July 14, 2023

اگست 2020

’اردو دنیا‘ کے قارئین کو یومِ آزادی مبارک!
پندرہ اگست 1947کو ہندوستان آزاد ہوا جس کا باشندگان ہند کوشدت سے انتظار تھا۔لیکن یہ آزادی یوں ہی نہیں مل گئی،بلکہ بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی۔ بلا تفریق مذہب وملت ملک کے تمام طبقات نے آزادی کی جدوجہد میںحصہ لیااور ہر نوع کی قربانیاں دیں۔ کتنے قیدوبندکی صعوبتوں سے گزرے ، کتنوں نے پھانسی کے پھندوں کو چومااورکتنوںنے آزادی کی لڑائی زبان و قلم کے ذریعے لڑی۔ اس حوالے سے اردو کے شاعروں، ادیبوںاور صحافیوں کا کردارنہایت تابناک اور سرگرم رہا۔ ’دہلی اردو اخبار‘ کے ایڈیٹرمولوی محمد باقر تحریک آزادی کے پہلے شہید صحافی ہیں۔ انھیں برطانوی استعمار کی مخالفت کی وجہ سے جامِ شہادت نو ش کرنا پڑا۔ اس کے بعد تحریکِ آزادی کی لَے اور تیز تر ہوتی گئی۔ دیگر اخبارات اور رسائل نے بھی برطانوی سامراج کے خلاف محاذ کھول دیا اور اس کا عوامی ذہن و شعو رپر بہت ہی گہرا اثر مرتب ہوا۔ برطانوی حکومت بھی لرزہ براندام ہوگئی اور اس انقلابی آواز کو روکنے کے لیے اخبارات کے خلاف کارروائی شروع ہوگئی۔ مولا نا ظفرعلی خاں کے اخبار ’ زمیندار‘،مولانا محمد علی جوہر کے ’ہمدرد‘ اورمولانا بوالکلام آزادکے ہفت روزہ الہلال‘ کے گردشکنجہ کسا گیا۔اردو کے نہایت باوقار اور عظیم شاعر مولانا حسرت موہانی کو جیل کی تنگ وتاریک کوٹھری میں ڈال دیا گیا۔ ان کے علاوہ اور بہت سی مقتدر شخصیات کو قید و بند کی سزائیں دی گئیں۔ مگر اس کے باوجود اردو کے ادبا و شعرا اور صحافت سے جڑے ہوئے افراد ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔ اپنی تحریروں، نظموں اور افسانوں کے ذریعے باشندگانِ ہند میں ولولۂ آزادی پیدا کرتے رہے۔
اردو شعرا اور صحافیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جنھوںنے ایسی تحریریں لکھیں جن سے باشندگانِ ہند کے جذبۂ آزادی کو تقویت حاصل ہوئی اوروہ انگریز وں کے سامنے ڈٹے رہے۔جوش ملیح آبادی کی نظم ’شکست زنداں کا خواب‘ بڑی مشہور ہوئی اور جگہ جگہ پڑھی اور گائی گئی۔ ان کے اس شعر کی گونج ملک کی فضائوں میں ہر جگہ سنائی دی ؎
سنبھلو کہ وہ زنداں گونج اٹھا، جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے
اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں، دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں
اسرارالحق مجاز نے ہندوستانی عوام کوجگانے اور انقلابی بنانے کا کام کیا ۔انھوںنے خواتین کو بھی انقلاب سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی کیونکہ وہ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ بہت سے انقلابات خواتین کے ذریعے آتے ہیں۔اگرملک گیر سطح پر انقلاب لانے کی تحریک میں خواتین بھی شامل ہوجائیں تو پھرحالات کا رخ موڑنے سے انھیںکوئی نہیں روک سکتا۔مجاز نے کہا ؎
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنالیتی تھی تو اچھا تھا
اوربھی بہت سے ایسے شعرا و ادبا تھے جنھوں نے برطانیہ مخالف انقلابی شاعری کے ذریعے ہندوستانی عوام کے جذبات کو مہمیز کرنے اور انگریزوں کے حوصلوں کو پست کرنے کا کام کیا۔ہندوستان کی دیگر زبانوں کے علاوہ اردو نے تحریک آزادی میں ایک ناقابل فراموش کردار ادا کیا اور انقلاب کو ایک نئی آواز اور ایک نیا آہنگ دیا۔ اس زبان کا جو کردار رہا ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ اس کے حوالے سے بہت سی کتابیں اور تحریریں منظرعام پر آچکی ہیں جن کے مطالعے سے جدوجہد آزادی میں اردو زبان کے کردار کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
دراصل اردو ایک ایسی زندہ اور سخت جان زبان ہے جو ہر آڑے وقت میں اپنا رول اداکرنے کی استطاعت رکھتی ہے یہی وہ زبان ہے جو محبت ویگانگت اور گنگاجمنی تہذیب کے گیت چھیڑتی ہے اور یہی وہ زبان ہے جو وقت پڑنے پرانقلابی بن جاتی ہے۔ ارد واور دیگر زبانوں نے تحریک آزادی کے حوالے سے جو کارنامہ انجام دیا وہ تاریخ کے صفحات پر درج ہے۔ اب ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم پندرہ اگست کے موقعے پر تمام مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کریں اور انھیں خراجِ عقیدت پیش کریں کہ انہیں کی قربانیوں کی وجہ سے ہمارے ملک کو آزادی جیسی بیش بہا نعمت نصیب ہوئی۔

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.