حضرات!عالمی اردو کانفرنس 2019 میں تمام ملکی اور غیرملکی مندوبین اور حاضرین کو خوش آمدید کہتے ہوئے مجھے بے انتہا مسرت ہورہی ہے۔ یہاں علم و ادب کے آفتاب و ماہتاب کا جمگھٹا ہے۔ دانشورانِ ادب و ثقافت کی ایک کہکشاں ہے اور یہ سب جس رشتے کی بنیاد پر یہاں جمع ہوئے ہیں، وہ ہے اپنی زبان اور تہذیب سے محبت کا رشتہ۔ یہی وہ رشتہ ہے جس نے سارے فاصلوں کو قربتوں میں بدل دیا ہے اور اسی رشتے کی وجہ سے آج ہماری اِس کانفرنس میں جہاں ہندوستان کے طول و عرض سے بہت سی معتبر اور موقر شخصیات جمع ہیں وہیں باہری ممالک سے سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے اردو سے محبت کرنے والے بھی تشریف لائے ہیں۔ ہم ان سب حضرات کا تہہ دل سے خیرمقدم کرتے ہیں کہ ان کی آمد سے ہماری بزم کی رونق بڑھ گئی ہے اور ہمیں یہ احساس ہورہا ہے کہ جیسے آج پوری اردو دنیا ہمارے ساتھ ہے—
حاضرین! ہمیں یہاں ایک رشتۂ محبت و اُخوّت میں جس زبان نے باندھا ہے یا مِل جل کر بیٹھنے کا موقع عطا کیا ہے وہ زبان بہت خوبصورت ہے جس کی خوشبو صرف ہندوستان نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہے اور جس کی شیرینی اور مٹھاس نے پوری دنیا کو اپنا اسیر بنا لیا ہے۔ اس زبان میں اتنی جادوئی قوت ہے کہ اس نے اُن علاقوں کو بھی مسخّر کرلیا ہے جو لسانی و تہذیبی اعتبار سے اس زبان سے نامانوس ہیں— اسی زبان کا جادو ہے کہ اس نے صحرا کو بہار اور ریت کو گل و گلزار میں تبدیل کردیا ہے— یہ زبان اپنی داخلی اور امکانی قوتوں کے ساتھ نہ صرف زندہ ہے بلکہ اپنے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کررہی ہے۔ جب کہ یہ ایسی زبان ہے جس کا نہ اپنا کوئی گھرہے نہ کوئی علاقہ مگر اس نے پوری دنیا میں نئی آبادیاں قائم کی ہیں، نئی بستیاں بسائی ہیں۔ مجھے اس وقت وسیم بریلوی کا ایک شعر یاد آرہا ہے
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
اردو کا بھی اپنا کوئی مکاں نہیں، کوئی علاقہ نہیںمگر ہر جگہ اپنی روشنی بکھیر رہی ہے۔
اردو ہندوستان کی زبان ہے مگر پوری دنیا میں اس کی عظمت کا پرچم بلند ہے۔ گارۡساں دتاسی ہوں یا جان گل کرسٹ سب اردو کے عاشق رہے ہیں۔ دنیا کی کون سی ایسی جگہ ہے جہاں اردو بولنے والے نہیں ہیں۔ معروف رسالہ ’ساقی‘ کے مُدیر شاہد احمد دہلوی نے ’نقوش‘ کے مُدیر محمد طفیل کے نام ایک خط میں لکھا تھا ’’کہ آپ دنیا میں جہاں چاہے چلے جائیں اردو بولنے والے آپ کو مل ہی جائیں گے اور صاحب یہ غضب کی ڈھیٹ زبان ہے، بڑی سخت جاں، عَجب بلا ہے کہ یونانی صنمیات کے ہائیڈرا کی طرح اگر اس کا سر قلم کیا جاتا ہے تو ایک کے بدلے دو سَر نکل آتے ہیں۔‘‘ شاہد احمد دہلوی نے ایک اور اچھی بات کہی تھی کہ جو حلاوت، عَذُوبت اور شیرینی اردو زبان میں ہے کسی اور زبان میں موجود نہیں ہے۔ یہ وہ پودا ہے جس کو بادشاہوں نے اپنے خون سے سینچا، اُمَرا نے اس کی نشو و نما کی اور ہندوستان کے مایہ ناز اہل قلم نے اپنے رۡشۡحات قلم سے اس کی آبیاری کی— اور ہم یہ دیکھ کر خوش ہیں کہ وہ پودا کہ جس نے باد ہائے مخالف کے سیکڑوں تھپیڑے سہے اور زمانے کے سرد و گرم کی لاکھوں خزائیں جھیلیں، آج یہ خوشنما درخت بن گیا ہے۔‘‘
حاضرین! یہی وہ خوشنما درخت ہے جسے ہرا بھرا رکھنے کے لیے ہمیں مزید جِدوجُہد کرنی ہے۔ یہ سچ ہے کہ یہ زبان اتنی توانا اور مستحکم ہوگئی ہے کہ اس کے وجود کو کوئی خطرہ لاحقِ نہیں۔ اس زبان نے اپنی زندگی کے سارے امکانات اور مقامات بھی تلاش کرلیے ہیں۔ امکانات میں جدید ترین ٹیکنالوجی سے اِس زبان کی ہم آہنگی ہے تو مقامات میں یوروپی ممالک، امریکہ، لندن، جرمنی، جاپان، چین اور ایران وغیرہ شامل ہیں اور وہ خلیجی ممالک بھی جہاں اردو تیزی کے ساتھ پنپ رہی ہے۔ وہاں اس زبان کے تئیں جوش و جذبہ بھی ہے ، وہاں کی ادبی اور ثقافتی تنظیمیں بھی اردو کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں— یہ سب ہمارے لیے خوش آئند ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ ہندوستان سے جس اردو زبان نے سفر کیا تھا آج وہ پوری دنیا میں اپنی عظمت کے نقوش قائم کرتی جارہی ہے۔
حاضرین! اردو کی جنم بھومی ہندوستان ہے۔ یہ پہلے ’ہندوی ‘ کہلاتی تھی اب یہ ’ہندوستانی‘ کی ایک خوبصورت شکل ہے۔ اس زبان نے ہندوستان جیسے تکثیری معاشرے میں سنسکرت/ہندی/ مراٹھی کے علاوہ مختلف زبانوں کے الفاظ اپنے اندر جذب کیے ہیں۔ یہی اِس زبان کا حسن ہے— اس زبان میں گوکل کی گلیاں بھی ہیں، کاشی کے گھاٹ بھی، بنارس کی صبح بھی اور اودھ کی شام بھی۔ یہی زبان ہے جس میں کرشن کا نغمہ الفت بھی ہے، میرابائی کی محبت بھی، رام جی کی شجاعت بھی اور سیتا جی کی قربانی بھی۔ اس زبان نے گوتم بدھ سے محبت کا درس دیا ہے تو مہاویر اور گرونانک سے عقیدت کا بھی۔ اسی زبان میں کرشن جی کے متھرا سے محبت کرنے والے مولانا حسرت موہانی نے جنم لیا اور اسی زبان کا ایک اہم شاعر نظیر اکبرآبادی بھی ہے جن کی روح میں کرشن جی اس قدر حلول کرگئے تھے کہ ہندی ادب میں بھی اِن سے بڑا کرشن بھکت نظر نہیں آتا۔ محبت، یکجہتی، اتحاد اور رواداری کی یہ وہ زبان ہے جسے ہندوستان کے تمام طَبَقات کی محبتیں حاصل ہیں۔ اسی زبان نے پریم چند کو جنم دیا اور کرشن چندر کو بھی۔ اسی زبان میں سُرور جہان آبادی، تِلۡوک چند محروم ہیں اور اسی زبان میں رتن ناتھ سرشار بھی ہیں۔ کتنے نام گنائے جائیں، ہزاروں نام ہیں جو لوحِ زبان پر محفوظ ہیں۔
حضرات! آج اِسی زبان کے تعلق سے عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد ہورہا ہے۔ ہمیں اسی زبان کے حوالے سے گفتگو کرنی ہے اور یہ کانفرنس اُس ادارے کی طرف سے ہورہی ہے جسے پوری دنیا میں اردو کا سب سے بڑا ادارہ ہونے کا شَرفۡ حاصل ہے اور یہ شرف سرکار کی سرپرستی سے ہی ملا ہے۔ حکومت ہند نے خاص طور پر فروغ اردو کے تمام منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تعاون دیا اور ہمارے خوابوں کو نئی منزلیں عطا کیں۔ میں حکومت ہند کا خاص طور پر یہاں شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ ان کی رہنمائی اور سرپرستی کی وجہ سے قومی اردو کونسل ترقی کی نئی منزلیں طے کررہی ہے اور پوری دنیا میں اردو کی خوشبو پھیلا رہی ہے اور ایک نئی تاریخ رقم کررہی ہے۔آج عالمی سطح پر جو اِس کانفرنس کا انعقاد ہورہا ہے تو یہ بھی حکومت کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
حضرات! اس کانفرنس کا موضوع ہے ’آج کے عالمی تناظر میں اردو کا تحفظ اور فروغ‘۔ آپ سبھی جانتے ہیں کہ اردو ایک علاقے یا جغرافیے میں قید نہیں ہے، یہ پوری دنیا میں ایک اہم زبان کی حیثیت سے جانی اور پہچانی جاتی ہے۔ بہت سے ممالک میں اردو کی تعلیم و تدریس اور تحقیق کا اعلیٰ انتظام ہے اور باضابطے اردو کے شعبے قائم ہیں۔ وہاں اعلیٰ سے اعلیٰ پائے کی تحقیقات ہورہی ہیں، نئے نئے مباحث ان کی تنقید کا حصہ بن رہے ہیں۔ باہری ممالک سے بھی بہت سے ایسے نام ہیں جن کی اردو خدمات قابل رشک ہیں اور انھیںا س زبان سے بے پناہ محبت بھی ہے۔ اس لیے اردو صرف مقامی یا قومی تناظر میں قید نہیں ہے بلکہ اس کا ایک عالمی تناظر ہے—اردو ہر ملک اور ہر زمین سے جڑی ہوئی ہے۔ داغ دہلوی کے ایک شعر میں ترمیم کے ساتھ اب کہا جانے لگا ہے کہ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اس لیے اب اردو کے حوالے سے جو بھی گفتگو ہوگی وہ عالمی تناظر میں ہوگی کیونکہ اب اردو کے مسائل بھی مقامی نہیں بلکہ عالمی ہوچکے ہیں، انسانی کائنات کے جو بنیادی مسائل ہیں وہ بھی اردو زبان سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ ایک عالمی شعور اور آفاقی اَقدار کی زبان بن چکی ہے ۔ اسی عالمی تناظر کی وجہ سے آج اردو کے سامنے بھی زبان کی زندگی اور موت کا مسئلہ بھی ہے۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو دنیا کی بہت سی زبانیں مرر ہی ہیں اور بہت سی زبانوں کی زندگی پر خطرات لَاحِق ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیامیں سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں آدھی زبانیں خطرے سے دوچار ہیں۔ بہت سی زبانوں کا Functional کردار بھی ختم ہوچکا ہے اور جن زبانوں میں کبھی علوم و فنون کا بیش بہا ذخیرہ تھا وہ زبانیں بھی بَتَدۡریج سکڑتی جا رہی ہیں۔ بہت سی پرانی زبانوں کے نام و نشان اس لیے مٹ گئے کہ دوسری بڑی زبانوں نے اپنا تسلط جما لیا اور ان کے تہذیبی نشانات کو مٹا دیا ہے۔
یہ صرف زبانوں کی موت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ انسانی وراثت کے تحفظ سے جڑا ہوا مسئلہ بھی ہے کیونکہ جب کوئی زبان مرتی ہے تو تاریخ اور تہذیب سے بھی اس کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لیے لسانی بالادستی کے اس عہد میں ہمیں اپنی زبان کے تحفظ کے بارے میں بہت سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
اب ہمیں یہ دیکھنے اور سوچنے کی ضرورت ہے کہ اپنی زبان کو کن ذرائع سے محفوظ رکھنا ہے۔ سماج، سیاست اور مَعاش کی سطح پر زبان کو زندہ رکھنے کے لیے کیا ترکیبیں اختیار کرنی ہیں اور کیسے آج کی نئی ٹیکنالوجی کے عہد میں اپنی زبان کا تحفظ کرنا ہے ۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ ہماری اس زبان کے بولنے والوں کا تناسب گھٹ تو نہیں رہا ہے۔ اس زبان میں تعلیم، خواندگی، سائنسی اور سماجی مواد کی کمی تو نہیں ہے اور عصرحاضر کے جو چیلنجز ہیں اس سے مقابلے کی اس میں کتنی قوت ہے۔ کیا یہ آج کے عہد کے مطالبات کو پورا کرنے کی قوت رکھتی ہے۔
اس طرح کے بہت سارے سوالات ہمارے ذہنوں میں پیدا ہورہے ہیں— اس لیے ہمیں اپنی زبان کے تحفظ کے طریقہ کار پر غور کرنا ہوگا اور اس کے فروغ کے لیے نئے لائحہ عمل تیار کرنے پڑیں گے۔ اسی مقصد سے اس عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اس کانفرنس کا مقصد جہاں اردو زبان کے تحفظ و فروغ کے امکانات پر غور کرنا ہے اور اردو زبان کو درپیش خطرات کے بارے میںسوچنا ہے وہیں اس کانفرنس کا مقصد اردو کے تعلق سے ایک ایسا ایجنڈا اور منشور تیار کرنا ہے جسے ہم حکومت ہند کی خدمت میں پیش کرسکیں اور اس ایجنڈے کے نِفاذ کے لیے کوشش کرسکیں، کیونکہ جب تک ہمارے پاس فروغ اردو کا کوئی ایجنڈا نہیںہوگا حکومت ہماری کوئی مدد نہیں کرسکتی۔ ہمیں حکومت کے گوش گزار کرنا ہوگا کہ ہمارے منصوبے کیا ہیں ، ہمارے ارادے کیا ہیں اور ہمیں فروغ اردو کی راہ میں کیا کیا دشواریاں اور کیا کیا دقتیں حائل ہیں۔ انہی چیزوں کے مدِّنظر اس کانفرنس میں بنیادی توجہ زبان پر مرکوز کی گئی ہے کیونکہ اگر زبان ہی زندہ نہیں رہے گی تو پھر ادب عالیہ کی تشکیل کا فائدہ کیا ہے۔ ہمیں ابتدائی سطح پر اردو زبان کو زندہ رکھنا ہے اور اس کی جڑوں کو مضبوط کرنا ہے۔ اردو کی ابتدائی تعلیم پر توجہ دینی ہے۔ جب ہم اپنی جڑوں کو مضبوط کریں گے تبھی یہ زبان زندہ رہے گی— پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کی ایک بات مجھے یاد آرہی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر صدیوں تک ادبِ عالیہ تخلیق نہیں ہوا تو کوئی بات نہیں لیکن اگر زبان سمٹتی گئی تو بہت بڑا خَسارہ ہوگا۔ اسی لیے ہمیں ادب عالیہ سے زیادہ زبان کی زندگی پر توجہ دینی ہے۔ آج المیہ یہ ہے کہ اردو اسکولوں سے غائب ہوتی جارہی ہے اور اگر اسکول ہیں تو اساتذہ نہیں ہیں۔ ہمارے لیے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اردو کی بنیادی تعلیم کو کیسے مضبوط کیا جائے، پرائمری اور ثانوی سطح پر اردو کا فروغ کیسے ہو۔ کیونکہ اگر بنیادیں مضبوط نہیں ہوں گی تو کوئی عمارت کھڑی نہیں کی جاسکتی۔ اسی لیے اس کانفرنس میں جن موضوعات کا انتخاب کیا گیا ہے اُن میں اردو کی تعلیم پر سب سے زیادہ زور ہے۔ خاص طور پر اردو ذریعہ تعلیم ابتدائی تا ثانوی سطح، تحقیقی سطح پر اردو کی تعلیم، اردو کی تعلیم میں مدارس کا کردار، فائن آرٹس اینڈ انفوٹینمنٹ، مختلف ممالک میں اردو کی سماجی و تہذیبی صورت حال، ذرائع اِبلاغ اور اردو، آئین اور دوسرے قوانین میں اردو کا مقام— یہ تمام موضوعات اس لیے اہم ہیں کہ یہ فروغ ارد وکے تمام جہات و امکانات کا احاطہ کرتے ہیں۔ ان تمام موضوعات پر اگر گفتگو کی جائے تو یہ اندازہ ہوگا کہ اردو کن کن سطحوں پر فروغ پارہی ہے اور کہاں کہاں مزید اس کے امکانات ہیں۔ خاص طور پر مجھے یہ کہنے میں کوئی حَرَج نہیں کہ اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں مدارس کا کردار بہت اہم ہے اور یہی ادارے اردو کی بنیادوں کو مضبوط کررہے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ اردو کی تعلیم میں اِن کی خدمات کو اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے—
قومی اردو کونسل نے مدارس کو اپنی ترجیحی فہرست میں شامل رکھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ ادارے نہ ہوتے تو شاید اردو وسیع تر پیمانے پر فروغ نہیں پاتی۔ انہی اداروں کے ذریعے اردو کی بنیادی تعلیم کا انتظام ہورہا ہے۔ یہی مدارس اور مکاتب پوری دنیا میں اردو کو پھیلانے کا کام کررہے ہیں۔ اسی طرح اردو اَخبارات اور ذرائع اِبلاغ بھی فروغ اردو میں بنیادی کردار ادا کررہے ہیں۔ فلم نے بھی فروغ اردو میں اہم کردار ادا کیا ہے اور وہاں مزید امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی اردو فروغ پارہی ہے اور وہاں اردو کی بنیادی تعلیم پر زیادہ ارتکاز ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو تمام موضوعات اردو کی بنیادی تعلیم اور فروغ سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان تمام موضوعات کے وسیلے سے ہمیں اردو کی بنیادی تعلیم سے جڑے ہوئے مسائل پر غور و خوض کرنا ہے، اگر ہم نے ان مسائل کو حل کرلیا تو یقینی طور پر اردو کے فروغ کی راہ مزید آسان ہوجائے گی۔ اسی مقصد کے پیش نظر قومی اردو کونسل نے ان علاقوں کو بھی اپنا مرکز نگاہ بنایا ہے جہاں اردو آبادی کم ہے لیکن وہاں فروغِ اردو کے امکانات بہت ہیں۔ گوا، منی پور، جزائر انڈمان و نکوبار اور اسی طرح نارتھ ایسٹ کے دوسرے علاقے ہیں جہاں قومی اردو کونسل نے ایک رابطہ مہم شروع کی ہے اور وہاں کے محبانِ اردو سے گُفت و شُنید کا سلسلہ شروع کیا ہے تاکہ ان علاقوں میں بھی بنیادی سطح پر اردو کو فروغ دیا جائے۔ اس کے علاوہ مختلف ریاستوں میں اردو اکادمیوں کے قیام کی کوششیں بھی جاری ہیں، ان سے بھی اردو کو یقینا فروغ ملے گا اور اردو کی بنیادی تعلیم کے نظم و نسق میں بھی مدد ملے گی۔
اس کانفرنس میں اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن پر گفتگو ہوگی او ریقینا یہاں موجود اربابِ علم و دانش کی طرف سے جو تجاویز اور مشورے آئیں گے وہ اردو کے فروغ کے لیے بہت مفید ثابت ہوں گے۔ مجھے امید ہے کہ یہ عالمی اردو کانفرنس ہمیں فروغ اردو کے تعلق سے ایک نئی راہ اور ایک نئی سمت دکھائے گی اور ہم ان شاء اللہ اسی سمت میں آگے بڑھ کر فروغ اردو کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوں گے۔
ہمارے عزائم اور منصوبے تو بہت ہیں اور ہم ہر سطح پر اردو کا فروغ چاہتے ہیں لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب تمام محبانِ اردو کا ہمیں تعاون ملے گا ۔ اگر محبانِ اردو کی محبتیں شامل نہ رہیں تو ہمارے سارے منصوبے ناکام ہوجائیں گے اسی لیے میں اردو کے تمام شیدائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس مشن میں ہمارا ساتھ دیں تاکہ اردو زبان پورے ملک کے عوام کی زبان بن جائے اور ہر طرف اردو کا پرچم لہرائے اور یقینا حکومت بھی اردو کو ہر طرف پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی ہے۔ ہمیں حکومت سے بھی ہر طرح کا تعاون ملا ہوا ہے۔ اگر ہم اس سلسلے میں نہایت سنجیدگی سے قدم بڑھائیں گے تو کامیابی ضرور ہمارے قدم چومے گی۔
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.