ہر دور میںتحقیق کی بڑی اہمیت رہی ہے۔ تحقیق کی وجہ سے ہی بہت سے اسرار و رموز اور انکشافات سے ہم روبرو ہوپاتے ہیں۔ تحقیق کا عمل منقطع ہوجاتا تو شاید انسانی تہذیب کے ارتقا کا سفر بھی رک جاتا۔ آج انسانی کائنات نے ترقی کے جو اتنے مراحل اور منازل طے کیے ہیں ان میں تحقیق و تفتیش کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ سائنسی ایجادات ، اکتشافات تحقیق کا ہی ثمرہ ہیں۔ انسانوں کو جو سہولیات و آسائشیں آج میسر ہیں ان میں بہت کچھ عمل دخل انہی سائنسی تحقیقات کا ہے۔ سائنس کے علاوہ دیگر علوم و فنون میں بھی تحقیق کا عمل جاری ہے اور اس کے ذریعے ہم نئے زاویوں اور نئی جہتوں سے آشنا ہوتے ہیں۔
ادبیات میں بھی تحقیق کا ایک مربوط سلسلہ ہے جس کے ذریعے ہم بہت سے اہم اور قدیم شاہکاروں سے روشناس ہوتے ہیں۔ ہمارے اسلاف اور اکابر نے تحقیق پر خصوصی توجہ دی ہے اور اس کے اصول وضوابط بھی متعین کیے ہیں۔ اس کے طریقہ کار پر بھی روشنی ڈالی ہے اور ایک معروضی اور منطقی طریقہ کار کو متعارف کرانے کی کوشش بھی کی ہے۔ اس ذیل میں بہت سی کتابیں شائع ہوچکی ہیں جو ہمیں تحقیق کے اصول و مبادی سے روشنا س کراتی ہیں، اس کے بنیادی عوامل و ارکان سے آگاہ کرتی ہیں، معیار و مقدار کے حوالے سے بھی ان کتابوں میں اچھے مباحث ہیں، تحقیق و تدوین کے ضوابط کے تعلق سے اتنی جامع اور مفید کتابیں شائع ہوچکی ہیں کہ اگر ان کی روشنی میں تحقیقی عمل کو جاری رکھا جائے تو بہت عمدہ تحقیقات ہمارے سامنے آسکتی ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ عہدحاضر میں ان اصول و ضوابط کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی وہ معروضی اور سائنٹفک طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے جو سماجی سائنسی علوم میں عام ہیں۔
آج کے عہد میں ضرورت ہے کہ ہم دوسرے علوم اور دوسری زبانوں کے تحقیقی سرچشمو ں سے بھی واقف ہو ںاور ہم ان زبانوں تحقیق کی سمت و رفتار کو بھی نظر میں رکھیں تاکہ ہمیں احساس ہو کہ آج کے عہد میں کس نوع کی تحقیق کی ضرورت ہے۔اب سہل پسندی کی وجہ سے قدیم دواوین کی ترتیب و تدوین کا کام تقریباً متروک ہوچکا ہے۔ کچھ ہی افراد ہیں جو قدیم مخطوطات اور نسخوں کی تلاش و جستجو کے بعد اس کی ترتیب و تدوین کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ادبیات میں تحقیق کے اور بھی گوشے نکل سکتے ہیں مگر آج کی تحقیق زیادہ تر شخصیات میں محصور ہوکر رہ گئی ہے۔ جبکہ اصنافِ ادب، نثری متون اور دیگر موضوعات کے حوالے سے ادبیات میں تحقیق کی بڑی گنجائش ہے۔ خاص طور پر لغت، زبان اور لسانیات کے حوالے سے اردو میں بہت کم تحقیقی کام سامنے آئے ہیں جب کہ ہمارے عہد میں لغت اور زبان کے حوالے سے تحقیقی کام کی زیادہ ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ادبی تاریخوں کی تشکیل و ترتیب کی بھی ضرورت ہے، خاص طور پر وہ ادبی تاریخیں جو علاقائی تناظر میں لکھی جاسکتی ہیں کیونکہ مجموعی طور پر ادب کی جو تاریخیں لکھی گئی ہیں ان میں بہت سے علاقے نظرانداز کیے گئے ہیں جب کہ بہت سارے مضافات، قصبات و دیہات ہیں جہاں علوم و ادبیات کے حوالے سے قیمتی ذخیرہ موجود ہے اور افراد بھی۔ مگر ایسے موضوعات کو مَس نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ان علاقوں کی ادبی تاریخوں سے ہم ناواقف ہوتے ہیں۔ آج کے عہد میں ضرورت ہے کہ ہر خطے اور علاقے کی ادبی تاریخ مرتب کی جائے اور اسے اپنے تحقیقی عمل میں شامل کیا جائے تو اس سے ہمارے ادبی سرمایہ میں گراں قدر اضافہ ہوگا۔
ماضی میں ہمارے اسلاف نے بڑے اہم اور عمدہ تحقیقی کام کیے ہیں جن کی مثال آج کے عہد میں دی جاسکتی ہے۔ ان میں حبیب الرحمن شیروانی، مولوی عبدالحق، حافظ محمود خاں شیرانی، سید مسعود حسن رضوی ادیب، غلام رسول مہر، قاضی عبدالودود، نصیرالدین ہاشمی، محی الدین قادری زور، پروفیسر عبدالقادر سروری، مولانا امتیاز علی عرشی، شیخ محمد اکرام، مالک رام، گیان چند جین، مختارالدین احمد آرزو، رشید حسن خان، حنیف نقوی، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے عمدہ تحقیقات کی نظیر قائم کی ہے۔ آج کے محققین کو چاہیے کہ ان کے نقش قدم پر چل کر ادبیات کو اعلیٰ تحقیقات سے سرفراز کریں تاکہ ان تحقیقات کا افادی پہلو بھی معاشرہ کے سامنے آسکے۔
آج کے عہد میں بھی موضوعات بہت ہیں بس جستجو شرط ہے!
