July 14, 2023

جنوری تا مارچ 2022

اردو میں علمی اور تحقیقی رسائل و مجلات کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے۔ ان کے قارئین کی تعداد بھی بہت کم ہے۔آج کے دور میں فلمی، مذہبی رسائل یا رومانی ڈائجسٹ زیادہ مقبول ہیں مگر خالص تحقیقی رسائل کا دائرہ بہت محدود ہے۔ زیادہ تر جامعات کے طلبا اور اساتذہ ہی ایسے رسائل کے قاری ہوتے ہیں اور یہ رسائل بھی تواتر کے ساتھ شائع نہیں ہوپاتے۔ صرف چند ہی رسائل ہیں جو استمرار اشاعت کی وجہ سے آج بھی جانے جاتے ہیں۔ سہ ماہی ’فکر و تحقیق‘ بھی انہی رسائل میں سے ایک ہے جس کا اجرا جنوری 1989 کے ایک شش ماہی ادبی و تحقیقی رسالے کے طور پر ہوا تھا۔ بیچ میں یہ رسالہ بھی تعطل کا شکار ہوا مگر بعد میں اس کی تجدید اشاعت ہوئی تو یہ مجلہ بلا تعطل شائع ہورہا ہے اور اس کے کئی خصوصی شمارے علمی اور ادبی حلقوں میں مقبول بھی ہوئے۔ اس رسالے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں طبی، سائنسی اور معلوماتی مضامین ترجیحی طور پر شائع کیے جاتے تھے۔
رسالہ ’فکر و تحقیق ‘کی موضوعاتی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو اس میں جملہ اصناف ادب کے متعلق مضامین کی اشاعت ہوتی رہی ہے۔ ناول ، افسانہ، مثنوی، غزل، نظم، مرثیہ، قصیدہ، رباعی ، سفرنامہ، نعت کے علاوہ لسانیات، شخصیات، علاقائی ادبیات، تذکرے، لغات اور دیگر نوعیت کے تحقیقی اور تنقیدی مضامین اس رسالے میں شائع کیے جاتے رہے ہیں۔ اس سے اس کے موضوعاتی تنوع کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ رسالہ علمی اور ادبی حلقوں میں مقبول بھی ہے اور یقینی طور پر تحقیقی مجلات میں اس رسالے نے اپنی ایک الگ پہچان بھی قائم کی ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ 1989 کو جاری ہونے والایہ رسالہ اب 2023 میں داخل ہورہا ہے اور اپنے سابقہ معیار و وقار کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
تازہ شمارے میں بھی کئی اہم تحقیقی مقالے شامل ہیں جن سے یقینی طور پر نئے دریچے بھی وا ہوں گے، نئی جہتیں بھی روشن ہوں گی۔ ’امیرخسرو کی تاریخی تصانیف‘ میں قران السعدین، مفتاح الفتوح، دول رانی خضر خاں، مثنوی نہ سپہر، تغلق نامہ جیسی مثنویو ںکے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے کیونکہ یہ وہ مثنویاں ہیں جن کی تاریخی معنویت اور اہمیت ہمیشہ برقرار رہے گی۔ یہ مثنویاں ہندوستانی تہذیب و معاشرت اور عہد وسطیٰ کی تاریخ سے واقفیت کا ایک معتبر ذریعہ بھی ہیں۔ پروفیسر صادق نے بہت عرق ریزی سے یہ مقالہ تحریر کیا ہے۔ سلیم شہزاد کا مقالہ’خطوطِ غالب کا اسلوبی مطالعہ‘ بھی اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں غالب کی نثر کے متعدد اسالیب سامنے آتے ہیں۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ غالب کا انداز بیاں نہ صرف شاعری میں سب سے الگ تھا بلکہ خطوط میں بھی ان کا رنگ جداگانہ تھا۔ محمد الیاس الاعظمی کا مضمون ’مسافرانِ شبلی منزل (عہد شبلی و سلیمان)‘ بھی ایک نئے زاویے کا مضمون ہے جس میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ شبلی منزل، جدوجہد آزادی کا ایک مرکز تھی اور مختلف شعبہ حیات کی مقتدر شخصیات کا اس سے جذباتی لگاؤ بھی رہا ہے۔ ایک مخصوص عہد کی تاریخ کو جاننے کے لیے یہ مضمون بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ’ظریفانہ صحافت اور پنچ اخبارات‘ اس طور پر اہمیت اور معنویت کا حامل ہے کہ 2022 میں اردو صحافت کا دو سو سالہ جشن مختلف شہروں اور علاقوں میں منایا گیا۔ ظریفانہ صحافت بھی ایک اہم پہلو ہے جس پر گفتگو کی بڑی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر محمد ذاکر حسین نے ظریفانہ اخبارات کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے، خاص طور پر پنچ نام سے نکلنے والے اخبارات پر انھوں نے گفتگو کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اردو صحافت کو ایک ’انوکھا اندازبیاں‘ دینے میں ان اخبارات کا بہت اہم کردار رہا ہے۔’مسعود سعد سلمان‘ ایک اہم شاعر ہیں، فارسی شاعری میں ان کا ایک اہم مقام ہے۔ مغیث احمد نے ’شاعر زنداں مسعود سعد سلمان‘ کے تعلق سے بہت سے اہم زاویوں کا احاطہ کیا ہے، یہ مضمون اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں انھوں نے ایک ایسے شاعر کے حوالے سے لکھا ہے جس کی زندگی کا بہت سارا لمحہ زنداں کی نذر ہوگیا۔ ہمارے یہاں زندانی ادب کی ایک مضبوط روایت رہی ہے، اس مضمون کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طو رپر پڑھا جاسکتا ہے۔ شیخ احرار احمد نے ’صنف اندر صنف، آزاد غزل سے غزالہ تک‘ کے عنوان سے صنف غزل میں ہونے والے بہت سے نئے تجربوں سے روشناس کرانے کی کوشش کی ہے جن میں آزاد غزل، غزل نما، معریٰ غزل، نثری غزل، غزالہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔’ سفرنامہ برنیئر اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت‘ میں ڈاکٹر سعید احمد نے فرانسیسی سیاح برنیئر کے سفرنامے کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ اس سفرنامے کو ہندوستان کی تہذیب و معاشرت کا مکمل عکاس تو نہیں کہا جاسکتا کیونکہ انھوں نے بہت سے ایسے واقعات بیان کیے ہیں جن کا شاید حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو تاہم ایک دوسرے ملک کے سیاح کے ردعمل سے واقفیت ضرور ہوتی ہے۔
یہ تمام مضامین یقینی طور پر ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ سہ ماہی ’فکر و تحقیق‘ اسی بیش قیمت تحقیقی اور علمی مقالات سے مزین ہے۔ قارئین کو ان مقالات سے یقینی طور پر نئی روشنی ملے گی اور ان کے اندر بھی ان موضوعات سے متعلق کچھ نئے پہلوؤں کو مزید تلاش کرنے کاجذبہ پیدا ہوگا۔

Prof. Shaikh Aquil Ahmad

author_name

author_bio

I am a heading

If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.

  • This is a list item.
  • This is a list item.
  • This is a list item.

No spam, ever.