میں سب سے پہلے راجستھان اردو اکادمی (جے پور) کے سکریٹری محترم معظم علی خان صاحب کو مبارک باد دینا چاہوں گاکہ ان کی قیادت میں یہ اکادمی ترقی کی نئی منزلیں طے کررہی ہے اور اردو زبان و ادب کی ترویج میں سرگرم اور فعال کردار ادا کررہی ہے۔ معظم علی خاں کی شخصیت بڑی فعال اور متحرک ہے اسی لیے ہندوستان کی دوسری ریاستی اردو اکادمیوں کے مقابلے میں راجستھان اردو اکادمی ہر سطح پر اپنی فعالیت کا بہتر ثبوت دے رہی ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ راجستھان جیسے ریگستان کو انھوں نے اپنی کوششوں سے اردو کے لیے گل و گلزار بنا دیا ہے اور یہاں کے ادیبوں اور شاعروں کو بھی دوسرے علاقوں سے مختلف شکلوں میں متعارف کرانے کی اچھی کوشش کی ہے۔ انہی کی قیادت میں یہاں کا مجلہ ’نخلستان‘ شائع ہوتا ہے جو مجلاتی صحافت میں اہم اور معیاری رسالے کی حیثیت رکھتا ہے۔ راجستھان کی ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے ہمارے لیے واقفیت کا ایک بڑا ذریعہ یہ رسالہ بھی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ معظم علی صاحب مختلف موضوعات پر اعلیٰ پیمانے پر سمینار منعقد کرتے ہیں اور ملک کے مختلف علاقوں سے مشاہیر ادب کو اظہارِ خیال کے لیے مدعو بھی کرتے ہیں، یہ ان کی وسعتِ ظرفی ہے ورنہ عام طور پر اکادمیاں صرف اپنے علاقائی ادیبوں اور شاعروں کو ہی مدعو کرتی ہیں۔اس بار بھی انھوں نے سمینار کا بہت ہی اچھا عنوان رکھا ہے ’جدید شاعری کے معمار شہریار، ندا فاضلی اور محمد علوی‘ اور یقینی طو رپر یہ تینوں ایسی شخصیتیں ہیں جن کے بغیر جدید اردو شاعری کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ جدید عہد کے ان تینوں شاعروں نے اردو شاعری کو نئے زاویوں، نئی جہتوں، نئے آہنگ اور نئے اسالیب سے متعارف کرایا ہے۔ ان تینوں شاعروں میں ایک قدرِ مشترک یہ ہے کہ یہ تینوں ہی ہندوستان کی باوقار اکادمی ساہتیہ اکادمی کے ایوارڈ سے سرفراز ہیں اور تینوں شاعروں کی پہچان صرف اردو زبان میں نہیں بلکہ دوسری زبانوں میں بھی ہے۔جہاں تک شہریارکی بات ہے تو ان کا امتیاز یہ بھی ہے کہ انھیںہندوستان کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ گیان پیٹھ بھی ملا ہے جو ہندوستان کی مختلف زبانوں کے ممتاز شاعروں اور ادیبوں کو ہی دیا جاتا ہے۔ اردو میں اب تک صرف چار ادیبوں کو اس ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ہے جن میں پہلا ایوارڈ فراق گورکھپوری جیسے عظیم شاعر کو ملا تھا، دوسرا قرۃ العین حیدر جیسی جینئس ناول نگار کو، تیسرا علی سردار جعفری جیسے ممتاز ترقی پسند شاعر اور دانش ور کو اور چوتھا ایوارڈ شہریار صاحب کو ملا۔
شہریار، ندا فاضلی اور محمد علوی تینوں اردو شاعری کے روشن اورممتاز دستخط کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان تینوں شاعروں نے اردو شاعری میں نئے تجربے کیے اور اردو شاعری کو اُس حصار سے باہرنکالا جس میں وہ قید تھی۔ شہریار کی بات کی جائے تو وہ ایسے شاعر ہیں جنھوں نے اپنے پہلے ہی مجموعے ’اسم اعظم‘ سے ادبی حلقے کو چونکا دیا تھا اور اس وقت کے اہم ناقدین کو یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اردو شاعری کو ایک نیا طرزِ اظہار اور ایک نئی زبان مل گئی ہے۔ اردو شاعری کی یہ ایک ایسی آواز تھی جس میں پچھلی آوازوں کا عکس نہیں تھا۔پہلے ہی مجموعے سے شہریار کی شناخت ادبی حلقے میں مستحکم ہوتی گئی اور ان کے اشعارنہ صرف تنقیدی حوالوں کا حصہ بنتے گئے بلکہ ذہنوں میں بھی جگہ بناتے رہے۔ ان کے کئی اشعار زبان زدِ خاص و عام ہیں
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے
گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہوسکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اِس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری
یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہوگا
عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو
شہریار کے دوسرے شعری مجموعے ’دوسرا در‘، ’خواب کے دَر بند ہیں‘ وغیرہ بھی بہت مقبول ہوئے اور ان کی شاعری کے ترجمے صرف انگریزی اور ہندی میں نہیں بلکہ فرانسیسی، روسی اور جرمن زبانوں میں بھی کیے گئے۔ شہریار کی شہرت اس وقت اور بھی بلندیوں کو چھونے لگی جب فلم ’امراؤجان‘ کے نغمے فضاؤں میں گونجنے لگے۔ اِس فلم سے بھی ان کو کافی شہرت اور مقبولیت ملی۔ ’امراؤ جان‘ کے سدابہار نغمے آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں
دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجیے
بس ایک بار میرا کہا مان لیجیے
ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں
اک تم ہی نہیں تنہاالفت میں مری رسوا
اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں
یہ کیا جگہ ہے دوستو! یہ کون سا دیار ہے
حدِ نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے
شہریار کی شاعری کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے یہاں خواب اور حقیقت کا تصادم ملتا ہے اور وہ ان موضوعات کو اپنی شاعری میں زیادہ تر شامل کرتے ہیں جن سے ان کی زندگی کا بہت گہرا رشتہ ہوتاہے۔ آل احمد سرور جیسے نقاد نے ان کی شاعری کے بارے میں بہت قیمتی رائے دی ہے کہ ’’شہریار اِس دور کے ممتاز شاعروں میں سے ہیں جو اپنی غزلوں اور نظموں کی خواب آلود فضا اپنے مخصوص لہجے اور اس میں معنی کے نِت نئے پَرتوں سے پہچانے جاتے ہیں۔‘‘شہریار نے لسانی اور موضوعی سطح پر جو تجربے کیے ہیں اس کی وجہ سے انھیں اردو شاعری میں ایک ایسے نام کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے جس کے بغیر اردو شاعری کا باب مکمل نہیں ہوسکتا۔
ندا فاضلی تو ایک ایسا نام ہے جسے صرف اردو دنیا نہیں بلکہ دوسری زبانوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی نہ صرف اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ ان سے بے پناہ محبت اور عقیدت کا جذبہ بھی رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری نے جہاں بہتوں کو متاثر کیا ہے وہیں ان کے فلمی نغموں نے بھی ایک عرصے تک دھوم مچائی ہے۔ ان کی نثر کا جادو بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ایسے ذہین اور خَلّاق فنکار بہت کم ہیں جو ہر حلقے میں محبت اور قدرکی نگاہ سے دیکھے جاتے ہوں۔ ندا فاضلی کی شاعری میں اتنی قوت اور کشش ہے کہ وہ ہر ایک کو اپنا شیدائی بنا لیتی ہے۔ ان کی غزلیں ہوں، نظمیں ہوں، دوہے ہوں سبھی میں تاثیر اور تسخیر کی بے پناہ قوت ہے۔ ان کے بہت سے اشعار زبان زدِ خاص و عام ہیں
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں تو کہیں آسماں نہیں ملتا
اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے
گھر میں بکھری ہوئی چیزوں کو سجایا جائے
دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجیے رشتہ
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے
کچھ لوگ یوں ہی شہر میں ہم سے بھی خفا ہیں
ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی
ندا فاضلی نے جہاں اپنی شاعری کے ذریعے انسانی احساسات کی خوب صورت ترجمانی کی ہے وہیں اپنی خودنوشت ’دیواروں کے بیچ‘ اور ’دیواروں کے باہر‘ کے ذریعے اپنی زندگی کے حوالے سے اپنے عہد کے سماجی، سیاسی اور ثقافتی منظرنامے کو پیش کیا ہے۔ندا فاضلی کی کئی نظموں نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ ان کی نظمیں پڑھ کر ایسا احساس ہوتا ہے کہ ایسی نظمیں ندا فاضلی جیسا حساس اور خلاق ذہن ہی لکھ سکتا تھا۔ ان کی ایک نظم ’والد کی وفات‘ پر مجھے یاد آتی ہے
تمھار ی قبر پر
میںفاتحہ پڑھنے نہیں آیا
مجھے معلوم تھا
تم مر نہیں سکتے
تمھاری موت کی سچی خبر جس نے اُڑائی تھی
وہ جُھوٹا تھا
وہ تم کب تھے
کوئی سُوکھا ہوا پتا ہوا سے ہِل کے ٹُو ٹا تھا
مری آنکھیں
تمھارے منظروں میں قید ہیں اب تک
میں جو بھی دیکھتا ہوں
سوچتا ہوں
وہ… وہی ہے
جو تمھاری نیک نامی اور بد نامی کی دنیا تھی
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
تمھارے ہاتھ
میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں
میں لکھنے کے لیے
جب بھی قلم کاغذ اُٹھاتا ہوں
تمھیں بیٹھا ہوا میںاپنی ہی کرسی میں پاتا ہوں
بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے
وہ تمھاری
لغزشوں،ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے
مری آواز میں چھپ کر
تمھارا ذہن رہتا ہے
مری بیماریوں میں تم
مری لا چاریوں میں تم
تمھاری قبر پر جس نے تمھارا نام لکھا ہے
وہ جُھوٹا ہے
تمھاری قبر میں مَیں دفن ہوں
تم مجھ میں زندہ ہو
کبھی فُرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا
اس کے علاوہ ان کی بہت ساری نظمیں ہیں جن میں آج کے عام آدمی کے جذبات و احساسات کو انھوں نے شعری زبان عطا کی ہے اور عوامی درد و کرب کو پیش کیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ندا فاضلی جیسے حساس تخلیقی ذہن رکھنے والے اردو دنیا میں بہت کم ہیں۔ ان کی شاعری جتنی دلکش ہے ان کی نثر بھی اتنی ہی البیلی ہے۔ نثر اور شاعری کے ذریعے لوگوں کے ذہن میں ندا فاضلی نے جو تاثر قائم کیا ہے وہ کبھی بھی ختم نہیں سکتا۔
محمد علوی کا شمار بھی ان شاعروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اردو کی نظمیہ اور غزلیہ شاعری کو نئی بلندیاں عطا کیں اور اپنی نظموں کے ذریعے اردو نظمیہ شاعری کو نئے زاویوں سے روشناس کرایا۔ ان کی نظموں میں اپنے عہد کا منظرنامہ ہے، اپنے عصر کے مسائل ہیں۔ انھیں ’چوتھا آسمان‘ پر ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا تھا۔ ان کی نظمیں پڑھ کر ’سوغات‘ کے مدیر محمود ایاز جیسے بالغ نظر ناقد نے یہ بات کہی تھی کہ
’’میں نے جب بھی ان کی نظمیں پڑھیں مجھے یہی محسوس ہوا کہ وہ ایک بچے کی طرح شاعری کرتے ہیں۔ ان کا چیزوں کو دیکھنے کا انداز ایسا ہے جیسے ہر چیز پہلی بار دیکھ رہے ہوں یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں مشاہدے کی تازگی اور احساس کی سادگی، ایک تحیر کی کیفیت بھی ملتی ہے۔‘‘
اور حقیقت یہی ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے حیرت کی ایک دنیا آباد کی ہے۔ ہر خیال کو ایک انوکھے انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کے اشعار میں بَلا کی تازگی اور ندرت ملتی ہے اور ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف ایک اسلوب میں قید نہیں ہیں بلکہ کئی اسالیب میں شاعری کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ غیرمشروط ذہن کی شاعری ہے اور اپنے وطن اور کلچر کی پیداوار ہے۔ ان کے چند اشعار سے ان کی شعری قوت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے
ایک پیڑ تھا ہرا بھرا سا
پیڑ کے اندر اک کرسی تھی
ہم اس جگہ ہیں جہاں پہ زمیں نہیں
اچھا ہو گر وہاں نیا آسماں بھی ہو
یہ بازار کہاں تھے پہلے
یہاں تو پہلے ایک گلی تھی
اسی طرح محمد علوی کا بہت مشہور شعر ہے
وقت یہ کیسا آن پڑا ہے
خطرے میں انسان پڑا ہے
محمد علوی یقینا جدید لب و لہجے کے اہم شاعر ہیں جنھوں نے موضوع اور اسلوب کی سطح پر بہت سے نئے تجربے کیے ہیں اور انہی تجربو ںکی بدولت وہ اردو ادب کی تاریخ میں زندہ اور تابندہ رہیں گے۔
میں آخر میں ایک بار پھر معظم علی خان صاحب کو مبارکباد دینا چاہوں گا کہ انھوں نے ان تینوں شاعروں کے حوالے سے ہمارے معاصر شعری منظرنامے کا مکمل احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ سمینار ان تینوں شاعروں کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ پوری معاصر اردو شاعری کے حوالے سے ہے کیونکہ معاصر اردو شاعری میں یہ تین ایسے نام ہیں جنھیں سخت گیر نقاد اور محتسب بھی نظرانداز نہیں کرسکتا۔
٭٭٭
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.