڈرامے، سوانحی ادب، سائنسی ادب، سماجی ادب پر مشتمل کتابیں تحریر کی گئی ہیں، وہیںترجمے کے ذریعے بہت سی اہم کتابوں کی اشاعت بھی عمل میں آئی ہے، خاص طور پر سائنسی اور سماجی موضوعات پر مشتمل بہت سی کتابیں اس ادارے نے شائع کی ہیں اور نصابی علوم کی معاون درسی کتابیں بھی کونسل نے شائع کی ہیں۔ اس کے علاوہ ہر سال ادبِ اطفال میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ نئے نئے موضوعات پر کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔
اس کے علاوہ قومی اردو کونسل ماہنامہ ’بچوں کی دنیا‘ بھی کئی برسوں سے شائع کررہی ہے جس میں بچوں کی دلچسپیوں کا بھرپور مواد ہوتا ہے جس میں بچو ںکے ذہنی تقاضوں کا خیال رکھتے ہوئے مواد کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ یہ رسالہ ملک کے طول و عرض میں بہت مقبول و معروف ہے۔ صرف ہندوستان نہیں بلکہ بیرونِ ممالک میں بھی ’بچوں کی دنیا‘بہت مقبول ہے۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو قومی اردو کونسل ہمیشہ ادبِ اطفال کے فروغ اور ترقی کے لیے کوشاں رہی ہے پھر بھی موجودہ حالات میں ادب اطفال پر مزید سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں، موضوعات میں بھی تبدیلیاں آرہی ہیں، بچوں کی ذہنی ترجیحات بھی بدل رہی ہیں، انٹرنیٹ نے بھی بچو ںکی سائیکی کو بہت حد تک بدل دیا ہے۔ بچوں کا رشتہ، ہیری پورٹر، ڈوریمان، بھیم اور دیگر گیمز سے جڑ چکا ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ بچوں کی معصومیت کو بچانے کے لیے ادبِ اطفال کے حوالے سے ایسا مربوط اور منظم کام کیا جائے کہ رسائل اور کتابوں سے بھی بچوں کا رشتہ جڑ سکے۔
ادب اطفال کے تعلق سے یقینا بہت سارے مسائل ہیں جن پر ہمیں غور کرنا ہوگا۔ خاص طور پر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ بچوں کے لیے جو تعلیمی مواد ہے کس حد تک ان کے لیے مفید ہے اور بچوں کی ذہنی بالیدگی میں وہ تعلیمی مواد کس حد تک کارگر ہے۔اس کے علاوہ کن کن سطحوں پر ادب اطفال میں تبدیلی اور ترمیم کی ضرورت ہے، اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یقینا ہمارے ماہرین تعلیم اور ادب اطفال سے تعلق رکھنے والے افراد غور و فکر بھی کررہے ہیں لیکن اس کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہورپارہے ہیں۔
ایک المیہ یہ ہے کہ اردو ادب میں بچو ںکی ذہنی نفسیات اور عصر حاضر کے تقاضو ںکے مطابق کتابیں کم تیار کی جارہی ہیں، نظم و نثر کا جو پرانا مواد ہے اس میں بھی اب شاید ترمیم و اضافے کی ضرورت ہے۔ ادبِ اطفال پر یقینی طور پر بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں، مقالات اور مضامین بھی لکھے جاتے رہے ہیں، تجاویز اور مشورے بھی لوگ پیش کررہے ہیں، لیکن ادب اطفال کے تعلق سے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ جو بڑے قلمکار ہیں وہ ادب اطفال کی تخلیق سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ بچوں کا ادب تخلیق کرنا اب وہ کسر شان سمجھتے ہیں۔ اب موجودہ حالات میں ضرورت ہے کہ ایسے بڑے قلم کاروں کو ادبِ اطفال کی طرف متوجہ کیا جائے اور دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ ادبِ اطفال لکھنے والوں کو ادب میں کوئی مقام نہیں دیا جاتا، اس لیے ادب اطفال سے ان کی بیزاری بڑھتی جاتی ہے، اس لیے ضرورت ہے کہ ادب اطفال لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ قومی اور ریاستی سطح پر انھیں انعامات سے نوازا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ قدیم دور سے جدید دور کے ذخیرۂ ادب اطفال کا محاسبہ اور محاکمہ کرکے اکیسویں صدی سے ہم آہنگ ایک جامع انتخاب شائع کیا جائے۔ بچوں کے ادیبوں کی ایک ڈائریکٹری مرتب کی جانی چاہیے۔ بچوں کو تحفے میں معیاری کتابیںاور رسائل دیے جائیں، مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین ادب اطفال پر مشتمل مذاکروں اور سمپوزیم کا انعقاد کیا جائے جس میں دنیا کی بڑی زبانوں اور ہندوستان کی علاقائی زبانوں میں لکھے جانے والے ادب اطفال کی سمت و رفتار کا جائزہ لیا جائے۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ کل ہند سطح پر ادب اطفال اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس میں اردو کے تمام اداروں اور اکادمیوں کی شرکت کو لازمی کیا جائے۔ مختلف زبانو ںکے ماہرین ادب اطفال کو مدعو کیا جائے اور یہ جائزہ لیا جائے کہ اردو کے علاوہ دوسری زبانوں میں ادب اطفال کا کیا منظرنامہ ہے۔ جب تک ہم دوسری زبانوں کے ادب اطفال پر نظر نہیں ڈالیں گے اردو ادب میں ادب اطفال کا فروغ ناممکن ہے، کیونکہ دوسری زبانوں میں ادب اطفال کے ماہرین موجود ہیں اور وہ بچوں کی نفسیات کا مسلسل مطالعہ بھی کرتے ہیں اور ان کی نفسیات کے مطابق ہی بچو ںکا نصاب تیار کرتے ہیں تو ہمیں ادب اطفال کے لیے ایسے تمام ماہرین سے مدد لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
قومی اردو کونسل ادب اطفال کے فروغ کے لیے پہلے بھی کوشاں رہی ہے اور اب بھی ادب اطفال کے لیے ماہرین جو تجاویز پیش کریں گے اس کو عملی جامہ پہنانے کی کونسل ہر ممکن کوشش کرے گی!
٭٭٭
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.