اردو زبان و ادب کی کائنات بہت وسیع ہے۔ انسانی سماج سے جڑا ہوا کوئی بھی ایسا موضوع یا مسئلہ نہیں ہے جس پر اردو کے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں نے اظہار خیال نہ کیا ہو۔ حتیٰ کہ وہ موضوعات بھی جو آج ہمارے تنقیدی ڈسکورس کا اہم حصہ ہیں، ان پر بھی پہلے سے اشارات موجود ہیں۔ سائنس، ٹیکنالوجی، میڈیسن اور دیگر مشکل موضوعات پر بھی اردو میں کتابیں اور مقالے لکھے جاچکے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہوگا کہ اردو صرف شعر و شاعری کی زبان ہے۔اب یہ زبان ترجمے کے ذریعے علمی زبان کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اردو زبان میں بھی علوم و فنون کا بیش بہا خزانہ ہے۔ سائنسی علوم و فنون پر بھی اردو میں وافر مواد موجود ہے او راس تعلق سے ماضی میں کچھ اداروں نے جو بیش بہا خدمات انجام دی ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ آج بھی نئے سائنسی اور تکنیکی موضوعات کے حوالے سے اردو میں کتابوں کی ترتیب و تشکیل کا عمل جاری ہے۔
اردو میں موضوعاتی سطح پر بہت تنوع ہے۔ اردو شعرو ادب میں اب سائنسی عناصر پر گفتگو شروع ہوچکی ہے، خاص طور پر مرزا غالب اور دیگر شعرا کی شاعری میں سائنسی اشارات کی تلاش یا فزکس کے حوالے سے غالب کی شاعری کی نئی تعبیر کی جہت پر بھی مضامین لکھے جارہے ہیں۔یہ واضح اشارہ ہے کہ اردو زبان و ادب کا دائرہ چند موضوعات تک محدود نہیں ہے بلکہ اگر مختلف علوم و فنون کے تناظر میں اردو زبان کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے نئے گوشے سامنے آئیں گے۔
سائنس سے جڑے ہوئے لوگوں نے اردو زبان و ادب کو سائنسی تناظر میں دیکھا تو ہمیں بھی یہ احساس ہوا کہ اردو زبان و ادب کو اس زاویے سے بھی دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح قانون سے جڑے ہوئے افراد نے قانونی تناظر میں اردو زبان کا جائزہ لیا تو بہت سے اہم نکات سامنے آئے۔ مختلف شعبوں سے جڑے ہوئے افراد نے جب اردو زبان و ادب کو اپنا میدانِ عمل بنایا تو ان کی وجہ سے اردو کو بہت سے نئے زاویے بھی ملے۔ اب ٹیکنالوجی کے حوالے سے جو موضوعات سامنے آرہے ہیں ان پر بھی اردو میں لکھنے والوں کی خاصی تعداد ہے۔
اردو کے لیے یہ ایک نیک فال ہے کہ اردو کا دائرہ موضوعاتی سطح پر وسیع سے وسیع تر اور خوب سے خوب تر ہوتا جارہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اردو سے باضابطہ جڑے ہوئے لوگ چند مخصوص موضوعات میں ہی محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ وہ میر و غالب، اقبال سے آگے بڑھنا ہی نہیں چاہتے اور انہی پر اپنی ساری توانائی اور محنت صرف کردیتے ہیں اور کوئی نیا زاویہ تلاش کرنے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہے کہ اردو میں موضوعات کی کمی ہو، بہت سارے ایسے موضوعات ہیں جن پر لوگوں کی نظر ابھی تک نہیں گئی ہے۔ ہندوستان کے طول و عرض میں بہت سے ایسے فنکار ہیں جنھیں نظرانداز کیا گیا ہے۔ بہت سی ایسی شخصیتیں ہیں جن کی علمی اور ادبی خدمات کا دائرہ وسیع ہے مگر وہ بھی تحقیق و تنقید کے دائرے میں نہیں آسکے۔ بہت سے علاقے ہیں جن سے بہت سی اہم ادبی او رعلمی شخصیات کا رشتہ ہے مگر ان علاقوں کو بھی نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ اس لیے اب ضرورت ہے کہ ہم اپنا زاویہ نظر بدلیں اور نئے موضوعات تلاش کریں، نئے امکانات کی جستجو کریں، پرانے اور فرسودہ موضوعات کے حصار سے باہر نکل کر ایسے موضوعات پر کام کریں جو ہمارے معاشرے کے لیے بھی مفید ثابت ہوں۔
ہماری تہذیب اور تاریخ کے بہت سے حوالے معدوم اور منسوخ ہوتے جارہے ہیں، ان حوالو ںکو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں ان گم نام فنکاروں کو بھی تلاش کرنا چاہیے جنھوں نے اپنا خونِ جگر صرف کیا ہے مگرانھیں ابھی تک کوئی صلہ نہیں ملا۔ ایسے بھی بے نیاز فنکار ہیں جنھیں نہ ستائش کی تمنا رہی اور نہ صلے کی پرواہ، ان پر بھی ہماری نظر ہونی چاہیے۔ تبھی ہم محدود موضوعات کے حصار سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوپائیں گے اور اردو ادب کو نئے نئے موضوعات دے کر اس کی وسعتوں میں اضافہ کرپائیں گے۔
