’تحقیق‘ وہ نکتہ ہے جس پر انسان کی ترقیات کا انحصار ہے۔ یہ تحقیق وجستجو ہی ہے جس کے دوش پر سوار ہوکر انسان نے جنگلاتی زندگی سے تہذیبی وتمدنی زندگی تک کا سفر طے کیا اور سہولیات و تعیشات کے اَن گنت سامان اپنے گرد جمع کرلیے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ موجودہ عہدکاانسان اب تحقیق کے میدان میں تھکاوٹ محسوس کرنے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تحقیق میں گراوٹ اور تھکاوت ہر شعبے میں نظرآرہی ہے۔اگر تحقیق کے میدان میںسردمہری یا سست رفتاری کایہ عمل آگے بھی جاری رہا تو نہ صرف یہ کہ آنے والی چند دہائیوںمیں ہماری ترقی کی رفتار دھیمی پڑجائے گی بلکہ کئی صدیوں کی کھوج کے نتیجے میں وجودمیں آنے والی بہت سی چیزوں کی معنویت کو بھی ہم کھودیں گے۔اس لیے جتنی جلدی ہوسکے، تحقیقی سطح پر انحطاط کے سلسلے کو توڑ کر معیاری تحقیق کی طرف قدم بڑھائے جائیں۔
زبانوں اورآرٹ کے دیگرشعبوںمیں تحقیق کی صورت حال کا اندازہ اس بات سے کیاجاسکتاہے کہ تحقیق یا تو دانش گاہوںکے اندر ہورہی ہے یا دانش گاہوں سے باہر۔دانش گاہوںسے باہرجولوگ تحقیق کررہے ہیں ان میں سے بعض سرکاری یانجی اداروںسے وابستہ ہیں اوربعض آزادانہ حیثیت سے اپنے طورپر تحقیقی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ظاہرہے کہ ا یسے محققین کو وسائل کی کمی کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔ پھر ان کے اپنے مسائل بھی ہوتے ہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ وہ جلد سے جلداپنے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیںتاکہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ موضوعات پر تحقیقی کام کرسکیں۔ ظاہر ہے کہ جلد بازی اور سہولت پسندی کے سبب تحقیق اورتصنیف کے تمام تقاضوں کو بروئے کار لانا مشکل امر ہے۔اسی لیے کتنے مصنّفین ومحققین ایسے ہیں جو درجنوں کتابوںکے مصنف ہونے کے باوجود تحقیق وادب میں اپنا مقام بنانے سے قاصر رہے اور ان کی دوچار کتابیں بھی مشہور نہیں ہوپائیں۔جب کہ بعض محققین ومصنفین معدودے چند کتابوں سے ہی اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے اور ان کی تحقیقات وتصنیفات کو بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل ہوئی۔
دانش گاہوں میں تحقیق کے معیار میں گراوٹ کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سب سے بنیادی وجہ ریسرچ کے لیے طلبا کا انتخاب ہے۔ عام طورپر دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے ایسے طلبا ریسرچ کے لیے منتخب ہوجاتے ہیں جوتحقیق وتصنیف کا مزاج ہی نہیں رکھتے، ان کا مقصد صرف ڈگری کا حصول ہوتا ہے۔چنانچہ ریسرچ کے لیے منتخب ہونے کے بعد وہ صرف ڈگری کے حصول کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ دوسوڈھائی سوصفحات کا مقالہ لکھنے پر ان کی توجہ ہوتی ہے تاکہ اسے جمع کرنے کے بعد وہ پی ایچ ڈی ہولڈر بن جائیں۔ وہ مقالہ کتنا معیاری ہے ، تحقیق وتنقید کی کسوٹی پر کھرا اتر رہا ہے یا نہیں، انھیں اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔اس لیے دانش گاہوںمیں ریسرچ کے لیے ان امیدواروںکا انتخاب کیاجائے جو بنیادی اہلیت کے علاوہ تحقیق کا مزاج بھی رکھتے ہوں۔تحقیق کے معیار کو بلند کرنے کے لیے یہ بات بھی اہم ہے کہ تحقیق کے لیے نئے موضوعات کاہی انتخاب کیاجائے، جن موضوعات پر کام ہوچکا ہے، انھیں دووبارہ تحقیق کے لیے منظور نہ کیاجائے۔نگراں حضرات پوری طرح سے نگرانی کا فریضہ انجام دیں، اورجہاں ضرورت ہویوجی سی کی گائیڈ لائن کے مطابق ریسرچ اسکالرس کی رہنمائی کریں۔ مقالہ جمع کرنے سے پہلے یعنی پری سبمیشن (Pre-Submission) میں مقالے کی تمام کمیوںکی نشاندہی کرکے ریسرچ اسکالر کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ ہر حال میں ان کمیوں کو دور کریں۔ مقالے کے جمع ہونے کے بعد اس کی جانچ پڑتال میں ایمانداری برتنی چاہیے۔ اگر ریسرچ اسکالر زاور اساتذہ یوجی سی کی گائیڈ لائن پرکماحقہ عمل کریں تودانش گاہوںمیںریسرچ کا معیار بلند ہوسکتا ہے۔
موجودہ عہدمیں تحقیقی رسائل کابھی وہ معیار نہیں رہا ہے جو پہلے کبھی ہوا کرتا تھا۔یا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نوعیت کے رسائل اب معیار پر زیادہ توجہ نہیں دیتے یا پھر ان رسائل میں لکھنے والے قلمکار حضرات معیار کی پاسداری نہیں کرتے۔ ایسی صورت میں دونوں ہی کو توجہ دینے کی ضرورت ہے مدیران کو بھی اور قلمکاروں کو بھی۔ قومی اردوکونسل سے نکلنے والے سہ ماہی رسالہ ’ فکروتحقیق‘ میں معیار پر توجہ دی جاتی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ان مضامین کو ہی شائع کیاجائے جو تحقیقی معیار پر پورے اترتے ہوں اور وہ نئے موضوعات یا نئے پہلوئوں پرلکھے گئے ہوں۔ پیش نظر رسالے میں بھی تحقیقی نوعیت کے کئی مضامین شامل اشاعت ہیں۔
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.