July 14, 2023

اکتوبر تا دسمبر 2022

صارفی کلچر کی وجہ سے علوم و ادبیات سے ہمارے معاشرے کا رشتہ منقطع ہوتا جارہا ہے۔ مادیت پر سماج کا ارتکاز زیادہ ہے۔ زیادہ تر وہ علوم اب ہمارے ذہنی نصاب کا حصہ بنتے جارہے ہیں جن سے مادی فوائد وابستہ ہیں۔ خاص طور پر سائنس اور ٹکنالوجی کے عہد میں معاشرے کی ترجیحات بہت حد تک بدل گئی ہیں اور علوم کو معاشی افادیت کے حوالے سے دیکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
ادب کے تعلق سے یہ سوال بھی اٹھنے لگا ہے کہ آخر ہم ادب کیوں پڑھیں؟ اس سے ہمیں کیا فائدہ ہے؟ یہ سوال اس لیے قائم ہوا کہ ادب کے مقاصد اور اس کی اہمیت و معنویت کے حوالے سے لوگوں کو یہ نہیں بتایا گیا کہ ادب کے بغیر زندگی اور معاشرے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا دائرہ محدود نہیں بلکہ بہت وسیع ہے اور ادب میں وہ ساری چیزیں آجاتی ہیں جن کا ہماری معاشرت، ثقافت، سیاست اور معیشت سے گہرا تعلق ہے۔ ادب میں وہ سارے مسائل اور موضوعات شامل ہیں جن سے ہمارا تہذیبی، معاشرتی اور تمدنی ارتقا وابستہ ہے۔ جدید دور میں ادبیات کے ذیل میں جو تحقیقات ہورہی ہیں ان میں بھی ادب کے افادی کردار کو مرکزیت حاصل ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر معاشرے سے ادب ختم ہوجائے گا تو پورامعاشرہ ایک وحشی سماج میں تبدیل ہوجائے گا کیونکہ ادب ہی سماج کی سمت طے کرتا ہے۔ سماج میں تہذیب و تمدن اور تاریخ نیز آداب زندگی سے آشنا کرنے کا بنیادی کام ماضی میں ادب ہی کرتا رہا ہے اور حال میں بھی یہ فریضہ ادب ہی انجام دے رہا ہے۔ ادب انسان کو مہذب اور متمدن بناتا ہے، ماضی کی تاریخ و تہذیب سے آشنا کرتا ہے، حال کے وقوعات، واردات، سانحات، تصورات، نظریات اور معاشرتی مد و جزر سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ ادب کا کردار بہت وسیع ہے۔ اس لیے ادب کے افادی کردار پر سوالیہ نشان کھڑانہیں کیا جاسکتا۔
تحقیق بھی ادب ہی کا ایک حصہ ہے اور اس میں ادب کے وہ تمام گوشے سامنے لائے جاتے ہیں جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں علوم و ادبیات کے ذیل میں جو تحقیقات ہورہی ہیں ان میں اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا ہے کہ نئے عالمی، قومی، علاقائی تصورات، نظریات، افکارو اقدار سے معاشرے کو واقف کرایا جائے۔ خاص طور پر سائنسی اور سماجی تحقیق میں نئے انکشافات پیش کیے جاتے ہیں، نئے زاویوں کی جستجو کی جاتی ہے، ادبی تحقیقات میں بھی بہت سی ایسی جہتیں سامنے لائی جاتی ہیں جو ہمارے لیے نامعلوم یا اجنبی ہوتی ہیں۔ ماضی میں محققین نے بہت سے ایسے تحقیقی نکات پیش کیے ہیں جن کی بنیاد پر ہمیں اپنی تاریخ، تہذیب، ثقافت اور معاشرتی سیاسی نظام کے بارے میں بہت سی اہم باتیں معلوم ہوئیں۔ آج بھی بہت سے ایسے تحقیقی موضوعات ہیں جن پر اگر سنجیدگی اور متانت کے ساتھ تحقیق کی جائے تو بہت سے اہم علمی اور فنی زاویے سامنے آسکتے ہیں۔ موجودہ دور میں گو کہ تحقیق پر ایک زوال کی سی کیفیت طاری ہے پھر بھی کچھ اذہان ایسے ہیں جو تحقیق کے اعتبار اور استناد کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ وہ قدیم مخطوطات اور نایاب کتابوں سے بہت سی معلومات ہم تک پہنچاتے ہیں اور کچھ نئے موضوعات بھی تلاش کرتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ جو تحقیقی رسائل و جرائد ملک کے مختلف جامعات، اداروں سے شائع ہوتے ہیں ان میں کوشش کی جاتی ہے کہ صرف ادبیات کے حوالے سے ہی گفتگو نہ کی جائے بلکہ دیگر علوم وفنون کے تعلق سے بھی نئی تحقیقات پیش کی جائیں، خاص طور پر وہ موضوعات جن کا ہماری تاریخ اور تہذیب سے گہرا رشتہ ہے۔
سہ ماہی ’فکر و تحقیق‘ کے اس شمارے میں بھی کچھ ایسے تحقیقی نوعیت کے مضامین شامل کیے گئے ہیں جن سے سماجیات، لسانیات، تاریخ اور ادبیات کے حوالے سے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔ خاص طور پر ’اودھی کہاوتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو‘ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس مضمون کے ذریعے ہمیں اودھی زبان کی کہاوتوں کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ 1857 کی جنگ آزادی میں اردو صحافت کا کیا کردار رہا ہے اور ’صادق الاخبار‘ کا کیا رول رہا ہے اس کے بارے میں بھی معلومات ملتی ہیں۔ ’صادق الاخبار‘ کے حوالے سے بہت کم چیزیں دستیاب ہیں اس اعتبار سے یہ مضمون ایک نیا دریچہ وا کرتا ہے۔ دکن میں بہت ساری مثنویاں لکھی گئی ہیں اور محققین نے وہاں کی مثنویوں پر تحقیقی نوعیت کے مضامین بھی لکھے ہیں، انہی میں ایک شاہکار مثنوی ’قصہ بے نظیر‘ بھی ہے۔ ’متن کی تدوین‘ آج کے عہد کا ایک اہم مسئلہ ہے جس پر توجہ ذرا کم دی جارہی ہے اس تعلق سے بھی ’فکر و تحقیق‘ میں ایک مضمون شامل کیا گیا ہے تاکہ تدوین متن کے تعلق سے جو مسائل ہیں ان سے آگہی ہوسکے۔ ان کے علاوہ تخلیقی ادب کی مختصر تاریخ، فن خود نوشت سوانح نگاری، اردو نظم میں تانیثی مزاحمت و احتجاج یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر کافی کچھ لکھا بھی جاچکا ہے، پھر بھی بہت سے گوشے تشنہ ہیں۔ یہ مضامین ان تشنہ گوشوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ انور عظیم اردو کے ایک اہم فکشن نگار اور صحافی تھے جن کی ادبی اور صحافتی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان کے ناول ’دھواں دھواں سویرا‘ کے عنوان سے ایک تجزیاتی مطالعہ شامل کیا گیا ہے تاکہ ان کی فنی اور فکری جہتوں سے نئی نسل کے قارئین واقف ہوسکیں۔
سہ ماہی’فکر و تحقیق‘ کے شمارے میں جو مضامین شامل کیے گئے ہیں وہ مختلف زاویے پیش کرتے ہیں۔ امید ہے کہ تحقیق سے دلچسپی رکھنے والے اساتذہ اور طلبا کے لیے یہ مضامین مفید ثابت ہوں گے۔
تازہ شمارہ کے مشمولات کے حوالے سے آپ کے تاثرات کا انتظار رہے گا!

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.