شیخ عقیل احمد
دہلی یونیورسٹی۔ دہلی
بیسویں صدی میں خاکہ نگاری کی سمت ورفتار
’’خاکہ ‘‘انگریزی لفظ اسکیچ (Sketch)کا متبادل ہے۔ تنقیدی اصطلاحات کے مطابق ’’ادب کی جس صنف کے لیے انگریزی میں اسکیچ یا پن پورٹریٹ (Pen Portrait) کالفظ استعمال ہوتا ہے اردومیں اسے خاکہ کہتے ہیں‘‘۔انگریزی میں اسکیچ کامترادف لفظ پورٹریٹ ہے لیکن ان دونوں کے معنی میںکافی فرق ہے۔مثلاً اسکیچ کے معنی A drawing, slight, rough or without detail. A short descriptive essay.دیئے ہوئے ہیں جبکہ پوٹریٹ کے معنی Likeness of a real person. A vivid description in words.دیئے گئے ہیں۔اسکیچ اورپوٹریٹ کے دیئے گئے معنی کی روشنی میں واضح طورپر کہاجاسکتاہے کہ اسکیچ مختلف خطوط کی مددسے کسی شخص کے خط وخال ابھارنے کانام ہے جبکہ پورٹریٹ سے کسی شخص کی واضح شبیہ ابھارنامرادلیاجاتا ہے۔انجمن ترقی ا ردوکی مرتب کردہ اڈوانس اردوانگلش لغت کے مطابق اسکیچ ، خاکہ (تصویرکا)، ڈھانچہ، خلاصہ، مختصربیان، مسودہ،مختصرمضمون جس میں واقعات کابیان ہو۔اسی لغت میں پورٹریٹ کے معنی تصویر،شبیہ ،(مجازاً) ہوبہوتصویر، کامل نمونہ، لفظی تحریروغیرہ دیئے گئے ہیں۔ان دونوں لغات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسکیچ اورپورٹریٹ میں فرق ہے اورخاکہ کے ساتھ پوٹریٹ کوجوڑنامناسب نہیںہے۔یعنی خاکہ کامتبادل لفظ اسکیچ ہی درست ہے۔ ’’ فرہنگ آصفیہ ‘‘ میں خاکہ کے معنی گروہ نقاشاں ، خاک کے ذریعے سے نقشہ وغیرہ کا نشان ڈالنا ، ڈھانچہ ، نقشہ ، چربہ ۔نور اللغات ،میں ڈھانچہ ، تصویر کا مسودہ ، وغیرہ معنی دیئے گئے ہیں۔ علمی اُردو لغت میں خاکہ کے جومعنی دیئے ہوئے ہیںوہ یہ ہیں ’’ وہ نقشہ جو صرف حدود کی لکیریں کھینچ کر بنایا جائے ۔ کسی چیز کا ابتدائی نقشہ ، مرقع ، وہ مضمون جس میں کسی شخص کے جستہ جستہ حالات لکھے جائیں، وہ مسودہ یا منصوبہ جو ذہن میں بنایا جائے۔ ‘‘اردو لغت (تاریخی اصولوں پر) میںخاکہ کے معنی ذرا تفصیل سے بیان کئے گئے ہیںجو خاکہ کے تمام تشریحی لوازم کا احاطہ کرتے ہیں۔اس لغت کے مطابق خاکہ
’’ خدو خال وغیرہ کی نقل جو اصل سے مشابہ ہو ، تصویر کا ڈھانچہ ، کسی عمارت وغیرہ کاکچا نقشہ ، تحریرکا ذہنی پس منظر ، کسی حقیقت کی مختصر کیفیت کا نقشہ ، سوانح حیات پر مبنی تحریر،تعارف ، حالات زندگی کا مختصر نقشہ ، مختصر ڈرامہ یا نقشہ ، ناٹک ،ایک قسم کی کشیدہ جالی یا ململ جس کو نقشے یا تصویر پر رکھ کر بنایا جائے۔ ‘‘
ادبی اصطلاح میں خاکہ وہ تحریر ہے جس میں ہلکے پھلکے انداز و اسلوب میں کسی شخص کے ظاہری اور باطنی اوصاف کو اجاگر کیا جاتاہے۔ صحیح معنوں میںیہ ایک سوانحی تحریر ہوتی ہے لیکن اس کا انداز سوانحی مضمون ، مرقع ، پورٹریٹ اور سوانح عمری سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنی مرتب کردہ ، تنقیدی اصطلاحات میں خاکہ پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھاہے
’’انگریزی میں مشتمل Sketch کی اصطلاح’’ خاکہ‘‘اس مختصرتحریر کے لیے استعمال ہوتی ہے جو کسی فرد کے بارے میں شخصی تعلقات، نجی کوائف اورذاتی احوال پر مبنی ہو۔ اسے شخصیت نگاری کی مختصر ترین صورت بھی قرار دیا جا سکتا ہے ۔‘‘
خاکہ کے معنی کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی نے لکھاہے
’’خاکہ کے لغوی معنی ابتدائی نقشہ، ڈھانچہ اورچربہ کے ہیں۔خاکہ کھینچنے کے معنی ہیں کسی کی اسکیچ (Sketch) بطورادبی تصویرلفظوں میں اداکرنا۔‘‘
اصطلاحِ انگریزی زبان وادب میں خاکہ (Sketch ) کی تعریف اس طرح کی گئی ہے
“Two basic categories of sketch may be distinguished: a short piece of prose (often of perhaps a thousand to two thousand words) and usually of a descriptive kind. In some cases it becomes very nearly a short story.
(Dictionary of Literary Term &Literary Theories. Penguin Books.1977-P-884)
اصطلاحِ انگریزی زبان وادب کاکہنادرست ہے کہ خاکہ نگاری افسانہ کے بہت نزدیک معلوم ہوتاہے کیوں کہ اس کاتعلق بہ یک وقت تاریخ اورتخیل سے ہوتاہے۔لیکن بعض حضرات کا یہ کہناصحیح نہیں ہے کہ شخصیت نگاری یامرقع نگاری اورخاکہ نگاری ایک ہی صنف ہے۔ان دونوں اصناف میں وہی فرق ہے جو’’اسکیچ ‘‘اور’’پورٹریٹ‘‘میں ہے۔مختصر یہ کہ خاکہ پورٹریٹ کا نہیں بلکہ اسکیچ کامترادف ہے اورشخصیت نگاری پورٹریٹ کے مترادف ہوسکتی ہے ۔ڈاکٹرسلیم اخترنے خاکہ نگاری اورشخصیت نگاری کے درمیان جوفرق ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے صحیح لکھاہے
’’مصوری کی اصطلاح میں بات کرتے ہوئے کہاجاسکتا ہے کہ سوانحی مضمون رنگین پورٹریٹ ہے جس میں مصورپس منظراورپیش منظرکواجاگرکرتے ہوئے شبیہ سے وابستہ تمام جزئیات نمایاں کرتاہے۔جبکہ خاکہ پنسل اسکیچ ہے جس میں کم سے کم لائنوں سے چہرہ کاتاثرواضح کیاجاتاہے۔اب یہ مصورکااپناوجدان اورفنی شعورہے کہ وہ تاثرکوابھارنے کے لیے چہرہ کے کن خطوط کونمایاں کرتاہے۔ ‘‘ (اردوادب کی مختصرترین تاریخ، ڈاکٹرسلیم اختر، ص229 )
دراصل ادب میں کسی صنف کی واضح اورحتمی تعریف کرنامشکل ہے کیوں کہ ادب سائنس یا ریاضی نہیں ہے کسی سائنسی اصطلاح کی طرح ادبی اصطلاح کی واضح اورحتمی تعریف پیش کی جاسکے۔ادبی اصطلاح کی تعریف اسی حدتک ممکن ہے جس حد تک اس صنف کی وضاحت میں معاون ہوسکے اورکافی حدتک صحیح بھی ہو۔خاکہ نگاری کے علاوہ شخصیت نگاری، سوانح نگاری اورمرقع نگاری جیسے نثری اصناف کی واضح اورمکمل تعریف ہنوز زیربحث ہے پھربھی ناقدین نے خاکہ نگاری کوایک علیحدہ صنف قراردے دیاہے۔حفیظ صدیقی نے خاکہ نگاری کی تعریف اس طرح کی ہے
’’خاکہ ایک سوانحی مضمون ہے جس میں کسی شخصیت کے اہم اورمنفرد پہلواس طرح اجاگرکئے جاتے ہیں کہ اس شخصیت کی ایک جیتی جاگتی تصویر قاری کے ذہن میں پیداہوجاتی ہے۔خاکہ سوانح عمری سے مختلف چیزہے۔سوانح عمری میں خاکہ کی گنجائش ہوتی ہے لیکن خاکے میں سوانح عمری نہیں سماتی۔‘‘(کشاف تنقیدی اصطلاحات، حفیظ صدیقی، ص72)
حفیظ صدیقی نے جوتعریف پیش کی ہے اس سے اتفاق کیاجاسکتا ہے کیوں کہ خاکہ نگاری کاتعلق سوانحی ادب سے ہے۔سوانح میں شخصیت کوزیادہ سے زیادہ ابھارنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ خاکے میں چندلکیروں کی مددسے شخصیت کوابھاراجاتا ہے۔یعنی خاکہ اختصارکامتقاضی ہے ۔ خاکہ نگارمحمدطفیل نے خاکہ نگاری پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ ’’خاکہ نگاری خدائی حدودمیں قدم رکھنے کے مترادف ہے یعنی جوکچھ آپ کو خدانے بنایاہو،اس کے عین مین اظہار کانام خاکہ نگاری ہے۔‘‘مختصریہ کہ خاکہ وہ تحریرہے جوکسی شخص کامکمل تاثرپیش کرے۔ایک اچھے خاکے میں کسی شخص کے بنیادی مزاج، افتادِ طبع،انداز،فکروعمل اوراس کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی تھرتھراہٹیں موجودہوتی ہیں۔خاکہ نگارشخصیت کے نمایاں اوصاف کوکم سے کم الفاظ میں اس طرح پیش کرتاہے کہ اس کی زندگی کے مختلف جہات تمام خوبیوں اورخامیوں کے ساتھ حقیقی رنگ میں منعکس ہونے لگتے ہیں۔دراصل خاکہ نگاری شخصیت کاوہ معروضی مطالعہ ہے جس کے لئے خاکہ نگار اپنے مشاہدے اورقوتِ ادراک کی مدد سے غیرجانبداری کے ساتھ پراسراراندازبیان میں شخصیت کے تمام پہلوؤں کوپیش کرتاہے۔خاکہ نگاری دراصل مرقع نگاری کاعمل ہے جس میں خاکہ نگارکی شخصیت کی تصویرکشی اس طرح کرتاہے کہ اس کی صورت،سیرت،ذہن اورمزاج ،اس کی خوبیاں اورخامیاں،افکاروکرداروگفتار پوری آب وتاب کے ساتھ قاری کی نظروں میں جلوہ گرہوجائے۔ خیال رہے کہ خاکے میں شخصیت کی مکمل زندگی کی عکاسی نہیں کی جاتی ہے بلکہ صاحب خاکہ کی زندگی کی نمایاں پہلوؤں کی عکاسی کی جاتی ہے۔اعلیٰ درجے کی خاکہ نگاری میں شخصیت کے جس پہلوکی تصویرکشی کی جاتی ہے وہ اصل کے عین مطابق ہونی چاہئے۔خاکہ میں عموماًزندگی کے ان گوشوں کوروشنی میں لایاجاتاہے جوہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ایک اچھاخاکہ نگارشخصیت کے محاسن ومعائب کوروشنی میں لانے کے لئے ناقدانہ رویہ اختیارکرنے کے بجائے ہمدردانہ رویہ اختیارکرتاہے تاکہ شخصیت کی تصویراصل کے مطابق نظرآئے کیوں کہ تصویراصل سے مختلف ہونے کی صورت میں خاکے کوناقص قراردے دیاجاتاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ صاحب خاکہ افسانوی کردارکی طرح خیالی نہیں ہوتاہے بلکہ اصلی یاحقیقی ہوتاہے۔جس شخص کاخاکہ لکھاجاتاہے وہ ایک عام انسان بھی ہوسکتاہے اورخاص بھی۔خاکہ لکھنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ صاحب خاکہ کوئی عظیم شخصیت ہویا کوئی بڑاعالم، فاضل اورادیب ہو۔ادیب ہونے کی صورت میں شخصیت کی تصویرکشی کے ساتھ ساتھ اس کی تخلیقات پربھی روشنی ڈالی جاسکتی ہے لیکن اس کی تنقیدی اہمیت نہیں ہوتی ہے کیوں کہ خاکہ نگارکاموضوع شخصیت ہوتاہے فن اورادبی کارنامے نہیں۔اس لیے وہ صاحب خاکہ کی صرف عادات واطوار،پسندوناپسنداورکرداروگفتارکومدنظررکھ کرشخصیت کی تصویرکھینچتاہے۔ماہرنفسیات کاخیال ہے کہ انسان کی شخصیت کے کئی پہلو ہوتے ہیں جن میں چندپہلوایسے بھی ہوتے ہیں جن تک رسائی مشکل ہی سے ہوپاتی ہے۔اس لیے خاکہ نگارکاکمال یہ بھی ہے کہ صاحبِ خاکہ کی شخصیت کے مخفی پہلوؤں کے منفی ومثبت چہرے کوبھی اختصار اورہمدردانہ روییّ کے ساتھ سامنے لائے ۔خاکہ نگارکوشخصیت کاخاکہ کھینچتے وقت اس کی توجہ صرف تصویرکے انہیں خطوط کونمایاں کرنے پرہونی چایئے جن کی مددسے قاری شخصیت کے ان گوشوں تک رسائی حاصل کرسکے جن گوشوںپرخاکے میںروشنی نہیں ڈالی گئی ہے۔ایسا کرنے سے خاکہ نگاری کافن مجروح نہیں ہوگا۔خاکہ نگارکواس بات کابھی خیال رکھناچاہئے کہ وہ نہ توناقدہے اور ناصح ، وہ صرف ایک مصورہے جس کاکام چندخطوط کے سہارے شخصیت کے نمایاں پہلوؤں کی ایسی تصویرکشی کرنا ہے جن کی مددسے قاری شخصیت کے ان پہلوؤں کوبھی دیکھ سکے جن کی تصویرخاکہ کے کینوس پرخاکہ نگارنے نہیں کھینچی۔یعنی ایک باکمال خاکہ نگار شخصیت کے ظاہری نقوش کو اس طرح پیش کرتاہے کہ ان نقوش کے راستے سے قاری شخصیت کی باطنی کیفیات تک رسائی حاصل کرلیتاہے۔
خاکہ نگارکوخاکہ نگاری کے لئے ایسی شخصیت کاانتخاب کرناچاہئے جس کے ساتھ اس کے دیرینہ تعلقات ہوں اور اس کی شخصیت کے ظاہری وباطنی خوبیوں اورخامیوں سے مکمل واقفیت رکھتاہو۔یہی واقفیت خاکہ نگاری کے لیے موادکا ذخیرہ ہوتا ہے جن میں سے خاکہ نگارچندایسے موادکاانتخاب کرتاہے اور جن کی مددسے وہ شخصیت کی ایسی تصویرپیش کرتا ہے جس میں صاحبِ خاکہ کی مکمل شخصیت نظرآنے لگتی ہے۔خاکہ نگارکوخاکہ نگاری کے لیے کس طرح کے موادکاانتخاب کرناچاہئے؟اس سلسلے میں حفیظ صدیقی کاخیال ہے کہ شخصیت کوروشنی میں لانے کے لیے تین قسم کی باتوں کاذکرکرناپڑتاہے
.1 وہ باتیں جنہیں اخلاقی محاسن سمجھاجاتاہے۔مثلاًحیا، خلوص،معصومیت،رواداری،ایثار،تحمل،خوش معاملگی اوربہترعلم وغیرہ۔
.2 وہ باتیں جنہیں اخلاقی معائب سمجھاجاتاہے۔جیسے مغلوب الغضبی،خودغرضی،الحاد، بدزبانی اوربے راہ روی وغیرہ۔
.3 وہ باتیں جنہیں نہ اخلاقی خوبیاں سمجھاجاسکتاہے نہ خامیاں جیسے ایک خاص قسم کالباس پہننا،کرسی پراکڑوںبیٹھنا،ایک خاص اندازسے چلنا،بلندآہنگ میں قہقہے لگانا،بلیاں یاکبوترپالنا، پتنگ اڑانا،ہجوم میں بدحواس ہوجانا،چٹپتی چیزیں کھانا،حقے یاپان،گرمیوں میں گرم پانی سے غسل کرنا،خوشی کے موقع پرغمگین ہوجانا،یادوں سے جی پہلانا،خیالی پلاؤپکاناوغیرہ‘‘۔
(محمدطفیل کے خاکے اورخاکہ نگاری، حفیظ صدیقی، ص301)
حفیظ صدیقی نے مندرجہ بالا جن معلومات کاذکرکیاہے ان تمام معلومات کااستعمال کرنا نہ ممکن ہے اورنہ خاکے میں اتنی گنجائش ہوتی ہے۔ اس لئے خاکہ نگار ان میں سے چندمعلومات کی مددسے ہی شخصیت کانمایاںخاکہ کھینچنے کی کوشش کرتاہے۔شاید اسی لئیسید عبداللہ اپنے ایک مضمون میں ’خاکہ‘ کی تعریف متعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’ شخصیت نگاری میں پرچین کاری بڑی کام آنے والی چیز ہے۔ یہ وہ فن ہے جس سے مغلیہ عہد میںچھوٹے چھوٹے رنگ کے ٹکڑوں کو جوڑکر ایک جز بنایا جاتا تھا۔ یہ چیز عمارت کے علاوہ شخصیت نگاری میں بھی کام آتی ہے۔ یعنی کوئی ٹکڑا کسی جگہ کااور کوئی کسی جگہ کا لے کر ان سب کو ملاکر اس طرح ترتیب دیا جائے کہ شخصیت کا پورا نقشہ سامنے آجائے۔‘‘
(بحوالہ رشید احمد صدیقی بحیثیت خاکہ نگار، ڈاکٹر احمد امتیاز،ص 50-)
لہٰذاخاکہ نگارسے یہ توقع کرنادرست نہیں ہے کہ وہ شخصیت کے ہر پہلوکوخاکے میں شامل کرے جواس کے علم میں ہے۔ شخصیت کے ہرپہلوکواگرخاکے میں شامل کردیاجائے توپھرسوانح اورخاکے میں فرق ہی کیارہ جائیگا؟اس لئے خاکہ نگارکوصرف انہیں مواد(معلومات) کااستعمال کرناچاہئے جوشخصیت کے زیادہ سے زیادہ پہلوؤں کااحاطہ کرسکے اور جوصاحبِ خاکہ کی شخصیت کوروشنی میں لاسکے۔شخصیت کے متعلق بعض معلومات کااستعمال خاکہ نگار فنی ضرورتوں کے تحت بھی نہیں کرتاہے اوربعض معلومات کااستعمال اس لئے بھی نہیں کرتاہے کہ اس کے استعمال سے صاحب خاکہ کے اہلِ خانہ کی دل آزاری ہوتی ہے۔بعض واقعات کاذکرشائستگی کے خلاف ہوتاہے اورچندواقعات قانونی تقاضوںکے بھی خلاف ہوتے ہیں۔لہٰذاخاکہ نگارکومعلومات کے ذخیرے میں سے انہیں معلومات کاانتخاب کرناچاہئے جن کااستعمال خاکہ نگاری کے فنی اوراخلاقی تقاضوں کے مطابق ہو۔اس لئے خاکہ نگارکوصاحب خاکہ سے ذاتی قربت ہونالازمی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اسے ذاتی پسندوناپسنداورتعصبات سے پاک ہوناچاہئے۔اسے صرف مدح اورعقیدت مندی سے بھی گریزکرناچاہئے۔کوئی بھی شخصیت نہ اچھائیوں کامرقع ہوتا ہے اور برائیوں کا ۔اس لئے ایک اچھے خاکے میں شخصیت کے روشن اورتاریک دونوں پہلوؤں کی جھلک موجود ہونی چاہئے ورنہ خاکہ یک رخی معلوم ہوگا۔ماہرین کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ خاکہ نقاشی نہیں عکاسی ہونا چاہئے اور اس میں کہانی کے بجائے شروع سے آخرتک شخصیت ہونی چاہئے۔خاکہ نگار کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی ذاتی پسندوناپسند کوبالائے طاق رکھ کرخاکہ نگاری کے عمل میں عدل وانصاف سے کام لے۔واضح رہے کہ خاکہ کامقصدشخصیت کی فنی خوبیوں یامقام ومرتبہ کاتعین کرنے کے بجائے باطنی شخصیت کوتمام افکارواعمال کے ساتھ پیش کرناہوتاہے۔خاکہ نگاری کے بعض ماہرین کاخیال ہے کہ خاکہ نگارکے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ صاحب خاکہ سے اس کی ذاتی قربت ہواوراس نے صاحب خاکہ کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کابے حدنزدیک سے مطالعہ اور مشاہدہ کیاہو۔وہ صاحبِ خاکہ کے متعلق دوسرے ذرائع سے بھی معلومات حاصل کرکے خاکہ لکھ سکتاہے لیکن میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے کیوں کہ دوسروں کی تحریرکردہ معلومات اور سنی سنائی باتوں سے جو خاکہ کھینچاجاتاہے وہ حقیقت سے دورہوتا۔البتہ کبھی کبھی دوسروں کے پیش کردہ موادکی ضرورت پڑسکتی ہے اور اس سے بھی خاکہ کھینچنے میں مددلی جاسکتی ہے لیکن اس طرح کے مواد کی حیثیت ثانوی یاتائیدی ہوگی۔
خاکہ نگاری کے ضمن میں بعض حضرات نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ صاحب خاکہ کی شخصیت کیسی ہونی چاہئے؟بعضوں کاخیال ہے کہ صاحبِ خاکہ کی شخصیت غیررسمی یاجس کی شخصیت میں کوئی خاص انوکھاپن یاانفرادیت نہ ہو۔بعض حضرات کاخیال ہے کہ شخصیت میں کوئی خاص بات یاکوئی انفرادیت ہویانہ ہویہ اہم نہیں ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ اس میں قاری کواپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت ضرورہو۔بعض ماہرین کاخیال ہے کہ ہرزبان کے ادب میںاچھے خاکے انہیں شخصیات کے سمجھے جاتے ہیں جن کی زندگی اول جلول اوربے ڈھنگی ہوتے ہیں اورمرکزسے کھسکی ہویاجوغیرمعمولی شخصیت کے مالک ہوںاورغیرمعمولی کارنامے انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ لیکن میرے خیال میں خاکہ نگاراگربڑافنکارہوتووہ کردارنگاری کی اعلٰی صلاحیتوں کی بدولت کسی بھی شخصیت کے ہرپہلوکودلچسپ بناکرپیش کرسکتاہے اوراسے قاری کے توجہ کامرکزبناسکتاہے۔دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ ایک خاکہ نگارکو خاکہ نگاری کے عمل سے گزرتے وقت اپنی بصیرت کاثبوت بھی پیش کرناہوتاہے۔ایک بصیرت افروزاورباریک بین خاکہ نگارصاحب خاکہ کی شخصیت کے کسی بنیادی صفت سے اس کی ایسی تصویرابھارتاہے کہ شخصیت کی باقی تمام خصوصیات خودبخودسامنے آجاتی ہیں۔
خاکہ نگاری کے ماہرین نے خاکوں کو دواقسام میں تقسیم کیاہے۔شخصی خاکے اورکرداری خاکے۔شخصی خاکے میں باقاعدہ کسی شخصیت کوموضوع بنایاجاتاہے۔اردومیں زیادہ تر خاکے شخصی ہی ہیں۔ کرداری خاکوں میں کسی شخصیت کوموضوع بنانے کے بجائے اس شخصیت میں موجودوہ کردارجوپورے معاشرے یاطبقے کی نمائندگی کرتاہو۔فرحت اﷲبیگ کے خاکوں میں ’’بہرا‘‘، ’’غلام‘‘اور’’صاحب بہادر‘‘ ایسے خاکے ہیں جنہیں کرداری خاکوں کی مثال کے طورپرپیش کئے جاسکتے ہیں۔اردومیں کرداری خاکے بہت کم لکھئے گئے ہیں لیکن اردوفکشن میں ایسے کردارموجودہیں جوایک طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں مثلاً ’’ابن الوقت‘‘، ’’آزاد‘‘، چچا چھکن اورخوجی وغیرہ اپنے عہد کے نمائندہ کردارتھے۔شخصی خاکے اورکرداری خاکے میں جوفرق ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے سیدکامران عباس کاظمی نے لکھاہے کہ ’’شخصی خاکہ پتھرکی سالم سِل تراش خراش سے ایک پیکرابھارنے کا عمل ہے جبکہ کرداری خاکے کوبکھرے اینٹ اورگارے سے تعمیرکرناہوتاہے۔‘‘
بعض دفعہ خاکوں میں صاحب خاکہ کی شخصیت پرخاکہ نگارکی شخصیت حاوی ہوجاتی ہے۔جس کی وجہ سے شخصیت کی مرکزیت ختم ہوجاتی ہے اورخاکے میں قاری کی دلچسپی برقرارنہیں رہ پاتی ہے۔اس لیے خاکہ نگارکواس بات کا خیال رکھناچاہئے کہ خاکے میں اپنی ذات وصفات کااظہارکم سے کم کرے اورصاحب خاکہ اوراس کے درمیان جورشتہ ہے اس کومشتہر بھی نہ کرے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ خاکہ نگار صاحب خاکہ کے لئے صیغہ واحدمتکلم کے استعمال سے پرہیزکرے تاکہ دونوں کے درمیان آپسی تعلقات کا پتہ نہ چلے۔یہ الگ بات ہے کہ شخصیت سے ذاتی تعلقات اورقربت ہونے کا احساس بعض واقعات وحادثات کے بیان سے ہوجاتاہے جوکہ فطری ہے۔خاکہ نگارکااصل مقصد شخصیت کے باطن میں اترکراس کے پردۂ رازمیں چھپی ہوئی شخصیت کی تلاش کرناہوتاہے ۔اس عمل میں خاکہ نگارکی اپنی شخصیت خاکہ میں غالب نہیں ہوتی ہے البتہ خاکے میں اس کا عکس ضرورموجودہوتا ہے۔
خاکہ میں کسی مصلحت کے تحت نہ غلط بیانی کی گنجائش ہوتی ہے اورنہ ایسی سچائی کی جوفتنہ پرورہو۔اس لئے خاکہ نگارکواس بات کاخیال رکھناچاہئے کہ اگرکسی شخصیت کی تصویرکشی میں جھوٹ کاسہارالیناپڑے توایسی شخصیت کاخاکہ کھینچنے سے اسے پرہیزکرناچاہئے۔اسی طرح شخصیت کی تصویرکھینچنے میں ان سچائیوں کابیان اشاروں اورکنایوں میں بھی نہیں کرناچاہئے جو فتنہ انگیز ہو۔البتہ سماجی اقدارکی روشنی میں جتنی زیادہ ممکن ہو،خاکہ نگارکو حق گوئی سے کام لیناچاہئے لیکن اگرسماجی اقدارسخت ہوں اورچھوٹی بڑی برائیاں شخصیت کی عظمت کے خلاف ہوں تواس صورت میں خاکہ نگارکواشاروں اورکنایوں میں اپنی بات کہہ دینی چاہئے تاکہ شخصیت کایہ پہلو پوری طرح اگر اجاگرنہ ہوتوبالکل تشنہ بھی نہ رہے۔بعض دفعہ خاکہ نگاراپنے کسی مخصوص سیاسی، نظریاتی اورادبی نقطۂ نظرکے زیراثر کسی شخصیت کاخاکہ کھینچتاہے جس کی وجہ سے اس شخصیت کوسمجھنے میں قاری کودشواری ہوتی ہے کیوں کہ ایساخاکہ شخصیت کے مزاج اورماحول کے خلاف ہوتاہے اورقاری شخصیت کی وہ تصویردیکھنے لگتاہے جوخاکہ نگاردکھاناچاہتاہے۔ایسے خاکوں میں توازن برقرارنہیں رہ پاتاہے جبکہ توازن کوخاکہ نگاری میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
خاکہ نگاری کے ماہرین کاخیال ہے کہ خاکہ نگاری کی زبا ن اوراندازبیان فصیح وبلیغ ہوناچاہئے تاکہ قاری پراس کے بہتراثرات مرتب ہوں۔حالانکہ خاکہ میں مضمون آفرینی نہیں کی جاتی بلکہ صاحبِ خاکہ کی شخصیت کونمایاں طورپراجاگرکیاجاتاہے۔ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ اگرخاکہ نگارانشاپردازی کے ہنرسے بھی آراستہ ہوتوصاحبِ خاکہ کی شخصیت کی خوبیوں اورخامیوں سے پردہ اٹھاکرقاری کے سامنے اس طرح پیش کرسکتاہے کہ قاری محظوظ ہوئے بغیرنہیں رہ سکتا۔لیکن خیال رہے کہ خاکہ نگاری کابنیادی مقصدانشاپردازی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں حفیظ صدیقی کا یہ فرمانہ درست ہے
’’جس طرح رعایت لفظی کاالتزام بسااوقات معانی کاخون کردیتاہے اسی طرح انشاپردازی کے جوہردکھانے کی خواہش بعض اوقات شخصیت کی تصویرکومسخ کردیتی ہے۔اس لیے خاکے میں انشاپردازی کی چکاچوند کونہیں موضوع خاکہ کو اہمیت دینی چاہئے۔‘‘
(محمدطفیل کے خاکے اورخاکہ نگاری، حفیظ صدیقی، ص269)
مختصریہ کہ خاکہ نگارکو انشاپردازی کے ہنر کی مددسے الفاظ کی تزئین وترتیب اس طرح کرنی چاہئے جس سے شخصیت کا ایساپیکر ہمارے سامنے آئے کہ جس میں خارجی پہلوؤں کودیکھ سکیں اورباطنی پہلوؤں کو اپنے تخیل کی مدد سے محسوس کرسکیں۔
تکنیکی اعتبارسے خاکوں کی دوقسمیں بتائی گئی ہیں ’’طویل خاکے‘‘ اور’’مختصرخاکے‘‘۔طویل خاکے کی بہترین مثال فرحت اﷲبیگ کاخاکہ ’’نذیراحمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ہے جوکئی صفحات پرمشتمل ہے۔مختصرخاکے کی مثال کے طورپرمولوی عبدالحق کا حکیم امتیازالدین پر لکھا ہواخاکہ کوپیش کیا جاسکتاہے جوصرف ڈیڑھ صفحہ کاہے۔خاکے کے مواد کے مناسب انتخاب وایجاز کے باوجودخاکے طویل ہوسکتے ہیں لیکن ان میں خاکے کی تمام لوازمات اورخصوصیات موجود ہونی چاہئے۔لیکن مختصرخاکے کوہی بہترسمجھاجاتاہے کیوں کہ اس میں حالات وواقعات کی تفصیل نہیں پیش کی جاتی ہے بلکہ اس میں خیالات کی مدد سے شخصیت کاعکس ابھاراجاتاہے جوسیرت اورکردارسے متعلق ہوتاہے۔واضح رہے کہ سوانح سے خاکے کوممیزکرنے والی خوبی اختصارہی ہے ۔اس لئے اختصارہی کو خاکہ نگاری کا بنیادی وصف سمجھاجاتاہے۔اختصارسے مرادصرف الفاظ کی کفایت شعاری نہیں بلکہ غیرضروری تفصیل اورجزئیات نگاری سے بھی گریزکرناہے۔الغرض خاکہ نگاری دریاکوکوزے میں بندکرنے کاہنرہے۔شخصیت کاصحیح عکس ابھارنے کے لئے خاکہ نگارکومعلوم ہوناچاہئے کہ کہاں اختصارکی ضرورت ہے ،کہاں صرف اشارہ کرناہے اورکہاں جزئیات نگاری کرنی ہے۔شخصیت کی رنگ آمیزی میں طوالت اوراختصار دونوں کی ضرورت پڑتی ہے لیکن یہ خوبی خاکہ نگارکے اندرحسنِ انتخاب کی صلاحیت سے پیداہوتی ہے۔
خاکہ نگاری کے متعلق اکثریہ سوال اٹھایاجاتاہے کہ کیاخاکہ تخلیقی ادب ہے۔اس سلسلے میں بعض حضرات کاخیال ہے کہ خاکہ کاکردار افسانے کے کردارکی طرح خیالی نہیں ہوتاہے بلکہ اصلی ہوتاہے اس لئے کردارکی شخصیت کی عکاسی میں تخیل کی ضرورت نہیں پڑتی ہے بلکہ حقیقت بیانی کی ضرورت پڑتی ہے اس لئے اسے تخلیقی ادب کے زمرے میں شمارنہیں کیاسکتاہے۔لیکن زیادہ ترخاکہ کے ماہرین کاخیال ہے کہ خاکہ نگارکوشخصیت کی عکاسی کی رنگ آمیزی کے لئے صاحبِ شخصیت کے باطن میں اترناہوتاہے پھراس کے بعدکردارکے تمام پرتوں کوابھارکراوراس کاادراک کرناہوتاہے اس کے بعداس کااظہارکرتاہے۔ اس اظہارمیں اگر تخلیقیت کی چاشنی نہیں ہوگی تو شخصیت کاعکس دھندلا رہ جائے گا۔اس لئے خاکہ نگاری میں تخلیقیت کی آمیزش ضروری ہے۔واضح رہے کہ تخلیقی ادب میں بھی کسی نہ کسی طرح سے شخصیت کاہی اظہارہوتاہے اورخاکہ نگاری میں شخصیت کے اظہارکے لئے افسانے کی طرح کینوس بھی ہوتاہے اوراس میں منظرنگاری،جزئیات نگاری،واقعات سازی وکردارنگاری کی بھی ضرورت پڑتی ہے جس کے لئے خاکہ نگارافسانوی تکنیک کی مددلیتاہے۔اس لئے خاکہ کاشماریقینی طورپرتخلیقی ادب میں ہونالازمی ہے۔
خاکہ کا کوئی واضح اصول وضوابط تونہیں ہے مگرماہرین خاکہ نگارنے خاکہ کے اجزائے ترکیبی کودوحصوں میں تقسیم کیاہے۔پہلے حصّے کو حلیہ نگاری یا سراپانگاری اوردوسرے حصے کوکردارنگاری کہاجاتاہے۔حلیہ نگاری سے مرادسراپانگاری کے ساتھ شخصیت کا تعارف بھی کراناہے۔حلیہ نگاری کوخاکہ کاجزسمجھاجاتاہے لیکن جدیدماہرین اسے خاکے کالازمی جز نہیں سمجھتے ہیں تاہم بعض خاکہ نگار حلیہ نگاری بھی کرتے ہیں لیکن اکثروبیشتر خاکہ نگاری میں کردارنگاری پرہی زوردیا جاتاہے اوراسے ہی خاکے کااہم جزسمجھاجاتاہے۔
حلیہ یاسراپانگاری شخصیت کے خارجی پہلوؤں پرمشتمل ہوتی ہے جبکہ کردارنگاری کاتعلق شخصیت کے باطنی پہلویعنی فکرونظرسے ہوتاہے۔ اس لئے خاکہ نگارشخصیت کے ماحول اوراس عہدپربھی نظررکھتاہے جس ماحول اورعہدکا وہ پروردہ ہوتاہے۔ساتھ ہی ان اسباب وعوامل جوشخصیت کی تعمیر میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں کاشعوربھی رکھتاہے تاکہ شخصیت کے عادات واطوار،حرکات وسکنات کے علاوہ سوچ وفکرکوبھی گرفت میں لے سکے۔اگرشخصیت کی فکرونظرتک خاکہ نگارکی رسائی نہیں ہوگی توشخصیت کی اصل روح سے قاری کی واقفیت نہیں ہوگی۔
عام طورپریہ سمجھاجاتاتھاکہ خاکہ نگاری کے لئے شگفتہ اورپُرمزاح اسلوب ضروری ہے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ خاکے فنی لوازم میں مزاح کی چاشنی اور نکتہ آفرینی ضروری ہے۔لیکن خاکے میں طنزکی آمیزش بالکل درست نہیں ہے کیوں کہ طنزمیں تنقید اوربعض دفعہ ہجوکی آمیزش ہوتی ہے جوخاکہ کے اصول کے خلاف ہے۔واضح رہے کہ طنزوتمسخرسے شخصیت کاحقیقی روپ متاثرہوسکتاہے۔ مختصریہ کہ خاکہ لکھنے کے لئے کسی خاص اورحتمی اسلوب کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلوب کاانحصار خاکہ نگارکے مزاج کے مطابق متعین ہوتاہے۔
خاکہ چونکہ بیانیہ صنف ہے اس لئے خاکہ نگاری میں زبان وبیان کی خاص اہمیت حاصل ہے۔اس میں ایسی زبان کی ضرورت ہوتی ہے جس سے شخصیت کے تمام عادات واطوارکابخوبی اظہارکیاجاسکے۔یعنی خاکہ نگارشخصیت کی جیتی جاگتی تصویرکھینچ سکے۔خاکہ نگارکواس بات کا بھی خیال رکھناچاہئے کہ خاکہ کی زبان صاحب خاکہ کی شخصیت کے مطابق ہو۔ویسے عام طورپرخاکہ کے ناقدین کا خیال ہے کہ خاکے میں شگفتہ اندازبیان،دلچسپ اصطلاحات،شستہ ومحاورات اوربرجستگی،موزوں الفاظ اورروزمرہ کی زبان کااستعمال ہوناچاہئے۔خاکہ نگاری کے اسلوب کا خاص وصف یہ ہے کہ حقائق کوتوڑموڑکرپیش کرنے کے بجائے من وعن پیش کیاجائے۔
خاکہ نگاری کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ خاکہ نگاراورصاحبِ خاکہ کے درمیان شخصی سطح پرتعلق ظاہرہوناچاہئے یعنی دونوں کے درمیان ایک جذباتی رشتہ کاانعکاس ہوناچاہئے جوخاکے میں مصنف اورشخصیت کے درمیان بے تکلفی کی فضاپیداکردے۔خاکہ نگاری میں چونکہ شخصیت کے ساتھ ساتھ اس عہد کی تہذیب وثقافت کو دوبارہ دریافت کیاجاتاہے اس لئے خاکہ نگاری کو تحقیق کادرجہ بھی حاصل ہے۔
مختصریہ کہ خاکہ نگاری اردوکی نثری اصناف میں مقبول ومشہور صنف ہے جواپنی تاریخی اور سوانحی صفات واہمیت کی بدولت طالب علموں اور ادیبوں کی توجہ کامرکزبن چکی ہے۔اس صنف میں تخلیقیت ا ورتخیل کے حسین امتزاج اوروسیع امکانات ہیں۔ایک معیاری خاکہ کسی شخص کا محض ظاہری اور باطنی تجزیہ ہی پیش نہیں کرتا بلکہ اپنے عہد کا ادبی ، ثقافتی،سماجی ، سیاسی اور نفسیاتی منظر نامہ بھی مرتب کرتا ہے ۔
ادب میں شخصیت نگاری صدیوں سے ہوتی آرہی ہے۔قدیم زمانے میں اس فن کااستعمال صرف بادشاہوں،نوابوں، اورمذہبی شخصیتوںکے حالاتِ زندگی قلم بندکرنے کے لئے کیاجاتاتھالیکن ان شخصیات کے حالات زندگی سوانح عمری کی صورت میں لکھے جاتے تھے ۔اس طرح کی سوانح عمریاں عموماً جانبدارہوتی تھیں کیوں کہ ایسی تحریریں کسی خاص مقصد، عقیدت ومحبت یارنجش وعداوت کے تحت لکھی جاتی تھیں۔ایسی سوانح عمریوں کے مقابلے میں خاکہ نگاری ایک نئی اورعلاحدہ صنف ہے۔
خاکہ نگاری عہدجدید کی پیداوارہے اورمتعدد نثری اصناف کی طرح انگریزی ادب کے وسیلے سے بیسویں صدی میں اردو میںرائج ہوئی اورجلدہی اپنے اسلوب،تکنیک اورعناصرترکیبی کے ا عتبارسے سوانح اورآپ بیتی سے علاحدہ تخلیقی صنف بن گئی ۔اردومیںخاکہ نگاری کی ابتدائی شکل مختلف تذکروں اوربالخصوص محمدحسین آزاد کی کتاب’’آب حیات‘‘ میں نظرآتی ہے۔محمدحسین آزاد نے آب حیات میں شامل شعراکے حالات زندگی لکھنے میں سوانحی اندازبیان اختیار کیاہے لیکن شخصیت کی عکاسی کرتے وقت اختصاروایجاز،برمحل الفاظ اوردلکش اسلوب کے استعمال سے شخصیات کی ایسی تصویرکشی کی ہے کہ تمام شعراء کی زندگی بقول ان کے’’ بولتی چالتی، چلتی پھرتی تصویریں آن کھڑی ہوجاتی ہیں۔‘‘پھربھی محمد حسین آزادکی تصنیف ’’آب حیات‘‘کوخاکہ نگاری میں اولیت کاشرف حاصل نہیں ہے۔
محمدحسین آزادکے بعدتاریخی اعتبارسے خاکہ نگاری میں آغا حیدر حسن دہلوی قابلِ ذکرہیں جن کے خاکوں کامجموعہ ’’پسِ پردہ‘‘ 1926 میں شائع ہوا۔اس مجموعہ میں کل پندرہ خاکے شامل ہیں جن میں بلاکی روانی اوربرجستگی ہے۔ان خاکوں کو پڑھ کرمعلوم ہوتا ہے کہ آغا حیدر حسن دہلوی کوبیگماتی زبان پرعبورحاصل تھا۔انہوں نے دلکش تشبیہات اور محاوروں کے برمحل استعمال سے اپنے خاکوں میں جان پیداکردی ہے۔مخصوص زبان وبیان اورطرزاداسے جادوئی کیفیت پیداکردی ہے۔سروجنی نائیڈوکاخاکہ کھینچنے وقت سراپانگاری کی عمدہ مثال پیش کی ہے
’’ٹھمکا ٹھمکا بوٹاساقد، گول گول گدرایا ہواڈیل کھلتی ہوئی چمپئی رنگت، کتابی چہرہ، کھڑاکھڑا نقشہ___ خوب خوب گہری کالی کالی جٹی بھنویں، جٹ کے اوپر چھوٹا سا خوب گہرا سرخ کسوم کا ٹکیہ، بڑی بڑی نرگسی آنکھیںکچھ جھکی جھکی سی، دیکھنے میں کمزور مگر چلنے اور حرکت کرنے میں ہوا سے باتیںکریں۔ آنکھوں کے ڈھیلے ہروقت تروتازہ رہتے ہیں۔ پتلیاں خوب سیاہ اوربڑی بڑی جن کی چاروں طرف بڑے بڑے مڑے سیاہ گنجان پلکوں کا جنگلہ ہے جس میں یہ وحشی ہر وقت رم کرتے رہتے ہیں___بوا!آنکھیں کیا بتاؤں غضب کی ہیں۔ موتی کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں لیکن ساتھ ہی ان سے حجاب وشرم وحیا اور عصمت وعفت پڑی برستی ہے۔ یہ دیکھ لو کہ شہر شہر ملک ملک اکیلی پڑی پھرتی ہیں ،ہزاروں لاکھوں مردوں میں اٹھتی بیٹھتی ہیں۔ چاہیئے تھا کہ دیدے کا پانی ڈھل جاتا مگر نہیں ! آنکھ میں وہ حیا ہے کہ بعض بے حیا مردوں کی طرف اٹھتے ہی ان کو بھی حیادار بنا دیتی ہیں۔‘‘
اس اقتباس کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ آغا حیدر حسن سراپانگاری نہیں بلکہ تشریح العضاء (Anatomy of body) کے بھی ماہر ہیں اور عادات واطوار پر روشنی بھی ڈالتے ہیں۔فقرے اور جملے کی ساخت سے’سروجنی نائیڈو‘ اس اقتباس میںنظروں کے سامنے چلتی پھرتی معلوم ہوتی ہیں۔خاکہ نگار کے مکالموں کا یہ انداز کافی مؤثراوردلکش ہے۔طرزبیان میں بلا کی نرمی اور شگفتگی کااحساس ہوتاہے۔
اس کے بعدفرحت اﷲبیگ کا مشہورمضمون ’’نذیراحمدکی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘خاکہ کی اچھی مثال ہے جو1928 میں رسالہ ’اردومیں‘شائع ہواتھا۔ فرحت اﷲبیگ کے خاکوں کاکوئی مجموعہ منظرعام پرنہیں آیالیکن ان کے بعض مضامین میں خاکوں کے فن کے لوازمات بدرجہ اتم موجودہیں۔اس لئے ماہرین خاکہ ، ان مضامین کو خاکوں کے ضمن میں رکھتے ہیں۔ان کے خاکوں میں طنزومزاح کی جوآمیزش پائی جاتی ہے اس سے خاکوں میں دلکشی پیداہوگئی ہے۔فرحت اﷲبیگ نے اپنی تصنیف’’نذیراحمدکی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘میںخود ہی دعویٰ کیاہے کہ جہاں وہ اپنے استادکی خوبیاں دکھائیں گے وہیں ان کی کمزوریوں کوبھی ظاہرکریں گے تاکہ مرحوم مولوی صاحب کی اصلی اورجیتی جاگتی تصویرکھنچ جائے۔اپنے قول کے مطابق فرحت اﷲبیگ نے نذیراحمدکی پوری تصویر کامیابی کے ساتھ الفاظ کے ذریعہ اتاردی ہے۔’’دہلی کاآخری مشاعرہ‘‘میں بھی جس طرح مشاعرے کاحال بیان کیاہے کہ اس کا منظرآنکھوں میں پھرنے لگتاہے۔انہیں خوبیوں کی وجہ سے خاکہ نگارکی حیثیت سے ان کی شہرت ہو گئی۔
فرحت اﷲبیگ کے بعدجن شخصیات نے خاکہ نگاری کے فن کوآگے بڑھایاان میں چراغ حسن حسرت قابلِ ذکرہیں جن کے خاکوں کامجموعہ ’مردم دیدہ‘ 1929 میں شائع ہوا،اس کے بعدر19 خاکوں پرمشتمل راشدالخیری کے خاکوں کامجموعہ ’یادِ رفتگاں 1941 میں منظرعام پرآیا‘ ،پانچ سال بعد محمد عبدالرزاق کانپوری کے خاکوں کامجموعہ جس میں17 خاکے شامل ہیں 1946 میں شائع ہوا۔24 خاکوں پرمشتمل مولوی عبدالحق کے خاکوں کامجموعہ’چندہمعصر ‘کے بعد،خواجہ حسن نظامی، رشیداحمدصدیقی،سعادت حسن منٹو، محمدطفیل،عصمت چغتائی،شوکت تھانوی،شاہد احمد دہلوی،خواجہ غلام السیدین،عبدالمجیدسالک،اشرف صبوحی ،فکرتوسویں،کنہیالال کپور،دیوان سنگھ مفتون،خواجہ احمد فاروقی،خواجہ محمدشفیع،مرزامحمدبیگ، مالک رام،شورش کاشمیری،بیگم صالحہ عابدحسین،مجتبیٰ حسین،مجیدلاہوری،سیدصباح الدین،سیدضمیرحسن،علی جوادزیدی،بیدی، کرشن چندر،ظ انصاری اوربلونت سنگھ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔
ان خاکہ نگاروں میں جنہوں نے خاکہ نگاری کے فن کوبام عروج تک پہچایاان میں مولوی عبدالحق کانام قابلِ ذکرہے۔اپنی تصنیف ’’چندہمعصر‘‘میں چوبیس ہم عصر شخصیات کے خاکے کھینچے ہیں جن میں مولانامحمدعلی جوہر،محسن الملک،حالی،سید علی بلگرامی،مولوی چراغ علی،پروفیسر حیرت،مولاناوحیدالدین سلیم، سرراس مسعود اورسرسیدوغیرہ شامل ہیں۔ ان خاکوں میں’سرسید احمد‘ کا خاکہ ۱۲۱ صفحات پرمشتمل ہے۔ مولوی چراغ علی کاخاکہ ۴۶صفحات پرپھیلاہوا ہے جبکہ سید علی بلگرامی کا خاکا ۴۱ صفحات اور ’پروفیسر حیرت کاخاکہ ۵۶ صفحات پر مشتمل ہے
مولوی عبدالحق نے ان تمام شخصیات کے خاکے غیرجانبداری کے ساتھ کھینچے ہیں۔مولامحمدعلی جوہرجیسی شخصیت کی تصویرکشی کرتے وقت انہوں نے جہاں جوہرکی خوبیوں کواجاگرکیاہے وہیں ان کی کمزوریوں کی تصویربھیکھینچی ہے۔انہوںنے جہاں اپنے عہدکے جلیل القدرشخصیات کے خاکے کھینچے وہیں اپنے باغ کے مالی’’نام دیو‘‘کا خاکہ بھی دلکش اندازمیں کھینچ کریہ ثابت کردیاکہ معمولی سے معمولی انسان کاخاکہ غیرمعمولی انداز سے کھینچاجاسکتاہے۔’نام دیو مالی‘ کے خاکے میں لکھتے ہیں
’’وہ بہت سادہ مزاج بھولا اور منکسرالمزاج تھا۔ اس کے چہرے پر بشاشت اور لبوں پر مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔ چھوٹے بڑے ہر ایک سے جھک کر ملتا۔ غریب تھا اور تنخواہ بھی کم تھی اس پر بھی اپنے غریب بھائیوں کی بساط سے بڑھ کر مدد کرتا رہتا تھا۔ کام سے عشق تھا اور آخر کام کرتے کرتے ہی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔‘‘
نام دیومالی کے خاکے اس اقتباس کوپڑھ کرمعلوم ہوتاہے کہ مولوی عبدالحق انسان دوستی کے جذبے سے سرشارتھے۔
مولوی عبدا لحق کے بعدخاکہ نگاری کی دنیامیں رشیداحمدصدیقی کانام بے حدمشہورہے جنہوں نے خاکہ نگاری کے فن کوجلابخشی اوراس فن کوایک صنف کادرجہ دلانے میں اہم کرداراداکیا۔رشیداحمدصدیقی کے خاکوں کے تین مجموعے منظرعام پرآئے جن کے نام ’’گنج ہائے گراں مایہ(1937)‘‘،’’ذاکر صاحب (1962)‘‘ اور ’’ہم نفسان رفتہ (1966) ‘‘ہیں۔ان مجموعوں میں ’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘کواردوخاکہ نگاری میںسنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔رشید احمدصدیقی نے اپنے مخصوص اسلوب اوردلکش اندازبیان کی مددسے شخصیات کی تصویرکشی میں خاکہ نگاری کے فن کاایساجادوجگایاہے کہ صاحب خاکہ کی زندگی کاہررخ زندہ جاوید بن گیاہے۔مولانامحمدعلی جوہرکی تقریروتحریرکی خوبیوں کانقشہ کھینچتے ہوئے ایک جگہ لکھاہے
’’کس بلاکے بولنے اورلکھنے والے تھے،بولتے تومعلوم ہوتابوالہول کی آوازابراہمِ مصرسے ٹکرارہی ہے،لکھتے توکرپ کے کارخانے میں توپیں ڈھل رہی ہیںیاپھرشاہجہاں کے ذہن میں تاج محل کانقشہ مرتب ہورہاہے۔‘‘
رشیداحمدصدیقی نے شخصیت کی صرف خوبیوں کوہی نہیںابھاراہے بلکہ خامیوں پربھی روشنی ڈالی ہے لیکن اندازایسااختیارکیاہے کہ شخصیت کی خامیاں خوبیوں کاحصہ معلوم ہوتی ہیں۔مثلاً ایک جگہ مولانامحمد علی جوہرکے متعلق لکھتے ہیں کہ’’محمدعلی میں کمزوریاں بھی تھیں،لیکن ان کی کمزوریاں ایک شعرکی کمزوریاں تھیں جن سے شعرکے لطف وبے ساختگی میں کوئی فرق نہیں آتا۔‘‘اس جملے سے معلوم ہوتاہے کہ رشیداحمدصدیقی کے تخیل کی پروازکافی بلندتھی۔پروفیسررشیداحمدصدیقی اورمولوی عبدالحق کے خاکوں پرتبصرہ کرتے ہوئے احمدامتیازنے صحیح لکھاہے کہ
’’رشید احمد صدیقی اور مولوی عبد الحق کے خاکوں میں جو فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ عالمانہ انداز بیان ہے۔ رشید احمد صدیقی کا فن حرکی اور تخیلی ہے جب کہ مولوی عبدالحق کے یہاں عقل اور فیصلے کی قوت پر زیادہ زور دیا گیا ہے‘‘۔
رشید احمدصدیقی کے بعدبیسویں صدی کے خاکہ نگاروں میںاشرف صبوحی کانام بھی قابل ذکرہے جن کے 24 خاکوں پرمشتمل مجموعہ 1943 میں منظرعام پرآیاتھا۔اشرف صبوحی نے دہلی کی ان شخصیتوں کاخاکہ کھینچاہے جن کی تاریخی اہمیت ہے۔ان اشخاص کا خاکہ کھینچتے وقت انہوں نے دلی کی ٹکسالی زبان اور محاورں کا برجستہ استعمال کیاہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کوزبان وبیان پر عبورحاصل تھا۔ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے
’’اجی وہ زمانے لد گئے جب خلیل خاں فاختے اڑایا کرتے تھے۔ آج کی کہو جس کو دیکھوں بے توا کا سونٹ بنا پھرتا ہے ۔ نہ بڑوں کا ادب نہ چھوٹوں کی لاج، وہی مثل ہوگئی کہ باولے گاؤں میں اونٹ آیا لوگوں نے جانا پر میشور آئے‘‘۔
ان کے خاکوں میں اکثربیانیہ رنگ بھی پایاجاتاہے جس سے داستانوی اندازبیان کادھوکاہوتاہے۔اشرف صبوحی نے اپنے مخصوص اندازبیان سے صاحب خاکہ کا ایساخاکہ کھینچاہے کہ دلی کی تہذیب کی جھلک آنکھوں میں پھرنے لگتی ہے۔اشرف صبوحی کے خاکوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے خاکے بیک وقت ادبی ، تہذیبی اور تاریخی اہمیت کے حامل معلوم ہوتے ہیں۔
بیسویں صدی کے خاکہ نگاروں میں عظیم افسانہ نگارمنٹوکانام بھی قابلِ ذکرہے لیکن ان کی افسانوی عظمت کے سامنے خاکہ نگارمنٹوکی شخصیت دب گئی ہے اوران کے خاکوں کے ناقدین نے بھی منٹوکی خاکہ نگاری پرتوجہ نہیں دی ورنہ ان کے نفسیاتی خاکے کمال کے ہیں۔منٹوکے خاکوں کے دومجموعے ’گنجے فرشتے‘ 1952 میں اور ’لاؤڈاسپیکر‘1955 میں منظرعام پر آئے ۔ان کے خاکوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خاکوں میں وہی فنکارانہ ٹریٹمنٹ ہے جو ان کے افسانوں کا طرۂ امتیاز ہے۔منٹو کے خاکوں میں پری چہرہ نسیم بانو، مرلی کی دھن اور’تین گولے‘ شائع ہوئے توسماج میں وہی ردِّعمل ہواجوان کے جنسی تلذزسے لبریز افسانوں کے شائع ہونے کے بعد ہوتا تھا۔جس طرح منٹونے اپنے افسانوں کے کرداروں کے نفسیات کوپیش کیاہے اسی طرح صاحب خاکہ کی نفسیات کی بھی گرہ کشائی کی ہے۔ان کے خاکوں کوپڑھتے وقت معلوم ہوتا ہے کہ قاری ان کے کرداروں کے حرکات وسکنات کو دیکھ رہاہو۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ منٹوایک حقیقت نگاربھی ہے اس لئے وہ جوکچھ دیکھتاہے وہی اپنے قاری کوبھی فنکارانہ طریقہ سے دکھاتاہے۔وارث علوی نے ان کے خاکوںپرتبصرہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھاہے
منٹو خاکوں میں معمولی رویوںکو غیر معمولی بنا کر پیش نہیںکرتا نہ ہی انوکھی باتوں کو حیرت انگیزبنا کر پیش کرتا ہے ۔ ان خاکوں میں منٹو کا پورا تخلیقی طریقۂ کار ایک فن کار کا ہے ۔خاکو ں کا مواد صحافیانہ ہے ۔یعنی منٹو ان واقعات کا ،جو رونما ہورہے ہیں ایک شاہد ہے ۔لیکن مشاہدات کی پیش کش کا پورا طریقہ فنکارانہ ہے‘‘۔
ان کے خاکوں میں افسانوں کی طرح تجسس کی آمیزش ہے۔شخصیت کی عکاسی میں رنگ آمیزی سے کام نہیں لیاہے بلکہ ہوبہونقشہ کھینچنے کی کوشش کی ہے۔منٹو کے خاکوں میں خاکہ نگاری کی اصل روح یعنی سادگی، سچائی اور غیر جانبداری پائی جاتی ہے جس کی بدولت انہیں اس عہد کااہم خاکہ نگارقراردیاجاسکتاہے۔
منٹوکے بعدافسانہ نگارعصمت چغتائی نے بھی خاکے لکھے ہیں لیکن ان کے خاکوں کی کل تعدادگیارہ بتائی جاتی ہے جواس طرح ہیں، دوزخی(عظیم بیگ) ، اسرارالحق مجاز،عشقِ مجازی(مجاز)،اور وہ(مجاز)، میرا دوست میرا دشمن(منٹو)،خواجہ احمد عباس،کانٹوںبھری وادیاں(جاں نثاراختر)،کچھ میری یادیں(پطرس بخاری)،چراغ روشن ہے(کرشن چندر)،خوابوں کا شہزادہ(سجاد ظہیر) اورمیں تمہیں نہیں جانتی(مہیندر ناتھ)۔عصمت نے منٹوکے خاکوں کے برخلاف حقیقت نگاری کے بجائے الفاظ کی بازی گری اورشعبدہ بازی سے اپنے قاری کی توجہ صاحب خاکہ کی شخصیت کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی ہے جس سے خاکہ نگاری کی اصل روح مجروح ہوگئی ہے۔ اکثرخاکوں میں غیرجانبداری نہیں برتی گئی ہے اوربیشترمقامات پرشخصیت کی منظرکشی میں ذاتی پسندوناپسند کی شدّت تیزہوگئی ہے جس سے ان کے خاکوں میں افسانوں جیسی جزئیات نگاری پیداہوگئی ہے ۔لیکن چونکہ وہ ایک کامیاب افسانہ نگار ہیںاورتشبیہات واستعارات کے برمحل استعمال پرانہیں قدرت حاصل ہے اورزبان وبیان میں طنزومزاح کی ایک خاص دلکشی پائی جاتی ہے اس لئے ان کیخاکوںکی فنی خامیوں کااحساس نہیں ہوتاہے۔عصمت ایک بے باک فنکارہیں اس لئے جس طرح انہوں نے اپنے افسانوں میںذہنی او ر عملی زندگی کے تضاد کوپیش کیاہے، اسی طرح اپنے خاکوں میں بھی صاحب شخصیت کے ذہنی اورعملی زندگی کی کشمش کوبے باکی سے ابھارنے کی کوشش کی ہے۔عظیم بیگ چغتائی کاخاکہ اڑاتے وقت ان کی شخصیت کواس طرح پیش کیاہے کہ ان کی کمزوریاں ہی ان کی طاقت بن گئی ہیں
’’ شروع ہی سے روتے دھوتے پیدا ہوئے ۔روئی کے گالوں پر رکھ کر پالے گئے ۔کمزور دیکھ کر ہر ایک معاف کر دیتا ۔قوی ہیکل بھائی سر جھکا کر پٹ لیتے ۔کچھ بھی کریں والد صاحب کمزور جان کر معاف کر دیتے ۔ہر ایک دل جوئی میں لگا رہتا ۔مگر بیمار کو بیمار کہو تو اسے خوشی کب ہوگی،ان مہربانیوں سے احساس کمزوری اوربڑھتا۔ بغاوت اور بڑھتی،غصہ بڑھتا ،مگر بے بس ،سب نے ان کے ساتھ گاندھی جی والی نان وائیلنس شروع کر د ی تھی…… وہ چاہتے تھے کوئی تو انہیںبھی انسان سمجھے ۔انہیں بھی کوئی زندہ لوگوں میں شمار کرے ۔ لہذا ایک ترکیب نکالی اور وہ یہ کہ فسادی بن گئے ۔جہاں چاہا دو آدمیوں کو لڑا دیا۔اللہ نے دماغ دیا تھا اور پھر اس کے ساتھ بلا کا تخیل اور تیز زبان …… چٹخارے لے لے کر کچھ ایسی ترکیبیں چلتے کہ جھگڑا ضرور ہوتا ۔ بہن بھائی ،ماں باپ سب کو نفرت ہو گئی،اچھا خاصا گھر میدان ِ جنگ بن گیا اور سب مصیبتوں کے ذمہ دار خود ۔ بس ساری خود پرستی کے جذبات مطمئن ہو گئے اور کمزور لا چارہر دم کا روگی تھیئٹر کاولن،ہیروبن گیا…… اور کیا چاہئے۔ساری کمزوریاں ہتھیار بن گئیں ۔ زبان بد سے بد تر ہو گئی ۔دنیا میں ہر کوئی نفرت کرنے لگا ۔صورت سے جی متلانے لگا ۔ہنستے بولتے لوگوں کو دم بھر میں دشمن بنا لینا بائیں ہاتھ کاکام ہو گیا ۔لیکن مقصد یہ تو نہ تھا کہ واقعی دنیا انہیں چھوڑ دے۔گھر والوں نے جتنا ان سے کھنچنا شروع کیا اتنا ہی وہ لپٹے ۔ آخر میں تو خدا معاف کرے ان کی صورت دیکھ کر نفر ت ہوتی تھی ۔وہ لاکھ کہتے مگر دشمن نظر آتے تھے ۔بیوی شوہر نہ سمجھتی ،بچے باپ نہ سمجھتے ، بہن نے کہہ دیا تم میرے بھائی نہیں اور بھائی آواز سن کر نفرت سے منہ موڑ لیتے…… ماں کہتی سانپ جنا تھا میں نے ۔‘‘
عصمت کے ناقدین کا خیال ہے کہ ان کے سرشت میں بغاوت اوررجعت پسندی کے عناصرموجودہیں اس لئے جب وہ اپنے افسانوں کے کردارکوخلق کرتی ہیں یااپنے خاکوں میں شخصیت کی کردارسازی کرتی ہیں تب ان کے اندرکی کجروی متحرک ہوجاتی ہے لیکن چونکہ وہ ایک اچھی فنکارہ بھی ہیں اس لئے ان کی کجروی نئی تکنیک کی صورت اختیارکرلیتی ہے اوربیانہ کی فضاپیداہوجاتی ہے جس سے ان کے خاکوںمیں دلچسپیپیدا ہوگئی ہے۔یہی ان کی خاکہ نگاری کاکمال ہے۔
بیسویں صدی کے خاکہ نگاروں میں شاہداحمد دہلوی کے خدمات بھی قابلِ تعریف ہے۔انہوں نے اپنے خاکوں کے چارمجموعے ’دلّی کا ایک دور‘ ،’اجڑادیار‘ (سوانحی خاکے) ’گنجینۂ گوہر‘اور ’بزم خوش نفساں‘ منظرعام پرلاکرخاکہ نگارں کی کہکشاں میں اپنی موجودگی درج کرادی۔شاہداحمددہلوی کے خاکوں میں یادِ ماضی اوردہلی کی تہذیب وتمدن کے ارتعاشات بدرجہ اتم موجودہیں۔ انہوں نے اپنے خاکوں میں الگ الگ اشخاص کی شخصیتوں کی تصویرکشی کی ہے لیکن ان کی تصویرکشی میں میں دہلی کی پوری تہذیب کی جھلک پیش کردی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی تہذیبی وراثت پرفخرمحسوس کرتے ہیں۔
شاہداحمددہلوی صاحب نے شخصیت کا خاکہ کھینچتے وقت شخصیتوں کے رتبے کاخاص خیال رکھاہے۔یعنی شخصیت کومدنظررکھتے ہوئے طرزبیان اختیار کیاہے۔بعض شخصیتوں کاخاکہ کھینچتے وقت بے تکلفی اورشوخی ٔ بیان سے کام لیاہے تو بعض صاحب خاکہ کی خاکہ نگاری میں طنزو ظرافت کاحربہ استعمال کیاہے۔بعض خاکوں میں وہ ڈرامائی انداز اختیار کیاہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے طرزتحریرمیں کافی Diversityہے۔طرزتحریرکی اسی تنوع کی وجہ سے ان کے خاکوں میں بلا کہ دلکشی پیداہوگئی ہے۔جگرمرادآبادی کے خاکے کایہ اقتباس ملاحظہ کیجیئے
’’بعض چہرے بڑے دھوکہ باز ہوتے ہیں۔کالاگٹھا ہوارنگ اس میں سفید کوڑیوں کی طرح چمکتی ہوئی آنکھیں سرپر الجھے ہوئے پھٹے گول چہرہ، چہرہ کے رقبے کے مقابلے میں ناک کسی قدر چھوٹی اور منہ کسی طرح بڑا۔ کثرت پان خوری کے باعث منہ اگالدان ، دانت شریفے کے بیج اورلب کلیجی کی دو بوٹیاں، بھرواںکالی داڑھی،ایڈورڈ فیشن کی سرپر ترکی ٹوپی…… کوئی بتیس سال ادھر کا ذکر ہے جھانسی میں ایک صاحب سرجھکائے قدم بڑھائے اپنے دھن میں جھومتے چلے جارہے تھے۔ میرے میزبان نے اشارے سے بتایا یہ ہیں جگر صاحب، میں نے سنی ان سنی کردی ۔ہوںگے کوئی، میں نے کبھی ان کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ میرے میزبان نے کہا،آج رات مشاعرہ ہے۔ آپ کو لے چلیںگے۔ میں نے کہا کسی برے کام میں وقت کیوں ضائع کیا جائے؟ کوئی گویّا ہو تو اس کا گانا سنا جائے۔‘‘
اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہداحمد دہلوی کے خاکوں میں شخصیت کی تعریف و توصیف میں طنزوظرافت کاایک مخصوص رنگ ہے جوبعض دفعہ قاری کومتحیرکردیتاہے۔شاہد احمد دہلوی نے اپنے خاکوں میں دہلی کی مخصوص ٹکسالی اور محاوراتی زبان کے استعمال سے جوکیفیت پیداکی ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔شاہد احمد دہلوی کوخاکہ نگاری کے فن پرعبورحاصل تھا جس کی وجہ سے انہوںنے صاحب خاکہ کی شخصیت کی بھرپورعکاسی اعتدال کے ساتھ کی ہے۔
بیسویں صدی کے خاکہ نگاروں میں محمدطفیل اس اعتبارسے اہمیت کے حامل ہیں کہ انہوں نے اپنے خاکوں کے سات مجموعے ’’صاحب‘‘، ’’جناب‘‘،’’آپ‘‘،’’ محترم‘‘،’’مکرم‘‘،’’ معظم‘‘ اور’’ محبی‘‘لکھ کراپنی شناخت مستقل طورپر ایک خاکہ نگارکی حیثیت قائم کی۔ان کے مجموعے ’’صاحب‘ ‘اور،’’آپ‘‘کے خاکوں میں ان کی ہی شخصیت کی پرچھائیں موجودہے ۔یعنی جن اشخاص کا خاکہ کھینچا ہے وہ سب ان کے ہی ہم پلہ ہیں جبکہ’’ مکرم‘‘،’’معظم‘‘ اور ’’محبی ‘‘ کے خاکوںمیںبزرگوں اورعظیم شخصیتوں کے خاکے ہیں جن کے تئیں عزت واحترام کے القاب کااستعمال کیاگیاہے۔محمدطفیل کے خاکوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں خاکہ نگاری کی تمام خصوصیتیں موجودہیں اورمحمدطفیل خاکہ نگاری کے فن کی تمام باریکیوں سے نہ صرف واقف تھے بلکہ ان باریکیوں کوبرتنے کاہنربھی جانتے تھے۔اسی لئے انہوں نے اپنے خاکوں کی شخصیتوں کے تمام پہلوؤں کوابھارنے میں خاکہ نگاری کے فن کادیانت داری سے استعمال کیاہے۔شوکت تھانوی کے خاکے کایہ اقتباس دیکھئے
’’یہ بلا کی دلفریب اور محبوب شخصیت رکھتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں بڑے سے بڑا فقرہ باز بھی نہیں ٹک سکتا۔ نتیجتاً محفل کی محفل زعفران زار بن جاتی ہے۔ یہ بڑے گنہ گار ہیں اگر قدرت نے انہیںبخشا تو اس کا سبب ان کی شخصیت کا یہی رخ ہوگا۔ بات میں سے بات پیدا کرلیتے ہیں۔ لفظی رعایتوں کا جتنا زیادہ فائدہ اٹھاتے میں نے انہیں دیکھا ہے اور کسی کو نہیں دیکھا۔ طرز بیان میں بلا کا حسن اب تو ماشاء اللہ آپ ایکٹنگ بھی فرمانے لگے ہیں۔ سنا ہے کہ انہوںنے ایکٹنگ بھی خوب کی ہے۔ چشم بد دورہاں تو بات یہ ہورہی تھی کہ یہ بلاکہ دلفریب شخصیت ہیں۔ ان کے قصے سنتے جائیے اور ان کی مغفرت کے لیے دعا کرتے جائیے۔‘‘
محمدطفیل کا انداز بیان میں بلاکی روانی ہے ،سادگی اوربے تکلفی کے ساتھ شوخی وظرافت اور طنزومزاح کی دلفریبی ہے ۔انہوں نے خاکہ نگاری کے علاوہ کسی دوسرے اصناف میں طبع آزمائی نہیں کی صرف خاکے لکھتے رہے ۔ اس لئے خاکہ نگاری کے فروغ میں ان کی خدمات کوکبھی فراموش نہیں کیاجاسکتاہے۔
بیسویں صدی کے خاکہ نگاروں میں خواجہ احمدفاروقی کانام بھی قابل ذکرہے۔ان کے خاکوں کے مجموعے یادیارمہربان اوریادنامہ قابلِ ذکرہیں۔ بیسویں صدی کے خاکہ نگاروں میںشوکت تھانوی کانام شخصی خاکہ نگارکی حیثیت سے کافی اہم ہے۔ان کے خاکوں کے مجموعے ’’شیش محل اور’’قاعدہ بے قاعدہ‘‘ظرافتی اندازبیان کی وجہ سے کافی مشہورہوئے۔
خواجہ حسن نظامی کانام بھی اردوکے اہم خاکہ نگاروں میں شمارکیاجاتاہے۔انہوںنے کئی بلندپایہ شخصیتوں کے خاکے لکھے جوتعصب اورجانبداری سے بالکل پاک ہیں۔ شخصیات کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیوں کو بھی انہوں نے اجاگرکیاہے۔بلندپایہ شخصیتوں کے علاوہ عام انسانوں کے خاکے بھی لکھے ہیں جن میں طنزومزح اورشوخی وظرافت کی وہی دلکشی ہے جوبلندمرتبہ شخصیات کے خاکوں میں ہے۔ان کے خاکوں میں گہرائی اورگیرائی بھی ہے ۔انہوں نے خا کے کے فن کی پاسداری کابھی خیال رکھاہے۔
خاکہ نگاری کے فروغ میں مالک رام کی بھی اہم شراکت ہے۔اپنے خاکوں کامجموعہ ’’وہ صورتیں الہیٰ‘‘میں جن شخصیات کے خاکے کھینچے ہیں ان میں جگرمرادآبادی، یگانہ چنگیزی،سیدسلیمان ندوی اورصدریارجنگ جیسی شخصیات کے خاکے قابل ذکرہیںجن میںشخصیت کی عمدہ تصویرکشی کے ساتھ کارآمدمعلومات اورتاریخی واقعات کاذکرکافی کیاگیاہے۔
مالک رام کے بعدخاکہ نگاروں کی فہرست میں علی جوادزیدی کانام بھی قابلِ ذکرہے ۔ان کے خاکوں کامجموعہ’’ہم قبیلہ ‘‘کافی مشہور ہوا۔ان کے علاوہ سلیمان اطہرجاوید کے خاکوں کامجموعہ ’’چہرہ چہرہ داستان‘‘بھی قابل تعریف ہیں۔ متذکرہ خاکہ نگاروں کے علاوہ متعددنام اوربھی ہیں جن کاذکراس مختصرمضمون میں ممکن نہیں ہے۔