قارئینِ اردو دنیا کو یوم جمہوریہ اور نیا سال مبارک!
کلینڈر بدلتا ہے اور ہم نئے سال میں نئے عزائم، نئے جوش ، نئی امیدوں اور نئے خوابوں کے ساتھ داخل ہوتے ہیں اور ہمارے سامنے مستقبل کا ایک لائحہ عمل ہوتا ہے۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ نئے سال میں ماضی کے ادھورے کام نہ صرف پورے کریں بلکہ نئے امکانات اور نئے عنوانات تلاش کرکے اس میں حقیقت کا رنگ بھی بھریں۔ جو نئی تبدیلیاں اور نئے تغیرات ہیں اور جس طرح کے چیلنجز ہیں اس کا مقابلہ کریں ۔ ہمارا اگلا پاؤں نئے پانی میں ہو تو اس پانی کی نئی لہروں سے نئی عبارتیں تحریر کریں لیکن ہوتا یہ ہے کہ سال کے آخر تک پہنچتے پہنچتے جب ہم محاسبہ کرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ جس جوش کے ساتھ نئے سال کا سفر شروع کیا تھا اس سفر میں محرومیوں اور اداسیوں کے سوا کچھ بھی نہیں ملا۔ دراصل وقت یوں ہی گزر جاتا ہے اور ہم لایعنی مسائل اور مباحث ہی میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ زندگی اور معاشرے کے جو بنیادی مسائل ہیں ان کی طرف ہماری مکمل توجہ نہیں ہوپاتی۔ ہم کوئی نیا مکالمہ نہیں کرپاتے، سماج سے کوئی نیا سمواد نہیں ہوپاتا۔ ہمارے پاس مسائل اور مباحث کی جو پرانی فہرست ہوتی ہے اسی فہرست پر ہم نشانات لگاتے جاتے ہیں۔ ادب اور ثقافت کی نہ نئی فہرست مرتب کی جاتی ہے اور نہ ہی اس تعلق سے کوئی غور و خوض ہوتا ہے۔ زبان کے تعلق سے بھی سردمہری سی چھائی رہتی ہے۔ہم وہ علاقے دریافت ہی نہیں کرتے جہاں امکانات کی ایک وسیع تر دنیا ہے، جن علاقوں کو تلاش کرکے ہم اپنی زبان کی جڑیں زیادہ سے زیادہ مضبوط کرسکتے ہیں، اردو زبان کے نئے قاری پیدا کرسکتے ہیں، اردو زبان کا عالمی زبانوں سے ایک مضبوط رشتہ قائم کرسکتے ہیں، علاقائی زبانوں میں ہم اپنا ادب اور اپنی زبان کے شاہکار پیش کرکے اپنا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرسکتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم ایک خاص دائرے میں قید ہوکر رہ گئے ہیں۔ ایک ذہنی حصار ہے جس سے باہر نکلنا ہمیں منظور نہیں جبکہ اردو زبان و ادب کے تعلق سے حالات میں بہت حد تک تبدیلی آئی ہے کہ زبانوں کی دیواریں ٹوٹ رہی ہیں، فاصلے کم ہورہے ہیں۔ ایک بڑا طبقہ اردو رسم الخط سے ناواقف ہوتے ہوئے بھی اس سے جڑ رہا ہے اور اردو زبان کی شاعری سے نہ صرف عشق کررہا ہے بلکہ شعر و شاعری کی وجہ سے اردو زبان سے بھی اپنا تعلق قائم کررہا ہے۔ یہ اردو کے لیے بہت خوش آئند بات ہے کہ اب نئی نسل اردو زبان کے جادو کو سمجھ رہی ہے، محسوس کررہی ہے کہ اردوصرف زبان نہیں ایک تہذیب ہے اور یہ ہندوستان کی مٹی کی شناخت ہے۔ اس زبان میں بڑی جاذبیت اور چاشنی ہے۔ اب وہ پرانا تصور رفتہ رفتہ ختم ہوتا جارہا ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ وقت اور حالات نے اب اس تصور کو مسترد کردیا ہے ۔ہندوستان کے نوجوانوں کی اکثریت اردو کے کلاسیکی شاعروں میر و غالب کو نہ صرف ہندی رسم الخط میں تلاش کرکے پڑھ رہی ہے بلکہ عصر حاضر کے بہت سے معروف و مقبول شعرا کے کلام کو بھی تلاش کررہی ہے ۔یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اردو زبان و ادب میں بڑی طاقت اور تاثیر ہے اور یہ انسانی جذبات اور ذہن کو اپیل کرنے کی پوری قوت رکھتی ہے۔
نئے سال میں ہمیں فروغ اردو کے نئے امکانات پر غور کرنا ہے، نئے دریچے کھولنے ہیں، نئے علاقوں کی تلاش کرنی ہے اور نئی نسل کو اس زبان سے جوڑنا ہے۔ اسی عزم کے ساتھ اگر ہم نے نئے سال میں سنجیدگی کے ساتھ اردو زبان کی ترقی کے لیے کام کیا تو یقینا ہمیں کامیابی ملے گی کیونکہ اب راستے میں اتنی دشواریاں نہیں ہیں جتنی ہم سمجھا کرتے تھے۔ بہت سے موانع اور مشکلات دور ہوچکے ہیں اور اردو زبان کے تعلق سے بہت حد تک اس نسل کا ذہن بھی صاف ہوچکا ہے جو براہِ راست اردو زبان سے جڑی ہوئی نہیں ہے اس لیے ہمارے لیے بہترہوگا کہ اس نسل کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑیں اور اردو کا جو پیغامِ محبت، امن و اتحادِ یکجہتی ہے اسے دور دور تک پہنچائیں اور اردو میں حب الوطنی، سیکولرازم و یکجہتی کا جو بیش قیمت سرمایہ ہے اس کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کریں اور یہ بتائیں کہ اردو ایک جمہوریت پسند سیکولر زبان ہے اور اس نے پورے ہندوستان کو جوڑنے کا ایک بہتر کام کیا ہے اور یہ بھی کہ ہندوستانی سماج کی تعمیر و تشکیل میں اس زبان کا ناقابل فراموش کردار رہا ہے۔
I am a heading
If you’re curious, this is Website Ipsum. It was specifically developed for the use on development websites. Other than being less confusing than other Ipsum’s, Website Ipsum is also formatted in patterns more similar to how real copy is formatted on the web today.
- This is a list item.
- This is a list item.
- This is a list item.
No spam, ever.